0
Wednesday 19 Apr 2017 00:18
فوعہ اور کفریا کے شیعہ مہاجرین پر خودکش حملہ انسانیت سے عاری اقدام ہے

وہابیت تکفیری دہشت گردی کی ماں ہے، شیخ ماہر حمود

امریکہ اور مغرب نے دہشت گردی پر دوغلی پالیسیاں اپنا رکھی ہیں
وہابیت تکفیری دہشت گردی کی ماں ہے، شیخ ماہر حمود
شیخ ماہر حمود لبنان کے معروف سنی عالم دین اور جنوبی لبنان میں واقع شہر صیدا کی مسجد القدس کے خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ امام جمعہ کے بھی فرائض انجام دیتے ہیں۔ مزید برآں، وہ لبنان مسلم علماء اتحاد کے بانی اراکین میں سے ہیں اور جنوبی لبنان پر اسرائیلی قبضے کے دوران اسلامی مزاحمت کے اصلی بانیوں میں شمار ہوتے تھے۔ انہوں نے ایرانی اخبار صبح نو کے صحافی کو انٹرویو دیا ہے جس کا ترجمہ اسلام ٹائمز اردو کے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

سوال: گذشتہ چند سالوں سے ہمیں مذہبی شدت پسندی کا سامنا ہے جس کی تازہ ترین مثال شام میں کفریا اور فوعہ کے شیعہ مہاجرین پر خودکش بم حملہ ہے۔ مذہبی شدت پسندانہ تفکر کا منشاء کیا ہے اور کیسے اس طرز فکر کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے؟
شیخ ماہر حمود: اس سوال کا جواب اتنی آسانی سے نہیں دیا جا سکتا کیونکہ تکفیری طرز فکر عصر اسلام سے ہی پایا جاتا ہے۔ اس وقت خوارج نامی ایک گروہ تھا جس کی خبر پیغمبر اکرم ص نے دی تھی اور حضرت علی علیہ السلام کے زمانے میں یہ گروہ منظرعام پر آیا۔ یہ طرز فکر تاریخ کے دوران مختلف انداز میں ظاہر ہوتا رہا ہے۔ جدید دور میں اس قسم کی شدت پسندی وہابیت کی شکل میں ظاہر ہوئی ہے۔ محمد بن عبدالوہاب اجتہاد کے اختلاف کی بنیاد پر انسانوں کے قتل کو جائز سمجھتا تھا۔ مثال کے طور پر اس کے عقیدے کے برخلاف بعض افراد قبروں کی زیارت کیلئے جاتے تھے۔ دوسری طرف بعض بین الاقوامی پالیسیوں کی ناکامی اور اسی طرح عرب ممالک کی شکست اور بعض قوتوں کی جانب سے سیاسی دباو کے نتیجے میں گذشتہ چند سالوں کے دوران اس شدت پسندی میں دوبارہ اضافہ ہوا ہے۔ اس بارے میں امریکہ اور مغربی قوتوں کی جانب سے تکفیری دہشت گردی کی بھرپور حمایت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔

البتہ ہم بعض شدت پسند عناصر کو یہ طرز فکر ترک کر کے اسلامی اعتدال پسندی کی جانب لانے میں کامیاب رہے ہیں لیکن یہ کوششیں ہمیشہ ثمر بخش ثابت نہیں ہوتیں۔ ان افراد سے بات چیت کرنا آسان نہیں جن کے ہاتھ بیگناہ افراد کے خون سے رنگین ہو چکے ہیں کیونکہ یہ افراد اپنی جہالت کے باوجود خود کو سب سے زیادہ عقل مند تصور کرتے ہیں۔ لہذا ایسے افراد کے خلاف فوجی طریقہ کار بروئے کار لانے کے ساتھ ساتھ، فکری میدان میں بھی مقابلہ انتہائی ضروری ہے۔ تکفیری طرز فکر کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک انتہائی اہم مآخذ وہ کتاب ہے جو اخوان المسلمین کے دوسرے مرشد حسن الھضیبی نے 1970ء کے قریب جیل میں لکھی۔ اس کتاب کا نام "دعاۃ لا قضاۃ" (دعوت کرنے والے نہ فیصلہ کرنے والے) ہے۔ اس کتاب میں یہ نقطہ نظر پیش کیا گیا ہے کہ ہر اسلامی تحریک، پہلے مرحلے پر دین کی طرف بلانے والی ہو نہ یہ کہ لوگوں کے خلاف ناحق فیصلے سنانے لگے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کی بنیاد بھی دعوت پر ہی استوار تھی لہذا اگر اسلام پسند عناصر اس کتاب میں پیش کردہ نقطہ نظر سے عدول کریں تو وہ دہشت گرد عناصر میں تبدیل ہو جائیں گے۔

سوال: کیا وجہ ہے کہ عالمی سطح پر دنیا بھر کے اسلامی علماء کی جانب سے تکفیریت کے خلاف واحد موقف سامنے نہیں آتا اور وہ اس منحوس تحریک کے خلاف واحد فتوی جاری نہیں کرتے؟
شیخ ماہر حمود:
اس مسئلے کے کئی پہلو ہیں۔ پہلا یہ کہ ایسے علماء کی تعداد بہت کم ہے جو آزاد اور خودمختار سوچ کے حامل ہیں۔ 90 فیصد سے زیادہ علماء ایسے ہیں جو ایسے ممالک کے پے رول پر ہیں جو یا تو تکفیری دہشت گرد عناصر کے حامی ہیں یا اس بارے میں بے طرف ہیں لہذا وہ تکفیریت کے خلاف کوئی واضح موقف اختیار نہیں کرتے۔ دوسرا یہ کہ 60 برس پہلے جب سے مصر نے الازہر یونیورسٹی کو جدید تقاضوں کے مطابق ماڈرن بنانے کا قانون صادر کیا ہے، تمام مصری حکام کی کوشش رہی ہے کہ یہ علمی مرکز ان کے کنٹرول میں ہو اور خودمختار نہ ہو۔ اس امر نے پوری اسلامی دنیا میں شرعی علم کو تشویش سے روبرو کر دیا ہے۔ تیسرا یہ کہ گذشتہ چند سالوں کے دوران وہابی طرز فکر الازہر یونیورسٹی میں رسوخ کرنے میں بھی کامیاب رہا ہے جس کی بنیادی وجہ اس طرز فکر کی حامی عظیم مالی طاقت ہے۔ عالم اسلام خاص طور پر مغربی ممالک میں تعمیر ہونے والی مساجد کی بڑی تعداد سعودی عرب کی حمایت سے بنی ہیں۔ لہذا ان مساجد کو چلانے والے نہ صرف شیعہ بلکہ اپنی جیسی سوچ نہ رکھنے والے سنی مسلمانوں کو بھی قبول نہیں کرتے۔ یہ مالی طاقت باعث بنی ہے کہ سعودی عرب دنیا بھر میں وہابیت پھیلانے میں کامیاب رہے اور نتیجتاً براہ راست یا بالواسطہ طور پر تکفیری دہشت گردی کی حمایت کرے۔

سوال: چند ماہ قبل، الازہر یونیورسٹی کے سربراہ شیخ احمد الطیب نے فرانس کا دورہ کیا اور نیس شہر میں ہونے والے دہشت گردانہ اقدام کی مذمت کی جبکہ اس سے پہلے الازہر یونیورسٹی کی جانب سے مشرق وسطی میں ہونے والے دہشت گردانہ اقدامات کی مذمت نہیں کی جاتی تھی، اس دوغلے موقف کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
شیخ ماہر حمود:
حقیقت تو یہ ہے کہ فکری اعتبار سے احمد الطیب بہت سے دیگر علماء سے بہتر ہیں لیکن جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے وہ ان پر بھی صادق آتا ہے۔ وہ مصری حکومت سے قریبی تعلقات کے ناطے بالآخر ایک سرکاری عہدیدار جیسی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ الازہر یونیورسٹی کا انتخاب براہ راست مصری صدر کی جانب سے انجام پاتا ہے۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ الازہر یونیورسٹی کا سربراہ علماء کی جانب سے چنا جائے۔

سوال: حال ہی میں شام میں فوعہ اور کفریا کے شیعہ مہاجرین کی بسوں پر ہونے والے خودکش بم دھماکے کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟
شیخ ماہر حمود:
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک مجرمانہ اقدام تھا اور واضح ہے کہ یہ حملہ شامی فوجیوں پر نہیں کیا گیا بلکہ اس میں ان مظلوم خواتین اور بچوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جو کئی سالوں سے دہشت گردوں کے محاصرے میں تھے اور اب تبادلے کے ذریعے آزاد ہو رہے تھے۔ دہشت گرد عناصر کا یہ اقدام انتہائی گھٹیا تھا اور اس نے ثابت کر دیا کہ انہوں نے انسانیت کی بو تک نہیں سونگھی۔ دوسری طرف اس دہشت گردانہ اقدام نے مغرب کی دوغلی پالیسیوں سے بھی پردہ ہٹا دیا ہے اور انہیں رسوا کر دیا ہے۔ اس خودکش بم حملے سے کچھ ہی دن پہلے ہم نے دیکھا کہ پوری دنیا میں خان شیخون واقعے کا شور مچ گیا حالانکہ ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ وہاں پر استعمال ہونے والے کیمیائی ہتھیار شام حکومت کا شاخسانہ تھا لیکن اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس بلوایا گیا اور تمام مغربی ممالک نے پرزور موقف اختیار کیا۔ لیکن اب سکیورٹی کونسل کیوں اجلاس نہیں بلواتی؟ ہم فلسطین اور اسلامی مزاحمتی تحریکوں کے بارے میں بھی اس دوغلے پن کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مغرب اور بین الاقوامی تنظیمیں تعصب کا شکار ہیں۔ عملی طور پر یہ تنظیمیں اور حکومتیں عالمی صہیونزم کے زیر اثر ہیں۔

سوال: تکفیری دہشت گردی کا مستقبل کیا ہو گا؟
شیخ ماہر حمود:
حالیہ کچھ عرصے میں تکفیری دہشت گردی پر کاری ضربیں لگی ہیں جن میں سے اہم ترین حلب کی آزادی ہے۔ عراق کے شہر موصل اور لبنان میں بھی تکفیری دہشت گردوں کو شدید شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مصر میں بھی سکیورٹی فورسز نے بڑی تعداد میں شدت پسند عناصر کو ختم کیا ہے۔ لیبیا میں بھی تکفیری دہشت گرد شدید دباو کا شکار ہیں۔ مغرب میں بھی مثال کے طور پر نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اہم ترین بیان یہ ہے کہ اوباما اور کلنٹن داعش کے بانی ہیں۔ لہذا ہم دیکھ رہے ہیں کہ دہشت گرد سیاسی اور فوجی میدان میں شدید ناکامیوں کا شکار ہو رہے ہیں اور اس بات کا قوی امکان پیدا ہو گیا ہے کہ مستقبل قریب میں ان عناصر کا خاتمہ ہو جائے گا۔ یہ صورتحال الجزائر کی 1980ء کی صورتحال سے ملتی جلتی ہے۔ اس وقت یہ ملک بدامنی اور قتل و غارت میں ڈوبا ہوا تھا۔ لیکن آخرکار اس کا خاتمہ ہو گیا لہذا خدا کے کرم سے شام میں بھی بدامنی کا خاتمہ ہو جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 628860
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش