0
Friday 24 Mar 2017 23:31
فساد پھیلانے کا باعث بننے والا چاہے وہ علماء کے لبادے میں ہی کیوں نہ ہو اسے گرفتار کرنا چاہیئے

اللہ کی قسم، محب وطن یا تو اہلسنت بریلوی ملیں گے یا شیعہ، جنہوں نے ملکر پاکستان بنایا تھا، مفتی عبدالعلیم قادری

پاکستان میں فتنہ و فساد کی سرکوبی کیلئے پاکستان بنانے والے علمائے کرام اور انکی اولادوں کو میدان میں لانا ہوگا
اللہ کی قسم، محب وطن یا تو اہلسنت بریلوی ملیں گے یا شیعہ، جنہوں نے ملکر پاکستان بنایا تھا، مفتی عبدالعلیم قادری
مردان سے تعلق رکھنے والے مفتی محمد عبدالعلیم قادری کراچی کے علاقے شاہ فیصل کالونی میں قائم دارالعلوم قادریہ سبحانہ کے بانی اور مہتمم ہیں، اسکے ساتھ ساتھ وہ جمعیت علمائے پاکستان (نورانی) کے مرکزی نائب امیر بھی ہیں۔ وہ اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے فعال کردار ادا کر رہے ہیں، انکے والد محترم مفتی بابا عبدالسبحان القادری اور دادا مفتی شائستہ گل القادری کا شمار مکتب اہلسنت کی جید شخصیات میں ہوتا ہے، جنہوں نے قیام پاکستان کی تحریک میں اہم کردار ادا کیا۔ مفتی محمد عبدالعلیم قادری کا روحانی تعلق سلسلہ قادریہ، نقشبندیہ، سہروردیہ، چشتیہ سے ہے، ان چاروں سلسلوں میں انکو اپنے والد گرامی مفتی بابا عبدالسبحان القادری کیجانب سے خلافت حاصل ہے۔ انکا کراچی میں ایک اور ادارہ موریہ خان گوٹھ اسٹار گیٹ میں قائم ہے، جسکا نام دارالعلوم قادریہ علیمیہ ہے، اسکے ساتھ ساتھ اندرون سندھ بدین کے علاقے گولارچی میں بھی جامعہ قادریہ علیمیہ کے نام سے بھی انہوں نے ایک ادارہ قائم کیا ہوا ہے، اسی طرح چاروں صوبوں میں انکے قائم کردہ دینی اداروں کی شاخیں موجود ہیں، وہ جماعت اہلسنت سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے مفتی محمد عبدالعلیم قادری کیساتھ دارالعلوم قادریہ سبحانہ میں ایک مختصر نشست کی، اس موقع پر ان کیساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: دہشتگرد و فتنہ گر عناصر کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے۔؟
مفتی عبدالعلیم قادری:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ قرآن کریم میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ وہ کافر و مشرک و بے دین جو تمہارے اوپر حملہ آور ہوں تو پھر تم بھی جہاں ان کو پاؤ انہیں قتل کرو، انہوں نے تم سے قتال کیا، تم ان سے قتال کرو، انہوں نے تمہیں مارا، تم انہیں مارو اور جہاں سے تمہیں انہوں نے نکالا ہے، تم بھی ان کو وہاں سے نکالو۔ یہ دو چیزیں ہوگئیں، پھر تیسری چیز یہ کہ فتنہ قتل سے بھی سخت ہے، زیادہ ہے۔ اللہ تعالٰی نے ہمیں واضح طور پر فرما دیا ہے، یہ فرمان صرف اپنے نزول کے وقت تک کیلئے محدود نہیں تھا، بلکہ رہتی دنیا تک کیلئے ہے، لہٰذا جس زمانے میں بھی تمہارے دشمن تم پر ظلم کریں، قتال کریں، تم بھی ان سے لڑو، تم اس کا بدلہ لو، ہمیں اسلام نے بتایا ہے کہ قتل و قتال میں پہل نہ کرو، لیکن دشمن کے مقابلے میں اپنا دفاع کرو، اگر دشمن تمہیں گھر سے، شہر سے بے دخل کر دے اور پھر تمہیں جب خدا طاقت عطا فرمائے تو جیسے دشمن نے تمہیں نکالا تھا، تم انہیں نکالو۔ اللہ تعالٰی قرآن میں فرماتا ہے کہ دشمن کے مقابلے میں اپنا اسلحہ تیار رکھو، ہمیشہ ہوشیار و تیار رہو۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں دہشتگردی و فتنہ میں ملوث عناصر کی سرکوبی کیسے ممکن ہے۔؟
مفتی عبدالعلیم قادری:
پاکستان میں دہشتگردی مسلم و غیر مسلم سب کا مسئلہ ہے، پاکستان میں حملہ آور دہشتگرد کے نزدیک مسلم و غیر مسلم، شیعہ یا سنی معیار نہیں ہے، بلکہ وہ ہر ایک پر حملہ آور ہے، اس کا مقصد صرف فتنہ پھیلانا ہے، اس فتنہ گر نے تمام عوام پر ظلم کرنا ہے، جس کی لپیٹ میں مسلمان کے ساتھ ساتھ غیر مسلم بھی آتے ہیں، لہٰذا فتنے کی سرکوبی کیلئے کسی ایک پر نہیں، بلکہ ہم سب پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اللہ تعالٰی بھی ہمیں دشمن سے قتل و قتال کا بدلہ لینے کا حکم دیتا ہے، لہٰذا فتنہ انگیز کو جہاں بھی پاؤ قتل کرو، ہمیں اپنا دفاع کرنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: دہشتگرد و فتنہ گر عناصر کی سرکوبی کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔؟
مفتی عبدالعلیم قادری:
اللہ تعالٰی نے ہمیں اجازت دی ہے کہ فتنہ گروں کے مقابلے میں اپنا دفاع کریں، اب ہم اپنا دفاع کرسکتے ہیں، کے زمرے میں کہ ہم عوام نے جس کو متعین کیا، جس کو ٹیکس دیئے، ہم جن کی تنخواہیں پوری کر رہے ہیں، ہمارا دیا ہوا ٹیکس قومی خزانے میں جمع ہوتا ہے، یہ افواج پاکستان پر بھی خرچ ہوتا ہے، انتظامیہ کے افراد پر بھی ہوتا ہے، وزیراعظم، وزرائے اعلٰی و دیگر سمیت ایوانوں میں بیٹھے ہوئے اراکین پر بھی خرچ ہوتا ہے، ملکی سلامتی کے ذمہ دار اداروں اور ایجنسیوں پر بھی خرچ ہوتا ہے، تمام کی تنخواہیں و اخراجات پاکستانی عوام کے ٹیکسوں سے پورے ہوتے ہیں، اس طرح عوام نے جس کو اپنی حفاظت پر معمور کیا، دہشتگردی و فتنوں کے خاتمے کی ذمہ داری سرفہرست ان کا فرض بنتا ہے، سب سے پہلے فوج ہے، پھر رینجرز ہے، پولیس ہے، پھر دیگر ایجنسیاں ہیں، ان کی ذمہ داری ہے کہ بزور طاقت دہشتگرد و فتنہ گروں کو روکیں، ان کا خاتمہ کریں۔ اب بزور طاقت عوام تو نہیں روک سکتی، عوام تو اسلحہ اٹھا کر روڈ پر نہیں آسکتی۔ لہٰذا ملک و قوم کی حفاظت کی اولین ذمہ داری افواج پاکستان پر عائد ہوتی ہے، ان کو عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہیں دی جا رہی ہیں، لہٰذا سب سے پہلے فوج کا فرض بنتا ہے کہ وہ وطن و عوام کی حفاظت کریں، اس کے ساتھ ساتھ رینجرز، پولیس، ایجنسیاں دیگر سکیورٹی فورسز بھی عوام کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔

اسلام ٹائمز: دہشتگرد و فتنہ گر عناصر ہمیشہ فرقے کی آڑ لیکر سازشیں اور کارروائیاں کرتے ہیں، مختلف فرقوں کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
مفتی عبدالعلیم قادری:
فرقے نظریات سے وجود میں آتے ہیں، نظریات شخصیتوں سے بنتے ہیں، مثال کے طور پر آپ جو بھی نظریہ مجھے دینگے، اس کے فوائد و نقصانات و دیگر حوالوں سے بتاتے رہینگے، تو ہوسکتا ہے کہ میں آپ کے نظریئے کی پیروی کرلوں، تو نظریہ یاک شخص سے بنا، ایک ذات سے بنا، اب ہم مسلمانوں نے دیکھنا یہ ہے کہ وہ نظریہ اسلام سے، قرآن و حدیث و شریعت کے مطابق ہے یا نہیں، اگر ہے تو وہ نہ گمراہ ہے اور نہ ہی کافر، چاہے وہ مجھے نیا سا نظریہ لگے، تو اس وجہ سے ہم کسی کو کافر، مشرک، مرتد کہنا شروع کر دیں، یہ بھی غلط ہے، مسلمانوں میں بعض تدریس و طرز کی وجہ سے اگر کوئی اس نظریئے کی پیروی کرتا ہے تو اس کو آپ نیا مذہب نہیں کہہ سکتے، نیا فرقہ نہیں کہہ سکتے، وہ اسلام ہی میں ہے، ان نظریات کی بناء پر آپ فرقہ واریت کا پرچار نہیں کرسکتے۔

اسلام ٹائمز: مسلمانوں کیخلاف فتنہ و فساد اور اسکے شروع ہونیکے پیچھے کیا اسباب نظر آتے ہیں۔؟
مفتی عبدالعلیم قادری:
اس کی وجہ سیاسی بھی ہے اور ملک میں اسلام کے نفاذ کیلئے کی جانے والی کوششیں بھی ہیں، سیاسی ایسے کہ یہود و نصاریٰ ہم سے بدلہ لے رہا ہے، مثلاً ماضی میں پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل ضیاءالحق نے امریکا کے ساتھ مل کر روس کے اتنے ٹکڑے کیوں کروائے، کیونکہ امریکا دنیا کی واحد سپر پاور بننا چاہتا تھا، جو کہ اس وقت وہ ہے، ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہم مسلمانوں نے امریکا کو دنیا کا واحد سپر پاور بننے کا موقع فراہم کیا، اب وہ پوری دنیا میں اپنی حکمرانی چاہتا ہے، اب روس کے یہودی بھی ہم سے بدلہ لے رہے ہیں، چاہے وہ ازبک کی صورت میں ہوں، چاہے افغانستان میں پلے ہوئے ان کے نظریات کے حامی ہوں، امریکا کے یہود و نصاریٰ بھی ہمارے خلاف ہیں، سب یہ تو کہہ دیتے ہیں کہ ملک میں دہشتگردی طالبان کر رہے ہیں، لیکن سیاسی سطح پر دیکھیں تو طالبان کو کس نے بنایا ہے، دنیا جانتی ہے کہ طالبان اور داعش کو امریکا نے بنایا ہے، تو پاکستان سمیت دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف فتنہ و فساد برپا کرنے کے پیچھے یہود و نصاریٰ ہیں۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ ماہ فروری میں حضرت لعل شہباز قلندر کے مزار پر حملہ ہوا، اس سمیت درگاہوں پر حملے کا ذمہ دار کسے سمجھتے ہیں۔؟
مفتی عبدالعلیم قادری:
لعل شہباز قلندر بابا کی درگاہ پر دہشتگرد حملے کی پہلی ذمہ داری محکمہ اوقاف اور اس کی سرپرست سندھ حکومت پر عائد ہوتی ہے، درگاہ لعل شہباز قلندر پر لوگ کروڑوں روپے کے نظرانے پیش کرتے ہیں، جو اوقاف کے لوگ ہڑپ کر جاتے ہیں، یہ لوگ کروڑوں روپے کے فنڈز اور تنخواہیں بھی لیتے ہیں، عیاشیوں میں مصروف ہیں، لیکن سکیورٹی کے انتظامات نہیں کئے گئے، اوقاف نے درگاہ کی حفاظت کیلئے کچھ نہیں کیا، جبکہ درگاہ کی حفاظت کی ذمہ داری انہی اوقاف والوں پر عائد ہوتی ہے، جو ہر سال کروڑوں روپے کی آمدنی ہڑپ کر جاتے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف کو استعفٰی دے دینا چاہیئے تھا، صدر مملکت تو ایسے چھپے بیٹھے ہوتے ہیں کہ جیسے بل میں چوہا گھس کر بیٹھ جاتا ہے اور اس کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ لہٰذا میں آج بھی درگاہ پر حملے کی ذمہ داری اوقاف پر عائد کرتا ہوں، اگر حفاظت نہیں کرسکتے تو چھوڑ دو۔ دوسرا یہ کہ محکمہ اوقاف نے درگاہوں سے متصل مساجد میں وہابی دیوبندی نظریہ رکھنے والے لوگوں کو امام و خطیب رکھا ہوا ہے، جو ان اولیاء کرام کے مزارات و درگاہوں پر آنے والے زائرین کو کافر، مشرف، بدعتی کہتے ہیں، درگاہوں اور مزارات کو شرک و بدعت کی فیکٹریاں کہتے ہیں، جب حکومت متصل مساجد میں درگاہوں و مزارات کو شرک و بدعت کی فیکٹریاں کہنے والے وہابیوں دیوبندیوں کو امام و خطیب رکھیں گے تو وہ جاسوسی تو کرینگے، وہ اوقاف والوں پر، آنے جانے والوں پر نظر تو رکھیں گے، انہی سے مخبری بھی ہوتی ہے، انہوں نے دہشتگردوں کو اطلاعات فراہم کروا کر حملہ کروا دیا، لہٰذا یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے درگاہوں اور مزارات پر حملے کی، اس سلسلے کو بھی ختم کروانا چاہیئے، مزارات و درگاہوں سے متصل مساجد میں ان نظریات کے افراد کو امام و خطیب رکھا جائے، جو مزارات و درگاہوں کو مانتی ہوں، انہیں شرک و بدعت کی فیکٹریاں کہنے والوں کو وہاں سے فوراً نکال دینا چاہیئے، ورنہ درگاہوں و مزارات پر دہشتگرد فتنہ گر عناصر حملہ کرتے رہیں گے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں حکومت اور ادارے حملہ آوروں کے بارے میں جانتے ہیں۔؟
مفتی عبدالعلیم قادری:
خدا کی قسم حکومت، فوج اور ایجنسیاں ہم سے زیادہ اور بہتر جانتی ہیں کہ مزارات و درگاہوں پر حملے کون کروا رہا ہے، انہیں سب معلوم ہے، علمائے اہلسنت نے، اہل تشیع حضرات نے کتنی مرتبہ بتایا ہے کہ یہ حملے کون کروا رہا ہے، اس پر مزید کیا بات ہوسکتی ہے کہ جب انہیں سب معلوم ہے دہشتگردوں کے بارے میں۔

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے کہ فوجی کارروائیاں تو نظر آرہی ہیں، لیکن حکومت عدم دلچسپی کا شکار نظر آتی ہے۔؟
مفتی عبدالعلیم قادری:
نواز حکومت کے تعلقات دو جگہوں سے مربوط و بندھے ہوئے ہیں، پہلا امریکا اور دوسرا سعودی عرب۔ بات سمجھ میں آگئی۔ یہاں سمجھنا ہوگا کہ ایک ملک اسلامی ہے اور ایک نظریہ اسلامی ہے اور ایک قانون اسلامی ہیں، ان تمام میں فرق ہے، کیا پاکستان اسلامی ملک نہیں ہے، لیکن آج تک یہاں پر اسلام نافذ نہیں ہوسکا، اسی طرح سرزمین حجاز مقدس مرکز اسلام ہے، لیکن اسی حجاز مقدس پر بادشاہت قائم ہے، آل سعود کو حجاز مقدس پر کس نے قابض کروایا، سرزمین حجاز مقدس کا نام تبدیل کرکے سعودیہ کیوں رکھا، کب رکھا، حجاز مقدس کو کیوں مٹایا، کیوں ہٹایا، یہ ایک تلخ تاریخ ہے، اب پاکستان میں جو دہشتگرد حملے ہو رہے ہیں، وہ ان دو نظریات کے تحت ہو رہے ہیں، ایک نظریہ امریکا اور دوسرا وہابی۔ جبکہ اللہ کی قسم آپ کو پاکستان میں محب وطن اگر ملیں گے تو وہ یا تو اہلسنت و جماعت کے لوگ ہوں گے، سنی عقیدہ رکھنے والے، جنہیں اس دور میں آپ لوگ بریلوی کہتے ہیں یا پھر وہ شیعہ حضرات ہونگے، کیونکہ اس ملک کو بریلویوں اور شیعوں نے مل کر بنایا تھا، اس سے تو انکار کرنا ممکن نہیں۔ خبریں عام ہیں کہ نواز شریف صاحب کی سعودی عرب میں فیکٹریاں اور ملیں ہیں، سننے میں آیا ہے کہ نواز شریف کے خاندان کی کچھ خواتین وہاں نکاح میں بھی دی ہوئی ہیں، یہ کوئی گناہ نہیں ہے، مگر سعودیوں سے رشتہ داریاں تو ہوئی ہیں نا۔ نواز شریف کے والد عقیدے و نظریئے کے لحاظ سے سنی تھے، لیکن نواز شریف سعودی عرب کے تابع ہوگیا اور اتنا تابع ہوگیا کہ نواز شریف کو مجبوراً رائیونڈ جانا پڑا، تبلیغی جماعت کے اجتماع میں جانا پڑا، بحیثیت وزیراعظم آپ کو تو سب کے پاس جانا چاہیئے تھا، آپ کو تو الیاس قادری صاحب کے دعوت اسلامی کے اجتماع میں بھی جانا چاہیئے تھا، آپ کو اہل تشیع کے جلوس میں بھی جانا چاہیئے تھا، لیکن آپ کہیں نہیں گے، کیونکہ آپ صرف اور صرف سعودی عرب کے وہابی نظریات کے تابع ہیں، یہ بھی ایک وجہ ہے جو آڑے آتی ہے۔

اسلام ٹائمز: اگر وزیراعظم ہی نہ چاہے تو دہشتگردی کا خاتمہ کیسے ممکن ہوگا۔؟
مفتی عبدالعلیم قادری:
مسلم لیگ (ن) کے زعماء کو چاہیئے کہ وہ پرانے مسلم لیگی علماء کرام کو سامنے لے کر آئیں، چاہے وہ سنی ہیں، شیعہ ہیں یا کوئی بھی، انہیں طاقت دیں، اگر آپ پاکستان میں فتنہ فساد کی سرکوبی چاہتے ہیں، تو آپ پاکستان بنانے والے علمائے کرام کو اور ان کی اولادوں کو میدان میں لائیں، انہیں اہمیت دیں۔

اسلام ٹائمز: کچھ افراد علماء کے لبادے میں کفر و شرک کے فتوے دیتے ہیں، جنکے خلاف کارروائی کی جائے تو اسے علمائے کرام کیخلاف سازش قرار دیدیا جاتا ہے، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
مفتی عبدالعلیم قادری:
جو بھی فساد پھیلانے کا باعث ہو، چاہے وہ علماء کے لبادے میں ہی کیوں نہ ہو، اسے گرفتار کرنا چاہیئے، میں اگر ملک و قوم کے خلاف قدم اٹھاتا ہوں، تو میرے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیئے، کوئی بھی عالم دین ہو، اگر وہ پاکستان کے نظریات کے خلاف کام کر رہا ہے، آئین و قانون کے خلاف اقدامات کرتا ہے، آئین پاکستان کے مخالف جانا پاکستان توڑنے کے مترادف ہے۔ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جب دہشتگردی اور انتہا پسندی کے خلاف آپریشن ردالفساد کا آغاز کیا، تو اہلسنت والجماعت کے اکابرین، مشائخ، علماء و لوگوں نے اس کی حمایت کی، کیونکہ جمعیت علمائے پاکستان اور اکابرین و علمائے اہلسنت نے پاکستان بنانے میں صف اول کا کردار ادا کیا، جے یو پی کی ہمیشہ کوشش رہی ہے اور رہے گی کہ پاکستان محفوظ رہے، اس میں فتنہ فساد نہ ہو، اہلسنت والجماعت اس لئے آپریشن ردالفساد کی حمایت کرتے ہیں، کیونکہ ملک میں فتنہ پھیلانا قتل و غارت گری سے بھی زیادہ سخت ہے، لہٰذا تمام سنیوں نے ان زعماء کی حمایت کی، فوج اچھی حکمت عملی کے تحت دہشتگردوں فتنہ گروں کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 621188
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش