0
Friday 12 May 2017 09:15

پاراچنار کے تمام مسائل کا حل مرکز اور تحریک حسینی کے اتحاد میں مضمر ہے، مولانا یوسف حسین جعفری

پاراچنار کے تمام مسائل کا حل مرکز اور تحریک حسینی کے اتحاد میں مضمر ہے، مولانا یوسف حسین جعفری
مولانا یوسف حسین جعفری 1949ء کو پاراچنار کے نواحی علاقے نستی کوٹ میں پیدا ہوئے، 1968ء کو گورنمنٹ ہائی سکول پاراچنار سے میٹرک جبکہ گورنمنٹ ڈگری کالج پاراچنار سے ایف اے اور بی اے کیا۔ 1975ء کو محکمہ ایجوکیشن میں بحیثیت تھیالوجی ٹیچر تعینات ہوئے، اپنی اس سروس کے دوران وہ ایک طویل عرصہ تک تنظیم العلماء فاٹا کے صدر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیتے رہے۔ 2000ء میں ریٹائرڈ ہونیکے بعد عوام کی خدمت کیلئے فارغ ہوئے، تو انفرادی اور تنظیمی سطح پر اپنی کوششوں کو جاری رکھا، چنانچہ 2015ء میں مجلس علمائے اہلبیت کے صدر چنے گئے، جبکہ 3 مئی 2016ء کو تحریک حسینی کے صدر منتخب ہوگئے اور اسی دن یعنی 3 مئی 2016ء کو قومی حقوق پر احتجاج کرنیکی پاداش میں انہیں اپنے 47 ساتھیوں سمیت بنوں جیل بھیج دیا گیا اور پھر چھ ماہ جیل کاٹنے کے بعد 10 نومبر 2016ء کو جیل سے رہائی کے بعد تحریک حسینی کے پلیٹ فارم سے قومی اور علاقائی مسائل اٹھانے اور انکو حل کروانے میں مصروف عمل ہیں۔ اسلام ٹائمز نے کرم ایجنسی میں شیعہ سنی اختلافات اور انکے حل کے حوالے سے انکے ساتھ تفصیلی گفتگو کی ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا  جا رہا ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: کرم ایجنسی میں موجودہ ٹینشن میں حکومتی کردار نیز اس حوالے سے عوام خصوصاً علماء کے ردعمل سے آگاہ فرمائیں۔؟
مولانا یوسف حسین جعفری:
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ کرم ایجنسی میں موجودہ ٹینشن کی سی صورتحال کے حوالے سے تمام متعلقہ اداروں سے ہماری شکایات ہیں کہ وہ کرم ایجنسی کو خواہ مخوا دوسری ایجنسیوں کے ساتھ مربوط اور ٹیلی کر رہے ہیں، حالانکہ دوسری ایجنسیوں کے قبائل کی اکثریت طالبان اور دیگر ملک مخالف قوتوں سے ملی ہوئی ہے، جبکہ کرم ایجنسی کے عوام نے کبھی ایک دن کے لئے ملک کی مخالفت نہیں کی ہے۔ لہذا یہ حکومت کی خود ساختہ ٹینشن ہے، طالبان اور دیگر ملک دشمنوں کے ساتھ ہم ہر وقت حالت جنگ میں ہیں۔ ہم نے ماضی میں ملک کی حفاظت کی ہے اور آئندہ بھی کریں گے۔ باقی رہی عوام اور علماء کی بات، تو عرض یہ ہے کہ عوام موجودہ حالات سے تنگ آچکے ہیں۔ انکا خیال ہے کہ اس سب کچھ کا مقصد پاراچنار کو اقتصادی طور پر مفلوج کرانا ہے، جبکہ علماء نے اس حوالے سے تنظیمی اجلاسوں نیز مجالس میں عوام کو ہر لحاظ سے بریف کیا ہے اور کر رہے ہیں کہ ان حالات سے قطعاً نہ گھبرائیں، جبکہ حکومت اور متعلقہ اداروں کو بار بار اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے کہ طوری بنگش اقوام ایسے حالات سے گھبرانے والے نہیں۔

اسلام ٹائمز: پارا چنار کے اردگرد خندق کھودنے کے حوالے سے آپ نے کبھی سرکار کو اپنے تحفظات اور شکایات سے آگاہ کیا ہے۔؟
مولانا یوسف جعفری:
ہم نے درجنوں مرتبہ حکومت کو متنبہ کیا ہے، حتٰی کہ ٹل بریگیڈیئر جناب عامر صاحب کے ساتھ ملاقات میں بھی ہم نے یہ شکایت اٹھاتے ہوئے کہا کہ خندق کے ذریعے لوگوں کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے یا انہیں تنگ کیا جا رہا ہے؟ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اوپر سے ہمیں ہدایات ہیں کہ پاراچنار شہر کی حفاظت ہر لحاظ سے کرنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ یا طوری اقوام کے پاس اس سے بہتر کوئی تجویز ہے تو آپ ہمیں بتاسکتے ہیں۔ ہم تو آپ کی بہتری کے لئے یہ اقدامات کر رہے ہیں۔ ہمارے ایک دوست نے کہا کہ کیا خودکش حملہ آور کے لئے تین فٹ کی خندق عبور کرنا کوئی مشکل بات ہے، جبکہ اس سے تو اہلیان پاراچنار کے لئے مشکل پیدا ہوگئی ہے۔ یہاں تک کہ بعض مقامات پر دو قریبی رشتہ داروں کے چند فٹ پر واقع دو گھروں کے فاصلے کو کئی کلومیٹروں میں تبدیل کرکے انکے رشتوں کو متاثر کیا گیا ہے۔ تو عرض یہ کہ اس حوالے سے ہم نے پوری وضاحت پیش کر دی ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ جب تک مکمل قومی ہم آھنگی نہ ہو۔ مرکز اور تحریک حسینی متحد ہوکر یہ مسئلہ نہ اٹھائیں تو ان مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنا ذرا مشکل ہے۔

اسلام ٹائمز: بریگیڈیئر اور دیگر فوجی حکام کیساتھ ملاقات کس کی خواہش پر طے پائی۔؟
مولانا یوسف حسین جعفری:
اس ملاقات کا اہتمام کچھ اس طرح ہوا کہ 8 اپریل کو خرلاچی پوسٹ کے کرنل ارشد نے علامہ سید عابد حسینی کے ساتھ آڑخی میں انکے گھر میں ملاقات کی۔ ملاقات میں آغا صاحب کو بریگیڈیئر صاحب کیجانب سے انکے ساتھ ملاقات کی خواہش سے آگاہ کیا گیا۔ آغا صاحب نے ملاقات کی اجازت دے دی اور پاراچنار میں آغا صاحب کے دیرینہ دوست ڈاکٹر حاجی محبوب علی کے گھر میں 10 اپریل کو 2 بجے ملاقات طے ہوئی اور یہ ملاقات آغا صاحب کی خواہش پر نہیں بلکہ بریگیڈیئر کی پرسنل خواہش پر رکھی گئی، جبکہ ملاقات کے دوران علامہ حسینی نے بریگیڈیئر کے سامنے رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث بھی سنا دی کہ بہترین حاکم وہ ہیں، جو علماء کے پاس جاتے ہیں، جبکہ بدترین علماء وہ ہیں جو حکام کے درباروں میں حاضر ہوتے ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ کی حدیث کی روشنی میں موجودہ ٹل بریگیڈیئر نہایت شریف انسان ہیں۔ جنہوں نے نہایت شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود ہی اقدام ملاقات کیا اور ہمارے خصوصاً آغا صاحب کے تمام مطالبات کو غور سے سن کر اسکا ازالہ کرنے کا عندیہ ظاہر کیا۔

اسلام ٹائمز: بعض لوگوں نے اس ملاقات کے حوالے سے سوشل میڈیا پر نہایت تیکھے اعتراضات اٹھائے ہیں، اس حوالے سے آپکا کیا خیال ہے۔؟
مولانا یوسف حسین جعفری: دیکھیں ایک تو یہ کہ ملاقات بریگیڈئر عامر صاحب کی خواہش پر رکھی گئی تھی۔ بریگیڈئر صاحب وعدے کے مطابق اپنے مقررہ ٹائم پر دو بجے تشریف لائے، جبکہ سرکاری عہدیداروں کا ایک خاص طریقہ کار ہوتا ہے، وہ یوں کہ جب کبھی گورنر کسی ایجنسی کا دورہ کرتا ہے تو اسکے ساتھ اسکا ماتحت پورا عملہ یعنی کمشنر چیف سیکریٹری اور پولیٹیکل ایجنٹ وغیرہ سب کے سب جاتے ہیں۔ چنانچہ سرکاری روٹین کے مطابق بریگیڈئر صاحب کے ساتھ ماتحت عملے میں خرلاچی کے کرنل سمیت دو دیگر کرنل بھی موجود تھے۔ اور پیغمبرؑ کا قول ہے کہ "اکرمو الضیف ولو کان کافرا"۔ یعنی مہمان کا احترام کرو، خواہ وہ کافر کیوں نہ ہو۔ جبکہ پختون روایات بھی اسی طرح ہیں کہ مہمان کی پذیرائی کی جاتی ہے۔ 
چنانچہ عرض یہ ہے کہ گزشتہ سال سے متعدد بحرانوں قید و صعوبتوں کے باوجود ہم نے اپنا موقف صحیح انداز میں پیش کیا ہے۔ اس حوالے سے کبھی دباؤ میں نہیں آئے ہیں۔ اپنے موقف سے ایک قدم پیچھے ہٹے ہیں نہ ہی ہٹیں گے۔ سب کو پتہ ہے کہ قومی مسائل کے حوالے سے ہم نے کبھی مصلحت قبول نہیں کی ہے، اپنا موقف دوٹوک انداز میں پیش کیا ہے، اور آئندہ بھی پیش کرتے رہیں گے۔ 

اسلام ٹائمز: علامہ سید جواد نقوی کی پاراچنار آمد، نیز پندرہ شعبان کے جلسے کے حوالے سے کی جانیوالی تیاریوں کے حوالے سے کیا ارشاد فرمائیں گے۔؟
مولانا یوسف حسین جعفری:
آغا سید جواد نقوی کی پاراچنار آمد نہایت خوش آئند ہے۔ جن لوگوں نے انکی دعوت میں اہم رول ادا کیا ہے، ہم انہیں سلام پیش کرتے ہیں۔ اللہ انہیں جزائے خیر دے، علامہ جواد نقوی ایک انقلابی شخصیت ہیں اور وہ ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر اہم مقام کے حامل ہیں۔ پاراچنار آمد پر ہم انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔ اگرچہ کل ہم نے خود مدرسہ جعفریہ جاکر ان سے مصافحہ کیا۔ وہاں رات کا کھانا کھانے کے علاوہ انکے ساتھ کافی دیر تک بیٹھے رہے، جبکہ 15 شعبان کے جلسے کے حوالے سے اس دفعہ گذشتہ سالوں کی نسبت کافی زیادہ تیاریاں ہوچکی ہیں۔ گاؤں گاؤں اعلانات ہوگئے جبکہ یہ ایک اہم جلسہ ہے۔ ہونا یہ چاہئے کہ روایتی انداز سے ہٹ کر اس پروگرام کو ایک خاص انداز سے منایا جائے۔ جلسے میں قومی مسائل کو بھرپور انداز سے اٹھانا چاہئے۔ موجودہ ٹینشن کے حوالے سے کھل کر بات کی جانی چاہئے۔

اسلام ٹائمز: 3 شعبان کو آپ لوگوں یعنی تحریک حسینی کا جلسہ تھا۔ اس میں آپ نے کرم کے مسائل کو اجاگر کیا یا روایتی انداز اپناتے ہوئے فقط امام حسین علیہ السلام کی سوانح حیات ہی کو موضوع سخن بنائے رکھا۔؟
مولانا یوسف حسین جعفری:
ہمارے تمام جلسے جلوسوں میں متعلقہ موضوع کے ساتھ ساتھ قومی ایشوز پر سیر حاصل بحث کی جاتی ہے۔ اہلیان کرم کو نئے اور پرانے تمام مسائل سے آگاہ کیا جاتا ہے، کیونکہ ہماری سب سے بڑی بدبختی یہ ہے کہ اکثر مسائل کا تو عوام کو سرے سے علم نہیں ہوتا۔ چنانچہ اپنی سابقہ روایات کے مطابق 3 شعبان کے جلسہ میلاد میں ہم نے تقریروں کے ذریعے نیز ایک لکھی ہوئی 12 نکاتی قرارداد کے ذریعے عوام کو اپنے مسائل سے آگاہ کیا۔ قرارداد کی سینکڑوں کاپیاں شرکائے جلسہ میں تقسیم کی گئیں نیز اصول کے مطابق اس قرارداد کی دو تین کاپیاں انتظامیہ کے حوالے کی گئیں۔ لہذا یہ کہنا غلط ہوگا کہ ہم اپنے جلسوں کو روایتی انداز میں برگزار کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کہا جا رہا ہے کہ گذشتہ سال حکومت کیساتھ آپکا ایک معاہدہ ہوا ہے۔ اس معاہدے کے تحت آپ پر کچھ پابندیاں عائد کی جاچکی ہیں، کیا یہ صحیح ہے۔؟
مولانا یوسف حسین جعفری:
گذشتہ سال 11 مئی کو صدارہ میں جو سانحہ ہوا، اسکے خلاف پہلی دفعہ ہم نے آباد جاکر کورٹ میں مقدمہ دائر کیا اور اپنی آواز اور مظلومیت کو پاکستان کے تمام اعلٰی سول اور فوجی افسران تک پہنچایا۔ اپنے موقف سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹے بلکہ جمہوری انداز اپناتے ہوئے اپنے موقف کا دفاع کیا۔ اس دوران ہمیں پابند کرنے کی بار بار کوشش کی گئی، جبکہ ہم نے ان پر واضح کیا کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے، کسی جمہوری ملک میں عوام اپنے مطالبات کے لئے احتجاج کرسکتے ہیں۔ جلسے جلوس کرسکتے ہیں اور یہی کرتے ہیں، جبکہ غیر مہذب لوگ، تنظیمیں یا افراد جمہوریت سے ہٹ کر بندوق کی نوک، اغوا، ڈکیتی وغیرہ کی زبان استعمال کرتے ہوئے اپنے کام نکلواتے ہیں۔ چنانچہ احتجاج، جلسہ و جلوس اگر کہیں وطن عزیز کے قانون کے منافی ہے تو تحریری شکل میں ہمیں بتا دیا جائے، تاکہ ہم اپنے کام کو ترک کریں، نہیں تو اپنی جائز سیاست پر کبھی سودا نہیں کریں گے۔ یہی وجہ تھی کہ ساڑھے چھ ماہ تک ہمارے رہنماؤں کو جیل میں رکھا گیا۔ انتظامیہ کی انتہائی کوشش یہی تھی کہ قومی مسائل سے ہم دور رہیں اور اسی پر وہ ہم سے دستخط لینا چاہتی تھی، جبکہ ہم نے مسلسل انکار کرتے ہوئے ان پر واضح کیا کہ چودہ سال تک جیل کاٹنے کو تیار ہیں، لیکن غلط سیاست کی بنیاد ڈالنے کو ہرگز تیار نہیں۔
خبر کا کوڈ : 635937
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش