0
Saturday 25 Mar 2017 14:16
ممکنہ بغاوت کو کچلنے اور سعودی فوج کو دباؤ میں رکھنے کیلئے کثیر الملکی فوجی اتحاد تشکیل دیا گیا

آل سعود طاقت کی قوت خرید رکھتے ہیں، وہ طاقت خریدتے بھی ہیں اور کرائے پہ بھی لیتے ہیں، ڈاکٹر ابوبکر عثمانی

حکومت کے نزدیک عوامی رائے یا اخلاقی اقدار کی کوئی اہمیت نہیں، محض ذاتی مفادات کا تحفظ ہی مقدم ہے
آل سعود طاقت کی قوت خرید رکھتے ہیں، وہ طاقت خریدتے بھی ہیں اور کرائے پہ بھی لیتے ہیں، ڈاکٹر ابوبکر عثمانی
معروف ریسرچ اسکالر، کالم نویس، مقالہ نگار، ڈاکٹر ابوبکر عثمانی کا نام کسی تعارف محتاج نہیں۔ طویل عرصہ شعبہ تدریس سے منسلک رہے ہیں۔ تاہم انکی وجہ شہرت انکی تحریریں ہیں۔ راولپنڈی، اسلام آباد کے مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیمی حوالے سے خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ حالات حاضرہ پر گہری نگاہ رکھنے کiساتھ ساتھ انقلاب اسلامی کے اثرات و ثمرات میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ بنیادی طور پر چکوال سے تعلق رکھتے ہیں، مگر ایک طویل عرصے سے وفاقی دارالحکومت میں مقیم ہیں۔ گذشتہ دو برس سے طبعیت کی ناسازی کے باوجود بھی قلمی سلسلہ رواں رکھے ہوئے ہیں اور اپنی رہائشگاہ پر طالب علموں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ مختلف ممالک کا سفر کرنیکے بعد اپنے مشاہدات کو قلم بند کرچکے ہیں۔ سعودی سربراہی میں کثیر الملکی فوجی اتحاد کے اہداف، اسکی سربراہی کیلئے جنرل راحیل کو این او سی کی فراہمی کے موضوع پر اسلام ٹائمز نے ڈاکٹر ابوبکر عثمانی کیساتھ ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا ہے، جسکا احوال انٹرویو کی صورت میں پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: حکومت پاکستان نے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو این او سی جاری کر دیا ہے کہ وہ 39 ملکی اتحاد کی کمان سنبھالیں، کیا یہ حکومتی اقدام پاکستان کی غیر جانبداری پر ایک سوالیہ نشان نہیں ہے۔؟
ڈاکٹر ابوبکر عثمانی:
اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان غیر جانبدار ہے۔؟ حالانکہ ایسا نہیں ہے، پاکستان نہ پہلے غیر جانبدار تھا اور نہ آج غیر جانبدار ہے اور نہ ہی ایسا ممکن ہے۔ حکومت کی جانب سے جنرل راحیل شریف کو این او سی جاری کرنا گرچہ ایک فارمیلٹی ہے، مگر اس بات کا اعلانیہ اقرار بھی ہے کہ پاکستان نے اپنا وزن یمن پر حملہ آور جارح اتحاد کے پلڑے میں ڈال دیا ہے اور یہ معاملات تو پہلے سے ہی طے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ معاملات ملکوں کے مابین نہیں بلکہ حکمران خاندانوں کے درمیان طے پائے۔ دو ایسے حکمران خاندان کہ جو محض اپنے اقتدار کو دوام دینے کیلئے کس بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ حالانکہ یمن کمزور، مظلوم، غریب مسلمان ملک ہے، سعودی عرب اور اس کا اتحاد جارح، غاصب اور حملہ آور ہے۔ اس فیصلے سے حکومت نے ایک مرتبہ پھر ثابت کیا ہے کہ ان کے نزدیک اخلاقی اقدار یا عوامی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے، بلکہ ذاتی مفادات کا تحفظ ہی مطمع نظر ہے۔ دو حکمران خاندانوں کے مابین
ایک دوسرے کے اقتدار کو تحفظ دینے کی ڈیل ہوئی ہے، سعودی حکمران طاقت خریدنے کی قوت خرید رکھتے ہے۔ سو اپنے اقتدار کے تحفظ کیلئے وہ طاقت خریدتے بھی ہیں اور کرائے پر بھی لیتے ہیں۔ چاہے یہ طاقت جیلوں میں بند تربیت یافتہ دہشت گردوں کی صورت میں ہو، یا ریٹائرڈ جرنیلوں، سابقہ پائلٹس، کمانڈوز، انٹیلی جنس افسران، پیشہ ور افرادی قوت کی صورت میں۔

جنرل راحیل شریف کو این او سی تو اسی روز ہی جاری ہوگیا تھا کہ جب دورہ سعودی عرب کے دوران انہیں اس اتحاد کی سربراہی قبول کرنے کی دعوت دی گئی تھی اور پاکستان حکومت، پارلیمنٹ، اداروں یا فوج نے اس پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا تھا۔ دوستی و دشمنی کا سوال اپنی جگہ، مگر ایک ملک کے باوردی سپہ سالار کو ذاتی حیثیت میں کوئی آفر دینا نہ صرف اس وردی، اس ملک اور اس ملک کے کروڑوں عوام کی تضحیک ہے بلکہ اس کی سابقہ خدمات کو بالعموم اور آئندہ خدمات کو بالخصوص متنازعہ بنانے کے مترادف ہے۔ اس کے علاوہ این او سی کا جاری کیا جانا، ایک سیاسی جماعت (حکمران) کا فیصلہ ہے، نہ کہ پاکستانی عوام کا۔ اگر پارلیمنٹ نے ایک مرتبہ متفقہ طور پر یہ کہہ دیا ہے کہ یمن تنازعہ میں پاکستان غیر جانبدار رہے گا، اس کے بعد یمن پر حملہ آور فوج کی سالاری کیلئے پاکستانی آرمی چیف کو این او سی جاری کرنا پارلیمنٹ کے اس فیصلے کی بھی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

اسلام ٹائمز: پہلے خبر آئی تھی کہ جنرل راحیل سعودی عرب سے ریکروٹمنٹ کیلئے پاکستان واپس آئے ہیں۔؟ پھر خبر آئی کہ پاکستان ایک بریگیڈ فوج بھی سعودی عرب بھیج رہا ہے۔؟ پھر وزیر دفاع نے کہا پاک فوج کسی ملک کیخلاف استعمال نہیں ہوگی، کیا عملی طور پر ایسا ممکن ہے۔؟
ڈاکٹر ابوبکر عثمانی:
دیکھیں بات یہ ہے کہ اس وقت بھی سینکڑوں ایسے پاکستانی سعودی عرب میں پھنسے ہوئے ہیں کہ جنہیں کئی کئی ماہ کے واجبات بھی ادا نہیں کئے گئے اور انہیں نوکریوں سے بھی نکال دیا گیا۔ اسی طرح عرب امارات نے پچاس ہزار سے زائد پاکستانیوں کو نکال کر مرحلہ وار بھارتیوں کو یہ نوکریاں دی ہیں۔ یہ وہی افرادی قوت ہے کہ جس نے سعودی عرب اور امارات کی تعمیر و ترقی میں اپنا خون پسینہ بہایا ہے۔ البتہ دوسرے کمزور ممالک پہ جارحیت اور وہاں کے بے گناہ لوگوں پہ زندگی کا دائرہ تنگ کرنے اور ان کا خون بہانے کیلئے افرادی قوت درکار ہے۔ کیا یہ حیرانگی کی بات نہیں ہے کہ
جن ممالک سے محنت کش نکالے جا رہے ہیں، ان ممالک کی داخلی و خارجی سکیورٹی کیلئے فوج بھیجی جا رہی ہے۔ وہ بھی ایسی صورت میں کہ جب اس ملک نے پڑوسی برادر اسلامی ملک پر خود ساختہ جنگ مسلط کر رکھی ہے۔ خبر نہیں غیرت و حمیت کی باتیں کرنے والوں کو وہ ردعمل کیوں یاد نہیں رہا جو کہ پارلیمنٹ کی قرارداد کے بعد امارات نے دیا تھا۔ اول تو یہ معاملہ پارلیمنٹ میں آنا ہی نہیں چاہیئے تھا، اگر آیا تو اس فیصلے پر ہر حال میں کاربند رہنے کی ضرورت ہے۔ ایسی کوئی صورت نہیں کہ پاکستانی فوج سعودی عرب جائے بھی سہی اور پاکستان پہ غیر جانبداری کا لبادہ بھی قائم رہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان جس اتحاد میں شامل ہے، اس اتحاد کے حقیقی اہداف کیا ہیں۔؟
ڈاکٹر ابوبکر عثمانی:
ہر شخص کی اپنی رائے ہے۔ سعودی عرب میں کوئی عوامی جمہوری حکومت نہیں ہے، نہ ہی حکومت کو عوامی تعاون حاصل ہے۔ آل سعود یعنی شاہی خاندان بہت بڑا ہے۔ موجودہ شاہ سلمان کے اقتدار میں آنے کے بعد اعلٰی عہدوں پہ اکھاڑ پچھاڑ کی گئی۔ یہاں تک کہ سابق بادشاہ کے کئی اہم فیصلوں کو بھی منسوخ کیا گیا۔ اہم عہدوں پر بالخصوص ولی عہد کی نامزدگی بھی معمول سے ہٹ کر کی گئی۔ ان ہنگامی فیصلوں کے باعث آل سعود خاندان جو کہ پہلے ہی آپسی رنجشوں کا شکار ہے، میں مزید پھوٹ پڑی۔ جس کے باعث بغاوت کا خدشہ شدید تھا۔ چنانچہ ایسے افراد کہ جو اہم عہدوں پر ذمہ داریاں انجام دے چکے تھے اور اثرورسوخ رکھتے تھے، انہیں منظر عام سے پیچھے دھکیلا گیا۔ بندر بن سلطان جو کہ شام کے محاذ کا اہم سعودی و امریکی مہرہ تھا اور سعودی شاہی خاندان میں امریکہ کے سب سے زیادہ قریب سمجھا جاتا تھا، مگر آج اس کا عمل دخل کہیں نہیں ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ممکنہ بغاوت کے خدشے کو کم سے کم کرنے کیلئے نہ صرف خارجی محاذ کھولے گئے بلکہ بذات خود سعودی عرب کی فوج کو بھی دباؤ میں رکھنے کیلئے کثیر ملکی اتحاد تشکیل دیا گیا۔ کبھی داعش، کبھی شام میں حکومت کی تبدیلی، کبھی یمن اور کبھی تحفظ حرمین اس کثیر الملکی فوجی اتحاد(جس میں وہ ممالک بھی شامل ہیں، جن کی سرے سے فوج ہی نہیں اور وہ ممالک سرے سے شامل ہی نہیں، جو داعش اور دہشت گردی کیخلاف حقیقی معنوں میں مصروف جنگ ہیں۔

اس کثیر الملکی فوجی اتحاد کی قیادت کیلئے جنرل راحیل کو بھی اسی لئے پیش کش کی گئی تھی، کیونکہ اسلامی دنیا میں پاک فوج کا بہرحال
ایک مقام ہے اور عرب بالخصوص سعودی عرب ضرب عضب کی کامیابیوں سے مرعوب ہیں۔ ضرب عضب سے پہلے اگر پاکستان کے اندر کا میڈیائی مزاج محسوس کریں تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ضرب عضب بھی شروع ہوگا، بلکہ یوں لگتا کہ اگر دہشت گردوں کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی تو معلوم نہیں کیا سے کیا ہو جائے گا، مگر پھر یک لخت میڈیا نے پلٹا کھایا اور وہ لوگ جو کہ دہشتگردوں کے نمائندے کے طور پر دن رات میڈیا پر موجود تھے۔ وہ منظر عام سے غائب ہوگئے۔ عوامی رائے عامہ کو تبدیل کرکے رکھ دیا گیا۔ ضرب عضب پورے غیض و غضب کیساتھ شروع بھی ہوا اور کہیں سے اس کیخلاف کوئی ایک آواز تک نہ اٹھی۔ اتنی موثر کارروائی کا اثر عربوں پہ زیادہ اس لئے بھی ہوا کہ مدارس کی زیادہ تر فنڈنگ انہی ممالک سے ہوتی تھی اور اپنی دانست میں وہ یہ سمجھتے تھے کہ دہشتگردوں یا نام نہاد جہادیوں کے حامیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ان کے خلاف موثر کارروائی ممکن نہیں، مذکورہ ممالک کو پاکستان میں دہشت گردوں کی گیرائی اور گہرائی اندازہ تھا۔ دہشت گردوں کی ڈیپتھ اور عوامی اثرورسوخ کا اندازہ ہونے کے باوجود ضرب عضب کی کامیابی واقعی غیر معمولی ہے اور اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے سعودی شاہی فرمانروا نے ضرورت محسوس کی کہ یمن جنگ، شاہی خاندان کے خلاف ممکنہ طور پر اٹھنے والی کسی بھی فوجی بغاوت یا عوامی تحریک کو بزور طاقت دبایا جائے۔

اسلام ٹائمز: کیا اس کثیر الملکی فوجی اتحاد کا کوئی مقصد ایسا بھی ہے کہ جس سے عالم اسلام کو فائدہ ہو۔؟
ڈاکٹر ابوبکر عثمانی:
گنبد خضرا کے نیچے جالیوں سے کبھی اندر جھانکیں تو حقیقت واضح ہو جائے گی کہ اسلام اور عالم اسلام کے کتنے خاطر خواہ ہیں۔ جن نام نہاد خادمین کو پیغمبر اکرم کی ضریح کی صفائی کا خیال برسوں تک نہ آئے، ان سے اسلام کی خدمت کی امید ’’دل بہلانے کو خیال اچھا ہے۔ اعلانیہ طور پر سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کئے ہیں۔ وہی یمن جہاں پر غیر انسانی بمباری کا سلسلہ جاری ہے، وہ بھی اس کثیر الملکی فوجی اتحاد کا حصہ ہے۔ ایک اسلامی ملک (شام) میں حکومت کی تبدیلی اور سربراہ مملکت جو کہ اپنے ملک میں موجود ہے، اسے ہٹانے کیلئے سعودی عرب امریکہ اور دیگر ملکوں سے حملوں کی التجائیں کرتا ہے اور ناکامی پر اسی فوجی اتحاد کی فوج شام میں اتارنے کی بات کرتا ہے۔ دوسری جانب یمن کا بھگوڑا
صدر جو کہ دوسرے ملک میں بیٹھ کر اپنی ہی عوام پہ بمباری اور کلسٹر بموں کی بارش کی حمایت کر رہا ہے۔ کشمیری مسلمانوں پر جبروستم کے پہاڑ ڈھانے والے بھارت کیساتھ معاہدے اور اسی اسلامی اتحاد میں شامل بعض ممالک کے ساتھ بھارت کے دفاعی اور سٹریٹجک معاہدے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آل سعود کے تحفظ کیلئے یہ نام نہاد اتحاد قائم ہے، جس میں بااثر ممالک کچھ لو ، کچھ دو کی بنیاد پر شامل ہیں۔ علاوہ ازیں اس اتحاد کو امریکی و اسرائیلی حمایت حاصل ہے۔ تو عالم اسلام کے مفادات کے تحفظ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ ایران کی قیادت میں قائم بلاک جو دہشت گردی کے خلاف مسلسل حرکت میں ہے۔ اس کے اثر و اہمیت کو کم کرنے کیلئے اس اتحاد کا ایک مقصد ابھی داعش کیخلاف ایکشن بیان کیا گیا۔ یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ مذکورہ اتحاد میں شامل بعض عرب ممالک پر انتہائی سنگین الزامات یہ بھی ہیں کہ وہ داعش کے یار و مددگار ہیں۔

اسلام ٹائمز: .پاکستان کی خارجہ پالیسی کیا ملکی مفادات اور عوامی خواہشات کے تابع ہے۔؟
ڈاکٹر ابوبکر عثمانی:
خارجہ پالیسی کسی بھی ملک کی عوامی خواہشات پہ ترتیب نہیں دی جاتی۔ اگر ایسا ہوتا تو دنیا میں شائد بدامنی نہ ہوتی۔ امریکہ اور اس کے اتحادی دنیا کے کئی ممالک پر نہ چڑھ دوڑتے۔ پاکستانی سرحدیں خاردار تاروں اور بارودی سرنگوں سے نہ اٹی ہوتیں۔ خارجہ پالیسی مفادات کو مقدم رکھ کے ترتیب دی جاتی ہے۔ جن ممالک میں اقدار و اخلاقیات کی کوئی اہمیت ہوتی ہے، وہ ان کی خارجہ پالیسی میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ جن ممالک کے حکمران ان سے عاری ہوتے ہیں، اس کی خارجہ پالیسی بھی اخلاق و اقدار سے مبرا ہوتی ہے۔ ہمارے ساتھ المیہ یہ ہے کہ ہماری پالیسی ملکی مفاد کے بجائے حکمرانوں کے مفادات کو مقدم رکھ کر ترتیب دی جا رہی ہے۔ حکمران اپنے ذاتی احسانات کا بدلہ ملکی ترقی و تقدیر سے چکا رہے ہیں۔ اگر ملکی مفاد ہی مقدم ہوتا تو کیا پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ تاخیر کا شکار ہوتا۔ کیا ای سی او میں پاکستان کا کردار محض اتنا ہی فعال ہوتا۔ کیا یمن پر حملہ آور الائنس میں شامل ہوتا یا نائن الیون سے پہلے امریکی مفادات کی لڑائی کو اپنے لئے واجب جہاد قرار دیتا یا نائن الیون کے بعد انہی جہادیوں کو فسادی ڈکلیئر کرتا۔ آج کی خبر ہے کہ نیٹو کے سپریم کمانڈر نے امریکی سینیٹ میں کہا ہے کہ روس افغان طالبان
کو اسلحہ و مدد فراہم کر رہا ہے۔ یہ روس وہی ہے کہ جس کیخلاف امریکہ نے پاکستان کے ذریعے جہاد کیا۔ آج وہی ملحد، کیمونسٹ روس جہادیوں پر مہربان ہے۔ ماضی میں نام نہاد جہادیوں کا پیشوا یعنی امریکہ آج وہی جہادی اسی امریکہ کے خلاف مصروف جنگ ہیں اور حیرت ہے، اس جنگ کو بھی جہاد قرار دیتے ہیں۔ یعنی جو لڑائی امریکی خواہشات اور امریکی وسائل اور امریکی قیادت میں لڑی گئی، وہ بھی جہاد اور جو لڑائی امریکہ کے خلاف جاری ہے، وہ بھی جہاد۔ حقیقت یہی ہے کہ جنگ، جہاد اور فساد کبھی بھی سیاسی مقاصد سے خالی ہو ہی نہیں سکتے۔ دہشت گردی آج ایک پراڈکٹ ہے، ایک انڈسٹری ہے، دنیا کے بڑوں کا کاروبار ہے۔ نام نہاد جہاد، فساد یا ردالفساد، اصل میں مفاد، مفاد اور بس مفاد ہے۔ کہیں ذاتی، کہیں ملکی۔ ہمارے ادارے آزاد نہیں تو خارجہ پالیسی آزاد کیسے ہوسکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: اگر کثیر الملکی فوجی اتحاد داعش کیخلاف ہے تو کیا اسکا خیر مقدم نہیں ہونا چاہیئے۔؟
ڈاکٹر ابوبکر عثمانی:
طالبان، القاعدہ، داعش، بوکو حرام اور اس طرح کے دیگر ناموں کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک ہی ملٹی نیشنل کمپنی کی مختلف مصنوعات۔ دہشتگردی ایک عالمی کاروبار کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ اس کاروبار کو تخلیق کرنے والے، پھیلانے والے، فروغ دینے والے اور اس سے نفع حاصل کرنے والے (امریکہ اور اس کے حلیف) اسی دہشت گردی کو ختم کرنے کے اعلانات کرتے ہیں اور اپنے عزائم کے حصول کیلئے مختلف ملکوں کو حالت جنگ میں مبتلا کرتے ہیں۔ اس کاروبار میں امریکہ اور دیگر چند ممالک کو تو فائدہ ہی فائدہ ہیں، البتہ پوری دنیا کو ناقابل تلافی خسارہ ہے۔ اس داعش کے خلاف امریکی ایما، سعودی قیادت اور اسرائیلی خواہش پر مبنی اتحاد کتنا خوش آئند ہوسکتا ہے۔ جو داعش امریکہ نے تخلیق کی ہو، سعودی سرمائے سے پروان چڑھی ہو اور اسرائیلی کمک سے جس نے شام کو تہس نہس کیا ہو۔ یقیناً یہ عجیب بات ہی ہے کہ اسی داعش کے خلاف ایسا اتحاد تشکیل پایا ہے، جس کی سربراہی سعودی عرب کے پاس ہے اور خیر مقدم امریکہ کر رہا ہے۔ داعش جس نے سب سے زیادہ شام میں تباہی پھیلائی، یہ اتحاد اسی شام پر حملے کی دھمکیاں بھی دیتا ہے۔ اس تناظر میں تو اتحاد اور دہشتگردوں کے مقاصد مشترکہ ہیں۔ دہشتگردی چند ممالک کا نفع بخش کاروبار ہے اور وہ اس نفع بخش کاروبار سے کنارہ کش نہیں ہوسکتے۔
خبر کا کوڈ : 621295
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش