0
Monday 13 Mar 2017 17:13
جو حق کے راستے پر ہے، وہ کامیاب ہے

جب تک سانس چل رہی ہے پاکستان اور پاکستانی عوام کی حفاظت کرتا رہونگا، عنایت اللہ ٹائیگر

اپنے گھر کے تعاون سے ہی میرا اتنا بڑا دل ہے
جب تک سانس چل رہی ہے پاکستان اور پاکستانی عوام کی حفاظت کرتا رہونگا، عنایت اللہ ٹائیگر
عنایت اللہ ٹائیگر کا تعلق خیبر پختونخوا کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے، وہ 1978ء میں پیدا ہوئے، انکا تعلق ایک سادہ گھرانے سے ہے۔ انہوں نے ایف اے تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1998ء میں پولیس میں بھرتی کیلئے اپلائی کیا اور سلیکٹ ہوگئے، 2000ء میں باقاعدہ طور پر انہوں نے بم ڈسپوزل سکواڈ میں کورس کیا اور کورس مکمل کرنے کے دوران ہی بنا کسی ٹیکنیکل اوزاروں کے دو دیسی ساختہ بم ناکارہ کئے۔ یہ جوان بہادری میں اپنی مثال آپ ہے، انکی شجاعت کی بنا پر پولیس فورس کیجانب سے انہیں ٹائیگر کا خطاب دیا گیا۔ انہوں نے 2650 بم ناکارہ بنانے کے علاوہ 4500 کلو بارود ناکارہ کیا ہے۔ 20 جنوری 2014ء کو عنایت اللہ ٹائیگر کی ایک ٹانگ اور دو انگلیاں مائنز کے دھماکے میں کٹ گئیں، انکا دایاں ہاتھ ایک ایکسیڈنٹ میں بری طرح متاثر ہوا، لیکن وہ پھر بھی اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔ 23 مارچ 2015ء کو صدر مملکت ممنون حسین کیجانب سے انہیں تمغہ شجاعت بھی مل چکا ہے۔ اس فیلڈ میں انکے تجربات کے بارے میں اسلام ٹائمز کے نمائندے نے ان سے خصوصی گفتگو کی، جو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: آپ نے اس فیلڈ کا انتخاب کس طرح سے کیا۔؟
عنایت اللہ ٹائیگر:
پڑھائی کے بعد مجھے نوکری کی ضرورت تھی تو میں نے پولیس کی نوکری کیلئے اپلائی کیا، باقاعدہ طور پر پولیس میں جانے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ 1998ء میں پولیس میں بھرتی ہوگیا، اس کے بعد 2000ء میں بم ڈسپوزل اسکواڈ کا کورس کیا، 2000ء کے دوران جب ہم کورس ختم کرنے کے قریب تھے اور ڈی آئی خان چھٹیاں گزارنے کیلئے واپس آرہے تھے، تو حیات آباد پشاور میں، پل کے قریب ایک عورت جو کہ صبح سویرے واک پر نکلی ہوئی تھی، ہمارے پاس بھاگتی ہوئی آئی اور کہا کہ کوئی بندہ مشکوک طریقے سے پل کے نیچے بیگ رکھ رہا ہے۔ ہم اس وقت سول کپڑوں میں تھے، یہ سنتے ہی ہم بھاگ کر فوراََ اس طرف گئے، جب ہم جائے وقوعہ پر پہنچے تو اس وقت وہ بندہ وہاں سے فرار ہوچکا تھا، چونکہ ہم اس فیلڈ میں نئے تھے اور آن ڈیوٹی بھی نہیں تھے، لیکن پاکستانی شہری ہونے کے ناتے اپنا فرض سمجھتے ہوئے ہم نے اس جگہ کو گھیرے میں لے کر بیگ کو کھولا تو اس میں بم موجود تھا۔ ہم نے اللہ کا نام لے کر اس آئی ڈی ای (دیسی ساختہ بم) کو بِنا کسی ٹیکنیکل اوزار کے ناکارہ بنا دیا، یہ ہمارا بم ناکارہ بنانے کا پہلا تجربہ تھا۔

اس کے بعد جب یکم جنوری 2001ء میں ڈی آئی خان چھٹیاں گزارنے آئے ہوئے تھے، اتنے میں کال موصول ہوئی کہ لغاری گیٹ کے قریب کوئی مشکوک چیز پڑی ہوئی ہے۔ اس وقت ڈیرہ اسماعیل خان کی پولیس میں بم ڈسپوزل کی کوئی ٹیم موجود نہیں تھی۔ بم کو ناکارہ بنانے کیلئے پشاور کال کی گئی کہ ٹیم روانہ کریں، اس وقت کوہاٹ ٹنل نہیں تھی تو سکواڈ کو آنے میں کافی وقت لگ رہا تھا۔ ہم اس وقت پولیس لائن میں موجود تھے، ہم نے آفیسر سے کہا کہ ہم نے ٹریننگ کی ہوئی ہے اور ایک بم پہلے بھی ناکارہ بنا چکے ہیں، لہذٰا ہمیں اجازت دی جائے، اتنے میں ایس پی سے بات کی گئی تو انہوں نے جانے کی اجازت دے دی، اجازت ملتے ہی ہم پولیس لائن سے بنا کسی ہتھیار و اوزار کے پیدل بھاگ پڑے، جب ہم مطلوبہ جگہ پر پہنچے تو پولیس نے وہاں رکاوٹیں کھڑی کی ہوئی تھی، اس وقت ہم پر ایک جوش و خروش کی کیفیت طاری تھی، موقع پر موجود پولیس سے ہم نے کہا کہ ہم بم ڈسپوزل اسکواڈ سے تعلق رکھتے ہیں، ہمیں اندر جانے دیں، بم ناکارہ بنانا ہے۔ انہوں نے ہنس کر کہا کہ آپ ناکارہ نہ کریں بلکہ اس کے اردگرد کے مقام کو محفوظ بنا لیں، ہم بوریوں سے اس مقام کو محفوظ کر ہی رہے تھے کہ اتنے میں ایس پی عارف نواز آگئے تو ہم نے دوبارہ ان سے کہا کہ ہمیں اجازت دیں، اجازت لے کر ہم نے بنا کسی ٹیکنیکل اوزار کے بم کو ناکارہ بنا دیا اور یہ ڈی آئی خان میں پہلا آئی ای ڈی بم تھا، جو ہم نے ناکارہ بنایا۔ ان واقعات کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ ڈی آئی خان کے اندر بی ڈی ایس کی انتہائی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: اب تک آپ کتنے بم ناکارہ بنا چکے ہیں۔؟
عنایت اللہ ٹائیگر:
اس وقت تک تقریباََ 300 کے قریب دیسی ساختہ بم ناکارہ بنا چکا ہوں اور تقریباََ 350 تک اینٹی پرسنل مائینز ناکارہ بنا چکا ہوں، اس کے علاوہ 2000 تک او آئی ڈی (راکٹ گولے، ہینڈ گرینیڈ وغیرہ) ناکارہ کر چکا ہوں، ساتھ ہی 4500 کلو بارود بھی تباہ کیا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ کافی بم ناکارہ بنا چکے ہیں، آپ کیلئے سب سے مشکل بم کونسا تھا،؟
عنایت اللہ ٹائیگر:
میرے لئے مشکل ہر ایک آئی ڈی ای ہوتی ہے، کیونکہ آئی ڈی ای جب کوئی تیار کرتا ہے تو وہ اسکو اپنی سوچ سے تیار کرتا ہے، کیونکہ یہ کسی کمپنی کا بنا نہیں ہوتا، آئی ڈی ای کسی بھی صورت میں ہوسکتا ہے، آپ کو بظاہر اینٹی ٹائم مائین نظر آرہا ہوگا لیکن اندر سے وہ ریمورٹ کنٹرول بم بھی ہوسکتا ہے، یا اُس نے سنسر لگا دیا ہو، جو کہ آپ کے ہاتھ لگانے سے بھی پھٹ سکتا ہے، اس لئے آئی ڈی ای کو ناکارہ بنانا واقعی ایک مشکل کام ہے۔ اس کے علاوہ صرف ائی ڈی ای ہی نہیں ہر ایک موصول ہونے والی کال مشکل ہوتی ہے۔ ان 19 سالوں میں 10 ہزار سے زائد کالز رسیو کر چکا ہوں، ہر ایک کال پر ڈر ہوتا ہے کہ کہیں میرے پہنچنے سے پہلے یہ بم پھٹ نہ جائے، مطلوبہ مقام پر پہنچنے کی تیاری کرنی ہوتی ہے اور یہ کہ کہیں کوئی سامان رہ نہ جائے۔ مجھے معلوم نہیں ہوتا کہ میں جا رہا ہوں تو زندہ بھی واپس آونگا یا نہیں، جب میں اُس مقام پر پہنچ جاتا ہوں، تب سکون ملتا ہے اور جو ڈر دل میں ہوتا ہے، وہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ بم پھٹنے کی جو آواز آتی ہے، وہ اچھے اچھے بندوں کو ڈرا کر رکھ دیتی ہے، میں نے کئی بم تباہ کئے، زخمی بھی ہوا، لیکن پھر بھی خدا کا شکر ہے کہ ثابت قدم ہوں۔

اسلام ٹائمز: آپکا کام بہت ہی خطرناک ہے، کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے، آپکے گھر والوں نے آپکو اس کام سے کبھی نہیں روکا کہ یہ سب کچھ چھوڑ دیں۔؟
عنایت اللہ ٹائیگر:
میری بیوی ہے، دو چھوٹے سے بیٹے بھی ہیں اور میری والدہ بھی حیات ہیں، جو ایک بالکل غیر تعلیم یافتہ اور سادہ سی گھریلو خاتون ہیں، جن کی زندگی ایک گھر کی چاردیواری میں گزری ہے، لیکن ان کی سوچ کو میں سلام کرتا ہوں، وہ مجھے کہتی ہیں کہ مجھ میں اتنی ہمت و حوصلہ ہے کہ آپکی لاش کو سنبھال سکتی ہوں۔ عام طور پر بھی جب ایک بندہ گھر سے باہر رزق کمانے کیلئے نکلتا ہے، اگر ماں کی دعا نہ ہو تو وہ کامیاب نہیں ہوسکتا اور میں تو ہر روز موت سے کھیلتا ہوں اور ابھی تک میں زندہ ہوں تو یہ ماں کی دعاوں کا اثر ہے۔ میری بیوی بھی میرا بہت ساتھ دیتی ہے، جب میں کسی فیلڈ میں کام کر رہا ہوں تو وہ مجھے ڈسٹرب نہیں کرتی بلکہ میری واپسی یا فون کال کا انتظار کر رہی ہوتی ہے، چاہے مجھے 1 گھنٹہ یا کئی گھنٹے ہی کیوں نہ لگ جائیں۔ اپنے گھر کے تعاون سے ہی میرا اتنا بڑا دل ہے۔

اسلام ٹائمز: آپکی ٹانگ مائنز کو ناکارہ بناتے ہوئے کٹ گئی تھی، یہ واقعہ کس طرح سے رونما ہوا۔؟
عنایت اللہ ٹائیگر:
یوں سمجھ لیں کہ میری بے احتیاطی کی وجہ سے یہ واقعہ رونما ہوا، 20 جنوری 2014ء کو تھانہ کلاچی کی حدود لونڑی کے علاقے میں مائنز کی کال موصول ہوئی، جب میں وہاں پہنتچا تو ان مائنز سے تین دھماکے پہلے ہوچکے تھے اور کئی چرواہے بھی زخمی ہوئے، اس کے علاوہ اور بھی مائنز کافی تعداد میں بچھی ہوئی تھیں۔ مائنز فیلڈ میں ہوتا ہوں تو مجھ پہ دباو بہت زیادہ ہوتا ہے، مائنز کو ناکارہ کرنا جتنا آسان ہے، اتنا ہی خطرناک بھی ہے۔ میں اس وقت مائنز ناکارہ بنانے میں لگا ہوا تھا، 5 سے 6 کے قریب ناکارہ بنا چکا تھا، جبکہ آخری مائن رہ گئی تھی۔ میری عادت ہے کہ میں اپنا کیمرہ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا ہوں، جہاں بھی کام کر رہا ہوں، میں اس کی ویڈیو ریکارڈنگ ضرور کرتا ہوں، میرے کیمرے کی میموری ختم ہو رہی تھی، ڈرائیور نے آواز دی کے سر میموری کارڈ میں اسپیس ختم ہونے والی ہے، میں وہاں سے اُٹھا کیمرہ بند کیا، شام ہونے والی تھی، علاقہ بھی خطرناک تھا، ذرا جلدی تھی مجھے کہ کام ختم کرکے گھر جاوں، جب واپس اس مائن کی جانب بڑھا تو جو علاقہ کلیئر کر چکا تھا اس سے تھوڑا ہٹ گیا، جونہی میں اس بم کے قریب بیٹھا تو ایک مائن جو کہ گہرائی کی وجہ سے میری نظر میں نہیں آئی، اس پر پاؤں آگیا اور ایک دم سے دھماکہ ہوا، میں اپنی سوچ میں تھا کہ میرا علاقہ سیکور ہے اور یہ آخری مائن ہے۔ اتنے میں وہاں موجود سکیورٹی اہلکار نے آواز دی کہ عنایت ختم ہوگیا ہے، میں نے فوراََ آواز دی کہ میں ٹھیک ہوں، مجھے اس وقت دھول مٹی کی وجہ سے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میری ٹانگ میرے ساتھ ہے یا نہیں۔ تھوڑی دیر میں دیکھا تو ٹانگ کی ہڈی کٹ کے دور پڑی ہوئی تھی، انگوٹھا اور ساتھ 2 انگلیاں کٹی ہوئی تھی۔

اسلام ٹائمز: آپکی ٹانگ کٹ گئی، بائیں ہاتھ کی انگلیاں بھی کٹی ہوئی ہیں، اسکے علاوہ ایکسیڈنٹ میں آپکا دایاں ہاتھ بھی ٹھیک طرح سے کام نہیں کرتا، آپ ابھی تک اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں، کیا کام کرنے میں کوئی مسئلہ درپیش نہیں آتا؟ آپکا حوصلہ پست نہیں ہوا؟ کیا کبھی خیال آیا کہ فیلڈ چھوڑ دوں اور جونیئرز سے کام لوں۔؟
عنایت اللہ ٹائیگر:
20 جنوری 2014ء کو یہ واقعہ میرے ساتھ پیش آیا اور اُسی سال جون میں پھر سے اسی جگہ فیلڈ میں کام کر رہا تھا۔ اُس وقت سے لے کر ابھی تک 6 آئی ڈی ای 57 کلو کا سوٹ پہن کر ناکارہ بنا چکا ہوں۔ اس کے علاوہ کالز بھی کافی ریسیو کر چکا ہوں کہ فلاں جگہ مشکوک گاڑی کھڑی ہوئی ہے یا کوئی موٹر سائیکل کھڑی ہے، کئی بیگ وغیرہ کو بھی کلیئر کر چکا ہوں، میری جو کٹی ہوئی ٹانگ ہے، کٹنے سے پہلے اس میں کلاچی کے ایک آپریشن کے دوران گولی بھی لگ چکی تھی۔ ہم میں پاکستان کی حفاظت کا حوصلہ ہے، جو کبھی ختم نہیں ہوگا، جب تک سانس چل رہی ہے، پاکستان اور پاکستانی عوام کی حفاظت کرتا رہوں گا۔ میرا ڈرائیور شروع سے ایک ہی ہے، اس کی بھی کئی جگہوں سے ہڈیاں ٹوٹی ہوئی ہیں اور وہ پھر بھی ڈیوٹی انجام دے رہا ہے، مجھے اس سے ہمت ملتی ہے اور اس کو مجھ سے۔ اکثر اپنے جونیئرز سے یہی کہتا ہوں کہ جب تک میں زندہ ہوں، تم میں سے کوئی بھی بم کے قریب نہ آئے۔ اس کے علاوہ 2015ء میں امریکہ کے اندر اپنی فٹنس کو ٹیسٹ کرنے کیلئے دوبارہ ٹریننگ کر چکا ہوں، جس میں پہلے سے زیادہ اچھے مارکس لئے ہیں۔ 23 مارچ 2015ء کو صدر ممنون حسین نے تمغہ شجاعت سے بھی نوازا۔

اسلام ٹائمز: آپ پاکستان دشمن عناصر کیلئے سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، کبھی آپکو دھمکانے کی کوشش کی گئی۔؟
عنایت اللہ ٹائیگر:
اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشتگردوں کیلئے بی ڈی ایس والے ایک بہت بڑی رکاوٹ ہیں، لیکن ابھی تک مجھے کسی قسم کی کوئی دھمکی موصول نہیں ہوئی، کیونکہ وہ جانتے ہیں، جو بندہ پاکستان کی حفاظت کرنے کیلئے بم ناکارہ بنا سکتا ہے، جو کہ سراسر موت سے کھیلنا ہے تو ہمارا دھمکی دینا اس کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ لوگوں نے اکثر فلموں میں دیکھا ہوگا کہ دہشتگردوں سے آمنے سامنے لڑائی شروع ہے اور بم ناکارہ بنائے جا رہے ہیں، لیکن ہم پولیس کے جوان حقیقت میں اس چیز کو فیس کرتے ہیں اور یہ لمحات جتنے خطرناک ہوتے ہیں، اتنے ہی یادگار بھی۔

اسلام ٹائمز: اسوقت خیبر پختونخوا میں کچھ خواتین نے بھی بی ڈی ایس کی ٹریننگ مکمل کی ہے، آپکے خیال میں وہ پاکستان دشمن عناصر کے ارادوں کیخلاف ثابت قدم رہ سکیں گی۔؟
عنایت اللہ ٹائیگر:
آپ نے سنا ہوگا کہ عورتیں بھی خودکش حملے کرتی ہیں، اگر وہ کامیاب ہو سکتی ہیں تو ہماری خواتین بھی کامیاب ہوسکتی ہیں، کیونکہ جو حق کے راستے پر ہے، وہ کامیاب ہے۔ خیبر پختونخوا کی عورتوں نے دشمن کو للکارا ہے کہ ہم بھی آپ کیلئے ایک رکاوٹ ہیں، بلکہ یوں سمجھ لیں کہ دشمن عناصر کے منہ پر طمانچہ ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ خواتین کو ہر شعبے میں آگے بڑھنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: کوئی ایک پیغام دشمن عناصر کیخلاف جو آپ پاکستانی قوم کو دینا چاہیں۔؟
عنایت اللہ ٹائیگر:
پاکستانی عوام سے میری یہ گزارش ہے کہ اپنے ملک سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے علاقے اور گلی محلے میں چھپے دشمن کی نشاندہی کرکے محب وطن ہونے کا ثبوت دیں، کیونکہ دہشتگردی کے خلاف جنگ صرف فوج اور پولیس کی نہیں بلکہ ہر شہری کی جنگ ہے۔ ہم سب نے مل کر اس دہشتگردی کے ناسور کو ختم کرنا ہے، جو کہ آپ کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔
خبر کا کوڈ : 617773
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش