QR CodeQR Code

وزیراعظم کرپشن کے بادشاہ اور رشوت خوروں کے شیر ہیں

ہماری سرحد پر ایرانی سپاہیوں کا قتل کیا جانا پاکستان اور ایران کیخلاف عالمی سازش کا نتیجہ ہے، احسان اللہ ٹوانہ

مریم نواز کا نام مستقبل کے وزیراعظم کے طور پہ آنا پاکستان کی بدقسمتی ہے

8 May 2017 15:00

پی ٹی آئی پنجاب کے رہنماء کا اسلام ٹائمز کیساتھ انٹرویو میں کہنا تھا کہ ہمارا وزیراعظم پاکستان عوام کیخلاف تو دھاڑتا ہے، اپنی فوج کیخلاف بھی بولتا ہے، لیکن دشمن یعنی بھارت اور بھارتی وزیراعظم کے دوستوں کیساتھ چھپ کر ملاقاتیں کرتا ہے۔ یہ جملہ تو ٹیپو سلطان کا ہے، لیکن انکا کردار تو میر جعفر اور میر صادق والا ہے، یہ تو غدار ہیں، ملک اور عوام کے دشمن ہیں۔ بہادر آدمی نہ تو دشمن کے آگے جھکتا ہے، نہ ہی کرپشن کرتا ہے۔


پاکستان تحریک انصاف پنجاب کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن ملک احسان اللہ ٹوانہ منجھے ہوئے سیاستدان ہیں، ملکی سطح پر موجود سیاسی اتار چڑھاو، خطے میں پاکستان کیلئے پیدا ہونیوالی مشکلات، پانامہ کیس اور ڈان لیکس کے حوالے سے اسلام ٹائمز کیساتھ انکا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: وزیراعظم نے کہا ہے کہ گیدڑ چاہے سو ہوں لیکن شیر ایک ہی کافی ہوتا ہے، شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے، اسکا یہی مطلب ہوگا کہ اپوزیشن کی تحریک مطلوبہ نتائج نہیں حاصل کر پائی۔؟
احسان اللہ ٹوانہ:
مطلب اس کے بالکل الٹ ہے، کاش پاکستان کا وزیراعظم ایسا ہوتا، جس کے متعلق دنیا کہتی کہ اس کی مثال ایک شیر جیسی ہے، لیکن یہاں تو صورتحال برعکس ہے، ہمارا وزیراعظم پاکستان عوام کیخلاف تو دھاڑتا ہے، اپنی فوج کیخلاف بھی بولتا ہے لیکن دشمن یعنی بھارت اور بھارتی وزیراعظم کے دوستوں کے ساتھ چھپ کر ملاقاتیں کرتا ہے۔ یہ جملہ تو ٹیپو سلطان کا ہے، لیکن انکا کردار تو میر جعفر اور میر صادق والا ہے، یہ تو غدار ہیں، ملک اور عوام کے دشمن ہیں۔ بہادر آدمی نہ تو دشمن کے آگے جھکتا ہے، نہ ہی کرپشن کرتا ہے۔ یہ وہی شیر ہیں جنہوں نے دہشت گردوں سے کہا کہ ہم ایک ہیں، ہمارے کیخلاف حملے نہ کرو۔ یہ شیروں والا مزاج اس وقت کہاں تھا، جب مشرف نے گرفتار کیا تھا، اس وقت کیوں روتے اور گڑگڑاتے رہے۔ سعودی شہزادوں کے پاس پناہ کیوں لی۔ کھل کے سامنے کیوں نہیں آتے۔ یہ کرپشن کے بادشاہ اور رشوت خوروں کے شیر ہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ یہ لوگ پاکستان پر مسلط ہیں۔

اسلام ٹائمز: پانامہ کیس کی انکوائری کے بعد نیوز لیکس پر بھی صورتحال واضح نہیں ہو رہی، ایک دفعہ فوج بھی رپورٹ مسترد کرچکی ہے، قومی اداروں کے درمیان تناو بھی موجود ہے، آئندہ الیکشن تک یہ سلسلہ جاری رہیگا۔؟
احسان اللہ ٹوانہ:
اگر بقول حکومت انکوائری رپورٹ میں واضح ہے کہ انگریزی اخبار کی خبر میں قومی سلامتی کی خلاف ورزی نہیں ہوئی تو پھر اسے چھپانے کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا ہے، وزیراعظم کو رپورٹ میں کلین چٹ مل گئی ہے تو پھر اس رپورٹ کو شائع کرنے میں کیا حرج ہے، نیوز لیکس رپورٹ جاری کرنے کا مطالبہ کمیشن کی غیرجانبداری کا یقین کرنے کیلئے کر رہے ہیں، اگر کمیشن نے نواز شریف، مریم نواز اور فواد حسن فواد کا بیان نہیں لیا، تو پھر نیوز لیکس رپورٹ نامکمل سمجھی جائے گی، وزیراعظم ہاؤس سے پاکستانی افواج کیخلاف سازش کی بنیاد رکھنے سے متعلق شکوک و شبہات ابھی تک قائم ہیں، ان شکوک و شبہات کو دور کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ وزیراعظم آئین اور اپنے حلف کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں گے۔ قومی اسمبلی کی ساکھ تقریباً ختم ہوچکی ہے، عوام کا منتخب نمائندوں اور نظام پر سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے، جب ملک کے وزیراعظم سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ دبا دیں، پاناما لیکس میں قوم سے حقیقت چھپانے کی کوشش کریں یا نیوز لیکس رپورٹ کو چھپائیں تو یہ عمل پوری قوم کیلئے ندامت کا باعث بن جاتا ہے، ایسی کسی بھی کوشش کا ردعمل بہت شدید ہوتا ہے، جیسا آئی ایس پی آر کی ٹوئٹ میں بھی دیکھنے میں آیا، آئی ایس پی آر کے غیر معمولی اور شدید ٹوئٹ کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔

آرمی چیف، کور کمانڈرز اور وفاقی وزیر داخلہ خبر کو قومی سلامتی کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں، اس لئے نیوز لیکس انکوائری رپورٹ کو سامنے لایا جائے، کسی جرم کے نہ ہونے کی صورت میں دو وفاقی وزراء اور پرنسپل انفارمیشن آفیسر کو عہدوں سے الگ کرنا بہت بڑی سزا ہے، اگر یہ خبر قومی سلامتی کی خلاف ورزی ہے تو پھر صرف انہیں عہدوں سے الگ کرنا جائز سزا نہیں، بلکہ مکمل تحقیقات کی ضرورت ہے۔ ڈان لیکس معاملے کی ساری ذمہ داری مریم نواز پر آتی ہے، لیکن مریم نواز کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ چودھری نثار میں جرات ہے تو مریم نواز کی ٹویٹس بند کرائیں۔ طارق فاطمی اور راؤ تحسین کو قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے۔ مریم نواز والد کے زیرکفالت نہیں تھیں، مریم نواز شریف کی سیاسی جانشین ہیں، جس کے لئے کوئی نشست خالی کرا کر مریم نواز کو اسمبلی میں لایا جائے گا۔ حکومت کی بدنیتی اس سے ثابت ہوتی ہے کہ نیوز لیکس میں خبر چھاپی گئی، جس میں الزام لگایا گیا کہ حکومت تو دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنا چاہتی ہے، مگر انٹیلی جنس ادارے رکاوٹ ہیں۔ اس خبر پر سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آیا۔ نتیجہ سول ملٹری تعلقات میں تناؤ کی شکل میں نکلا۔ سول ملٹری تعلقات میں ہم آہنگی کتنی ہے، چوہدری نثار کی پریس کانفرنس نے اس راز سے بھی پردہ اٹھا دیا۔

اسلام ٹائمز: پہلے مردم شماری کی ٹیم کو لاہور میں نشانہ بنایا گیا، اب چمن بارڈر پر ایسی ہی کارروائی کی گئی ہے، ہمسایہ ممالک کیساتھ تعلقات بہتر بنائے بغیر دہشتگردی پر قابو پانا ممکن ہے۔؟
احسان اللہ ٹوانہ:
چمن میں شہری آبادی پر گولہ باری افغان بھارت گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے، افغانستان اپنے اندرونی حالات سے توجہ ہٹانے کیلئے ایسی کارروائیاں کر رہا ہے، اگر ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی اور ہمارے سویلین اور فوجیوں کو شہید کیا جائے گا تو ہم اس کا بھرپور جواب دیں گے۔ دونوں ممالک میں ہم آہنگی ضروری ہے، لیکن دوسری جانب سے مثبت جواب نہیں مل رہا، دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پاکستان افغانستان سے ہر محاذ پر مل کر کام کرنے کو تیار ہے، لیکن جب تک افغانستان جب پاکستان اور اپنا مفاد سامنے نہیں رکھے گا، اس وقت تک دہشت گردوں کے خلاف جنگ جیت نہیں سکتا۔ وہ لوگ جو کافی عرصہ پہلے یہاں سے روانہ ہوئے تھے، اب وہ لوگ واپس اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔ شمالی وزیرستان میں امن کی صورتحال بہتر ہوئی ہے، جس کے بعد تجارتی سرگرمیوں کو بھی فروغ مل رہا ہے، اب میران شاہ اور شمالی وزیرستان میں امن بحال ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے وہ واپس آگئے ہیں اور یہاں پر کافی اچھا ماحول ہے، اب یہاں کے حالات ٹھیک ہوگئے ہیں، سکیورٹی کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہے، لیکن ہم امید رکھتے ہیں کہ یہ مشکلات بھی آئندہ آنے والے دنوں میں ختم ہو جائیں گی۔

اسلام ٹائمز: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی عالمی سازش ہے، جسکے تحت پاکستان کے حالات خراب کرنے اور خطے کے ممالک کیساتھ تعلقات بگاڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔؟
احسان اللہ ٹوانہ:
واضح سی بات ہے کہ پاکستان ایران تعلقات کی بہتری کے لئے ہمارا وفد ایران گیا، اچھا رہا، لیکن جیسے ہی یہ وفد پاکستان پہنچا، ایران کے دس سرحدی محافظوں کو دہشتگردوں نے اچانک حملہ کرکے مار دیا۔ ایرانی وزیر خارجہ کو پاکستان آنا پڑا، وہ وزیراعظم، آرمی چیف، اسپیکر قومی اسمبلی اور وزیر داخلہ سے ملے۔ سول و فوجی قیادت سے ملاقاتوں کے نتیجے ہاٹ لائن بحال اور تحفظات دور کرنے کے لئے آپریشنل کمیٹیاں بنانے پر اتفاق کیا گیا۔ یہ دورہ ایک مضبوط پیغام ہے، ان عناصر کے لئے جو پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات خراب کرنا چاہتے اور غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان اپنے برادر اسلامی ممالک سے ہر صورت بہترین تعلقات چاہتا ہے۔ اسی طرح ایک اعلٰی سطح کا وفد افغانستان گیا، کیونکہ پچھلے کچھ عرصے سے پاک افغان تعلقات شدید تناؤ کا شکار تھے۔ پاک افغان سرحد پر کئی جھڑپیں ہوچکی تھیں، لیکن جیسے ہی یہ وفد پاکستان آیا، چمن پر افغان فورسز کی گولہ باری سے گیارہ پاکستانی شہری شہید اور 46 افراد زخمی ہوگئے۔ ان میں سکیورٹی فورسز اور ایف سی اہلکار بھی شامل ہیں۔ بظاہر افغان الزام کے مطابق تنازعہ کا باعث پاکستانی مردم شماری ٹیم تھی، جو افغان علاقے میں لوگوں کی مردم شماری کر رہی تھی، جبکہ پاکستانی حکام نے اس الزام کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ ٹیم افغان علاقے میں نہیں، پاکستانی علاقے میں ہی اپنے فرائض بجالا رہی تھی۔ لیکن حقیقت میں افغانی پولیس چمن کے علاقے میں مردم شماری ٹیم کے لئے 30 اپریل سے ہی رکاوٹیں پیدا کر رہی تھی۔ اس حقیقت کے باوجود کہ افغان حکام کو پہلے سے ہی اچھی طرح مطلع کر دیا گیا تھا کہ کوئی حادثہ نہ ہو۔ مردم شماری کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان ڈپلومیٹک اور ملٹری چینلز کو بھی استعمال کیا گیا۔ اسکا مقصد یہ ہے کہ جب بھی ہم اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے لئے پیش رفت کرتے ہیں، ہمارے دشمن کوئی نہ کوئی ایسی سازش کر دیتے ہیں کہ ہم پچھلے قدموں واپس چلے جاتے ہیں۔ یہ سارے واقعات پاکستان کے افغانستان اور ایران کے تعلقات کو خراب کرنے کی عالمی سازش ہے۔

اسلام ٹائمز: ڈان لیکس کا فیصلہ بھی پانامہ کیس کی طرح سامنے آتا ہے تو اس میں وزیراعظم اور انکی فیملی مکمل طور پر بچ نکلیں گے، قانونی لحاظ سے تو کچھ واضح نہیں ہوسکا، سیاسی طور پر بھی اسکے نتائج یہی یونگے۔؟
احسان اللہ ٹوانہ:
یہ تو حکومت کو بھی معلوم ہے کہ اگر ڈان لیکس میں مریم نواز یا دیگر نواز شریف کے قریبی سینیئر حکومتی ارکان مجرم ثابت ہو جاتے، تو یہ کیس اُن کی سیاست کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوتا۔ پورے ملک میں انہیں غدارِ وطن، بھارتی ایجنٹ، سیاسی دہشت گرد قرار دے دیا جاتا۔ اُن کے خلاف جلوس نکالے جاتے، ہر گلی اور چوراہے پر اُن کے پتلے جلائے جاتے، اُن کے پتلوں کو جوتوں کے ہار پہنائے جاتے، اُن کے خلاف ملک کو نقصان پہنچانے پر سزا دینے کے لئے ملکی عدالتوں میں کیس چلانے کے لئے تحریک زور پکڑ جاتی۔ لیکن اب بھی، جبکہ کیس کا فیصلہ انکے خلاف نہیں آتا، تب بھی مریم نواز اور دیگر سینیئر نون لیگی رہنماوں کی یہ سب کوششیں رائیگاں ہی جانی ہیں، کیونکہ پاکستان کی عوام فوج سے دل و جان سے محبت کرتی ہے اور پاک فوج کے خلاف سازش کرنے والے کو کبھی بھی معاف نہیں کرسکتی۔ بے شک ڈان لیکس کو صدیوں یاد رکھنے کا کوئی دعویٰ نہیں کیا گیا، اِس لئے عوام اضطراب اور ہیجان کی کیفیت سے بچ گئے۔

لیکن پانامہ کے فیصلہ کو سمجھنے کے لئے عوام کو بھی قانونی ماہرین کی ضرورت تھی، فیصلہ زیادہ واضح نہیں تھا، پہلے نواز شریف نے خوشی کا اظہار کرنے کیلئے قوم سے خطاب کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن جب وکلاء نے آکر فیصلہ سمجھایا تو نواز شریف نے قوم سے خطاب کا فیصلہ 2018ء کے متوقع الیکشن تک ملتوی کر دیا، جبکہ ڈان لیکس کا فیصلہ آتے ہی سمجھ آگیا کہ یہ کس کے خلاف آیا ہے اور کس کے حق میں لکھا گیا ہے۔ پاکستانی عوام کی اکثریت کو 2 کے پہاڑے کی طرح یاد بھی ہوگیا ہے۔ پانامہ کے فیصلے نے قوم کو تقسیم کر دیا تھا، جبکہ ڈان لیکس کے فیصلے نے قوم کو ایک مرتبہ پھر متحد کر دیا ہے اور حکومت کو پیغام دیا ہے کہ پاک فوج کے خلاف کوئی بھی سازش کامیاب نہیں ہونے دی جائے گی۔ پانامہ کیس میں وزیراعظم، چیئرمین نیب، ڈی جی ایف آئی اے سمیت کئی اداروں کو قصور وار ٹھہرایا گیا، لیکن اِن میں سے کسی ایک کو بھی سزا نہیں دی گئی۔ ڈان لیکس میں طارق فاطمی اور راؤ تحسین کو قصور وار قرار دیا گیا اور عہدے سے بھی ہٹا دیا گیا۔ ڈان لیکس میں پرویز رشید پر الزام لگا تو انہیں فوراً عہدے سے ہٹا دیا گیا، تاکہ صاف و شفاف تحقیقات کی جاسکیں، لیکن پانامہ کیس میں وزیراعظم پر الزامات کے بعد اُن کو عہدے سے نہیں ہٹایا گیا، تاکہ وہ اپنے ماتحت اداروں پر دل کھول کر اثر انداز ہوسکیں۔

اسلام ٹائمز: پانامہ کیس کی طرح ڈان لیکس میں بھی مریم نواز صاف بچ گئی ہیں، کیا وہ آئندہ وزیراعظم ہوسکتی ہیں۔؟
احسان اللہ ٹوانہ:
اس تمام صورتحال کے باوجود صرف ایک فیصلہ ایسا ہے کہ جو دونوں فیصلوں میں مشترک ہے اور وہ ہے مریم نواز کا مکھن میں سے بال کی طرح نکل آنا۔ پاکستانی قوم کی کیسی بدقسمتی ہے کہ مریم نواز بھی باپ جیسی قسمت لے کر پیدا ہوئی ہیں۔ بظاہر ایسا ہی ہے کہ پانامہ ہو یا ڈان لیکس، وہ دونوں میں بے گناہ اور معصوم قرار پائی ہیں۔ مریم نواز کو کلین چِٹ، پرویز رشید، طارق فاطمی اور راؤ تحسین کی برطرفی اِس بات کا واضح ثبوت ہے کہ جب تک حکومتوں میں کمّی موجود ہیں، انکے سائیں گناہ کرتے رہیں گے۔ مریم نواز جیسے نااہل لوگ مستقبل کے وزیراعظم بنتے رہیں گے اور ہماری آنے والی نسلیں غلام ابن غلام جیسی زندگی گزارتی رہیں گی۔ امید ہمیشہ باقی رہتی ہے، ان شاء اللہ 2018ء کے الیکشن میں عوام ان چوروں کے اقتدار میں آنے والے سب چور دروازے بند کر دینگے۔


خبر کا کوڈ: 634637

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/634637/ہماری-سرحد-پر-ایرانی-سپاہیوں-کا-قتل-کیا-جانا-پاکستان-اور-ایران-کیخلاف-عالمی-سازش-نتیجہ-ہے-احسان-اللہ-ٹوانہ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org