QR CodeQR Code

ایران کے اختلافات سعودی عرب سے ہیں، لیکن پاکستان سے نہیں

شام کیخلاف امریکہ کی کارروائی کا مقصد امن قائم کرنا نہیں بلکہ جنگ کی آگ کو بھڑکانا ہے، چوہدری عبدالرزاق ڈھلوں

پنجاب سے اسوقت دہشتگردوں کی بھرتی بند ہوچکی ہے

10 Apr 2017 11:10

پی ایم ایل این سرگودہا کے رکن پنجاب اسمبلی کا اسلام ٹائمز کیساتھ انٹرویو میں کہنا تھا کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان شدید تناؤ موجود ہے، دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے متعلق تحفظات ہیں، عالم اسلام کیلئے یہ صورتحال فائدہ مند نہیں، دونوں ممالک اسلامی دنیا کیلئے اہمیت کے حامل ہیں۔ لیکن پاکستان کے دونوں اسلامی ملکوں سے اچھے تعلقات ہیں۔ پاکستان دونوں ممالک کیساتھ تعلقات کو اہمیت دیتا ہے اور عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ پاکستان کا کردار ہمیشہ مثبت رہا ہے، آئندہ بھی امت مسلمہ کی بہتری کیلئے ہوگا۔ پاکستان کے عرب اتحاد میں شامل ہونے سے پہلے بھی ایران کے سعودی عرب سے متعلق تحفظات ہیں، جو بعد میں بھی رہیں گے۔


پاکستان مسلم لیگ نون سرگودہا کے رہنماء اور رکن پنجاب اسمبلی چوہدری عبدالرزاق ڈھلوں لوکل گورنمنٹ اور کیمونٹی ڈیولپمنٹ کے پارلمانی سیکرٹری اور پنجاب کی ایریگیشن اور پاور کمیٹی کے رکن ہیں۔ اسلام ٹائمز کیساتھ ملکی، بین الاقوامی صورتحال، دہشتگردی کیخلاف پنجاب حکومت کے اقدامات، عالم اسلام کی صورتحال اور دہشتگردی کے فروغ میں امریکہ کے کردار کے بارے میں انکا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: امریکہ کیجانب سے پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کروانے کے اشاروں کیوجہ کیا ہے، حالانکہ اس سے قبل امریکہ نے ہمیشہ دونوں ممالک کو دوطرفہ مذاکرات پر زور دیا ہے۔؟
چوہدری عبدالرزاق ڈھلوں:
ریاست جموں کشمیر کے عوام نے نصف صدی سے زیادہ عرصے تک اپنی آزادی کے لئے جو لامحدود خون بہایا اور قربانیاں دی ہیں، بھارت کی سیاسی قیادت اپنا ایک ہی موقف دہراتی آ رہی ہے۔ بھارت کی کشمیر پالیسی کو بارہا دہرانے کے بعد نئی امریکی انتظامیہ جو موقف پیش کر رہی ہے، درحقیقت یہ وہی موقف ہے، جسے وقت کے ساتھ ساتھ الفاظ بدل بدل کے دہرایا جاتا ہے اور اس کے عزائم کی تکمیل کے لئے پرانے الفاظ میں قدرے تبدیلی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو پاکستان اور انڈیا کے درمیان بگڑتے ہوئے تعلقات پر تشویش ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو تصادم میں تبدیل ہونے سے پہلے سنبھال لیا جائے۔ 70 سال کے بعد نئی امریکی انتظامیہ کی سوچ آج بھی اگر یہی ہے، تو پھر مسئلہ حل کرنے کا کوئی راستہ موجود نہیں۔ جو راستہ تینوں فریق یعنی پاکستان، بھارت اور کشمیری عوام جو کچھ چاہتے ہیں، اس سے مسئلے کا کوئی حل ڈھونڈنا دشوار ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل مندوب نے جو تجویز پیش کی ہے، اس میں بھارت کی روایتی ہٹ دھرمی کے سوا کوئی نئی بات نہیں۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان تصفیہ طلب مسائل کے حل کے لئے مصالحت کی امریکی پیشکش کا خیر مقدم کیا ہے جبکہ انڈیا نے ایک بار پھر اپنے موقف کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ دوطرفہ مذاکرات کے لئے دہشت گردی اور تشدد سے پاک ماحول ضروری ہے۔

پاکستان نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان مسائل کے حل کے لئے امریکہ کی طرف سے ثالثی کا کردار ادا کرنے کے بیان کا خیر مقدم کیا ہے، ہم اس طرح کی کسی بھی پیش کش کا ہمیشہ خیر مقدم کرتے ہیں، کیونکہ ہم انڈیا کے ساتھ مسائل کو دوستانہ انداز میں حل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس وقت ہمارا تقاضا ہے کہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں جو خونریزی جاری ہے، اسے بند کیا جائے اور انڈیا کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے، ہمارا موقف ہے کہ کشمیر کا معاملہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے، جس میں ان سے وعدہ کیا گیا ہے کہ کشمیریوں کو ان کا حقِ خود ارادیت دیا جائے گا اور اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کرائی جائے گی۔ اس سب کے باوجود میرے خیال میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان مصالحتی کردار ادا کرنے کے بیانات خطے کی جانب امریکی پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ ہیں، لیکن پھر بھی حقیقت یہی ہے کہ امریکہ ماضی کی پالیسی پر ہی عمل پیرا ہے۔ جیسا کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے بیان کے آخر میں ایک بار پھر کہا گیا ہے کہ ان مذاکرات میں امریکہ اپنا کردار مشورے تک محدود رکھنا چاہتا ہے، لیکن اگر ڈونلڈ ٹرمپ ان مذاکرات میں کوئی ٹھوس کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو مسئلہ کشمیر پر انڈیا کے تحفظات اور دوطرفہ مذاکرات کے مؤقف کو ایک طرف رکھتے ہوئے ثالثی کا کردار ادا کریں۔

پاکستان نے تو کہا ہے کہ اْس کے دروازے مذاکرات کے لئے کھلے ہیں، لیکن نائن الیون کے بعد انڈیا نے ایک بڑا سوچا سمجھا فیصلہ کر رکھا ہے کہ پاکستان کے ساتھ کشمیر پہ کوئی بات نہیں کرنی، عالمی دہشت گرد جذبات استعمال کرتے ہوئے کشمیر کے مسئلے کو دہشت گردی کے مسئلے میں تبدیل کرنا ہے۔ کشمیر کا معاملہ کوئی ریئل اسٹیٹ کا معاملہ یا جائیداد کی ملکیت کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ حقِ خود ارادیت کا مسئلہ ہے، جس کے لئے پاکستان اور انڈیا سمیت اقوامِ متحدہ، امریکہ اور دنیا کی بڑی طاقتوں کو ملک کر بیٹھنا ہوگا۔ امریکہ نے حال ہی میں مشرقِ وسطٰی میں امن معاہدے کے حصے کے طور پر فلسطین اور اسرائیل کے درمیان دو ریاستی تنازعے کے دو دہائیوں سے قائم اپنے موقف کو تبدیل کرکے ایک ریاستی حل پر زور دیا ہے۔ امریکی خارجہ پالیسی میں اسی سوچ کو مدِنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ صدر ٹرمپ جو ایک ڈیل کروانا چاہتے ہیں اور یہ اْسی اہمیت کا موقع ہے جیسا کہ فلسطین میں ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی آرہی ہے، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بھی کوئی معاہدہ کرنے پر زور دیا جا سکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: پانامہ کے ہنگامے سے قبل جو دھرنے اور احتجاج ہوئے، وہ الیکشن کی شفافیت پر اٹھنے والے اعتراضات کیوجہ سے تھے، چار سال گذرنے کے باوجود انتخابی نظام میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، اس صورتحال میں آئندہ انتخابات متاثر نہیں ہونگے۔؟
چوہدری عبدالرزاق ڈھلوں:
بہترین حل اصلاحات ہیں، انتخابی اصلاحات میں غیر ضروری تاخیر کے باعث آئندہ عام انتخابات کی تیاریوں میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ کئی مہینوں کے مذاکرات، تبادلہء خیالات اور صلاح مشوروں کے نتیجے میں اگر متفقہ انتخابی اصلاحات طے کر ہی لی گئی ہیں تو ان کو قانونی شکل دینے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے، حکومت اس ایشو پر سستی اور تساہل کا شکار نہیں ہے، جبکہ حالات کا بھی تقاضا یہ ہے کہ اصلاحات کا عمل جلد از جلد شروع کیا جائے، کیونکہ تیاریوں کے لئے الیکشن کمیشن کو بہرحال وافر اور مناسب وقت درکار ہے۔ مزید تاخیر اگلے عام انتخابات کے انعقاد کو سوالیہ نشان بنا سکتی ہے، جبکہ اصلاحات کے بغیر الیکشن کرایا گیا تو اس کے نتائج کے حوالے سے پھر ویسی ہی ہنگامہ آرائی شروع ہو جائے گی، جیسی 2013ء کے عام انتخابات کے بعد سے مسلسل جای ہے۔ لہٰذا انتخابی اصلاحات کے تحت یہ واضح ہونا چاہیے کہ الیکشن کمشنر کیسے مقرر کیا جائے گا اور اس کے اختیارات کیا اور کتنے ہوں گے۔ اس بار الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا اہتمام کیا جائے تو الیکشن کو زیادہ شفاف اور غیر جانب دارانہ بنانے میں بڑی مدد ملے گی۔ حال ہی میں بھارت کی پانچ ریاستوں میں منعقد کئے گئے انتخابات میں ووٹنگ کے لئے الیکٹرانک مشنیں بروئے کار لائی گئیں۔ اگرچہ ہارنے والے کچھ سیاسی رہنمائوں کی جانب سے کہا گیا کہ ان ووٹنگ مشینوں میں چھیڑ چھاڑ کی گئی، تاکہ دل خواہ نتائج حاصل کئے جا سکیں، لیکن مجموعی طور پر صورتحال اطمینان بخش رہی اور الیکشنوں کے نتائج سب نے تسلیم کئے۔ پاکستان کو انتخابی اصلاحات کے سلسلے میں آگے بڑھتے ہوئے اس امر کا خیال رکھنے کی ضرورت ہوگی کہ الیکشن میں ناکام رہنے والی جماعتوں کو ہر طرح سے مطمئن رہنا چاہیے۔ پچھلے تین برسوں سے ملک کے سیاسی افق پر جو معاملات چل رہے ہیں، مستقبل میں ان سے بچنے کے لئے انتخابی اصلاحات کی جلد از جلد تکمیل از حد ضروری ہے۔ اس سلسلے میں مزید تاخیر مسائل بڑھانے کا باعث بنے گی، جو انتخابی الجھنیں پیدا ہوں گی۔ اس کے باوجود ہمارے سیاسی کلچر میں کمی موجود ہے، کوئی بھی کھلے دل سے شکست تسلیم نہیں کرتا، خیر اب تو امریکہ میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔

اسلام ٹائمز: اسلامی جمہوریہ ایران کیطرف سے سعودی عرب کے فوجی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے، کیا پاکستان عالم اسلام میں متنازعہ کردار ادا کرنے کا متحمل ہوسکتا ہے۔؟
عبدالرزاق ڈھلوں:
سعودی عرب اور ایران کے درمیان شدید تناؤ موجود ہے، دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے متعلق تحفظات ہیں، عالم اسلام کے لئے یہ صورتحال فائدہ مند نہیں، دونوں ممالک اسلامی دنیا کے لئے اہمیت کے حامل ہیں۔ لیکن پاکستان کے دونوں اسلامی ملکوں سے اچھے تعلقات ہیں۔ پاکستان دونوں ممالک کیساتھ تعلقات کو اہمیت دیتا ہے اور عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ پاکستان کا کردار ہمیشہ مثبت رہا ہے، آئندہ بھی امت مسلمہ کی بہتری کے لئے ہوگا۔ پاکستان کے عرب اتحاد میں شامل ہونے سے پہلے بھی ایران کے سعودی عرب سے متعلق تحفظات ہیں، جو بعد میں بھی رہیں گے۔ جہاں تک پاکستان کی بات ہے، پاکستان اس بات کو یقینی بنائے گا کہ ایسا کردار ادا کیا جائے کہ نہ صرف سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں بہتری آئے بلکہ اتحاد و یگانگت کی فضاء جنم لے۔ جب راحیل شریف سعودی اتحاد کی قیادت سنبھالیں گے، تو ایران کو بھی تسلی ہو جائے گی۔ جنرل (ر) راحیل شریف سے قوم پیار کرتی ہے اور ان کی خدمات کی معترف ہے۔ پاکستان کے عوام ایران کیلئے بہت اچھے جذبات رکھتے ہیں اور ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ جنرل (ر) راحیل شریف ایران کے خلاف کوئی کام کریں گے۔ جنرل راحیل کی طرف سے عرب اتحاد کی سربراہی سے متعلق آمادگی کے بعد پاکستان کے متعلق ایران میں جو تحفظات ہیں، وہ بھی آہستہ آہستہ دور ہو جائیں گے۔

اسلام ٹائمز: راحیل شریف کیخلاف حکومتی رہنماؤں کے بیانات مسلم لیگ نون کی پالیسی ہے یا گورنر سندھ سمیت لیگی رہنماؤں کا ذاتی نکتہ نظر ہے۔؟
چوہدری عبدالرزاق ڈھلوں:
جس طرح سے قوم راحیل شریف سے پیار کرتی ہے اور ان کی خدمات کی معترف ہے، اس لئے ان کے خلاف ایسی باتیں کرنا زیادتی ہے۔ گورنر سندھ نے راحیل شریف سے متعلق کوئی غلط بات نہیں کی۔ دہشت گردی کے خلاف فوج، رینجرز، پولیس نے قربانیاں دیں، جبکہ کراچی آپریشن سے متعلق ہماری حکومت نے قدم اٹھایا۔ کراچی میں امن کا سہرا ملکی قیادت کے سر ہے، انتظامی اور عسکری اداروں کی قربانیوں اور کردار کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ گورنر کا عہدہ ویسے بھی غیر سیاسی ہوتا ہے، اس لئے گورنر سندھ کے بیان کو بھی تبصرہ سمجھنا چاہیے، کوئی سیاسی پالیسی نہیں۔ پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے، ہمیں احتیاط سے کام لینا چاہیے، اداروں کو اپنی حدود میں رہ کام کرنا چاہیے اور تمام اداروں کے درمیان ہم آہنگی موجود رہنی چاہیے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کی سعودی فوجی اتحاد میں شمولیت اور سعودیہ کیجانب سے شام پر امریکی فضائی جارحیت کی حمایت، پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔؟
چوہدری عبدالرزاق ڈھلوں:
امریکہ کسی کا دوست نہیں ہے۔ مشرق وسطٰی میں جو آگ بھڑک رہی ہے، یہ بھی امریکہ کی لگائی ہوئی ہے، پاکستان مشرق وسطٰی میں کسی فریق کی حمایت نہیں کرتا، جب تک امریکہ خطے میں موجود ہے، یہ فتنہ و فساد جاری رہیگا۔ پاکستان کی ہمیشہ سے خواہش اور موقف رہا ہے کہ شام کے مسئلے کو پرامن طریقے سے حل ہونا چاہیے۔ سعودی عرب کی طرف سے امریکی حملوں کی حمایت عارضی اور ہنگامی صورتحال کی وجہ سے ہوسکتی ہے، لیکن یہ پاکستان کا موقف نہیں ہوسکتا، نہ ہی اسے اس تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ پاکستان میں پہلے ہی فرقہ واریت کو ہوا دی گئی، اس وقت بھی حالات بہت حساس ہیں، اسی وجہ سے پاکستان نے مشرق وسطٰی کے حوالے سے محتاط طرزعمل اختیار کیا ہے۔ خدا کرے یہ جنگ رک جائے، مسلمان ممالک میں امن قائم ہو جائے، لیکن اس کا ذمہ دار صرف اور صرف امریکہ ہے، پاکستان کو دہشت گردی کا سامنا ہے، اس کے ڈانڈے بھی افغانستان کے راستے امریکہ سے ملتے ہیں۔ اس کا حل مسلمان ممالک کا اتحاد ہے، اس کے لئے ہمیں سب سے پہلے باہمی تنازعات کو خود مل بیٹھ کر حل کرنا ہوگا، تاکہ مسلمان ممالک میں تشدد کی فضاء کا خاتمہ ہو، غیر ملکی اثر و رسوخ ختم ہو اور امریکہ سمیت کسی عالمی طاقت کو ہمارے ملکوں میں مداخلت کا جواز نہ ملے۔ شام کیخلاف امریکہ کی کارروائی کا مقصد امن قائم کرنا نہیں، بلکہ جنگ کی آگ کو بھڑکانا ہے۔

اسلام ٹائمز: لاہور میں بیدیاں روڈ جیسے حساس علاقے میں دھماکہ پنجاب حکومت کے سکیورٹی اقدامات اور دہشتگردوں کیخلاف آپریشن کی کامیابی پر سوالیہ نشان ہے، پنجاب حکومت جنوبی پنجاب میں آپریشن سے کیوں ہچکچاتی ہے۔؟
چوہدری عبدالرزاق ڈھلوں:
دہشت گرد اب پورے پاکستان کیلئے چیلنج ہیں، لیکن جتنی شدت کیساتھ پنجاب نے دہشت گردی کے نیٹ ورک توڑے ہیں، سہولت کار گرفتار کئے ہیں، شدت پسندی کو شکست دی ہے، یہ باقی صوبوں کیلئے مثال ہے۔ لاہور کے حالیہ سانحات میں ملوث دہشت گرد افغانستان میں موجود دہشت گرد گروپوں سے منسلک تھے، ان گروپوں کا پنجاب یا جنوبی پنجاب سے کوئی تعلق نہیں، نہ ہی انکا کوئی مقامی سہولت کار تھا۔ یہ حکومتی اقدامات کا نتیجہ ہے کہ فاٹا اور افغانستان میں موجود گروپ پنجاب سے دہشت گردوں کو بھرتی کرتے تھے، پھر انہیں سہولت کار کے طور پر استعمال کرتے تھے، لیکن اب ایسا نہیں ہے، تمام مذہبی جماعتیں، مدارس اور علماء کا اس حوالے سے مثبت کردار ہے، وزیراعلٰی پنجاب اور وزیراعظم نے ہمیشہ دہشت گردوں کو سختی سے کچلنے کی پالیسی اختیار کی ہے، پنجاب میں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے کبھی کوتاہی نہیں برتی گئی۔


خبر کا کوڈ: 626318

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/626318/شام-کیخلاف-امریکہ-کی-کارروائی-کا-مقصد-امن-قائم-کرنا-نہیں-بلکہ-جنگ-آگ-کو-بھڑکانا-ہے-چوہدری-عبدالرزاق-ڈھلوں

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org