0
Tuesday 28 Mar 2017 00:18
اگر سعودی فوجی اتحاد کسی اسلامی ملک کیخلاف ہے تو جنرل راحیل سالاری قبول نہ کریں

یمن جنگ کا فائدہ اسلام دشمنوں کو اور نقصان مسلمانوں کو ہو رہا ہے، صاحبزادہ نثار المصطفٰی

اسلامی ممالک کا وہ اتحاد وحدت کے معیار پر پورا اترتا ہے جس میں تمام مسلم ممالک شامل ہوں
یمن جنگ کا فائدہ اسلام دشمنوں کو اور نقصان مسلمانوں کو ہو رہا ہے، صاحبزادہ نثار المصطفٰی
صاحبزادہ نثار المصطفٰی معروف مذہبی شخصیت ہیں۔ اٹھائیس سال سے راولپنڈی میں خطیب، مدرسہ فیض القرآن کے مہتمم، آستانہ دربار عالیہ حسن ابدال کے گدی نشین اور خانقاہ معلٰی باغدرہ شریف کے سرپرست ہیں۔ تصوف سے وابستہ، تحریک اخوت اسلامی کے سرگرم عہدیدار، اتحاد بین المسلمین کے داعی ہونے کے ناطے کئی ملکوں کے دورے کرچکے ہیں۔ یورپ میں بھی ان سے عقیدت رکھنے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ اسلام ٹائمز نے اپنے قارئین کیلئے صاحبزادہ نثار المصطفٰی سے ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا، جسکا احوال انٹرویو کی صورت میں پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: سعودی عرب کیجانب سے عرصہ دو سال سے یمن پر یکطرفہ بمباری کا سلسلہ جاری ہے، جس میں مرد، خواتین اور بچے بلاتفریق نشانہ بن رہے ہیں، ان ہلاکتوں کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
صاحبزادہ نثار المصطفٰی:
اس میں کوئی شک نہیں کہ یمن ایک غریب مسلمان اور تاریخی اہمیت کا حامل ملک ہے۔ میرا نہیں خیال کہ یمنی مسلمانوں کے قتل عام یا ہونے والے نقصان کا کسی بھی ملک یا تنظیم نے خیر مقدم کیا ہو، کرنا بھی نہیں چاہیئے۔ پہلے حرمین شریفین کو لاحق خطرات کی بات کی گئی تھی، مگر میں نہیں سمجھتا کہ حرمین شریفین کو کسی مسلمان سے، کسی مسلمان ملک سے کوئی بھی خطرہ ہے۔ ہاں خطرہ ہے تو صرف ان سے جو اسلام کے بھی دشمن ہیں، مسلمانوں کے بھی دشمن ہیں۔ سعودی عرب کی اس جنگ کا بھی اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کو فائدہ ہو رہا ہے۔ افسوس ہے کہ مرنے اور مارنے والے مسلمان ہیں، نقصان صرف اور صرف مسلمانوں کا ہے۔ جس سے اجتماعی قوت و طاقت کمزور ہوگئی ہے اور مزید ہو رہی ہے۔ یہ جنگ اور اس میں ہونے والا نقصان قابل افسوس ہے۔ مسلمان تو وہ ہے کہ جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ ایک مسلمان کو دوسرے غریب مسلمان کی امداد کرنی چاہیئے، نہ کہ اسے ایذا پہنچائے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے مسلمانوں کی اجتماعی وحدت کی بات کی، 34 ملکی اتحاد جو کہ یمن جنگ میں شامل ہے، کیا اس وحدت کے معیار پر پورا اترتا ہے۔؟
صاحبزادہ نثار المصطفٰی:
امت مسلمہ کا ایک پلیٹ فارم پہ اکٹھا ہونا، آپس میں اتحاد و وحدت بہت اچھی چیز ہے۔ مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ اس میں مسلمانوں کی اجتماعی نمائندگی شامل ہو۔ یعنی تمام مسلمان ممالک شریک ہوں۔ ایران ایک ذمہ دار اہم اسلامی ملک ہے۔ اس کے علاوہ دیگر کئی مسلمان ملک ایسے ہیں، جو اس اتحاد میں شامل نہیں ہیں۔ فوجی اتحاد مسلمانوں کے دشموں کے خلاف ہونا چاہیئے۔ اس اتحاد میں تو وہ مسلمان ملک بھی شامل ہیں، جو ایک دوسرے کے خلاف ہیں۔ اس کے علاوہ یمن بھی ایک اسلامی ملک ہے۔ اس پر حملوں میں بھی یہی اتحاد مصروف ہے۔ چنانچہ اس اتحاد سے ملکی سطح پر مسلمانوں کی تفریق ہونے کا بھی اندیشہ پیدا ہوگیا ہے۔ یعنی جو ملک اس میں شامل نہیں، کیا وہ اس کے خلاف ہیں۔؟ اگر خلاف ہیں تو کیا وہ اسی طرح اپنا فوجی اتحاد قائم کریں گے۔؟ ایسی صورت میں اجتماعی وحدت کو فروغ حاصل ہوگا یا اسلامی ممالک کے مابین فاصلے بڑھیں گے۔ میں یہی سمجھتا ہوں کہ حقیقی اتحاد وہی ہوگا، جس میں تمام اسلامی ممالک شامل ہوں۔ اس کیلئے میں خود بھی دعا گو ہوں۔

اسلام ٹائمز: جنرل راحیل شریف جو کہ پاکستان کے سابق آرمی چیف ہیں، وہ اس اتحاد کی کمانڈ کرنے جا رہے ہیں، کیا حکومت پاکستان کا یہ فیصلہ درست ہے۔؟
صاحبزادہ نثار المصطفٰی:
جنرل راحیل بہت اچھی شہرت رکھنے والے پاکستانی آرمی چیف ہیں۔ انہی کے دور میں دہشت گردوں کے خلاف سب سے زیادہ کارروائیاں کی گئیں۔ اس اتحاد کی کمانڈ کیلئے جنرل راحیل شریف کی پیشہ وارانہ خدمات جو انہوں نے اپنے ملک کیلئے انجام دیں، کو مدنظر رکھا گیا ہوگا۔ اس تقرری کے دو رخ ہیں۔ مثبت بھی اور منفی بھی۔ پاکستان نے ہمیشہ ہی اسلامی ممالک کے درمیان تنازعات کو ختم کرانے کیلئے کردار ادا کیا ہے۔ چنانچہ اس لحاظ سے کم از کم ایک یہ امید پیدا ہوتی نظر آئی ہے کہ جنرل راحیل کی کمانڈ میں کم از کم یہ اتحاد کسی اسلامی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگا۔ اس تقرری کا دوسرا رخ جو کہ منفی ہے، وہ یہ کہ جیسا میں نے پہلے بھی بتایا اس اسلامی فوجی اتحاد میں تمام اسلامی ممالک شامل نہیں ہیں۔ لہذا پاکستان کی غیر جانبداری پہ سوال اٹھ سکتے ہیں۔ ویسے ابھی تک تو یہ بھی واضح نہیں کہ اس اتحاد کا ہدف کیا ہے۔ جنرل راحیل شریف اس اتحاد کے ذریعے کونسا ہدف حاصل کریں گے۔ پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں پاک آرمی بطور ادارہ شامل ہے۔ افواج پاکستان اور دیگر ممالک کی افواج میں بھی تو فرق ہے۔ میرے خیال میں حکومت پاکستان نے تمام نکات کو ملحوظ رکھا ہوگا۔ جن اسلامی ممالک کو اس پہ تحفظات ہیں، ان تحفظات کو بھی پیش نظر رکھا ہوگا۔ اگر یہ اتحاد کسی اسلامی ملک کے خلاف ہے تو جنرل راحیل کو اس کی سالاری قبول نہیں کرنی چاہیئے اور حکومت پاکستان کو بھی سوچنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: بتایا جا رہا ہے کہ یہ اتحاد داعش کیخلاف ہے، کیا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں۔؟
صاحبزادہ نثار المصطفٰی:
یہ تو بہت اچھی بات ہے، دہشت گرد اسلام کے نام کو بدنام کر رہے ہیں، دہشتگردی کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے، اسلام کا معنی ہی سلامتی ہے۔ اسلام امن کا درس دیتا ہے۔ طالبان ہوں یا داعش، جو بھی دہشت گردی کرتا ہے، دین اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ جو لوگ دہشتگردی اور خودکش حملے کرتے ہوئے مر جاتے ہیں، وہ حرام کی موت مرتے ہیں، ایسے لوگوں کے لئے آخرت میں جنت نہیں جہنم ہے۔ داعش کے خلاف تمام اسلامی ملکوں کی مشترکہ کارروائی کا خیر مقدم ہونا چاہیے۔ تاہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ جن ملکوں میں داعش موجود ہے۔ جہاں داعش سب سے زیادہ کارروائیاں کر رہی ہے اور جو دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار ہیں، کیا وہ ملک اس اتحاد میں شامل ہیں۔ خبریں تو یہی بتاتی ہیں کہ عراق اور شام میں داعش سب سے زیادہ سرگرم ہے۔ اسی نے ان ممالک کے شہریوں پر زمین تنگ کی ہے، مگر وہ بھی تو اس اتحاد میں شامل نہیں۔ زیادہ تر تو وہ ملک شامل ہیں کہ جن کی فوج ہی نہیں یا پھر ان کی فوج اس اتحاد کا حصہ نہیں۔ داعش ہی اگر ہدف ہے تو وہ سارے ملک اور ان کی فوج اس اتحاد میں شامل ہو، جو داعش سے زیادہ متاثر ہیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں دہشتگردی کا سدباب کیسے ممکن ہے۔؟
صاحبزادہ نثار المصطفٰی:
پاکستان بھر میں ہونے والی دہشتگردی میں ایک مخصوص فرقہ ملوث ہے۔ حکومت، حکومتی ادارے اور عوام اس فرقے سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔ وہی لوگ ہماری آستین کے سانپ ہیں۔ پورے ملک میں بدامنی کے ذمہ دار یہی لوگ ہیں۔ یہ لوگ اسلام آباد میں بھی رہتے ہیں۔ میں متعدد پلیٹ فارمز پر مولوی عبدالعزیز کی گرفتاری کا مطالبہ کرچکا ہوں۔ حکومت کو ہر دہشت گرد، دہشت گردی کیلئے تاویلیں پیش کرنے والے، دہشت گردوں کی پشت پناہی یا انہیں زمینی، نظریاتی تحفظ فراہم کرنے والوں کے خلاف انتہائی سختی سے پیش آنا چاہیئے۔ ایک شخص دہشت گردوں کی اعلانیہ حمایت کرتا ہے، ان کو نظریاتی تحفظ فراہم کرتا ہے، معلوم نہیں اس کے خلاف قانونی کارروائی کیوں نہیں کی جاتی۔ ہمارے وزیر داخلہ کا لب و لہجہ اور رویہ ان عناصر کے ساتھ زیادہ نرم اور شیریں محسوس ہوتا ہے۔ ہماری درسگاہوں، سکولوں، یونیورسٹیز میں بچوں کو بیدردی سے مارا جا رہا ہے، جبکہ مولوی عبدالعزیز کی قبیل کے لوگ ان سانحات کی مذمت تک نہیں کرتے بلکہ دہشت گردوں کی جانب سے صفائیاں پیش کرتے ہیں۔ مولانا عبدالعزیز نے خود یہ کہا کہ پشاور کے آرمی پبلک سکول میں اگر بچے مرے ہیں تو صحیح ہوا ہے۔ ان کا یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ یہی لوگ دہشتگرد ہیں۔ ایسے افراد کو فی الفور گرفتار کیا جائے۔ اس مسلک اور اس سوچ کے لوگوں کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے اور انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ حکومت سے تو ہمارا مطالبہ یہی ہے کہ مولوی عبدالعزیز کو گرفتار کیا جائے اور سخت سزا دی جائے۔ حکومت کو صرف مساجد پر لگے اسپیکر نظر آتے ہیں، مولوی عبدالعزیز جیسے لوگ نہیں دکھائی دیتے۔ یہی لوگ دہشتگرد تیار کر رہے ہیں۔ ہر دہشتگردی میں یہی فرقہ ملوث ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں جتنے بھی مسالک ہیں، چاہیے وہ اہلسنت ہیں، اہل تشیع ہیں، سب پرامن ہیں۔ انتہائی امن اور بھائی چارے سے مل کر رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ جو غیر مذہب بھی پاکستان میں ہیں، چاہیے وہ سکھ ہیں، ہندو ہیں، مسیحی ہیں، وہ بھی سب کے سب انتہائی پرامن ہیں۔ دہشتگردی میں صرف یہی فرقہ ملوث ہے۔
خبر کا کوڈ : 622161
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش