0
Sunday 19 Mar 2017 16:49
مولانا فضل الرحمٰن کے دونوں منجن اب نہیں بکیں گے

2018ء کا الیکشن اگر صاف اور شفاف ہوا تو پی ٹی آئی اپنی اکثریت ثابت کریگی، اویس احمد خان

پانامہ کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے ہر فیصلے کو تسلیم کرینگے
2018ء کا الیکشن اگر صاف اور شفاف ہوا تو پی ٹی آئی اپنی اکثریت ثابت کریگی، اویس احمد خان
اویس احمد خان کا تعلق خیبر پختونخوا کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے، وہ نومبر 1982ء میں بلوچستان کے شہر کویٹہ میں پیدا ہوئے، انکا تعلق غیر سیاسی گھرانہ سے ہے، انہوں نے لندن سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی اور عمران خان سے متاثر ہو کر پی ٹی آئی مین شمولیت اختیار کی، 2013ء کے الیکشن میں مختلف علاقوں سے قومی اسمبلی کے 41 حلقوں اور 10 صوبائی اسمبلی کے حلقوں کے ڈسٹرکٹ آرگنائزر کے عہدے پر کام کرتے رہے ہیں، اب وہ پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی کے ایڈوائزر کے طور پر کام کر رہے ہیں، اسلام ٹائمز کے نمائندے نے پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات کے حوالے سے ان سے خصوصی گفتگو کی، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: دیگر سیاسی جماعتوں کے ہوتے ہوئے آپ نے بالخصوص پی ٹی آئی میں ہی کیوں شمولیت اختیار کی۔؟
اویس احمد خان:
میں جب اسٹوڈنٹ تھا تو اس وقت سیاست میں کچھ خاص انٹرسٹ نہیں تھا، کیونکہ میں یہ سمجھتا تھا کہ سب سیاستدان ایک جیسے ہیں، لیکن جب 2002ء میں عمران خان پہلی بار ایم این اے بنے اور جو عمران خان صاحب کا ویژن تھا یا جو کام انہوں نے کئے تو اس سے مجھے ایک امید کی کرن نظر آئی کہ کوئی ہے جس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے، عمران خان صاحب نے پاکستان کی ترقی کیلئے کام کیا اور پاکستان کے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی۔ مثال کے طور پر جب ہم کوئی بزنس کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ کون سا بہتر ہے، اسی طرح جب آپ لیڈران کو چنتے ہیں تو اس میں بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ کون سا لیڈر بہتر اور خالصتاََ پاکستان کی ترقی کیلئے کام کر رہا ہے، اگر اس چیز کو مدنظر رکھا جائے تو صاف واضح ہے کہ عمران خان ہی ایسے بندے ہیں، جن پر نہ تو کوئی کرپشن کا الزام ہے، نہ کوئی ناجائز جائیداد وغیرہ، اس کے علاوہ شوکت خانم سے اندازہ لگا لیں کہ عمران خان پر لوگوں نے بہت اعتماد کیا، لوگوں کے ڈونیشنز کی مدد سے انہوں نے ایک بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا۔ اگر کوئی اور سیاستدان کہے کہ میں ایسا ہسپتال بنانا چاہتا ہوں تو بہت ہی مشکل ہے کہ لوگ اس پر اعتماد کریں، ان کی یہی خدمات اور مخلص پن دیکھ کر میں نے فیصلہ کیا کہ یہی پلیٹ فارم چننا ہے، تاکہ آگے جا کر صحیح معنوں میں پاکستان کی خدمت کر سکیں۔

اسلام ٹائمز: پی ٹی آئی نیا پاکستان بنانیکا نعرہ لے کر آئی تھی، لیکن نیا پاکستان بنانے میں کامیاب نہیں ہوئی، اسکی وجہ کیا ہے؟ کیا یہ محض ایک دعوٰی تھا۔؟
اویس احمد خان:
نیا پاکستان بنانے میں کامیاب اس لئے نہیں ہوسکے ہیں، کیونکہ پورے پاکستان میں ہماری حکومت نہیں ہے، اگر آپ یہ کہیں کہ آپ خیبر پختونخوا کو نیا نہیں بنا سکے تو اس کا جواب ہم دے سکتے ہیں۔ میں آپ کی بات سے 26 فیصد ایگری کرتا ہوں کہ ہم 100 فیصد خیبر پختونخوا کو تبدیل نہیں کر سکے ہیں۔ اس کے اندر بہت سارے عوامل کارفرما ہیں، 70 سال کا گند اگر ایک جگہ ہو تو اس کو صاف کرتے کرتے کچھ وقت ضرور لگتا ہے، اگر نئے پاکستان سے مراد پل، روڈز، موٹر ویز، انڈر پاسسز لیں تو وہ ہم نہیں کرسکے، ہم نے بنیادی کاموں پر توجہ مرکوز رکھی، جیسے کہ شعبہ صحت، شعبہ تعلیم، محکمہ پولیس، پولیسنگ کا نظام ہے، اگر ہم نے اسے 100 فیصد نہیں تو کافی حد تک بہتر بنایا ہے اور مزید بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا کی پولیس کی مثال اگر دوسرے صوبوں میں دی جاتی ہے تو یہ ہماری کامیابی ہے۔ ناصر خان درانی اپنی تقریر میں اگر یہ کہتے ہیں کہ سیاسی طور پر میرے کام میں مداخلت نہیں ہوئی تو یہ ہماری کامیابی ہے۔ تعلیم کا نظام ہم نے بہتر بنایا اور ہم یہ تو نہیں کہتے کہ 100 فیصد بہتر ہوا ہے، کیونکہ ان شعبہ جات میں ہمیشہ بہتری کی گنجائش ہوتی ہے، پاکستان اور خیبر پختونخوا کی عوام نے اگر 2018ء میں موقع دیا تو رہی سہی کسر پوری کرنے کی کوشش کریں گے۔

اسلام ٹائمز: خیبر پی کے حکومت نے صوبے کی پولیس کو تو اپ گریڈ کیا، اسکے علاوہ اور کوئی بڑا کام جو انجام دیا ہو۔؟
اویس احمد خان:
اگر میں گنوانا شروع کروں تو کافی سارے کام ہیں، مثال کے طور پر رائز ٹو سروسیز ایکٹ، رائٹ ٹو انفارمیشن کا ایکٹ اسمبلی میں لایا گیا، ابھی کچھ ہی دن پہلے آپ نے سنا ہوگا کہ جہیز کی پابندی کا ایکٹ بھی بنایا جا رہا ہے۔ میرے خیال میں بلین ٹری سونامی سے بڑھ کر کوئی منصوبہ نہیں ہوسکتا، خیبر پختونخوا کے اندر 80 کروڑ درخت لگ چکے ہیں اور مزید بھی لگائے جا رہے ہیں، یہ ایک قابل ذکر کام ہے، کے پی کے گورنمنٹ کا۔ اس کے علاوہ جنوبی خیبر پختونخوا میں جیسے کہ مردان سائیڈ ہوگیا ان میں اگر پہلے کی صورتحال کو دیکھا جائے تو لوگوں کا گورنمنٹ سکول سے اعتماد ختم ہوگیا تھا کہ اساتذہ نہیں ہیں اور حاضری پوری لگی ہوئی ہوتی ہے، اس پر بھی ہم نے کام کیا اور اس میں بھی کافی بہتری دیکھنے کو ملی۔ ہم نے جو کام کئے ہیں، یہ شاید بظاہر نظر میں نہ آنیوالے کام ہیں، لیکن اس سے عوام کو فائدہ مل رہا ہے، یہی کام عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کارآمد ہیں۔

اسلام ٹائمز: پی ٹی آئی دھرنا سیاست پر کیوں یقین رکھتی ہے؟ جبکہ دھرنا دینے سے ملک کا پہیہ جام ہو جاتا ہے اور اسکا زیادہ نقصان غریب عوام کو ہوتا ہے، اس چیز کو مدِنظر کیوں نہیں رکھا جاتا؟
اویس احمد خان:
یہ سوال آپکا بہت ہی اچھا ہے، سب سے پہلے میں یہ واضح کر دوں کہ پی ٹی آئی دھرنا سیاست پر یقین نہیں رکھتی ہے، اپوزیشن کا یہ کام ہوتا ہے کہ جو کام حکومت وقت کر رہی ہے، اگر وہ عوامی مفاد میں نہیں ہے تو اپوزیشن اس کو ہائی لائٹ کرتی ہے اور انکی توجہ مبذول کراتی ہے۔ 2013ء کا جو الیکشن ہوا تھا، اس کے بعد دھرنے کی وجہ سے ملک کا پہیہ جام ہوا ہے، 2013ء اگست کے مہینے میں عمران خان نے کہا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے، آپ چار حلقے کھول دیں، یہی بات ہم نے ہر فورم پر کی۔ الیکشن کمیشن میں گئے، سپریم کورٹ میں گئے، لیکن ہمیں کہیں سے انصاف نہیں ملا، تبھی ہم نے دھرنا دیا اور دھرنا دینا ہمارا جمہوری حق ہے، دنیا کے اندر جہاں بھی جمہوریت ہے، وہاں اس طرح کے دھرنے ہوتے رہتے ہیں، ہم بالکل بھی ترقی کے خلاف نہیں ہیں، خاص طور پر معاشی ترقی کے، بلکہ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان ترقی کرے اور کرپشن ختم ہو۔ اس دھرنے کا مقصد صرف یہی تھا کہ ہمیں انصاف دلایا جائے، جب ہمارے دھرنے کیوجہ سے کمیشن بنا تو امید پیدا ہوئی کہ آئندہ کے الیکشن میں دھاندلی نہیں ہوگی۔ ووٹ ہر فرد کا حق ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کسی کو بھی دے، لیکن یہ سراسر ناانصافی ہے کہ ووٹ چرا لیا جائے۔ کسی بھی سیاسی پارٹی کا ووٹ اگر چوری ہوتا ہے تو وہ آواز اٹھاتی ہے اور یہ ہمارا رائٹ ہے۔

اسلام ٹائمز: پانامہ کیس کا فیصلہ اگر عوام کے حق میں نہیں آیا تو اس پر پی ٹی آئی کا اگلہ لائحہ عمل کیا ہوگا۔؟
اویس احمد خان:
ہم سپریم کورٹ، پاکستان آرمی جیسے مقدس اداروں کی بہت قدر کرتے ہیں، سپریم کورٹ انصاف کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے اپنا فیصلہ سنائے گی اور ہم یہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ہم سپریم کورٹ کے ہر فیصلے کو تسلیم کریں گے، ہمیں یقین ہے کہ فیصلہ عوام کے حق میں ہی ہوگا، اگر آپ اس کیس کی پوری ہسٹری دیکھ لیں تو جو ثبوت دونوں طرف سے پیش کئے گئے ہیں، اس سے ہمیں قوی یقین ہے کہ ان شاء اللہ انصاف کا ہی بول بالا ہوگا۔ پاکستان کے نام پر جو پانامہ کا دھبہ ہے، وہ عنقریب دُھل جائے گا، یہ ایک ٹیسٹ کیس تھا سپریم کورٹ کیلئے، پوری عوام کی نظر ان پر ہے، ہم امید ہی کرسکتے ہیں کہ عوام کے حق میں ہی فیصلہ آئے گا۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کی تاریخ اگر اٹھا کر دیکھی جائے تو کب کسی کو انصاف ملا ہے، جو اس بار ملے گا۔؟
اویس احمد خان:
آپ کی بات میں مانتا ہوں، سپریم کورٹ یا ججز کی تاریخ کوئی اتنی سنہری نہیں ہے، عدلیہ نے اپنے ماضی کے تجربات سے بہت سی باتیں سیکھی ہیں، کل کی عدلیہ ڈیکٹیشن میں تھی اور آج کی عدلیہ آزاد ہے اور ان کے جو فیصلے ہیں، وہ آزاد فیصلے ہیں، آپکو معلوم ہے ایک وزیراعظم کو پھانسی دی گئی، اس وقت ہمیں جو نظر آرہا ہے، وہ یہ کہ انصاف کا بول بالا ہوگا۔ 2007ء یا 2008ء میں جو عدلیہ کی موومنٹ ہوئی تھی، اس سے عدلیہ کافی امپروو ہوئی۔ اس وقت کے ججز بہت ہی اچھے اور تجربہ کار ججز ہیں اور بنا کسی دباو میں آئے اپنا فیصلہ سنائیں گے۔

اسلام ٹائمز: غلام مصطفٰی کھر کے بارے میں سننے میں آرہا ہے کہ وہ پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں، انکی شمولیت سے پی ٹی آئی کو کیا فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔؟
اویس احمد خان:
غلام مصطفٰی کھر صاحب ایک قدآور شخصیت ہیں، ان کا سیاسی قد کاٹھ کافی بلند ہے، جنوبی پنجاب میں انکا بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے، اپنے علاقے میں انکا خاندان سیاسی حوالے سے کافی جانا پہچانا ہے اور وہ کافی پرانے سیاستدان ہیں، جو بھی بندہ اچھی ریپوٹیشن کا ہے اور اس کا دامن کرپشن سے پاک ہے، اس کو پی ٹی آئی خوش آمدید کرتی ہے، یہ نہ صرف ہماری پارٹی کیلئے فائدہ مند ہے بلکہ اس کے ساتھ ہی ہماری تعداد میں بھی اضافہ ہوگا۔

اسلام ٹائمز: عموماََ عمران خان کیلئے یوٹرن ماسٹر کا لفظ استعمال ہوتا ہے، کیا انکے یوٹرن لینے سے عوام کا اعتماد خراب نہیں ہوتا۔؟
اویس احمد خان:
میں نے بھی یہ لفظ ان کے بارے میں سنا ہے، عمران خان کا اپنا ایک نظریہ ہے، جس پر وہ قائم رہتے ہیں، میں نے ابھی تک کوئی یوٹرن نہیں دیکھا ان کا، کچھ فیصلے ایسے ہوتے ہیں جو کہ عوام کے مفاد کو مدِنظر رکھتے ہوئے موقع پر لینے ہوتے ہیں، سب سے بڑی بات یہ کہ عمران خان منافق نہیں ہیں، ان کے دل میں کوئی چور نہیں ہے، عمران خان ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں، پاکستان کی عوام ان کو ایک ہیرو کے طور پر دیکھتی ہے، ان کے خلاف ایسے الفاظ مخالفین کی طرف سے کہے جاتے ہیں، جو کہ ہمارے لئے کوئی معنی نہیں رکھتے، یہ صرف پروپیگنڈہ ہوتا ہے، جو کہ زیادہ دیر نہیں چل پاتا اور مخالفین کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انسان عوامی اعتماد اس وقت کھوتا ہے کہ جب آپ ان کو ٹیکس دیں اور وہ لیڈر عوام کا خیال نہ رکھے اور بیرون ملک اثاثے بنائے تو اس بات سے عوام کا اعتماد ٹوٹتا ہے نہ کہ کوئی سیاسی بیان دینے سے۔

اسلام ٹائمز: مولانا فضل الرحمٰن فاٹا کو خیبر پی کے میں ضم کرنیکے بڑے مخالف رہے ہیں، اسکی کیا وجہ ہے، کیا اس میں انکا کوئی ذاتی مفاد ہے۔؟
اویس احمد خان:
(ہنستے ہوئے) میں یہ سمجھتا ہوں کہ مولانا فضل الرحمٰن کی جو سیاست ہے، اسے کالجز اور یونیورسٹیز کے اسٹوڈنٹس کو پڑھانا چاہیئے، انکی سیاست صرف اور صرف ان کے ذاتی مفاد کے گرد گھومتی ہے، انکی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ ہر حکومت میں بھی ہوتے ہیں اور اپوزیشن میں بھی رہتے ہیں، اپوزیشن میں رہتے ہوئے حکومت کو بلیک میل کر رہے ہوتے ہیں اور حکومت میں رہ کر مزے بھی لوٹ رہے ہوتے ہیں، مولانا صاحب ہمیشہ دو منجن بیچنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، ایک یہ کہ مغربی کلچر اور دوسرا یہودی لابی والا اور یہ دونوں منجن ان کے نہیں بکے، اب وہ کسی نہ کسی طرح سے خبروں میں رہنا چاہتے ہیں، تاکہ وہ بھی اس بھاگ دوڑ میں اِن رہیں۔ میرا نہیں خیال کہ وہ فاٹا کی مخالفت کرکے عوامی امنگوں کی ترجمانی کر رہے ہیں، فاٹا کی عوام ایف سی آر کا خاتمہ چاہتی ہے، وہ چاہتے ہیں کہ انہیں بھی ایک پاکستانی کی طرح کے حقوق ملیں۔ پاکستان کیلئے ہمارے قبائلی بھائیوں نے بہت سی قربانیاں دی ہیں، جب بھی پاکستان پر کوئی مشکل وقت آیا تو قبائلی بھائیوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مولانا فضل الرحمٰن کی فاٹا کو خیبر پی کے میں ضم نہ کرنے کی یہ خواہش پوری نہیں ہوگی۔ ان کی اس خواہش میں کوئی لاجک، کوئی وزن نہیں ہے۔ قبائلی کبھی ان کا ساتھ نہیں دیں گے۔

اسلام ٹائمز: آنیوالے الیکشن میں پی ٹی آئی کی خیبر پی کے اور باقی کے صوبوں میں کیا پوزیشن ہے، کیا باقی صوبوں میں اپنی حکومت بنا پائے گی۔؟
اویس احمد خان:
2013ء کے انتخابات میں ہم نے اپنے تلخ تجربات سے بہت کچھ سیکھا ہے، اب ہمیں معلوم ہوگیا ہے کہ کن علاقوں میں کون سے اور کس طرح کے کینڈیڈیٹس لے کے آنے ہیں، اس بار ان شاء اللہ کے پی کے کیساتھ ساتھ باقی صوبوں میں بھاری اکثریت سے جیتیں گے، جہاں تک دیگر صوبوں کا تعلق ہے، خصوصاََ پنجاب میں پی ٹی آئی ایک مقبول ترین سیاسی جماعت ہے۔ 2018ء میں اگر صاف اور شفاف الیکشن ہوئے تو پی ٹی آئی اپنی اکثریت بنائے گی۔

اسلام ٹائمز: ضربِ عضب ابھی ختم نہیں ہوا اور نیا آپریشن ردالفساد کے نام سے شروع ہوگیا، ضربِ عضب کے حوالے سے لوگوں کے سامنے راحیل شریف ایک ہیرو بن کر ابھرے، لیکن آخر میں وہ بھی حکومت کیساتھ کھڑے نظر آئے، حتٰی ان پر سعودیہ کیساتھ تعلقات کا الزام بھی لگایا جاتا ہے، اس میں کتنی سچائی ہے۔؟
اویس احمد خان:
بہت اچھا سوال ہے، پہلے ہم ضربِ عضب کے حوالے سے بات کر لیتے ہیں، جب ضربِ عضب شروع نہیں ہوا تھا تو اس وقت پاکستان کے حالات بہت خراب تھے، آئے دن دھماکے، شہادتیں ہمارے ہر شہر میں ہوئی ہیں، خاص طور پر کے پی کے بہت زیادہ متاثر ہوا، ضربِ عضب کے شروع ہونے سے دہشتگرد قبائلی علاقوں میں چلے گئے اور وہاں سے ہوتے ہوئے افغانستان منتقل ہوئے، آپریشن کے دوران کافی دیر تک امن رہا۔ آپریشن ردالفساد ایک بہت ہی اچھا فیصلہ ہے اور یہ لاہور دھماکہ کے بعد فیصلہ کیا گیا، خصوصاََ جو دہشتگرد پنجاب میں پناہ لئے ہوئے تھے، وہ گرفتار ہوئے، اس کے علاوہ تقریباََ ہر صوبے میں اس آپریشن کی وجہ سے دہشتگردوں کے خطرناک مقاصد ناکام ہوئے ہیں۔ اب جہاں تک راحیل شریف کا سعودی عرب سے تعلقات کا معاملہ ہے تو یہ بات سچ ہے کہ جب ہم سعودی اتحادی فوج میں شامل ہوئے ہیں تو اس سے یہ ظاہر ہوا کہ جو ممالک اس اتحاد میں شامل نہیں ہوئے، تو گویا ہم اپنی طرف سے انکو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ہمیں پرواہ نہیں ہے کہ آپ کے تعلقات ہمارے ساتھ اچھے ہیں یا نہیں۔ راحیل شریف کی طرف سے جو شرائط ہمارے سامنے آئیں، وہ کافی لاجیکل تھیں، ہمیں یہ نہیں لگ رہا تھا کہ وہ ایک سیکٹیرین آرمی بنا رہے ہیں، انکی شرائط میں شامل تھا کہ خاص طور پر ایران کے ساتھ ثالث بننا چاہتے ہیں، جیسا کہ سعودی عرب، ایران کشیدگی کو ایک بہتری کی طرف لے جایا جا سکتا ہے، اسی طرح اگر پاکستان ثالثی کردار ادا کرتا ہے تو پوری مسلم امہ ایک ہوسکتی ہے، میری ذاتی رائے یہی ہے کہ راحیل شریف کے سعودی تعلقات ایک اچھی حکمت عملی ہے، جس سے ہم مسلمان ایک ہوسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: لاہور ڈیفنس دھماکہ کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ یہ ایک ٹائم ڈیوائس دھماکہ تھا اور 25 سے 30 کلو مواد استعمال ہوا، جبکہ بعد میں رانا ثناء اللہ کا بیان سامنے آیا کہ یہ ایک حادثہ ہے، کیا یہ واقعی حادثہ تھا یا اسے حادثے کا رنگ دیا گیا۔؟
اویس احمد خان:
اتبدائی رپورٹ ایک متضاد رپورٹ تھی، بعد میں وہاں جو عینی شاہدین تھے یا جو علاقے کے لوگ تھے، انہوں نے کہا کہ ہمیں بھی یہ خطرہ تھا کہ یہاں کبھی کسی بھی قسم کا کوئی بھی گیس لیکیج جیسا حادثہ پیش آسکتا ہے، میرے خیال میں وہ واقعی ایک حادثہ تھا نہ کہ کوئی بم دھماکہ، اس لئے کوئی بھی اس پر کمنٹس نہیں کر سکتا، کیوںکہ پولیس نے تفتیش کی، اس سے واضح ہے کہ یہ دہشتگردی کا واقعہ نہیں تھا اور نہ ہی ان کو کسی قسم کا کوئی بارودی مواد تباہ شدہ حالت میں ملا۔
خبر کا کوڈ : 619596
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش