0
Monday 20 Mar 2017 15:35

راحیل شریف کے معاملے پر ایران کے تحفظات دور کر دیئے گئے، وہ جلد سعودی اتحاد کی کمان سنبھالیں گے، عبداللہ گل

راحیل شریف کے معاملے پر ایران کے تحفظات دور کر دیئے گئے، وہ جلد سعودی اتحاد کی کمان سنبھالیں گے، عبداللہ گل
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حمید گل مرحوم کے فرزند عبد اللہ گل نے ابتدائی تعلیم ایف جی سکول سے حاصل کی، نیو یارک یونیورسٹی سے بزنس میں ماسٹر کیا ہے، عبداللہ گل اسوقت الجزیرہ کیلئے آرٹیکل لکھتے ہیں، اسکے علاوہ امریکہ سمیت جنوبی افریقی ممالک کے صحافتی اداروں کیلئے بھی آرٹیکلز لکھتے ہیں۔ عبداللہ گل میثاق ریسرچ کے نام سے ایک سینٹر بھی چلا رہے ہیں، جسکا فوکس ہاٹ ریجن ہے۔ اس میں ایران، پاکستان، کشمیر، انڈیا اور افغانستان شامل ہیں۔ عبد اللہ گل کے مطابق وہ 2007ء سے تمام یوتھ تنظیموں کے منتخب صدر بھی ہیں، اسکے علاوہ وہ محسنانانِ پاکستان فاونڈیشن ادارہ بھی چلا رہے ہیں، جسکا مقصد غیر سیاسی لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا ہے۔ عبداللہ گل اسوقت تحریک جوانان کے صدر بھی ہیں۔ پاکستان سمیت بین الاقوامی حالات حاضرہ پر ایک خاص نقطہ نگاہ رکھتے ہیں، اسی لئے مختلف ٹی وی چینلز پر انکے بےلاگ تبصروں کو بیحد سراہا جاتا ہے۔ گذشتہ دنوں تہران میں ہونیوالی عالمی انتفادہ فلسطین کانفرنس میں بھی شریک تھے۔ اسلام ٹائمز نے عبداللہ گل سے ملکی اور عالمی صورتحال پر خصوصی انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: آپریشن ردالفساد شروع کر دیا گیا تو کیا یہ ضرب عضب کی ناکامی کا اعلان ہے۔؟
عبداللہ گل:
نہیں اسے ہم ناکامی سے تعبیر نہیں کرسکتے، البتہ اسے ضرب عضب کا تسلسل کہہ سکتے ہیں، فوج کے اندر آپریشن تین طرح کے ہوتے ہیں، سب سے پہلے ٹیکٹیکل طرز کا آپریشن ہوتا ہے، پھر آپریشنل سطح پر لے جایا جاتا ہے، جس میں خفیہ اطلاعات پر مبنی زمینی آپریشنز کئے جاتے ہیں، اس کے بعد اسٹریٹیجک طرز کا آپریشن ہوتا ہے۔ یعنی آپ متبادلہ بیانیہ ترتیب دیتے ہیں، لوگوں کے ذہن میں دہشتگردی کو شکست دیتے ہیں۔ ردالفساد سابقہ تمام آپریشنز کا تسلسل ہے، جیسے جنرل کیانی نے آپریشن کئے، راہ راست، راہ نجات، ان کے بعد ضرب عضب اور اب ردالفساد ہے۔ ردالفساد کے پیرامیٹرز تھوڑے سے مختلف ہیں، یہ کراچی گیا، بلوچستان گیا اور اب جنوبی پنجاب میں جاری ہے۔ یہ اس وقت ہوا جب دہشتگردوں کی واپسی ہوئی اور کئی واقعات ہوئے، تب یہ خیال آیا کہ اب ردالفساد تو کرنا پڑے گا۔ یہ گزارش کروں گا کہ ہتھیاروں سے نظریات کی جنگ نہیں جیت سکتے، نظریئے سے بڑھ کر نظریہ دینا پڑے گا۔ وہ جنگ تب جیتیں گے جب پاکستان کے فیصلے پاکستان میں ہوں گے۔ اگر فیصلے دیگر ممالک میں ہوں گے، پھر امن نہیں ہوگا۔

اسلام ٹائمز: تو آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ دہشتگردوں کا بہترین نظریہ ہے۔؟
عبداللہ گل:
نہیں میں یہ نہیں کہنا چاہ رہا، دہشتگردوں کا کوئی نظریہ ہی نہیں، نائن الیون کے بعد جو پاکستان نے یوٹرن لیا، وہ غلط تھا۔ آپ کو بتانا پڑے گا کہ جب روس آیا تھا اور پاکستان نبردآما ہوا تو ہم نے یہ جنگ جیتی۔ اگر یہ دہشتگردی ہونا تھی تو 1979ء کے بعد دہشتگردی کیوں نہ ہوئی۔ آج یہ دہشتگردی کیوں جاری ہے۔؟ اس لئے کہ آپ نے ایک اپنا دشمن ملک جس کا روس کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا، اس سے اپنے بھائی ملک کو بچایا، عوام الناس کا سہارا بنے، آپ نے انصار مدینہ کا کردار ادا کرکے 30 لاکھ مہاجرین کو جگہ دی۔ دس سال بعد ایک اور آرمی کے سربراہ جو صدر پاکستان بھی ہیں، ایک فون کال پر ملک کا بیڑا غرق کرکے دکھ دیتے ہیں، پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان اس جنرل نے پہنچایا، ایسے حالات کھڑے کر دیئے کہ فوجی وردی تک نہیں پہن سکتے تھے۔ سترہ ہزار کلومیٹر دور ایک ملک کو اپنے بھائی ملک پر چڑھائی کی دعوت دی اور اس کے اتحادی بن گئے۔ نظریہ تو پھر آگیا ناں، کارگل پر جانا غلط تھا یا آنا غلط تھا۔؟ اس کا جواب کون دے گا۔

اسلام ٹائمز: یہ بتائیں کہ اب ہونا کیا چاہیئے، کیا ماضی کی غلطیوں کو لیکر بیٹھ جائیں؟ اب افغانستان ہمارا دشمن بن گیا ہے، ای سی او کانفرنس میں شرکت انہوں نے نہیں کی۔ بھارت کے وہ دوست بنے ہوئے ہیں۔؟
عبداللہ گل:
افغانستان نہیں بلکہ کابل دشمن بنا ہوا ہے، ای سی او سربراہ ممالک اجلاس میں تو افغانستان نے نہیں آنا تھا۔ جب سہ فریقی اجلاس روس میں ہوا تو اس میں چین، پاکستان اور روس بیٹھا تھا، اس میں افغانستان تو نہیں تھا، یعنی امریکی پٹھو اشرف غنی کو نہیں بلایا گیا تھا، اس سے پیغام واضح تھا۔ پاکستان میں افغان صدر نے کہا تھا کہ وہ ای سی او سربراہ اجلاس میں شرکت کریں گے، تبھی اس کی تصویریں پاکستان میں لگیں، لیکن عین وقت پر نہیں آیا۔ حضرت عمر جو سفیر تھا، اس کو بھیج دیا گیا، اس کو تو سربراہ اجلاس میں بیٹھنا ہی نہیں چاہیئے تھا۔ آپ اشرف غنی کو 50 کروڑ ڈالر کی آفر کرتے ہیں، وہ کہتا ہے کہ آپ اپنی سکیورٹی پر لگا دیں۔ وہ تضحیک کرتا ہے۔ دوسرا افغان طالبان جو آپ کی سلامتی کے ضامن ہیں، انہوں نے خط لکھا ہے، جو میرے پاس موجود ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی میں افغان طالبان ملوث نہیں ہیں۔ اس دہشتگردی میں کبھی کوئی افغان مہاجر نہیں پایا گیا۔

اسلام ٹائمز: ای سی او سربراہ اجلاس میں ایرانی صدر تشریف لائے، اسکے بعد آرمی کیطرف سے بیان آگیا، ماضی میں جنرل راحیل شریف نے ٹوئٹ کرائی تھی، اب معاملہ کہاں دیکھ رہے ہیں۔؟
عبداللہ گل:
جی بالکل ماضی میں ایران کے معاملے میں ہم سے غلطی ہوئی تھی، جو نہیں ہونی چاہیئے تھی، اس بار معاملہ درست سمت گیا ہے، اس بار ایرانی صدر سے ہمارے وفود کی اچھی ملاقاتیں ہوئیں، ایرانی سفیر سے جنرل قمر باجوہ کی ملاقات ہوئی ہے، انہوں نے ایران کے محل وقوع اور اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ ملاقات کی، جنرل قمر باجوہ باصلاحیت اور دور رس انسان ہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ جلد ایرانی فوج کے نمائندگان پاکستان کا دورہ کریں گے۔ اسی انداز کے اندر ہمارے ساتھ عرب دنیا کے معاملات بھی ٹھیک ہوں گے۔

اسلام ٹائمز: جنرل راحیل شریف کو این او سی جاری ہوگیا ہے، اس صورتحال میں تو تعلقات خرابی کیطرف جا سکتے ہیں۔؟
عبداللہ گل:
دیکھیں اس میں چائنہ نے اہم کردار ادا کیا ہے، چین نے یہ باور کرایا ہے اور ایران کو بھی سمجھایا ہے کہ اگر جنرل راحیل سعودی اتحاد کی سربراہی کریں گے تو وہ ایران کیلئے خیر خواہی اور اچھائی کے جذبات رکھیں گے، وہ منفی عمل نہیں کریں گے۔ یہ آنے والے دنوں میں دیکھیں کہ سعودی فوج کی کمان کے حوالے سے اہم پیشرفت ہوجائیگی۔ عوام الناس اور ایران کے تحفظات دور کر دیئے گئے ہیں۔ کافی حد تک ایران کے زخموں پر مرہم رکھ دیا گیا ہے۔ ایران کی قیادت سمجھ دار ہے اور وہ حوصلہ مند لوگ ہیں۔ ہمیں ایران اور عرب دنیا کے درمیان کردار ادا کرنا ہے۔ عالمی اسکتبار کو مایوس کرنا ہے۔ مسلمانوں کی صلاحتیوں کو ضائع ہونے سے بچانا ہے۔ مسئلہ فلسطین اور کشمیر ایک ہی ہے۔

اسلام ٹائمز: فلسطین اور کشمیر میں کیا چیزیں مشترک ہیں، جن پر امت کو اکٹھا کیا جاسکتا ہے۔؟
عبداللہ گل:
دیکھیں فلسطن میں بھی مسلمان مر رہے ہیں یہاں بھی، یہاں پر بھارت مقبوضہ وادی میں مسلط ہے جبکہ فلسطین میں اسرائیل قابض ہوگیا ہے۔ یہاں ہندو فوج کشمیریوں کا خون بہا رہی ہے، جبکہ فلسطین میں صیہونی حکومت یہ کام کر رہی ہے۔ دونوں جگہوں پر مسلمان پس رہے ہیں۔ اس پر ہم اکٹھے ہوسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: فلسطین کانفرنس میں شریک ہوئے، کچھ شیئر کرنا چاہیں گے۔؟
عبداللہ گل:
جی میں خود چھٹی انتفادہ فلسطین کانفرنس میں شریک تھا، اس میں دنیا بھر سے 221 ڈیلیگیٹس شریک تھے، جنہوں نے 60 ممالک کی نمائندگی کی۔ پاکستان کی بھی نمائندگی موجود تھی۔ میرے خیال میں اب کانفرنسز سے نکل کر حکمت عملی کے معاملے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ میری حکومت ایران سے درخواست ہے کہ ایسے لوگ جو اسٹرٹیجی پر کام کرتے ہیں، ان کے ساتھ ملکر اسٹریٹیجی پر کام کیا جائے۔ جیسے حمید گل کی شخصیت تھی کہ وہ اسٹریٹجسٹ تھے۔ اس پر مزید ہم آہنگی کے ساتھ آپس کے معاملات کو درست کرتے ہوئے دشمن کو مایوس کرنا ہے۔
خبر کا کوڈ : 619894
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش