1
0
Saturday 29 Apr 2017 17:52

خندقوں کے ذریعے اہلیان پاراچنار کو محفوظ نہیں بلکہ ہراساں کیا جا رہا ہے، علامہ عابد الحسینی

خندقوں کے ذریعے اہلیان پاراچنار کو محفوظ نہیں بلکہ ہراساں کیا جا رہا ہے، علامہ عابد الحسینی
 علامہ سید عابد حسین الحسینی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور اسکے بعد تحریک جعفریہ میں صوبائی صدر اور سینیئر نائب صدر کے عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ ایک طویل مدت تک تحریک کی سپریم کونسل اور آئی ایس او کی مجلس نظارت کے رکن بھی رہے ہیں۔ 1997ء میں پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن منتخب ہوئے، جبکہ آج کل علاقائی سطح پر تین مدارس دینیہ کی نظارت کے علاوہ تحریک حسینی کے سرپرست اعلٰی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے پاراچنار کی تازہ صورتحال کے حوالے سے علامہ عابد الحسینی کیساتھ ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: علامہ صاحب! یہ بتائیں کہ اہلیان پاراچنار کو پے درپے دھماکوں کا نشانہ بنانے کے اسباب اور اس سے دشمن کے اہداف کیا ہیں۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
بسم اللہ الرحمن الرحیم، اسلام کے ابتدائی ایام سے ہی شیعیان حیدر کرار دشمنوں کے نشانے پر ہیں۔ اس وقت تو پوری دنیا میں شیعیان علی علیہ السلام بالخصوص پاراچنار کے ساکنین دشمنوں کے نرغے میں ہیں۔ دراصل شیعیان علی کا شروع ہی سے جرم یہی ہے کہ انہوں نے کبھی ظالم حکمرانوں کے ساتھ کوئی ڈیل نہیں کی۔ آج ایران، لبنان، شام اور یمن ہی کے شیعہ ہیں جو امریکہ اور اسکے بغل بچے اسرائیل کی مذمت کرتے ہیں اور مردہ باد امریکہ اور اسرائیل کے نعرے بلند کر رہے ہیں۔ جبکہ پوری عرب دنیا، مسلمانوں خصوصاً فلسطینی عربوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والے اسرائیلیوں کے ظلم پر نہ صرف خاموش ہے بلکہ انکی کمک بھی کر رہے ہیں، جبکہ یہی عرب اور انکے دیگر مسلم حواری ایران، شام اور عراق کے خلاف اتحاد بنانے میں سب سے سبقت لئے ہوئے ہیں۔ 
چنانچہ دھماکے کرانے والوں کا اصل مقصد یہی ہے کہ شیعیان علی امریکہ، اسرائیل اور ان دونوں کے سگے بھائی سعودی عرب کی مخالفت سے دستبردار ہوجائیں، تاکہ ان کے مظالم سے پردہ نہ اٹھایا جاسکے۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ دنوں گاودر میں جو دھماکہ ہوا، اسکا ہدف شیعہ تھے یا اتفاقاً یہ لوگ نشانہ بن گئے۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
دراصل یہ ایک پلانٹڈ بم تھا اور ریموٹ کنٹرول سے آپریٹ کرکے اس سے مخصوص شیعہ گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔ ہم نہیں بلکہ اسکی ذمہ داری تو طالبان نے خود ہی قبول کرلی ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انکے نشانہ پر صرف اور صرف یہی گاڑی تھی۔

اسلام ٹائمز: تحریک حسینی کے پیج پر یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ دھماکے میں ہونے والے زخمیوں کیساتھ صدہ ہسپتال میں نہایت غیر انسانی سلوک کیا گیا۔ اس میں کہاں تک صداقت ہے۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
زخمیوں کے ساتھ آنے والے عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ جب ہم نے زخمیوں کو صدہ ہسپتال پہنچایا تو زخمیوں کو اٹھانے کے لئے کوئی بندوبست نہیں تھا۔ یہاں تک کہ خواتین پر چادر ڈالنے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ کافی دیر تک ہسپتال کے گیٹ پر ہمارے زخمی پڑے رہے، انکا یہ بھی کہنا ہے کہ کئی زخمیوں خصوصاً چھوٹے بچے کی موت صرف بروقت امداد نہ ملنے کے باعث واقع ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ہسپتال اسٹاف کی ہم منت و زاری کرتے رہے۔ وہ یوں کھڑے تھے گویا کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ حالانکہ، سنی نشین علاقے، پاڑہ چمکنی میں جب منیر خان اورکزئی کے انتخابی جلسے میں دھماکہ ہوا تو کسی سرکاری ایمبولینس کی بجائے ہماری ہی ایمبولینسوں نے انکے زخمیوں کو ایجنسی ہیڈ کوارٹر ہسپتال پاراچنار پہنچایا تھا، جن میں تحریک حسینی، انصار الحسین، حیدری بلڈ بینک اور چنار بلڈ بینک کی ایمبولینسز پیش پیش تھیں۔ نیز پاراچنار ہسپتال میں انکے ساتھ جو برادرانہ سلوک کیا گیا اسکے متعدد گواہوں میں سے ایک خود منیر خان اورکزئی بھی ہیں، جنہوں نے اس بات کا اعتراف اسی وقت کیا تھا، جبکہ صدہ ہسپتال میں پیش آنے والی صورتحال سے تو یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یا تو یہ لوگ اس دھماکے پر راضی تھے یا پھر دہشتگردوں نے پہلے ہی سے انہیں متنبہ کر دیا تھا کہ اس طرح کے واقعات میں اگر انہوں نے کسی قسم کی کمک کی تو انکو سزا دی جاسکتی ہے، واللہ اعلم بالصواب۔

اسلام ٹائمز: سنا ہے، پاراچنار کو دہشتگردی سے محفوظ رکھنے کیلئے خندق کھودی گئی ہے۔ پھر یہ دھماکہ کیسے ہوگیا۔؟
علامہ سید عابد حسینی:
پہلی بات تو یہ ہے کہ حالیہ واقعہ پاراچنار شہر سے کافی دور سنٹرل کرم کے علاقے گاودر نامی علاقے میں ہوا ہے۔ جو کہ خندق کی حدود سے باہر ہے۔ دوسری بات یہ کہ پاراچنار شہر اور اسکے باسیوں کو خندقوں  کے ذریعے اور فورسز کے ذریعے نہیں بچایا جاسکتا، کیونکہ دھماکہ کرنے والے نہ خندقوں پر آتے ہیں، نہ سڑکوں پر بلکہ اکثر یوں ہوا ہے کہ خودکش کو شہر کے اندر ہی بارودی لباس پہنایا گیا ہے۔ اب بھی عینی شاہدین موجود ہیں، جو دعوے سے کہتے ہیں کہ انہوں نے کراخیلہ روڈ اور چنار روڈ کے سنگھم پر کرنل اجمل کو دیکھا جو ایک گاڑی کے پیچھے پیچھے جا رہا تھا۔ شنگ روڈ کے قریب شاہ مارکیٹ میں بھی اتفاقاً میں نے کرنل صاحب کو گاڑی سمیت کھڑے ہوئے دیکھا اور جب دھماکہ ہوا تو یہی کرنل تھے جو متاثرین کی بجائے مارٹر کے مس شدہ گولے جمع کر رہے تھے۔ چنانچہ یہ بات غلط ہے کہ خندق کے بعد دھماکہ نہیں ہوگا۔ اگر ایسا ہے تو پھر پاراچنار شہر کے اندر کیوں ایمرجنسی لگائی ہے۔ یہ سب کچھ پاراچنار شہر کو اقتصادی لحاظ سے مفلوج کرنے کی ایک سازش ہے۔

اسلام ٹائمز: جسطرح کہ آپ نے فرمایا، اگر ایسا ہے تو آپ لوگوں احتجاج کیوں نہیں کرتے۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
ہم نے اعلٰی حکام خصوصاً فوجی قیادت سے ڈائریکٹ احتجاج کیا ہے۔ انہیں اپنے سارے مسائل اور تحفظات پیش کئے ہیں۔ سب کچھ برملا کہا ہے۔ پاراچنار شہر اور اسکے باشندوں کی مشکلات خصوصاً خندق کے حوالے سے تحفظات پیش کئے ہیں، لیکن نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے اندر ہی بعض زرخرید غلام ہیں، جو ہر جائز و ناجائز معاملے میں حکومت کو گرین سگنل دیکر انہیں کھلی چھٹی دینے کی کوشش کرتے ہیں، تاہم ہم اپنے مسائل کے حوالے سے کبھی بھی آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔ حسب استطاعت کوشش کرتے رہیں گے۔ ہم نے اعلٰی عہدیداروں کے کانوں تک اپنی فریاد پہنچائی ہے اور ان پر واضح کیا ہے کہ کرم ایجنسی کی شیعہ آبادی تو صرف پاراچنار میں نہیں رہتی، بلکہ پاراچنار سے دس گنا آبادی اطراف میں رہتی ہے۔ دہشتگردوں کا ہدف تو ہم شیعہ ہیں، نہ کہ پاراچنار۔ اگر انہوں نے کہیں امام بارگاہ پر حملہ کیا، کسی پرہجوم زیارت، کسی سرکاری یا پبلک سکول پر حملہ کیا تو کیا تم انہیں روک سکو گے۔ پاراچنار شہر سے باہر ایسے درجنوں گنجان آباد دیہات اور پرہجوم مقامات موجود ہیں، وہ چاہیں تو انہیں بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ چنانچہ خندقوں سے ہمارا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ میرے خیال میں، خندقوں سے صرف خوف و ہراس ہی پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور کچھ بھی نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: کل 30 اپریل کو 3 شعبان یعنی امام حسین علیہ السلام کے یوم ولادت کی مناسبت سے آپکا جلسہ ہے۔ جلسے کے ایجنڈے میں امام حسین علیہ السلام کی شخصیت کے علاوہ کوئی اور موضوع بھی شامل ہوگا۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
ہمارے تمام جلسے جلوسوں میں پروگرام سے متعلقہ موضوع کے ساتھ ساتھ کرم ایجنسی کے مسائل کو بھی اجاگر کیا جاتا ہے۔ حتٰی کہ 1991ء تک جبکہ بندہ مرکزی جامع مسجد پاراچنار میں جمعہ پڑھایا کرتا تھا، تو اس وقت بھی جمعہ کے ایک خطبے میں احکام و اخلاق جبکہ دوسرے خطبے میں قومی مسائل کا ذکر کیا کرتا تھا۔ اسی طرح قدس جلوس کے دوران فلسطینی مسلمانوں کی مظلومیت کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے مظلوم طبقات بالخصوص پاراچنار کے عوام کی مظلومیت اور انکے حقوق کا ذکر کرنا ہماری روایت رہی ہے۔ چنانچہ عرض یہ ہے کہ کل ہونے والے جلسے میں عوام کو علاقائی مسائل کے حوالے سے خصوصاً موجودہ صورتحال کے بارے میں مکمل طور پر بریف کیا جائیگا۔
خبر کا کوڈ : 631910
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

kamran Mahdi
Pakistan
Mashalah great statement now its clear that,
YE JO DEHASHTGARDI HAI,
EIS K PECHEY WARDI HEYE
ہماری پیشکش