0
Wednesday 26 Apr 2017 15:26
خیبر پختونخوا حکومت کا اہل تشیع سے امتیازی سلوک قابل مذمت ہے

کوٹلی امام حسین (ع) بچاؤ تحریک ان شاء اللہ کامیابی سے ہمکنار ہوگی، بشیر حسین جڑیہ

شیعہ قوم اتنی بھی بے بس نہیں کہ محکمہ اوقاف انکی قومی جائیداد کو ترنوالہ سمجھے
کوٹلی امام حسین (ع) بچاؤ تحریک ان شاء اللہ کامیابی سے ہمکنار ہوگی، بشیر حسین جڑیہ
بشیر حسین جڑیہ شیعہ ینگ مین (ڈی آئی خان) کے سابق صدر اور حال ایم ڈبلیو ایم کیساتھ منسلک ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشتگردی، اہدافی قتال اور بے گناہ اسارتوں کا سلسلہ شروع ہوا، اہل تشیع نوجوان خود کو تنہا محسوس کرنے لگے تو ایسے میں انہوں نے آگے بڑھ کر بے گناہ اسیروں کی دلجوئی کی اور انکی رہائی کیلئے کوششوں کو وظیفہ سمجھ کر انجام دیا۔ کوٹلی امام حسین (ع) کی اراضی کی محکمہ اوقاف کے نام بوگس منتقلی کا معاملہ سامنے آیا تو اسکے خلاف بھی قومی و ضلعی جماعتوں کیساتھ ساتھ انہوں نے بھی صدائے احتجاج بلند کی اور اس منتقلی کی منسوخی کا مطالبہ کیا۔ اس مطالبے کیساتھ صوبائی حکومت و انتظامیہ کیساتھ بارہا مذاکرات کے بعد بھی معاملہ حل نہیں ہوا تو انکی تجویز پر ڈیرہ میں گذشتہ جمعہ سے کوٹلی بچاؤ تحریک کا آغاز کیا گیا۔ جسکے تحت کوٹلی امام حسین (ع) میں احتجاجی کیمپ لگایا گیا ہے۔ اس احتجاجی تحریک اور کوٹلی امام حسین (ع) کے حوالے سے اسلام ٹائمز نے بشیر حسین جڑیہ سے ایک نشست کا اہتمام کیا، جسکا احوال بصورت انٹرویو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: بنیادی طور پر کوٹلی امام حسین (ع) کا مسئلہ کیا ہے۔؟
بشیر حسین جڑیہ:
کوٹلی امام حسین (ع) کی اراضی 327 کنال اور 9 مرلے تقسیم ہند سے پہلے خالصتاً مذہبی اجتماعات و قبرستان کیلئے وقف امام حسین (ع) کی گئی تھی، یعنی قومی مقاصد کیلئے۔ 67 سال تک کسی وفاقی یا صوبائی حکومت (چاہے وہ کتنی ہی غلط کیوں نہ تھیں) نے اس وقف امام حسین (ع) اراضی پر غلیظ نظر نہ ڈالی۔ 2013ء میں محکمہ اوقاف نے انتہائی تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر اس وقف امام حسین (ع) اراضی کو اپنے نام پر منتقل کر لیا۔ اراضی کی اس منتقلی میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کا کردار بھی نہایت مشکوک ہے، کیونکہ اس منتقلی پر صوبائی حکومت نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ صوبائی حکومت (پی ٹی آئی) کہتی ہے کہ مسئلہ وفاقی حکومت کے اینڈ پر ہے۔ ہمارا موقف اور مطالبہ ہے کہ محکمہ اوقاف نے یہ منتقلی بوگس لیٹر اور جعلی طریقے سے کی ہے، لہذا اسے منسوخ کیا جائے اور کوٹلی کی پرانی حیثیت بحال کی جائے۔

اسلام ٹائمز: کیا فرق پڑتا ہے کہ اراضی محکمہ اوقاف کے نام رہے یا وقف امام حسین (ع)؟ استعمال تو مذہبی مقاصد کیلئے ہو رہی ہے۔؟
بشیر حسین جڑیہ:
یہ آپ سے کس نے کہا ہے کہ محکمہ اوقاف اسے صرف مذہبی مقاصد کیلئے استعمال کرے گا۔ وقف امام حسین (ع) اراضی پر ناجائز قابضین کا مسئلہ تو طویل عرصے سے درپیش تھا ہی، جب سے اس کی بوگس منتقلی کا معاملہ ہوا۔ محکمہ اوقاف نے اونے پونے داموں اس کی لیز کا غیر قانونی سلسلہ بھی شروع کر دیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ مین سرکلر روڈ پر یہ اراضی واقع ہے، اربوں روپے کی اس قیمتی اراضی پر بڑے بڑے باگڑ بلے اپنی حریص نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ (جنہیں سیاسی آشیرباد حاصل ہے) ابھی ایک مسئلہ (بوگس منتقلی) والا حل نہیں ہوا کہ محکمہ اوقاف نے اس کی لیز شروع کر دی۔ پھر جنہیں زمین دی گئی، انہوں نے تجارتی مقاصد کے تحت اس پر مارکیٹس کی تعمیر بھی شروع کر دی۔ گذشتہ جمعہ کو جو احتجاج ہوا تو بنیادی طور پر وہ اس اراضی پہ تعمیر ہونے والی ایک غیر قانونی مارکیٹ کی تعمیر کے خلاف تھا۔ حالانکہ ہم صوبائی وزرا، انتظامیہ وغیرہ سے رابطے میں تھے، اور ان کی جانب سے بھی ہمیں مسئلہ کے حل کی یقین دھانیاں کرائی جا رہی تھی، چنانچہ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ اہل تشیع اکابرین کو اعتماد میں لینے تک کوٹلی امام حسین (ع) سے متعلق تعمیراتی سلسلہ روک دیا جاتا، اس کے برعکس الٹا ناجائز غیر قانونی تعمیراتی کاموں میں تیزی آگئی۔ جس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ہم نے ان تعمیرات کو زمین بوس کیا۔ انتظامیہ کی پھرتیاں بھی ملاحظہ فرمائیں کہ بجائے اس غیر قانونی تعمیرات کے خلاف ایکشن لیتی، الٹا ہمیں گرفتار کیا گیا۔

اسلام ٹائمز: کوٹلی بچاؤ تحریک، احتجاجی کیمپ جاری ہے،؟ مرکزی مطالبہ کیا ہے۔؟
بشیر حسین جڑیہ:
اگر یک نکاتی ایجنڈے پر بات کریں تو ہمارا اکلوتا مطالبہ کوٹلی امام حسین (ع) کی اراضی جو کہ وقف امام حسین (ع) تھی، کو محکمہ اوقاف کے نام منتقل کی گئی، اس منتقلی کو خارج کیا جائے اور کوٹلی کی پرانی قانونی حیثیت کو بحال کیا جائے۔ کوٹلی امام حسین (ع) کا فیصلہ تشیع قوم نے کرنا ہے۔ قومی جائیداد ہے۔ قوم اس کی وارث ہے۔ ہمارا یہ سٹی میں اکلوتا قبرستان ہے۔ یہ حکومتیں جو یہ بھی دیکھتی ہیں کہ تکفیری گروہ جو کہ ہمارے خون کے پیاسے ہیں۔ ہمارے کاروبار، مال، جان کے دشمن ہیں۔ ہماری امام بارگاہوں، مساجد زیارات کے دشمن ہیں اور ہمیں و ہماری املاک کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ جو قوتیں ہمارے جلوسہائے عزا کو اپنے راستوں سے نہیں گزرنے دیتے، کیا وہ ہماری تدفین اپنے قبرستانوں میں ہونے دیں گے۔ اراضی کوٹلی امام (ع) ہمارے لئے اس ماں کی مانند ہے کہ جس کی آغوش میں بالآخر ڈیرہ کے اہل تشیع نے سر چھپانا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ قومی غیرت کی بلند و بانگ باتیں کرنے والے نام نہاد سورما اس زیادتی پر خاموش ہیں، کئی تو ایسے بھی ہیں کہ جنہوں نے اظہار یکجہتی تو دور اظہار ہمدردی کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ دھرنا محکمہ اوقاف کی جانب سے اور اراضی کوٹلی امام حسین علیہ السلام کے نام واپسی انتقال اور ناجائز تجاوزات کے خاتمے تک جاری رہے گا۔ محکمہ اوقاف صوبہ کے پی کے کی جانب سے اوچھے ہتھکنڈوں کے خاتمے اور کوٹلی حضرت امام حسین علیہ السلام بارے تمام تحفظات کی یقین دہانی تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اہل تشیع کے ساتھ امتیازی سلوک قابل مذمت ہے۔ ہماری مذہبی رسومات کی ادائیگی اور اپنی کمیونٹی کیلئے قبرستان کوٹلی امام حسین کا اپنی پرانی حیثیت پر باقی رینا ناگزیر ہوچکا ہے۔ ہمارا یہ احتجاج کسی فرد یا کمیونٹی کے خلاف نہیں ہے، بلکہ ہمارا احتجاج محکمہ اوقاف کے پی کے کے معاندانہ رویہ کے خلاف ہے۔ یہ ہمارا قانونی، اخلاقی اور شرعی حق ہے، جسکے حصول کو یقینی بنانے کیلئے یہ احتجاج جاری ہے اور رہیگا۔ تاہم یہ سب کچھ قانون کی حدود میں رہے گا۔ ہم امن پسند لوگ ہیں اور اس ملک کی تعمیر و ترقی، بقا اور قیام امن کے لئے ہمیشہ قربانیاں دی ہیں اور قانون کی عمل داری پر یقین رکھتے ہوئے اس کی پاسداری کی ہے۔

اسلام ٹائمز: کوٹلی بچاؤ تحریک میں آپکے ساتھ کون کون سی جماعتیں موجود ہیں یا کن جماعتوں نے اظہار یکجہتی کیا ہے۔؟
بشیر حسین جڑیہ:
ہمارے وفد نے اس معاملے میں صوبائی وزیر مال علی امین خان، صوبائی وزیر زراعت اکرام اللہ خان، ڈی آئی جی، کمشنر، ڈی پی او وغیرہ سے ملاقاتیں کی ہیں۔ ہمارے کیمپ میں پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، پی ٹی آئی رہنماؤں نے شرکت کی ہے۔ پیپلز پارٹی کے صوبائی سیکرٹری نشریات فیصل کریم کنڈی نے اراضی خرید کر پرانی حیثیت میں بحال کرنے کی پیش کش کی ہے، مگر بات وہی ہے کہ جب یہ اراضی محکمہ اوقاف کی ہے ہی نہیں تو محکمہ اوقاف اسے بیچنے یا کسی اور کو دینے کا مجاز بھی نہیں ہے۔ آئی ایس او، مجلس وحدت مسلمین، شیعہ ینگ مین و دیگر اہل تشیع جماعتیں اس تحریک میں ساتھ ہیں۔

اسلام ٹائمز: حال ہی میں آپکی گرفتاری بھی عمل میں آئی تھی، اسکی کیا وجہ تھی۔؟
بشیر حسین جڑیہ:
یہ گرفتاریاں، اسارتیں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ نہ ہی یہ گرفتاری صرف میری تھی، بلکہ مجلس وحدت مسلمین کی پوری کابینہ کو بھی گرفتار کیا گیا۔ جس میں علمدار ہاشمی، محمد علی، تہور، مولانا غضنفر و دیگر احباب بھی شامل تھے۔ کوٹلی کی اراضی پر ناجائز تعمیرات کو گرانے کے خلاف ہمیں گرفتار کیا گیا۔ اللہ بھلا کرے ان احباب کا بھی، جو پیچھے آئے اور ضمانتوں وغیرہ کے لئے اپنا کردار ادا کیا۔

اسلام ٹائمز: ابھی آپکا احتجاج وفاقی حکومت کیخلاف ہے یا صوبائی حکومت کیخلاف۔؟
بشیر حسین جڑیہ:
اہل تشیع کیساتھ خیبر پختونخوا حکومت کا امتیازی سلوک قابل مذمت ہے۔ وفاقی حکومت سے گلہ ہے کہ وہ مسئلہ کے حل میں کردار ادا نہیں کر رہی اور احتجاج محکمہ اوقاف کے معاندانہ اور متعصبانہ رویے کیخلاف ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا سمجھتے ہیں کہ یہ احتجاجی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوگی۔؟
بشیر حسین جڑیہ:
ڈی آئی خان میں تشیع تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہاں کے شہریوں نے عصر یزیدیت میں درجنوں جنازے اٹھائے، ہر گلی کوچے سے اپنے پیاروں کی بے گناہ لاشیں اٹھائیں، مگر عزاداری سیدالشہداء پر کوئی آنچ نہیں آنے دی۔ خبر نہیں محکمہ اوقاف نے کیونکر اپنے طور پر یہ باور کر لیا کہ وہ کوٹلی امام حسین (ع) کی زمین کو ہڑپ کرلے گا، حالانکہ اسی زمین پر گنج شہداء ہے، روز عاشور کربلا برپا ہوتی ہے۔ مقدسات ہیں، قبرستان ہے۔ ان شاء اللہ تعالٰی یہ احتجاجی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوگی اور ضرور ہوگی۔ محکمہ اوقاف اور صوبائی حکومت کو کوٹلی کی پرانی حیثیت و شناخت بحال کرنا ہوگی۔ ورنہ شیعہ قوم اتنی بھی بے بس نہیں کہ محکمہ اوقاف انکی جائیداد ترنوالہ سمجھے اور ہڑپ کرلے۔
خبر کا کوڈ : 631040
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش