QR CodeQR Code

نواز حکومت کا راحیل شریف کو این او سی دیکر سعودی فوجی اتحاد میں بھیجنا درست فیصلہ نہیں ہے

امریکا اور اسکا اتحادی سعودی عرب پاک ایران تعلقات کے خلاف ہیں، ڈاکٹر محمد یونس دانش

نواز شریف نے سعودی و عرب امارات کے احسانات کا قرض چکانے کیلئے ملک اور پاک افواج کو داؤ پر لگایا ہوا ہے

11 May 2017 23:07

جمعیت علمائے پاکستان (نورانی) کی مرکزی مجلس عاملہ و شوریٰ کے رکن اور مرکزی سیکرٹری اطلاعات کا ”اسلام ٹائمز“ کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں کہنا تھا کہ درحقیقت امریکی بلاک کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ پاک ایران تعلقات بہتر سے بہتر خطوط پر استوار ہو، امریکا اور اسکے اتحادی سعودی عرب و متحدہ عرب امارات نہیں چاہتے کہ دونوں برادر اسلامی پڑوسی ممالک پاکستان اور ایران کے تعلقات بہتر سے بہتر ہوں، سعودی فوجی اتحاد میں سابق پاکستانی آرمی چیف راحیل شریف کو بھی جو ذمہ داری دی گئی ہے، وہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ پاکستان ایران کے ساتھ نہیں سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہے، اسے سپورٹ کر رہا ہے، ظاہر ہے کہ نواز حکومت کا راحیل شریف کو این او سی دیکر سعودی فوجی اتحاد میں بھیجنا درست فیصلہ نہیں ہے، حکومتی عہدیداران کے بھی اس فیصلے کے حوالے سے کئی متضاد بیانات آ چکے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ صرف اور صرف ذاتی مفادات کے حصول کیلئے عجلت میں کیا گیا ہے۔


ڈاکٹر محمد یونس دانش جمعیت علمائے پاکستان (نورانی) کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات ہیں، وہ جے یو پی کی مرکزی مجلس عاملہ اور مجلس شوریٰ کے بھی رکن ہیں، جمعیت علمائے پاکستان میں شمولیت سے قبل وہ انجمن طلبائے اسلام میں فعال تھے، جسکے وہ مرکزی سیکرٹری جنرل بھی رہے چکے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے ڈاکٹر محمد یونس دانش کیساتھ پاک ایران تعلقات و دیگر موضوعات پر ایک مختصر نشست کی، اس موقع پر ان کے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: گذشتہ دنوں پاک ایران سرحد پر جیش العدل نامی دہشتگرد تنظیم کی کارروائی میں دس ایرانی سرحدی گارڈز کی شہادتیں ہوئیں، جسے پاک ایران تعلقات کو خراب کرنے کی سازش قرار دیا گیا، اس حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
ڈاکٹر محمد یونس دانش:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ ایران پاکستان کا ایک برادر اسلامی پڑوسی ملک ہے، پاک ایران تعلقات بھارت کی آنکھوں میں بہت زیادہ کھٹکتا ہے، پاک ایران سرحد ہو یا پاک افغان سرحد، بھارت وہاں را کے ساتھ ساتھ امریکی سی آئی اے اور اسرائیلی موساد کے ذریعے دہشتگردی کی کارروائیاں انجام دیتا رہا ہے، بھارتی جاسوس کل بھوشن یادیو کا معاملہ سب کے سامنے ہے، جو پاکستان اور ایران کے درمیان سفر کرتا رہا ہے اور پاکستان میں دہشتگرد کارروائیوں میں ملوث رہا ہے، پاک ایران سرحد پر پُرامن صورتحال کو خراب کرنے اور پاکستان اور ایران کے درمیان تنازعات پیدا کرنے کیلئے اس قسم کی دہشگرد کارروائیاں ماضی میں بھی اسلام دشمن عالمی قوتوں اور خطے میں اسلام دشمن عناصر کی جانب سے انجام دی جاتی رہی ہیں، حالیہ ایرانی سرحدی گارڈز پر دہشتگرد حملہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

اسلام ٹائمز: اسلامی جمہوری ایران کی مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل محمد حسین باقری نے سرحدی گارڈز کی شہادت کی ذمہ داری پاک ایران سرحد پر پاکستانی علاقوں میں موجود امریکی و سعودی حمایت یافتہ دہشتگرد عناصر پر عائد کی اور توقع ظاہر کی کہ پاکستانی حکومت سرحدی سکیورٹی کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے دہشتگردوں کو گرفتار اور ان کے ٹھکانوں کو ختم کرے گی، لیکن ان کے بیان کو ذرائع ابلاغ سے توڑ مروڑ کر پیش کیا، کیا کہیں گے کہ دہشتگردوں کو حاصل امریکی و سعودی حمایت کے حوالے سے۔؟
ڈاکٹر محمد یونس دانش:
درحقیقت امریکی بلاک کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ پاک ایران تعلقات بہتر سے بہتر خطوط پر استوار ہو، امریکا اور اسکے اتحادی سعودی عرب و متحدہ عرب امارات نہیں چاہتے کہ دونوں برادر اسلامی پڑوسی ممالک پاکستان اور ایران کے تعلقات بہتر سے بہتر ہوں، سعودی فوجی اتحاد میں سابق پاکستانی آرمی چیف راحیل شریف کو بھی جو ذمہ داری دی گئی ہے، وہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ پاکستان ایران کے ساتھ نہیں سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہے، اسے سپورٹ کر رہا ہے، ظاہر ہے کہ نواز حکومت کا راحیل شریف کو این او سی دیکر سعودی فوجی اتحاد میں بھیجنا درست فیصلہ نہیں ہے، حکومتی عہدیداران کے بھی اس فیصلے کے حوالے سے کئی متضاد بیانات آ چکے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ صرف اور صرف ذاتی مفادات کے حصول کیلئے عجلت میں کیا گیا ہے۔

اسلام ٹائمز: پاک ایران سرحد پر ایرانی گارڈز پر دہشتگرد حملے جیسے واقعات پر دونوں ممالک کو کن اقدامات کے اٹھانے کی ضرورت ہے۔؟
ڈاکٹر محمد یونس دانش:
پاک ایران سرحد کا زیادہ تر حصہ بلوچستان کے ساتھ ہے، جو پاکستان کا دہشتگردی سے سب سے متاثرہ صوبہ ہے، یہاں سب سے زیادہ دہشتگرد کارروائیاں ہوتی ہیں، جن میں فرقہ وارانہ اور لسانی بنیادوں پر کی جانے والی کارروائیاں بھی شامل ہیں، سرحد کی کیا بات کریں، وہاں صورتحال تو یہ ہے کہ کوئٹہ جیسے شہر میں امن قائم نہیں ہو سکا ہے، ان حالات میں دونوں ممالک کو مشترکہ طور پر کوششیں کرنی چاہیئے، مشترکہ مکینزم بنانا چاہیئے، مشترکہ طور پر سرحد کی نگرانی کرنی چاہیئے، یہ دیکھنا چاہیئے کہ پاکستان اور ایران کا مشترکہ دشمن کون ہے، پھر اس پر کڑی نگاہ رکھنی چاہیئے، اب چاہے وہ ایران کی طرف سے آئے یا پاکستان کی طرف سے، دونوں ممالک کو مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے مشترکہ دشمن عناصر کو گرفت میں لانا چاہیئے، اپنے مشترکہ دشمن کے خاتمے کیلئے مشترکہ طور پر کام کرنا چاہیئے، جب تک دونوں ممالک بہترین حکمت عملی کے ساتھ مشترکہ کام نہیں کرینگے، آئندہ بھی ایسے واقعات رونما ہونے کا خدشہ رہے گا، عالم اسلام ایک جسم واحدہ کی مانند ہے، جس کے ایک حصے میں بھی تکلیف ہوگی تو اسے پورا جسم محسوس کریگا، ایران کو اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو پاکستان اس درد کو محسوس کرتا ہے، اسی طرح اگر پاکستان میں کچھ ہوگا تو ایران بھی اس درد کو محسوس کرنا چاہیئے، یعنی دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی تکلیف اور درد کو محسوس کرنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: پاک ایران تعلقات خراب کرنے کی سازش پر دونوں ممالک کی روش کیا ہونی چاہیئے۔؟
ڈاکٹر محمد یونس دانش:
پاک ایران تعلقات کو خراب کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں، خطے اور عالمی حساس حالات کے پیش نظر پاکستان اور ایران کو تحمل، برداشت اور رواداری کے جذبے کے تحت تعلقات کو آگے بڑھانا چاہیئے، تاکہ پاکستان،ایران اور اسلام مخالف عناصر کی سازشیں ماضی کی طرح ناکام بنائی جا سکیں، امریکا نے پاکستان اور افغانستان کو لڑایا، پاک فوج کی بڑی تعداد میں افغانستان کے ساتھ سرحد پر تعینات ہے، جہاں پر ماضی میں تعیناتی کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی تھی، لہٰذا امریکا سمیت اسلام دشمن قوتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان اور ایران کے درمیان بھی ایسا ماحول پیدا کیا جائے، تاکہ دونوں برادر اسلامی ممالک کی افواج سرحد پر آمنے سامنے آجائیں، لہٰذا دونوں ممالک کو دشمن قوتوں کی سازشوں کو ناکام بناتے ہوئے اپنے اصل دشمنوں پر نگاہ رکھنی چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: ایرانی سرحدی گارڈز کی شہادتوں کے بعد ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف گزشتہ دنوں پاکستان کے دورے پر آئے، کیا پاکستان کے اعلیٰ حکام کو بھی ایران کا دورہ کرنا چاہیئے، تاکہ پاک ایران تعلقات کو نقصان پہنچانے والی کوششوں کا تدارک کیا جا سکے۔؟
ڈاکٹر محمد یونس دانش:
موجودہ صورتحال میں تو خود وزیراعظم نواز شریف کو فوراً ایران کا دورہ کرنا چاہیئے، سول ہو یا عسکری، ہر سطح پر دونوں ممالک کے درمیان وفود کے تبادلوں کا سلسلہ مستقل طور پر جاری و ساری رہنا چاہیئے، اس سے دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے اور تعلقات خراب کرنے کی سازشوں کا تدارک بھی ہوگا اور تعلقات میں بھی مزید بہتری لائی جا سکے گی، ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، آگہی پیدا ہوتی ہے، ایک دوسرے کی ضروریات کا احساس ہوتا ہے، انہیں پورا کرنے میں مدد ملتی ہے، پاکستان اور ایران صرف ہمسائے ممالک ہی نہیں بلکہ اہم برادر اسلامی ممالک بھی ہیں، لہٰذا ہر سطح پر سول اور عسکری وفود کا تبادلہ جاری رہنا چاہیئے، تاکہ دشمن کو پاک ایران تعلقات خراب کرنے کا موقع نہ مل سکے۔

اسلام ٹائمز: سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کو سعودی فوجی اتحاد میں بھرتی کیلئے این او سی دینے کا فیصلہ حکومتی مرضی سے ہوا ہے یا فوج کی۔؟
ڈاکٹر محمد یونس دانش:
سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کو بھی پاک فوج نے این او سی جاری نہیں کری تھی، کیونکہ اگر پاک فوج اس طرح سے اجازت دینے لگے تو آج ایک جنرل کو سعودی عرب نے بھرتی کیا ہے، کل دوسرے جنرل کو ایران بھرتی کیلئے مانگ سکتا ہے۔ درحقیقت سعودی عرب کی پوری کوشش ہے کہ پاکستان جو ایک اہم ایٹمی اسلامی ملک ہے، تاثر دیا جائے کہ پاکستان اس کے ساتھ ہے، لہٰذا اسی تاثر کو تقویت دینے کیلئے سعودی عرب نے راحیل شریف کو عسکری اتحاد کی فوج کا سربراہ بنایا ہے، یہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے کہ پاکستان عوامی، فوجی، حکومتی طور پر سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہے۔ جنرل صاحب کو اجازت یا این او سی دینے سے پہلے یہ مسئلہ پارلیمنٹ میں رکھنا چاہیئے تھا، وزارت خارجہ، وزارت دفاع میں رکھنا چاہیئے تھا، سینیٹ و قومی اسمبلی کی متعلقہ اسٹینڈنگ کمیٹیوں میں یہ مسئلہ رکھنا چاہیئے تھا، اس پر ابحاث ہونی چاہیئے تھیں، لیکن نواز شریف صاحب نے کافی عجلت میں یہ فیصلہ کیا، کیونکہ نواز شریف صاحب پر سعودی عرب اور عرب امارات کے جو احسانات ہیں، انہوں نے ان کا قرض چکانے کیلئے ملک اور پاک افواج کو داؤ پر لگایا ہوا ہے۔

اسلام ٹائمز: نواز حکومت کا موجودہ دور اختتام پزیر ہونے والا ہے، لیکن آپ کیا وجہ سمجھتے ہیں کہ آج تک مستقل وزیر خارجہ مقرر نہیں کیا جا سکا۔؟
ڈاکٹر محمد یونس دانش:
دنیا کی تمام حکومتوں میں وزیر خارجہ کا کردار اہم ترین اور بنیادی نوعیت کا حامل ہوتا ہے، تیزی سے بدلتی ہوئی بین الاقوامی صورتحال میں اپنے ملک کے دفاع کیلئے، اپنے ملک کی سالمیت کو برقرار رکھنے کیلئے، بہترین، برادرانہ، دوستانہ، اقتصادی، سماجی جو روابط ہیں، ان کو فروغ دینے کیلئے، وزیر خارجہ کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے، لیکن موجودہ حساس ملکی و عالمی حالات کے باوجود ہمارے ملک میں مستقل وزیر خارجہ ہی نہیں ہے، اب جب ملک میں پالیسی بنانے والے ہی نہ ہوں، ان کو چلانے والا نہ ہو، پوری خارجہ پالیسی صرف ایک فیملی یا خاندان کی مرضی کے مطابق گھوم رہی ہو، تو پھر بین الاقوامی تعلقات میں بہتری کی امید تو کیا، پڑوسی ممالک سے بھی تعلقات خراب رہیں گے، ہمارے حکمرانوں کو تو صرف حلوے کھانے سے مطلب ہے، چاہے وہ جہاں سے بھی ملے، انہیں ملکی مفادات سے کوئی سروکار نہیں، انہیں ملکی استحکام و بقا و سالمیت کی کوئی پرواہ نہیں۔


خبر کا کوڈ: 635895

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/635895/امریکا-اور-اسکا-اتحادی-سعودی-عرب-پاک-ایران-تعلقات-کے-خلاف-ہیں-ڈاکٹر-محمد-یونس-دانش

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org