0
Thursday 13 Apr 2017 22:08
شام کی بقاء واقعاً فلسطین کی بقاء ہے

آر ایس ایس بھارت کو ایک دوسری تقسیم کیطرف لے جا رہی ہے، مولانا مقصود الحسن قاسمی

امریکی سرپرستی میں ہی آل سعود یمنی عوام پر بمباری بھی کر رہے ہیں
آر ایس ایس بھارت کو ایک دوسری تقسیم کیطرف لے جا رہی ہے، مولانا مقصود الحسن قاسمی
پروفیسر مولانا مقصود الحسن قاسمی کا تعلق بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے ہے، وہ دس سال سے امام کونسل آف انڈیا کے صدر ہیں، امام کونسل آف انڈیا کیساتھ کشمیر، اترانچل، دہلی، اترپردیش، ممبئی سمیت بھارت کی مختلف ریاستوں کے جید علماء کرام و مفتی عظام جڑے ہوئے ہیں۔ امام کونسل آف انڈیا کا قیام بھارت میں فعال علماء کرام کے درمیان ہم آہنگی اور ہم آواز بنانے کیلئے عمل میں لایا گیا ہے۔ مسلم نوجوانوں میں دینی تعلیم و ماڈرن ایجوکیشن کیلئے امام کونسل آف انڈیا کا اہم رول ہے، مولانا مقصود الحسن قاسمی اوکھلا نئی دہلی میں امام جمعہ والجماعت کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں، مولانا مقصود الحسن قاسمی ساتھ ہی ساتھ جامعہ ملیہ اسلامیہ (یونیورسٹی) میں بحیثیت پروفیسر اپنی ذمہ داری انجام دے رہے ہیں، موصوف نئی دہلی اور اسکے اطراف میں اہم دینی امور اور اتحاد و اتفاق بین المسلمین کے حوالے سے بہت ہی فعال ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں، اسلام ٹائمز کے نمائندے نے مولانا مقصود الحسن قاسمی سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: بھاجپا کے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت بھر میں ہندو مسلم فسادات کے واقعات میں اضافے، مسلمانوں کو حراساں کرنے اور انہیں مارنے کی کارروائیوں پر آپکا تجزیہ جاننا چاہیں گے۔؟
پروفیسر مقصود الحسن قاسمی:
دیکھئیے بھارت کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ اس قدر مسلکی منافرت سیاسی طور پر پھیلائی جا رہی ہے، اس کی مثال یہاں کی تاریخ میں ملنا مشکل ہے کہ اتنے اعلٰی پیمانے پر لوگوں میں فرقہ واریت و آپسی منافرت اور فسادات کے واقعات رونما ہوئے ہوں، مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کیا جا رہا ہے، غیر معمولی طور پر بھارت میں فرقہ واریت و منافرت کی آندھیاں چل رہی ہیں، یہاں کس وقت کیا ہو جائے، کسی کو پتہ نہیں، یہاں جان بوجھ کر صرف ووٹ کے لئے ایسے حالات پیدا کئے جا رہے ہیں کہ 2019ء کا الیکشن بھاجپا دوبارہ جیت جائے، اس لئے ہندو ووٹ کو اکٹھا کیا جا رہا ہے، بھاجپا نے جو وعدے لوگوں سے ابھی تک کئے ہیں، وہ پورے نہیں ہوئے، مہنگائی ختم نہیں ہوئی، نوکریاں لوگوں کو نہیں ملیں، اس لئے یہ منافرت کی سیاست چلا کر اپنے کئے وعدوں سے منحرف ہو رہے ہیں، صرف مذہب کے نام پر لوگوں کو ایک دوسرے سے جدا کیا جا رہا ہے، یہ جو کچھ بھی کیا جا رہا ہے، یہ خود بھارت کے لئے خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔ پوری دنیا میں ہمارے ملک کی اس وقت جتنی بدنامی ہو رہی ہے، پہلے کبھی نہیں ہوئی ہے، جو ایک اعلٰی مقام ہمیں حاصل تھا، اس ساخت و وقار کو ہم نے کھو دیا ہے۔

شام میں بڑے پیمانے پر مار دھاڑ چل رہی ہے، امریکہ نے وہاں تباہی مچا دی ہے، بھارت نے کبھی اس حوالے سے لب نہیں کھولے، جو واضح ثبوت ہے کہ بھارت کی خارجہ پالیسی اب تبدیل ہو چکی ہے، بھارت اپنے اصل مقصد سے منحرف ہوتا جا رہا ہے۔ بھارت کے حکمران صرف اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ رام مندر بننا ہے، انہیں مندر اور گائے چاہئے، جانوروں کے نام پر بے گناہ انسانوں کی جانیں چاہئیے، بھارتی حکمرانوں کی نادانیاں اور گائے کی سیاست کو عالمی اخبارات صفہ اول کی زینت بناتے ہیں اور ہم پر ہنسا جا رہا ہے کہ جانوروں کے نام پر انسانوں کی جان لی جاتی ہے، غرض یہاں انسانی جان جانور سے بہت سستی ہے، یہ جو بھی کچھ بھاجپا اور آر ایس ایس انجام دے رہی ہے، بھارت کی بدنامی ہے، ایسے میں بھارت سکیورٹی کونسل کا مسقتل رکن بننے کا خواہاں ہے، جتنے یہ فسادات ہو رہے ہیں، ہندو مسلم فسادات کروائے جا رہے ہیں، اقلیت کو ستایا جا رہا ہے، اتنا ہی ہم دنیا کی نظروں سے گرتے جا رہے ہیں، بھارتی حکمرانوں کی ایسی سیاست چاروں طرف سے نقصان دے رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: کہا جا رہا ہے کہ کانگریس کے دور اقتدار میں بھی مسلمانوں پر کم مظالم ڈھائے نہ گئے۔ کیا مماثلت و تفریق ہے دونوں ادوار میں۔؟
پروفیسر مقصود الحسن قاسمی:
ہاں سچی بات ہے کہ ہندو مسلم فسادات کی اپنی ایک خونین تاریخ ہمارے ملک میں رہی ہے، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا ہے کہ جن کے بارے میں سی بی آئی نے صاف کہا تھا کہ یہ مجرم ہیں، بھاجپا کے تمام لیڈروں کے خلاف عدالتوں میں کیس درج تھے، بھاجپا کے اقتدار میں آنے کے بعد فوراً سی بی آئی پر دباؤ ڈالا گیا اور تمام کیس واپس لئے گئے، پچیس سال سے یہ بھی ثابت نہیں ہو پایا کہ ان حکمرانوں کے خلاف مجرمانہ کیس چلایا جائے یا نہیں۔ اسی طرح سے جب گجرات میں قتل عام ہوا، قتل و غارتگری کے ذمہ دار پولیس آفیسر جیل میں تھے، تو بھاجپا کے اقتدار میں آتے ہی انہیں جیل سے نکالا گیا، اب انہی حکمرانوں اور پولیس آفیسروں کو پرموشن اور انعامات دیئے جا رہے ہیں، جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا ہے، جن لوگوں نے مظفرنگر فسادات کروائے، انہیں حکومت کا اعلٰی عہدے دار بنایا گیا، انہیں پارلیمنٹ پہنچایا گیا، یہ جو روش چل رہی ہے کہ مار دھاڑ کراؤ، ہندو مسلم فسادات کراؤ اور انعام پاؤ۔ یہ پہلے ہم نے کبھی نہیں دیکھا، پہلے ایسے شخص کو استعفٰی دینے پر مجبور کر دیا جاتا تھا، اپوزیشن بھی اپنا کام کر رہی تھی، جس کے نتیجے میں حکومت کو جواب دینا پڑتا تھا، لیکن اب نہ کوئی پوچھنے والا ہے، نہ فسادات رکوانے والا، اب تو آپ نے خود دیکھا کہ جو مسلم خواتین کے ساتھ زیادتی کرتا رہا، مسلم کش فسادات کروا چکا اور مسلم لڑکیوں کو اٹھا لیجانے کی دھمکی دے چکا ہے، اس کو ایک ریاست کا وزیراعلٰی بنا دیا جاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: مسلمانوں پر ہندو انتہا پسندوں کیجانب سے مظالم و بربریت کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، کیا مسلمانوں کیجانب سے کسی شدید ردعمل کو دیکھا جاسکتا ہے۔؟
پروفیسر مقصود الحسن قاسمی:
دیکھئیے بھارتی مسلمان امن پسند ہے اور ساتھ ہی ساتھ کمزور بھی۔ یہاں کا مسلمان ہندو مسلم اتفاق پر یقین رکھتا ہے، وہ فسادات کو کبھی بھی ہَوا نہیں دیتا، یہاں کے مسلمانوں نے ہمیشہ ہندو پارٹیوں کو ووٹ دیا ہے، اس مسلمان نے ہمیشہ ہندو حکمران کو ہی چنا ہے، یہاں کا مسلمان کبھی مسلم لیڈر کے پیچھے نہیں بھاگا، اس ملک کے مسلمان نے ہمیشہ امن و شانتی کا سہارا لیا ہے، ایسا نہیں کہ وہ کبھی منافرت کے حامی رہے ہوں، لیکن ابھی بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے حالات کچھ ایسے پیدا کئے جا رہے ہیں، جو بڑے خطرے کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہیں، ہندوؤں کی جانب سے مسلمانوں کو ضرور بھڑکایا جا رہا ہے، جس کا ضرور کوئی نہ کوئی ردعمل سامنے آسکتا ہے اور مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ سنگھ پریوار و آر ایس ایس بھارت کو ایک دوسری تقسیم کی طرف لے جا رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: بھاجپا کی مسلکی منافرت کے ہوتے ہوئے کیا آئندہ 2019ء میں اس جماعت کی جیت ممکن ہے۔؟
پروفیسر مقصود الحسن قاسمی:
دیکھئیے اس ملک کے ووٹر کی یاداشت بہت کمزور ہے، بڑی آسانی سے لوگوں کو یہاں ورغلایا جاسکتا ہے، مذہب کے نام پر لوگوں کے جذبات سے کھیلا جاسکتا ہے، یعنی لوگ بیدار نہیں ہو رہے ہیں، وہ اپنی سابقہ روش پر ہی چلنا پسند کرتے ہیں، ابھی اگلے الیکشن کو دو سال رہ گئے ہیں، مذہب کے نام پر بھاجپا نے جو سیاست یہاں رائج کی ہے، اسی پر عوام بھی چل رہی ہے، اس بنیاد پر 2019ء کے انتخابات میں دوبارہ انکی جیت آسان لگ رہی ہے، بھاجپا کی پالیسی کے تحت جس طریقے سے ملک بھر میں فسادات کروائے جا رہے ہیں، اس سے صاف ظاہر ہے کہ آئندہ بھی جیت انہیں کے حق میں ہے، یہ ایک ہندو مملکت ہے، جس کا اعتراف یہ خود بھی کرتے ہیں، لیکن ابھی دو سال میں حالات کیا رخ اختیار کرسکتے ہیں، دیکھنا باقی ہے۔ جس وقت لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ انکے ساتھ دھوکہ ہوا ہے، ان کی اقتصاد تباہ ہوچکی ہے، جن حکمرانوں کو انہیں نے ملک کی ترقی کے لئے چنا تھا، انہوں نے اسکے برعکس عمل کیا، لوگوں نے انہیں مندر یا مسجد کے لئے نہیں چنا تھا، نہ فسادات کے لئے چنا تھا، جس دن لوگوں کو حقیقت کا ادراک ہوگا، شاید تب وہ بدل جائیں اور اپنے حکمران بھی بدل ڈالیں گے، لیکن ابھی ایسا کچھ محسوس نہیں کیا جاتا۔

اسلام ٹائمز: اترپردیش میں اگرچہ مسلمان حکومت چننے میں اہم رول ادا کرسکتے تھے، کوئی سیکولر جماعت برسر اقتدار آسکتی تھی، پھر بھی بھاجپا جیت گئی اور ایک ہندو شدت پسند ریاست کا وزیراعلٰی منتخب ہوگیا، آپ اس حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے۔؟
پروفیسر مقصود الحسن قاسمی:
یو پی میں مسلمانوں کی آبادی اٹھارہ سے بیس فیصد ہے، یہ ایک بڑی آبادی ہے، لیکن مسلم ووٹ تقسیم ہوتا چلا آیا ہے، مسلمان فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں، یہ فرقہ واریت ہر ملت و معاشرے کے لئے کینسر کے مثل ہے، دیکھا جائے اس فرقہ واریت کے ہوتے ہوئے اسلام ہم سے گم ہوتا گیا ہے، اسلام ختم ہوچکا ہے، اصل اسلام مسلمانوں میں باقی نہیں رہا۔ بھارت میں بھی عالمی سیاست کے زیر اثر مسلمان تقسیم ہوتے گئے، یو پی میں بھی حالات ایسے اسی لئے ہوئے کہ مسلمان تقسیم ہوچکے ہیں، ہم مسلمانوں کی تقسیم کی وجہ سے ایک ہند انتہا پسند وزیراعلٰی منتخب ہوا، اقتدار سنبھالتے ہی اس نے گائے حتٰی کہ بھینس کٹنے پر پابندی لگا دی ہے، جس کے نتیجے میں یو پی میں کم سے کم سولہ سے سترہ ہزار نوجوان بے روزگار ہوگئے ہیں، اب ایک اور المیہ یہ کہ بھارت میں جو ہندو لوگ نرم رویہ اپنائے ہوئے تھے، وہ بھی پوری فضا انتشار کی دیکھ کر شدت پسند ہوکر ہندوتوا کی جانب جا رہے ہیں، آپ دیکھئیے کہ قانونی طور پر جو مسلم گائے وغیرہ ایک جگہ سے دوسری جگہ لیکر جاتے ہیں، ان کو جان سے مارا جا رہا ہے، بھارت کے کسی شہر سے ان مظالم کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھائی جا رہی ہے اور آئندہ بھی یہاں حالات کی بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔

اسلام ٹائمز: اس تشویشناک صورتحال کے ہوتے ہوئے بھارتی مسلمانوں کو کیا لائحہ عمل اپنانا چاہیے۔؟
پروفیسر مقصود الحسن قاسمی:
جیسا کہ میں عرض کرچکا کہ مسلمان آپسی منافرت و فرقہ واریت کا شکار ہوگئے ہیں، مسلمان مسلکی تضاد میں مبتلا ہیں، جو حد سے زیادہ تشویشناک ہے، ہم مسلمانوں کو اس مسلکی منافرت کو بالائے طاق رکھکر آگے بڑھنا ہوگا۔ کلمہ کی بنیاد پر متحد ہونا چاہیے، صبر و تحمل سے ہم مسلمانوں کو کام لینا چاہیے، چھوٹی چھوٹی اور معمولی سی باتوں پر اشتعال انگیزی سے کام نہ لیا جائے، سوجھ بوجھ اور دانشمندی سے کام لینا چاہیے، کوئی بھی سیاسی جماعت ہو، اس کے ساتھ مل بیٹھ کر اپنے مفاد کی پالیسی مرتب کرنی چاہیے، امن و امان کی پالیسی مرتب کی جائے، جس کسی پارٹی کو ووٹ دیں متحد ہوکر اکٹھا ہوکر اپنے مفاد کو پیش نظر رکھکر ووٹ دیں، ہمارے ووٹ سے ہماری اہمیت و افادیت واضح ہونی چاہیے، یہی موجودہ صورتحال سے راہ نجات ہے۔ یہاں ایسا ممکن نہیں کہ بیس فیصد مسلمان اپنی ایک الگ سیاسی جماعت تشکیل دیں، اس کام سے مزید فسادات ہوسکتے ہیں، جب ہم ووٹ کے وقت یہ کہیں گے کہ مسلمان اپنا ووٹ مسلم سیاسی جماعت کو دیں تو ہندو بھی متحد ہو جائیں گے، وہ بھی پھر ہندو سیاسی جماعت کو ملکر ووٹ دیں گے، تو یہ روش بھی یہاں مسلمانوں کے لئے کارگر ثابت نہیں ہوسکتی۔

اسلام ٹائمز: یمن پر جارحیت کے دو سال مکمل ہوچکے ہیں، مسلم ملک کے ہاتھوں اس قتل و غارتگری کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
پروفیسر مقصود الحسن قاسمی:
یمن پر جو جارحیت پڑوسی ملک کر رہا ہے، جس نے یہ جارحیت شروع کی، وہ ملک ہی دنیا میں مسلکی منافرت اور مسلمانوں میں تفرقے پرستی کا علمبردار ہے۔ وہ اپنی حکومت، اپنی کرسی، اپنی بادشاہت و شہنشاہت کو محفوظ رکھنے اور اس سے دنیا کی نظریں ہٹانے کے لئے یہ سب کچھ کر رہا ہے، وہ مسلمانوں کو شیعہ و سنی کے نام پر لڑوا رہے ہیں، اس میں وہ بظاہر کامیاب بھی ہو رہے ہیں، اس فرقہ پرستی کے لئے انہیں امریکہ کی کھلی حمایت حاصل ہے، امریکہ کی سرپرستی میں ہی آل سعود یمنی عوام پر بمباری بھی کر رہے ہیں، یہ کتنی عجیب سی بات ہے کہ عالمی طاقتیں بظاہر دنیا بھر میں ڈیموکریسی کی باتیں کرتے تھکتے نہیں، لیکن جہاں انہیں اپنے مفادات نظر آتے ہیں، وہاں بادشاہت بھی ٹھیک ہے اور ڈکٹیٹر شپ بھی جائز ہے، بلکہ عالمی طاقتوں کی جانب سے ایسے بادشاہوں اور آمر حکومتوں کو حمایت بھی ہوتی رہی ہے، عالمی طاقتوں کی یہ دو رخی تشویشناک اور قابل افسوس ہے۔

اسلام ٹائمز: شام کی خونین صورتحال کے حوالے سے آپ کیا تجزیہ کرنا چاہیں گے۔؟
پروفیسر مقصود الحسن قاسمی:
شام مکمل طور پر کھنڈر میں تبدیل ہوگیا ہے، رسول خدا (ص) کی حدیث مبارک کہ قیامت وہیں سے شروع ہوگی اور پوری دنیا کی توجہ شام کی طرف ہو جائے گی۔ تو مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ اس کی شروعات ہوچکی ہیں۔ وہاں بے گناہوں کی جانیں جا رہی ہیں، میں دونوں طرف کے لوگوں سے کہتا ہوں کہ دونوں ذمہ داری کا ثبوت دیں اور مل بیٹھ کر مسئلہ کا حل تلاش کریں، بے گناہوں کی جانوں کی تلافی کیسے ممکن ہے۔ لاکھوں لوگ ملک چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں، وہ مسلمان یورپی ممالک کی سرحدوں پر اپنی جانوں اور ایک لقمے کی بھیک مانگ رہے ہیں، وہ موت و بھوک کے ڈر سے ملک چھوڑ رہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں چاہے یہودی بناؤ، چاہے عیسائی بنا لو، مگر ہمیں پناہ دو۔ اگرچہ انکے پاس مکہ بھی ہے، سعودی عرب بھی ہے، ایرانی بھی ہیں، انکے آس پاس دوسرے مسلم ممالک ہیں، لیکن بڑی عجیب بات ہے کہ کوئی انہیں پناہ دینے پر راضی نہیں ہے۔ ایک اور بات یہ کہ جب رسول اللہ (ص) کو مکہ میں بہت زیادہ ستایا گیا، انکے ساتھیوں کو چاروں طرف سے گھیرا گیا تو آپ کی پہلی کشتی حبشہ چلی گئی تھی، وہاں عیسائی آباد تھے، جنہوں نے مسلمانوں کو تب پناہ دی تھی، آج بھی مسلمانوں کو مسلمانوں کے بجائے عیسائی پناہ دے رہے ہیں، کہاں ہیں دنیا بھر کے مسلمان، کہاں ہیں ستاون مسلم ممالک۔ ایک اہم بات جو میں آپ کے ذریعہ سے کہنا چاہوں گا، وہ یہ کہ تمام مسلمانوں شام ہمیشہ فلسطین کا حامی ملک رہا ہے، فلسطین کے مجاہدین کی ہمیشہ شامی حکومت نے مدد کی ہے، انکو تعاون دیا ہے، یہ ظاہر سی بات ہے کہ جتنا شام ٹوٹ جائے گا، اتنا ہی اسرائیل مضبوط ہوتا جائے گا، ساتھ ہی ساتھ فلسطینی کاز کمزور پڑتی جائے گی۔ شام کو اسی لئے نشانہ بنایا جا رہا ہے، تاکہ فلسطین پر انکی راہ ہموار ہوتی جائے، شام جتنا اسرائیل کا مخالف رہا ہے، اتنا کوئی ملک نہ رہا۔ شام کی بقاء واقعاً فلسطین کی بقاء ہے۔ شام کی سالمیت کو اگر کوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے تو یہ صرف اسرائیل کے مفاد میں ہوگا، باقی مسلمانوں کو شام کی شکست میں ہرگز کوئی فائدہ نہیں ہوگا، مسلمانوں کو یہ بات اچھے طریقے سے ذہن نشین کر لینی چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 627440
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش