0
Sunday 26 Mar 2017 11:49
جموں و کشمیر کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ خود یہاں کی عوام کریں، جسکا حق انہیں اقوام متحدہ نے دیا ہے

بھارتی تسلط کے ہوتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پاسداری کے بارے میں سوچنا عبث ہے، نثار حسین راتھر

نام نہاد انتخابات سے ہماری تحریک آزادی کو نقصان پہنچ رہا ہے، عوام مکمل بائیکاٹ کرکے اپنی ذمہ داری ضرور نبھائیں گے
بھارتی تسلط کے ہوتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پاسداری کے بارے میں سوچنا عبث ہے، نثار حسین راتھر
جموں و کشمیر کی بھارت سے آزادی اور حق خودارادیت کے حصول کی غرض سے 26 سال قبل شیعیان مقبوضہ کشمیر کی عسکری تنظیم وجود میں آئی، جسکا نام حزب المومنین رکھا گیا، شیعیان کشمیر کو بارہ سال قبل اس تنظیم کیساتھ ساتھ ایک سیاسی تحریک کی بھی ضرورت محسوس ہوئی، جسکے نتیجہ میں تحریک وحدت اسلامی وجود میں آئی، یہ تنظیم اپنے کل وجود کیساتھ بھارت کے کشمیر پر غاصبانہ و جابرانہ قبضہ کیخلاف جہد پیہم میں مصروف ہے، اس آزادی پسند سیاسی تنظیم کے چیئرمین کے فرائض گلشن عباس انجام دے رہے ہیں اور جنرل سکرٹری کی ذمہ داری محمد یوسف ندیم نبھا رہے ہیں، تحریک وحدت اسلامی جو سید علی شاہ گیلانی سے منسوب نمائندہ فورم کل جماعتی حریت کانفرنس (APHC) میں گروپ بندی سے بالاتر ہوکر شیعیانِ جموں و کشمیر کی سیاسی تنظیم کی صورت میں اہم اکائی کے طور پر نمائندگی کر رہی ہے، تحریک وحدت اسلامی کے سابق چیئرمین نثار حسین راتھر کو اس عظیم مشن کی خاطر ایک پاوں سے محروم بھی ہونا پڑا، اسلام ٹائمز نے ایک خصوصی نشست کے دوران نثار حسین راتھر کیساتھ خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: کیا بھارت و پاکستان کے درمیان مذاکراتی عمل پھر سے شروع ہوسکتا ہے اور کیا یہ مذاکرات ثمر آور ثابت ہوسکتے ہیں۔؟
نثار حسین راتھر:
بھارت اور پاکستان کے مابین بات چیت کا عمل اُتنا ہی پرانا ہے، جتنا کہ تنازعہ کشمیر، مگر حقائق گواہ ہیں کہ ان سے آج تک کوئی بھی نتیجہ برآمد نہیں ہوا، اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ان دوطرفہ مذاکرات و معاہدات میں کشمیریوں کو نمائندگی نہیں دی گئی، ہم مذاکراتی عمل کے خلاف نہیں ہیں، مگر یہ مذاکرات بامعنی ہوں اور ان میں یہاں کے نمائندوں کو ساتھ لیکر تنازعہ کو ایڈریس کیا جائے تو نتائج برآمد ہوسکتے ہیں، البتہ ہم نئی دہلی اور اسلام آباد کے مابین بہتر تعلقات کے خلاف نہیں ہیں، دونوں ممالک اپنے تعلقات بڑھانے کے لئے بات چیت شروع کرسکتے ہیں، مگر جنوب ایشیاء کے اندر قیام امن کے لئے تنازعہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے، جس کے لئے کشمیریوں کا بات چیت میں شامل ہونا پہلی اور واحد شرط ہے۔

اسلام ٹائمز: بھارت کے فوجی جماؤ کے ہوتے ہوئے کیا حقوق انسانی کی پاسداری و لحاظ کرنا ممکن ہے۔؟
نثار حسین راتھر:
جدید دنیا میں اگر انسانی حقوق کی پامالی دیکھنی ہو تو بدقسمتی سے اُس کے لئے کشمیر واحد خطہ ارض ہے، یہ ساری پامالیاں بھارت صرف اپنے ناجائز فوجی قبضے کو جاری رکھنے کے لئے انجام دیتا آ رہا ہے، اس لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ بھارتی قبضے کی موجودگی میں ان کے اندر کوئی کمی واقع ہو، البتہ بھارت میڈیا کے ذریعے عالمی برادری کو گمراہ کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہوگیا ہے، وہ یہ تاثر دیتا آ رہا ہے کہ انسانی حقوق کی پاسداری کا سبق صرف وہی جاتنا ہے، میرا یہ دعوٰی ہے کہ بھارتی قبضہ کی موجودگی میں جموں کشمیر کے اندر انسانی حقوق کی پاسداری کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا ہے، کیونکہ استصواب رائے عامہ سے محروم رکھنا یہاں کے لوگوں کے ساتھ سب سے بڑی اور اولین حقوق کی پامالی ہے۔

اسلام ٹائمز: آئندہ ماہ بھارت کیجانب سے مقبوضہ کشمیر میں کرائے جانیوالے الیکشن کے بارے میں آپکی رائے کیا ہے۔؟
نثار حسین راتھر:
کشمیر ایک متنازعہ سرزمین ہے اور کوئی فریب یا الیکشن اس کا حل نہیں ہوسکتا، جموں کشمیر عالمی سطح پر تسلیم شدہ ایک متنازعہ سرزمین ہے اور کشمیری عرصہ دراز سے اپنی تقدیر سازی کے لئے برسر جدوجہد ہیں۔ اس مسئلے کے حل سے تساہل اور تغافل امن و استحکام کے لئے سم قاتل ہے، 1947ء میں متنازعہ الحاق کی دستاویز میں بھی لکھا گیا تھا کہ یہ ایک عارضی انتظام ہے اور لوگوں سے اس بارے میں پوچھنے کے بعد ہی جموں کشمیر کے مستقبل کا حتمی فیصلہ کیا جائے گا، خود بھارت اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے گیا، جہاں کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کی بات کی گئی۔ کشمیریوں کو مستقبل کے تعین کا حق دیا جانا چاہیے، الیکشن آزادی کشمیر کا نعم البدل نہیں ہوسکتا ہے۔ بھارت نواز سیاستداں الیکشن کے وقت آکر ہم سے سڑک، بجلی، پانی، نوکری اور ایسی ہی دوسری ضروریات کے نام پر ووٹ مانگتے ہیں، لیکن الیکشن کے بعد یہ لوگ اور ان کے بھارتی آقا ان الیکشنوں کو کشمیریوں کی مستقبل سازی سے جوڑ کر دنیا کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان بیانات سے ہمیں اندازہ ہو جانا چاہئے کہ الیکشنی سیاست ہمارے لئے کتنی تباہ کن اور ہماری آزادی کی راہ میں کتنی بڑی رکاوٹ ہے۔ بھارت نواز سیاست دان اور الیکشنی عمل میں شریک ہونے والے لوگ کسی بھی صورت میں کشمیریوں کے ہمدرد نہیں ہوسکتے، بلکہ یہ ہر لحاظ سے بھارتی مفادات کے ترجمان اور رکھوالے ہیں۔

اسلام ٹائمز: بھارت یہ ثابت کرنیکی کوشش کرتا ہے کہ جموں و کشمیر کی اکثریت الیکشن مہم کا حصہ بن جاتی ہے، اس حوالے سے آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
نثار حسین راتھر:
جموں کشمیر میں الیکشن کا موضوع بہت ہی دلچسپ ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ اور لوگوں کی طرح ہی یہاں کے لوگوں کے بھی اپنے مسائل ہیں، یہاں بننے والی حکومتوں کا مینڈیٹ سڑکوں اور بیت الخلاﺅں کی تعمیر سے زیادہ نہیں ہے، لوگوں کو ضروریات زندگی کی فراہمی بھی یہاں کی سرکار کے مینڈیٹ میں آتا ہے، مگر جب بھی الیکشن کا ٹائم آتا ہے، ایک ایسی ہوا کھڑی کی جاتی ہے کہ جیسے یہ بھارت یا اس کے خلاف رائے کا معاملہ ہو، یہاں کی بھارت نواز جماعتیں بھی ایسے بیانات دینا شروع کرتی ہیں، جیسے تنازعہ کشمیر اُنہیں ہی حل کرنا ہو، حالانکہ حقیقت میں وہ نئی دہلی کے آلہ کار ہیں اور نئی دہلی کی ہی ایماء پر وہ ایک ایسا ہوّا کھڑا کرتے ہیں، جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ووٹ دینا اصل میں بھارت کے حق میں ووٹ ہے اور اس کا بائیکاٹ کرنا اس کیخلاف رائے ہے۔ دراصل الیکشن عمل میں بھارت نواز لوگوں کے ووٹ حاصل کرنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہاں کے لوگوں کو زندہ رہنا ہے اور اُس کے لئے اُن کی کچھ ضرورتیں ہیں، اس لئے وہ الیکشن عمل کا حصہ بنتے ہیں۔ میں اتنا کہنا چاہوں گا کہ کشمیری ملت کو بھارت کی شاطرانہ سازشوں سے ہوشیار رہنا چاہئے۔

اسلام ٹائمز۔ انتخابات کے پیش نظر حریت لیڈران کو گھروں یا جیل خانوں میں مقید رکھ کر انہیں الیکشن بائیکاٹ مہم نہیں چلانے دی جا رہی ہے، اس حوالے سے آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
نثار حسین راتھر:
دنیا میں جو کوئی بھی حق، انصاف و سچائی کی بات کرتا ہے، مظلوموں کی حمایت میں اٹھ کھڑا ہوتا ہے، اسے کسی نہ کسی طریقے سے مصائب و آلام کا شکار بنایا جاتا ہے، جہاں تک یہاں کے حریت زعماء کی گرفتاری کا تعلق ہے تو یہ ایک فطری بات ہے کہ بھارت نواز سیاسی جماعتیں اور آزادی پسند لوگ ایک دوسرے کے متضاد اور مختلف راہوں کے رہنما ہیں، دونوں مختلف محاذوں پر آگے بڑھ رہے ہیں، آزادی پسند یا حریت زعماء کشمیر کو ازل سے ہی ایک متنازعہ اور حل طلب مسئلہ سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جموں و کشمیر کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ خود یہاں کی عوام کریں، جس کا حق انہیں اقوام متحدہ نے دیا ہے، ظاہر سی بات ہے کہ بھارت نواز سیاسی جماعتیں اور خود بھارت کو یہ باتیں برداشت نہیں ہو رہی ہیں، اسی وجہ سے وہ کسی نہ کسی بہانے سے حریت لیڈران کو یا تو گھروں میں نظربند کر رہے ہیں یا پابند سلاسل بناتے ہیں، تاکہ وہ الیکشن بائیکاٹ مہم کامیاب نہ بنا سکیں۔

اسلام ٹائمز: بھارت کے اس الیکشن عمل اور عالمی سطح پر کشمیریوں کیخلاف جاری مہم کیخلاف کشمیر کے آزادی پسند لیڈران کا ردعمل کیا ہونا چاہیئے۔؟
نثار حسین راتھر:
میرے خیال سے اس تناظر میں حریت لیڈران کا کافی اہم رول بنتا ہے، حریت لیڈران کو اپنی پوری توانائی کے ساتھ اس پروپیگنڈے کا توڑ کرنا چاہیئے، انہیں دنیا کو کشمیر کی اصل صورتحال سے آگاہ کرنا چاہیئے، میڈیا کے ذریعہ دنیا کو کشمیر میں بھارت کی جانب سے روا رکھے گئے مظالم کی صحیح تصویر دکھا رہی ہے، اس طرح سے دیگر ذرائع اقوام عالم کو کشمیری کی صحیح تصویر دکھانی چاہیئے اور حقیقی صورتحال سے دنیا کو آگاہ کرنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: کیا بی جے پی جیسی شدت پسند اور فرقہ پرست جماعت کشمیر میں پنپ پائے گی اور عام کشمیری لوگوں کے کیا خیالات ہیں اس جماعت کے حوالے سے۔؟
نثار حسین راتھر:
بی جے پی کے بارے میں کہتا چلوں کہ یہ ایک فرقہ پرست اور شدت پسند جماعت ہے، اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لئے وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں، کشمیر میں اس جماعت کے وجود کو اگر سمجھا جائے تو یہ لوگوں کی رائے کو بانٹنا چاہتے ہیں اور لوگوں کو فرقہ پرستی کے رنگ میں رنگ کر اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتے ہیں، کشمیر میں اس جماعت کا وجود ناقابل برداشت اور یہ یہاں بڑی سرمایہ گذاری کرکے لوگوں کو اپنی جانب مائل کر رہے ہیں، جو انتہائی تشویشناک ہے۔

اسلام ٹائمز: بھارت کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی تشویشناک صورتحال عالمی سطح پر چھپائی جائے، جس کیلئے وہ طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتا رہتا ہے، اس پر کشمیری آزادی پسند قیادت کی ذمہ داری کیا بنتی ہے۔؟
نثار حسین راتھر:
دیکھئے، آج کل کے دور میں کوئی بھی چیز کوئی بھی حقیقت زیادہ دیر تک چھپائی نہیں جا سکتی ہے، ہاں وقتی طور پر اس پر پردہ ڈالا جا سکتا ہے، لیکن کبھی نہ کبھی حقیقت عیاں ہوتی ہے، آج اگر بھارت اپنے وسائل کے ذریعے ہماری بات، ہمارے جذبات اور ہماری حق پر مبنی آواز کو دنیا تک نہیں پہنچنے دے رہا ہے اور ہماری جدوجہد آزادی کو دبائے ہوئے ہے، لیکن اس سب کے باوجود دنیا میں ایک انصاف پسند میڈیا بھی ہے، جو دنیا کے مظلوموں کی صحیح ترجمانی کرتا رہتا ہے، ماشاءاللہ یہاں کے لوگ اب سیاسی طور پر باشعور ہیں اور اپنی ذمہ داریاں سمجھتے ہیں، لیکن ہر سماج میں کچھ عناصر ہوتے ہیں، جو اپنا الو سیدھا کرنے کے فراق میں کافی حد تک گر سکتے ہیں، آج کشمیر کی عوام کو پتہ ہے کہ ان نام نہاد انتخابات سے ہماری تحریک آزادی کو نقصان پہنچ رہا ہے اور وہ مکمل بائیکاٹ کرکے اپنی ذمہ داری ضرور نبھائیں گے اور بھارت کو یہ پیغام دیں گے کہ ہمیں انتخابات نہیں آزادی چاہیئے، ہمیں دھوکہ و فریب نہیں بلکہ عزت و سربلندی کا راستہ اپنانا ہے۔
خبر کا کوڈ : 621441
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش