0
Friday 31 Mar 2017 10:47
اُمت میں انتشار کیلئے سعودی عرب کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلائی جا رہی ہے

راحیل شریف کو متنازع اتحاد کی قیادت نہیں کرنی چاہیے، حاجی حنیف طیب

ایران کے بعد پاکستان میں اہل تشیع کی تعداد سب سے زیادہ ہے، حکومت ذاتی نہیں ملکی مفاد دیکھے
راحیل شریف کو متنازع اتحاد کی قیادت نہیں کرنی چاہیے، حاجی حنیف طیب
حاجی حنیف طیب نظام مصطفٰی پارٹی کے سربراہ ہیں، اس کیساتھ المصطفٰی ویلفیئر سوسائٹی کے بھی ہیڈ ہیں، وفاقی وزیر رہ چکے ہیں، جبکہ انجمن طلباء اسلام کے بانی رہنما ہیں۔ سنی اتحاد کونسل کے اتحادی ہیں، تاہم کونسل کے عہدے سے ذاتی مصروفیات کے باعث الگ ہوگئے۔ ملکی و بین الاقوامی حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں، مشرق وسطٰی اور پاکستان کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے "اسلام ٹائمز" نے ان کیساتھ لاہور میں ایک نشست کی، جسکا احوال قارئین کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: جنرل راحیل شریف کو سعودی اتحاد کی سربراہی کیلئے بھیجا جا رہا ہے، اس حوالے سے کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اسکی ضرورت ہے کہ پاکستان اپنا کوئی کردار ادا کرے۔؟
حاجی حنیف طیب:
پہلی بات تو یہ ہے کہ سعودی عرب کی قیادت میں بننے والا یہ اتحاد متنازع ہے، اس میں بہت سے اہم مسلمان ممالک کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس اتحاد میں سعودی عرب بذات خود کچھ نہیں بلکہ یہ مسلمانوں کیخلاف جنگ ہے، جس میں سعودی عرب کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلائی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے پاکستانی حکومت کو انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے، بلکہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا کہ راحیل شریف کے اس اتحاد کی قیادت سنبھالنے سے کہیں پاکستان کی اپنی حیثیت تو متنازع نہیں ہو جائے گی۔ کیونکہ پاکستان کو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا، یہ پوری دنیا کیلئے ایک مثالی ریاست ہے، ہم نے امت کو متحد کرنا ہے، امت میں اختلافات کو ختم کرنا ہے، لیکن اس اتحاد کے پیچھے تو اور مقاصد دکھائی دے رہے ہیں۔ سعودی عرب کی اپنی کوئی پالیسی نہیں، آج وہ اسرائیل سے دوستی کر رہا ہے، امریکہ کے ساتھ اس کی "گہری دوستی" ہے، ایسی صورت میں جو یہود ونصاریٰ کا ساتھی ہو، وہ امت مسلمہ کیلئے کہاں کام کرے گا۔ جہاں تک دہشتگردی کیخلاف جنگ کی بات ہے تو سعودی عرب واضح کرے کہ دہشتگرد ریاست کون سی ہے اور اس ریاست نے کہاں اور کیسے دہشتگردی کی ہے۔ ایسے ہی بے بنیاد باتوں پر تو کوئی اس طرح نہیں کرتا جو سعودی عرب پاکستان سے کروانے جا رہا ہے۔ تو ہم تو یہی کہیں گے کہ حکومت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے۔

اسلام ٹائمز: پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے تو مختلف ٹی وی چینلز پر اعتراف کیا ہے کہ وہ راحیل شریف کو سعودی عرب کے مطالبے پربھجوا رہے ہیں، تو کیا حکومت اتنا بڑا فیصلہ اکیلے لے سکتی ہے۔؟
حاجی حنیف طیب:
بالکل نہیں، یہ تو پارلیمنٹ کو بائی پاس کیا گیا ہے، یہ جمہوریت ہے اور جمہوریت میں پارلیمنٹ اعلٰی اختیاراتی ادارہ ہوتی ہے، اس میں حکمران ذاتی مفاد کیلئے فیصلہ نہیں کر سکتے۔ اگر ہم کہیں کہ سعودی عرب کے نواز شریف پر احسانات ہیں، تو کیا ہم اپنی فوج کو اسلام مخالف قوتوں کے حوالے کر دیں کہ وہ اسے اپنے مفاد میں استعمال کرتے پھریں۔ سعودی اتحاد جو بظاہر دہشتگردی کیخلاف بنایا گیا ہے، اس سے دہشتگردی ختم نہیں ہوگی بلکہ بڑھے گی۔ کیونکہ اس اتحاد میں ایران کو شامل نہیں کیا گیا، لبنان، شام اور دیگر اہم مسلم ممالک اس اتحاد کا حصہ نہیں ہیں تو پھر یہ کیسے مسلم اتحاد ہوگیا؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ میرے خیال میں حکومت پاکستان کو اس سے دور ہی رہنا چاہیے، تاکہ پاکستان کی حیثیت متنازع نہ ہو۔ کیوںکہ ہمارے لئے ایران بھی محترم ہے اور سعودی عرب بھی۔ ہم دونوں میں سے کسی کو ناراض نہیں کرسکتے۔ اس کیلئے یہ ہے کہ حکومت ذاتی مفاد نہیں ملک کے مفاد کو دیکھے، پہلے بھی سعودی عرب نے فوج بھیجنے کا مطالبہ کیا تھا، لیکن پارلیمنٹ میں بھی شور اٹھا اور عوام نے بھی مخالفت کی تو حکومت نے سعودی عرب کو کہہ دیا کہ ہماری پارلیمنٹ نہیں مان رہی، ممکن ہے اس وقت سعودی عرب کو یہ یقین دہانی کروائی گئی ہو کہ ابھی معاملہ گرم ہے، کچھ عرصے بعد ہم راحیل شریف کو آپ کے پاس بھجوا دیں گے اور اب حکومت نے یہی فیصلہ کر لیا ہے۔ لیکن اس بار بھی ہم حکومت سے یہی کہیں گے کہ ایران کے بعد پاکستان میں اہل تشیع کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور پاکستان کی شیعوں کی ہمدردیاں بلاشبہ ایران کیساتھ ہیں، تو حکومت ملک میں ماحول خراب نہ کرے، بلکہ اس موضوع پر پارلیمنٹ میں ایک بار پھر بحث کروا لے۔ پارلیمنٹ جو فیصلہ دے، اس پرعمل کروائے۔

اسلام ٹائمز: دنیا میں جہاں بھی دہشتگردی ہو رہی ہے، پکڑے جانیوالے سعودی عرب کے ہی نظریاتی اور ہم خیال ہوتے ہیں، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب خود سرپرستی کرتا ہے، تحریک طالبان ہو یا القاعدہ، یہاں تک کہ داعش کے ڈانڈے بھی سعودی عرب سے ملتے ہیں، پھر یہ دہشتگردی کو کیسے ختم کرینگے۔؟
حاجی حنیف طیب:
یہ امت مسلمہ کی بدقسمتی ہے کہ کچھ لوگوں نے اسلام کا چہرہ مسخ کرنے کیلئے یہ حرکتیں کیں، لیکن ان کی ڈوریاں کہیں اور سے ہلتی ہیں۔ داعش کی مثال آپ کے سامنے ہے، داعش کے زخمیوں کا علاج اسرائیل میں ہوتا ہے، داعش مسلمانوں کیخلاف برسرپیکار ہے، لیکن مظلوم اور نہتے فلسطینیوں کا قتل عام کرنیوالے اسرائیل پر حملہ نہیں کرتی، اب اسی اسرائیل کیساتھ سعودی عرب کی اچھی یاد اللہ ہے، تو یہ کڑیاں ملتی ہیں، اسی طرح پاکستان میں دہشتگردی کا بازار گرم کرنیوالی تحریک طالبان پاکستان ہے، تحریک طالبان کے ڈانڈے بھی سعودی عرب سے ملتے ہیں اور سعودی عرب کے پاکستان میں جو خاص دوست ہیں، انہی کے رابطے ہیں۔ اس حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کو زیادہ نقصان اپنوں نے ہی پہنچایا ہے۔ اب وہ سعودی عرب جو خود دہشتگردی کا سپانسر ہے، وہ دہشتگردی کیخلاف کیسے جنگ کرے گا۔

اسلام ٹائمز: سعودی عرب کا سارا زور تو بے چارے نہتے یمنوں کیخلاف ہی لگ رہا ہے، ہزاروں یمنی شہید ہوچکے ہیں، مساجد تک کو سعودی طیاروں نے نشانہ بنایا، کیا یہ دہشتگردی نہیں۔؟
حاجی حنیف طیب:
اصل میں یہی دہشتگردی ہے جو سعودی عرب کر رہا ہے، اس حوالے سے ہی تو دہشتگردی کیخلاف یہ اتحاد متنازع بن چکا ہے، اسی لئے تو ہم روز اول سے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کو سعودی اتحاد میں پہلے تو شامل نہیں ہونا چاہیے اور اگر شمولیت لازم ہے تو اس حوالے سے اپنی شرائط سعودی عرب کے سامنے رکھے۔ شرائط میں رکھا جائے کہ ایران سمیت دیگر مسلم ممالک بھی اتحاد کا حصہ ہوں گے، امت مسلمہ کے حقوق کیلئے یہ اتحاد کام کرے گا، امریکی یا اسرائیلی مفادات کیلئے نہیں، اس کے علاوہ یہ اتحاد امت کو جوڑنے کیلئے کام کرئے گا، امت میں انتشار کیلئے نہیں۔ دہشتگردوں کیخلاف بلاامتیاز کارروائی ہوگی، خواہ ان کا تعلق جس بھی ملک سے ہوگا۔ اس طرح کی اگر شرائط رکھی جائیں تو ممکن ہے یہ اتحاد کامیاب ہو، اگر سعودی عرب ان شرائط کو تسلیم نہیں کرتا تو اس سے معذرت کر لی جائے، کیونکہ ہم پاکستان کی حیثیت کو متنازع نہیں بنا سکتے۔ ہمیں پاکستان کا مفاد زیادہ عزیز ہے، اس سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں، ملکوں کی پالیسیاں صرف اپنے مفادات کے گرد گھومتی ہیں، واحد پاکستان ایسا ملک ہے، جو دوسرے کا ٹھیکیدار بننے میں ذرہ دیر نہیں لگاتا، ہمیں دوسروں کی بجائے اپنے گھر پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان پہلے دن سے کہتا آیا ہے کہ وہ مسلم ممالک کے حوالے سے غیر جانبدار ہے، کیا راحیل شریف کی تعیناتی سے یہ غیر جانبدارانہ حیثیت برقرار رہ پائے گی۔؟
حاجی حنیف طیب:
نہیں بالکل نہیں، یہ حیثیت تو ختم ہو جائے گی، ہم بھی تو یہی بات کر رہے ہیں کہ پاکستان کو سعودی اتحاد کی ذمہ داری نہیں لینی چاہیے اور سعودی عرب مجبور بھی کر رہا ہے تو ایران سمیت دیگر ممالک کو ساتھ ملانے کی شرط پر یہ ذمہ داری لی جا سکتی ہے۔ اس لئے کہ پاکستان نے امت مسلمہ کی رہنمائی کا کردار ادا کرنا ہے اور پاکستان واحد ایٹمی طاقت ہے، اس لئے اس کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں، پاکستان کو اپنی حیثیت کو متنازع نہیں بنانا چاہیے اور اگر حکمران سعودی احسانات کے بوجھ تلے اتنے ہی دبے ہوئے ہیں اور مجبور ہیں تو ایران کے تحفظات دور کریں، ایران وہ ملک ہے جس نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا تھا۔ اس لئے ایران کو ہم نظر انداز نہیں کرسکتے۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے فرمایا تھا کہ
تہراں ہو اگر عالم مشرق کا جنیوا
شائد کہ کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
تو ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ پوری امت کو ساتھ لے کر چلیں، دہشتگردی کا عفریت اِسی صورت ہی کنٹرول ہوسکتا ہے۔ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں، اگر کوئی اور پالیسی اختیار کی گئی، جیسا کہ سعودی عرب کر رہا ہے تو اس سے امت میں انتشار بڑھے گا۔ راحیل شریف سمجھدار آدمی ہیں، ہمیں توقع ہے کہ وہ اس معاملے کو بہتر انداز میں دیکھ رہے ہوں گے۔

اسلام ٹائمز: اب ذرا پاکستان کے اندرونی معاملات پر آتے ہیں، فوجی عدالتوں کی توسیع کے حوالے سے آئینی ترمیم کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
حاجی حنیف طیب:
خوشی کی بات ہے کہ قومی اسمبلی میں فوجی عدالتوں میں 2 سال کی توسیع کیلئے آئینی ترمیم منظور کر لی گئی۔ اس ترمیم کی مخالفت صرف وہ لوگ کر رہے ہیں، جو ملک میں دہشتگردی کا فروغ چاہتے ہیں، اس ترمیم کا کثرت رائے سے منظور ہونا ثابت کرتا ہے کہ عوامی نمائندے اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں، وہ ملک میں قانون کی پاسداری چاہتے ہیں۔ یہ اسی صورت ممکن ہے کہ جب تک ملک میں سے دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ کر نہیں رکھ دیا جاتا، امن قائم نہیں ہوسکتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد کے بغیر فوجی آپریشن کا مقصد پورا نہیں ہوسکتا، فوجی عدالتوں میں توسیع وقت کی اہم ضرورت تھی، جس سول حکومتیں ناکام ہوتی ہیں تو ایسے معاملات کو سنبھالنے کیلئے رینجرز اور فوج کو آگے آنا پڑتا ہے، اگر ہماری پولیس دہشتگردی پر قابو پالیتی تو فوج اور رینجرز کو میدان میں نہ آنا پڑتا، پوری قوم دہشتگردی کیخلاف آپریشن کے حق میں ہے، فوجی اداروں اور ان کی تنصیبات پر حملہ کرنیوالوں کو پکڑنا سول اداروں کا کام ہے، مگر جب ان کیلئے مشکل ہو جائے تو پھر فوج خود حرکت میں آجاتی ہے، فوج جب خود مجرموں کو پکڑتی ہے تو وہی ان کو سزا دینے کی مجاز ہے، ہمارے ہاں سول عدالتوں میں سالہا سال تک کیس چلتا ہے، پھر بعض اوقات وہاں سے مجرم بچ نکلتے ہیں یا سزا سے محفوظ رہ جاتے ہیں، جبکہ فوجی عدالتوں میں تیزی کیساتھ تمام مراحل طے پاتے ہیں، فوجی عدالتوں میں توسیع وقت کی ضرورت ہے اور یہ فیصلہ احسن اقدام ہے۔ دہشتگردی کسی ایک فرد یا پارٹی کا معاملہ نہیں یہ پوری قوم کا مسئلہ ہے۔

آپ نے دیکھا کہ فوجی عدالتوں سے ملنے والی سزاؤں پر فی الفور عملدرآمد ہونے سے دہشتگردی کے واقعات میں کمی واقع ہوئی۔ اس وقت ملک غیر معمولی حالات سے گزر رہا ہے، ایسے میں آئین میں ترمیم بھی ضروری تھی، کہ ملک کی سلامتی شدید خطرات سے دوچار ہے، اس لئے کہ مختلف دہشتگرد گروپ، ونگز اور مسلح طبقے نہ صرف اہم تنصیبات پر حملے کر رہے ہیں بلکہ قانون نافذ کرنیوالے کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ایسے گروہوں کیخلاف سخت اقدامات اٹھانے کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ جو بعض مذہبی گروہوں کی آڑ میں ملکی سالمیت کو نقصان پہنچا رہے تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ قومی اتفاق رائے سے معاملہ حل ہوگیا ہے اور آئین اور قانون کی پاسداروں نے باہمی مشاورت کے بعد فوجی عدالتوں میں مزید 2 سال کیلئے منظوری دے دی ہے، جس سے یقیناً قانون شکن عناصر کو دھچکا لگا ہوگا۔ سی پیک جیسے منصوبوں کیلئے بھی ملک سے دہشتگرد عناصر کا خاتمہ ضروری ہے، جن لوگوں کو فوجی عدالتوں کی توسیع پر تکلیف ہو رہی ہے، ان سے ہم پوچھتے ہیں کہ ہزاروں بے گناہوں کی شہادتوں پر تو ان کی آنکھیں نہیں بھیگیں، ان لوگوں نے کبھی کھل کر دہشتگردوں کی مخالفت نہیں کی۔ فوجی عدالتوں کے قیام پرقدغنیں لگانے والے اصل میں مجرموں کی سرپرستی کر رہے ہیں، دہشتگردی کی اس جنگ میں شہید ہونیوالے ہمارے ہیرو ہیں۔ ہمیں ان کی شہادتوں پر ناز ہے، ان کی قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی۔

اسلام ٹائمز: پاک افغان کشیدگی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
حاجی حنیف طیب:
افغانستان کیلئے پاکستان نے بہت قربانیاں دی ہیں، ہم نے ہی وہاں سے روس کو نکالا، افغانستان میں قیام امن کیلئے پاکستان کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، ہم نے افغان مہاجرین کو پناہ دی، اس احسان کا بدلہ ہمیں کیا ملا؟ کلاشنکوف کلچر اور ہیروین، ہمارے ملک میں منشیات کو فروغ ملا، قیمتی نوجوان نشے کی لت کی وجہ سے تباہ ہوگئے، اب آکے کچھ بہتری آئی ہے، منشیات کیخلاف عوامی شعور بیدار ہوا اور لوگ نشے سے نفرت کرنے لگے، کلاشنکوف کلچر سے ہمارا بہت نقصان ہوا، دہشت گردی ہمارے میں میں در آئی، طلباء کے ہاتھوں میں قلم کی بجائے کلاشنکوف ہوتی تھی، ملک میں فرقہ واریت کا جن بوتل سے باہر آگیا اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا، افغانستان کی محبت میں ہم نے بہت سے دکھ اٹھائے ہیں، لیکن اس احسان کا صلہ افغانستان نے یہ دیا کہ بھارت کی گود میں بیٹھ گیا، اب وہ بھارت کی زبان بول رہا ہے، پاکستانی سرحد کے قریب بھارتی قونصلیٹ دہشتگردی کو فروغ دے رہے ہیں، مولوی فضل اللہ سمیت دیگر دہشتگردوں کے افغانستان میں ٹھکانے ہیں، وہیں سے پاکستان میں دہشتگردی کنٹرول ہو رہی ہے، کلبوشن یادیو کی مثال آپ کے سامنے ہے، جو را کیلئے کام کر رہا تھا، اس لئے ہم حکومت پاکستان سے یہی کہیں گے کہ افغانستان کو ایک ہمسایہ ملک کے طور پر ہی لیا جائے، اس میں بھارتی اثرورسوخ زیادہ ہے، اس کو ملحوظ رکھ کر ہی پالیسی بنائی جائے۔ اسی میں ہماری بھلائی ہے۔ اب وقت گزر گیا، اب افغانستان کو ایک ملک کے طور پر ہی لیا جائے، ڈیورنڈ لائن پر باڑ کی تنصیب ایک اچھا اقدام ہے۔ اس سے دہشتگردی میں بھی کمی ہوگی اور امن بھی قائم ہوگا۔ اس کیساتھ حکومت فاٹا کے مسائل بھی حل کرے، وہاں کی پسماندگی دور کی جائے، وہاں انفرسٹرکچر بہتر کیا جائے، تعلیم اور صحت کی سہولتیں دی جائیں، فاٹا کے عوام محبت وطن ہیں، ان کی حب الوطنی کو شک کی نگاہ سے نہ دیکھا جائے۔
خبر کا کوڈ : 623230
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش