0
Tuesday 16 May 2017 03:24
پاناما فیصلے کے بعد نواز لیگ کی مٹھائیاں اخلاقی گراوٹ کی عکاسی کرتی ہیں

پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ یہاں فیصلے سیاسی دباؤ کا نتیجہ ہوتے ہیں، سید ناصر عباس شیرازی

اداروں نے وزیراعظم کو مجرم ثابت نہیں کرنا بلکہ وزیراعظم اور انکے بچوں نے اپنی بیگناہی ثابت کرنی ہے
پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ یہاں فیصلے سیاسی دباؤ کا نتیجہ ہوتے ہیں، سید ناصر عباس شیرازی
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر عباس شیرازی ماہر قانون اور مقبول سیاسی رہنما ہیں، ایم ڈبلیو ایم کے شعبہ اطلاعات اور شعبہ سیاسیات کے سربراہ رہ چکے ہیں، آئی ایس او پاکستان کے سابق مرکزی صدر اور چیف اسکاوٹ کی ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔ پاناما کیس جو کہ ملکی تاریخ میں ابتداء سے حالیہ فیصلے تک کروڑوں پاکستانیوں کی توجہ کا مرکز رہا اور اس فیصلے کے بعد ملکی ادارے عوامی تنقید کی زد میں بھی ہیں۔ اسلام ٹائمز نے پاناما کیس کے حوالے سے سید ناصر عباس شیرازی کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا اور اس کیس کے حوالے سے ہونیوالی سیرحاصل گفتگو کا خلاصہ انٹرویو کی صورت میں پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: پانامہ کا جو فیصلہ آیا ہے، اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟

سید ناصر شیرازی:
پانامہ کا جب سلسلہ سامنے آیا تو اس میں دلائل، ثبوتوں اور شہادتوں کو مسئلہ بنایا گیا، حالانکہ پانامہ پیپرز خود ایک ثبوت تھے، جس کی بنیاد پر کئی ممالک میں سربراہان، وزراء اور اہم شخصیات مستعفی ہوئیں۔ البتہ پاکستان میں اسے ذرا الگ نظر سے دیکھا گیا۔ پاکستان میں اس کے اثرات آئے۔ ایسا ماحول بنا کہ سپریم کورٹ کو خود ایکشن لینا پڑا۔ اس کیس میں جو مدعی پارٹی تھی، اس میں کورٹ نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے ٹی او آرز خود بنائے گا اور خود فیصلہ کرے گا، تمام پارٹیوں نے کورٹ کو یہ حق دیا۔ بہرحال دھرنوں، لاک ڈاؤن اور اس نوع کی دیگر معاملات کی موجودگی میں معاملہ کورٹ میں آیا، تو تمام ریاستی عناصر پرامید تھے کہ اس مسئلے کا قابل قبول حل سامنے آئے گا۔ سپریم کورٹ نے جو ایکشن لیا، وہ اس بات پہ کہ جو رقم پاکستان سے باہر ٹرانزٹ ہوئی ہے، وہ آمدنی کے حوالے سے کوئی ثبوت نہیں رکھتی تھی، یعنی بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ میاں نواز شریف اور ان کی فیملی نے غیر قانونی ٹرانزیکشن کی ہے، قانونی طریقے کو بائی پاس کرکے رقوم باہر بھیجی گئی ہیں۔ ساتھ میں شریف فیملی کے پاس ایسا بھی کوئی ثبوت نہیں کہ جس میں یہ ثابت ہو کہ یہ رقم ان کے پاس آئی کہاں سے۔ دنیا کے دوسرے ممالک میں جب یہ رقوم گئی ہیں تو ان سے انڈسٹریز لگی ہیں اور دیگر کاروبار وغیرہ بلیک منی کو وائٹ کرنے کیلئے مختلف آف شور کمپنیاں خریدی گئیں۔

اس کے علاوہ شریف فیملی کے پاس ایسے اثاثے بھی ظاہر ہوئے جو کہ نہ ہی الیکشن کمیشن میں ظاہر کئے گئے تھے اور نہ ہی کہیں اور۔ کورٹ کے پاس جب یہ چیزیں گئیں تو کھل کر ان پہ بات ہونے لگی، چونکہ یہ کیس نارمل نہیں تھا اور عام کیسز کی طرح ٹرائل کورٹ اور تفتیش و تحقیق سے نہیں گزرا تھا بلکہ سپریم کورٹ کو حالات کی سنگینی کے پیش نظر مداخلت کرنی پڑی تھی۔ اس کے علاوہ یہ کیس الجھا ہوا اس قدر تھا کہ مریم صفدر سے لیکر اسحاق ڈار تک دیگر کئی کردار اس کی زد میں تھے۔ روزانہ کی بنیاد پر اس کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی اور فیصلے سے متعلق سپریم کورٹ نے خود یہ کہا تھا کہ پاناما کیس کا تاریخی فیصلہ آئیگا۔ اس کی وجہ سے عوام و خواص کی نظریں فیصلے پر تھیں۔ میڈیا میں گھنٹوں کے اس پر پروگرام چل رہے تھے۔ بعد ازاں سماعت مکمل ہونے کے بعد سے لیکر فیصلہ سنائے جانے کا درمیانی وقت ملک بھر میں بے سکونی پر مبنی رہا۔ اس دوران لوگ عدلیہ کی تضحیک کرتے رہے۔ خیر صبر آزما انتظار کے بعد ہی سہی بہرحال فیصلہ آیا، جو آپ کے سامنے ہے۔

اسلام ٹائمز: پانامہ کیس کے فیصلے سے متعلق آپکی جماعت کا موقف کیا ہے۔؟
سید ناصر شیرازی:
ایم ڈبلیو ایم اس فیصلے کو دو تین پہلوؤں سے دیکھتی ہے۔ عدلیہ سے جو توقعات کی گئیں تھیں، وہ پوری نہیں ہوئیں۔ ہمیں توقع تھی کہ دو مہینے جب سپریم کورٹ نے اس کی سماعت کی، معاملات کی چھان بین کی۔ ان میں صحیح و غلط کا فرق واضح کیا، پاکستان کے سیاسی ماحول میں اس کی اہمیت کو دیکھا، ملکی مفاد کے حوالے سے اس کی اہمیت محسوس کی۔ اس کے باوجود اس پہ واضح لائن نہ دینا، مناسب نہیں۔ ہمارا یہ خیال ہے کہ سپریم کورٹ کو یا تو یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں لینا ہی نہیں چاہیئے تھا، اگر اب لے بھی لیا تو اس میں باقاعدہ فیصلہ جاری کیا جاتا۔ اس کیس میں تین ججز نے دوبارہ تحقیقات کی ضرورت اداروں کے ذریعے محسوس کی، جبکہ دو نے باقاعدہ فیصلہ جاری کیا۔ ہمار ا موقف یہی ہے کہ اس کیس میں باقاعدہ فیصلہ جاری کیا جاتا چاہے، وہ مثبت ہوتا یا منفی لیکن جاری کیا جاتا۔ چاہے وہ فیصلہ میاں نواز شریف کے حق میں آتا یا عوام کے حق میں آتا۔ اس لحاظ سے ہمیں فیصلے سے مایوسی ہوئی ہے، کیونکہ پہلے جو اپوزیشن ایک کردار ادا کر رہی تھی، اب وہ بھی نہیں کر پائے گی۔ دوسرا یہ بھی ہے کہ کچھ تکنیکی مسائل بھی تھے۔ سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ نہیں ہے، چنانچہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ کسی بھی ملزم کو اپنے دفاع کا حق نہ ملے۔ اگر ایک ملزم کے خلاف سماعت ہو تو اسے اپیل کا حق بھی ملنا چاہیے۔ چنانچہ ایک ایسا کیس کہ جو شروع ہی سپریم کورٹ سے ہو۔ جس کے پیچھے کوئی تحقیقات نہ ہو۔ نچلی عدالتوں کا ٹرائل نہ ہو۔ اس ٹرائل کے فیصلے نہ ہوں تو اعلٰی ترین عدالت سے شروع ہونے والے کیس میں اپیل کا حق رہتا نہیں۔ البتہ ملزم نظر ثانی کی درخواست کر سکتا ہے، جو انہی ججز نے کرنا ہوتا ہے۔ خیر اپیل کے حوالے سے بھی ہمارا موقف یہ ہے کہ سپریم کورٹ پہلے سے ہی ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دیکر مروجہ طریقہ کار اختیار کرکے نچلی سطح سے شروع کر سکتی تھی۔

اس کمیشن کا جو بھی فیصلہ ہوتا اس کے خلاف ملزم کے پاس اپیل کا حق سپریم کورٹ کی صورت میں باقی رہتا، مگر اس مروجہ طریقہ کار کو اپنانے کے بجائے سپریم کورٹ کے اعلٰی بینچ نے خود یہ کیس سنا ہے، چنانچہ فیصلے کی امید سپریم کورٹ سے کرنے والے لوگ حق بجانب تھے۔ اس لحاظ سے مجلس وحدت مسلمین نے ایک مرتبہ پھر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ سپریم کورٹ نے اس کیس کو اپنے گلے سے اتارا ہے اور اسے اعلٰی سطح سے دوبارہ نچلی سطح پر لے گئی ہے۔ ہمار تیسرا تحفظ یہ ہے کہ میاں نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں کو کسی جج نے کلیئر نہیں کیا، چنانچہ ایسی صورت میں جب وزیراعظم کو کلین چٹ نہیں ملی اور تحقیقات کے مرحلے کا دوبارہ آغاز ہو رہا ہے اور جے آئی ٹی تشکیل دی جا رہی ہے، جبکہ یہی سپریم کورٹ اپنے ریمارکس میں یہ بھی کہہ رہی ہے کہ ہم یہ کیس نیب کے حوالے نہیں کرسکتے، کیونکہ انہوں نے تعاون نہیں کیا۔ تعاون نہ کرنے کی وجہ یہی ہے کہ چیزیں گورنمنٹ کے پاس ہیں اور گورنمنٹ میاں نواز شریف صاحب کی ہے۔ ظاہر ہے میاں نواز شریف اپنے خلاف چیزوں کو کیونکر ہونے دیں گے۔ چنانچہ اس عنوان سے ہمارا مطالبہ ہے کہ جب میاں نواز شریف کو کلیئر نہیں کیا گیا اور وزیراعظم کے خلاف ہی تحقیقات ہونی ہیں اور اگر میاں نواز شریف اسی پوزیشن پر باقی رہتے ہیں تو کیا امکان ہے کہ حکومت یعنی وزیراعظم ان تحقیقات پر اثر انداز نہیں ہوں گے۔ سپریم کورٹ نے نیب کے حوالے سے ایک جانب اپنی بے بسی کا اظہار کیا ہے اور دوسری جانب کلیئر نہ کرنے کے باوجود اسی حکومت اور وزیراعظم کی موجودگی میں مزید تحقیقات ’’شفاف‘‘ کیلئے جے آئی ٹی کا فیصلہ سنایا ہے۔

اسلام ٹائمز: اپوزیشن جماعتوں نے مطالبہ کیا ہے کہ وزیراعظم مستعفی ہوں، ایم ڈبلیو ایم کا یہی مطالبہ ہے یا کچھ اور۔؟
سید ناصر شیرازی:
جس نواز شریف کو ہم جانتے ہیں، اس کے نزدیک اخلاقیات نامی شے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہ ہر قیمت پر اقتدار سے چمٹے رہنے والی ٹیم ہے۔ آپ دیکھیں کہ اس فیصلے پر کہ جس پہ شرمندگی محسوس کرنی چاہیئے تھی، اس فیصلے پر انہوں نے پورے پاکستان میں مٹھائیاں بانٹی ہیں۔ عدالت کہہ رہی ہے کہ فلاں فورم کے سامنے اپنی بے گناہی کے ثبوت دو۔ اسی کورٹ کے دو سینیئر جج انہیں مجرم قرار دیتے ہیں اور یہ ملک میں مٹھائیاں بانٹتے ہیں۔ مسلم لیگ نواز کو فیصلے کی سمجھ ہی مٹھائیاں بانٹنے کے بعد آئی۔ یہ امکان ابھی بھی ہے کہ پی ایم ایل اسی پاناما پھندے کا ہی شکار ہوگی۔ ملک کا بچہ بچہ جان گیا ہے کہ حکمران کرپٹ ہیں، چنانچہ فوری طور پر اقتدار سے عدم بیدخلی کوئی فتح نہیں ہے۔ اس فیصلے کے بعد مٹھائیاں مزید اخلاقی گراوٹ کا اظہار تھیں۔ ان لوگوں سے آپ کیا توقع رکھیں گے کہ درجنوں افراد ماڈل ٹاؤن میں مارے گئے، اس قتل کا مقدمہ جس پر درج ہے، اسے وزیر قانون بنا دیا ہے۔

اسلام ٹائمز: نواز لیگ کے حوالے سے عدلیہ کا جو ٹریک ہے، اسکی روشنی میں پانامہ فیصلے نے عدلیہ کے وقار میں اضافہ کیا ہے یا اس میں کوئی کمی آئی ہے۔؟
سید ناصر شیرازی:
دیکھیں جی، یہ دنیا میں پہلا ایسا فیصلہ ہے کہ جس پر حکومت اور اپوزیشن دونوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صحیح و غلط میں عدالت نے واضح تفریق نہیں کی۔ لہذا صحیح بھی اور غلط بھی، دونوں اسے اپنے لئے کامیابی سمجھ رہے ہیں۔ اس طرح کا فیصلہ جوڈیشل کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ مسلم لیگ نواز کی عدلیہ کے حوالے سے باقاعدہ ایک ہسٹری ہے۔ اتفاق سے ہمارے چیف جسٹس جو کہ اس حوالے سے متنازعہ سمجھے جا رہے تھے، لہذا وہ اس سے الگ ہوئے۔ اس سے پہلے پی ایم ایل کے ججز کے ساتھ روابط تعلقات اور مہربانیاں عیاں ہیں۔ جیسے جسٹس سعید الزماں صدیقی جیسا شخص کہ جو بستر مرگ پہ موجود تھا، اس کو وہاں سے اٹھا کے گورنر بنا دیتے ہیں۔ گورنر بننے کے بعد وہ ایک دن بھی اپنی ڈیوٹی انجام نہیں دے پایا۔ اسی طرح رفیق تارڑ کو وہ پریزیڈنٹ بناتے ہیں۔ کیا اہلیت ہے اس منصب کی، کیا وہ اس پر اترتے ہیں۔ بہرحال نواز لیگ کی اس حوالے سے ایک مکمل تاریخ موجود ہے۔ جسٹس سجاد علی شاہ کیس بھی گواہ ہے کہ کیسے معاملات کو مینج کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا جے آئی ٹی میں وزیراعظم اور انکے بیٹے پیش ہونگے۔؟
سید ناصر شیرازی:
میری رائے میں کھیل ختم نہیں ہوا بلکہ نئے مرحلے میں چلا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں مدعی مختلف سیاسی جماعتیں تھیں، اب مدعی سپریم کورٹ ہے۔ پہلے کردار اور الزامات واضح نہیں تھے، مگر فوکس نہیں تھا۔ جس سارے کی چھان بین کرکے سپریم کورٹ نے چودہ نکات نکالے ہیں۔ یعنی چودہ سوال ہیں، جن کے جواب وزیراعظم اور ان کے بچوں نے دینے ہیں۔ دوسرا یہ نکتہ بھی اہم ہے۔ اسی طرح جے آئی ٹی اپنی کارکردگی ہر پندرہ دن بعد سپریم کورٹ میں پیش بھی کرے گی۔ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو بااختیار اور وزیراعظم کا استثنٰی ختم کیا ہے۔ وزیراعظم اور ان کے بیٹے پابند ہیں کہ جے آئی ٹی جب بلائے تو یہ پیش ہوں۔ حکومت کو اس چیز کا اندازہ تھا۔ جس کا انہوں نے پہلے سے ہی انتظام کیا۔ اب سٹیٹ بینک کا، سکیورٹی اینڈ ایکس چینج کا جو بندہ پیش ہوگا، وہ جھوٹ بولے گا۔ اب اداروں کے یہ سارے بندے جھوٹ بھی بولیں تو بھی کورٹ نے چودہ سوالوں کے جواب مانگے ہیں۔ مثلاً جن پیسوں سے سعودی عرب میں مل لگی، وہ پیسے پاکستان سے کیسے اور کہاں گئے۔؟ سٹیٹ بینک، ایس آئی سی پی، ایف آئی اے وغیرہ کو ریکارڈ پیش کرنا پڑیگا۔ اگر ان کی بات ریکارڈ سے ہم آہنگ نہیں ہوگی تو وہ زبانی طور پر جو بھی کہیں قابل قبول نہیں ہوگی۔ کہنے کو جو بھی کہیں مگر انہیں لکھنا یہی پڑیگا کہ پیسے کا یہ سفر مستند نہیں ہے۔ ثبوت اور ریکارڈ کے ساتھ اسے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔

اس کے علاوہ ہم ایک قانونی اصطلاح استعمال کرتے ہیں بار ثبوت۔ پہلے یہ شفٹ ہوتا رہا، کبھی پی ٹی آئی پہ، کبھی کسی اور جماعت پہ۔ یعنی درخواست گزار ثبوت پیش کرے۔ یہ بار ثبوت اہم تھا، جو کہ اب میاں نواز شریف اور ان کی فیملی پہ ہے، یعنی وہ عدلیہ کے سوالات کے جوابات دینے کے خود ہی پابند ہیں، اب کسی اور پہ یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ ان کے خلاف ثبوت لائے، بلکہ انہیں ثابت کرنا ہے کہ یہ پیسے یہاں سے کیسے حاصل کئے۔ یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں کس طریقے سے منتقل کئے وغیرہ وغیرہ۔ اب اداروں کی بھی یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ جرم ثابت کریں، بلکہ ثابت وزیراعظم اور ان کے خاندان نے اپنی بے گناہی کرنی ہے۔ اگر وزیراعظم یہ ثابت نہیں کر پاتے اور ثبوت نہ لا پائے تو یہ سارا معاملہ ان کے خلاف جائے گا۔ میں یہ توقع رکھ رہا ہوں کہ سیاسی جماعتیں ہتھیار ڈال کے نہ بیٹھیں۔ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ یہاں فیصلے سیاسی دباؤ کا نتیجہ ہوتے ہیں، اگر سیاسی دباؤ نہ ہو تو کبھی بھی فیصلہ نہیں ہوگا۔ اگر اب بھی سیاسی اور عوامی دباؤ نہیں ہوا تو یہ جے آئی ٹی بھی جسٹس باقر کی جے آئی ٹی کی طرح دب جائے گی۔ اس جے آئی ٹی کی رپورٹ کو دبانے کا اختیار گورنمنٹ کے پاس نہیں ہے، کیونکہ یہ جے آئی ٹی اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرے گی۔ اس کے بعد سپریم کورٹ اپنا فیصلہ دے گی۔ اس طرح ان کو اپیل کا حق بھی مل جائے گا۔ تحقیقات بھی ہوں گی اور اس طرح سے مخصوص مدت یعنی ساٹھ دن میں وزیراعظم نے جواب دینے ہیں اور بار ثبوت بھی انہی پر ہے۔

اسلام ٹائمز: پانامہ کیس کے فیصلے کے بعد کیا پاکستان ایک بار پھر دھرنوں، ریلیوں جلسوں کیجانب جا رہا ہے۔؟
سید ناصر شیرازی: یہ بات تو پاکستان میں یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ سیاسی انتشار بڑھا تو سپریم کورٹ کو مداخلت کرنی پڑی۔ پیپلز پارٹی نے واضح سٹینڈ لیا ہے اور جے آئی ٹی کو مسترد کیا ہے کہ اٹھارویں گریڈ کا آفیسر اپنے وزیراعظم سے تفتیش کیسے کرسکتا ہے۔ ظاہر ہے جس ادارے کا ہیڈ چوہدری نثار ہے، اس ادارے کا اٹھارویں گریڈ کا افسر وزیراعظم سے تفتیش کیسے کرسکتا ہے۔ البتہ پی ٹی آئی نے تحفظات و خدشات کے ساتھ اسے قبول کیا ہے۔ آنے والے دو مہینے ایسے گزریں گے کہ جس میں پانامہ ایشو دبنے نہیں دیں گے۔ پیپلز پارٹی بھی جلسے شروع کرچکی ہے۔ ایوان کے اندر بھی ماحول گرما گرم ہے۔ اپوزیشن گرچہ مشترکہ کردار ادا نہیں کر رہی، تاہم ایک گروپ اگر جے آئی ٹی کو مسترد کرتا رہے تو عدلیہ پر دباو رہیگا اور دوسرا عوامی ماحول گرم رکھے۔ اس کے علاوہ اس کیس میں اہم ترین بات کہ اس میں قطری خط کو مسترد کیا جا چکا ہے، جسے اب دوبارہ پیش بھی نہیں کیا جاسکتا۔ جب ثبوت سپریم کورٹ میں پیش نہیں کئے جاسکے، تو جے آئی ٹی میں کیا ثبوت ہوں گے۔ چنانچہ یہ دو مہینے پاکستان میں بہت ہلچل رہیگی۔ مجلس وحدت مسلمین بھی متحرک ہے۔ اس معاملے میں ہم بھی مداخلت کریں گے۔ دنیا میں بدترین قسم کی فنانشل کرپشن کی ہے۔ ہم بھرپور کوشش کریں گے اس کرپشن کو روکنے کی۔ اپنی اپنی جگہ پر تمام جماعتیں پانامہ کے ایشو پہ نواز شریف کے خلاف کھڑی ہیں۔ ساری جماعتیں ملکر نواز شریف کے اقتدار کی گاڑی کو دھکا دے رہی ہیں، خوش آئند بات یہ ہے کہ سب ایک ہی سمت میں دھکا دے رہی ہیں، ایسا نہیں ہے کہ کچھ آگے سے اور کچھ پیچھے سے۔

اسلام ٹائمز: کیا جے آئی ٹی تحقیقات کیلئے وزیراعظم اور انکے بچوں کے پاس جائیگی۔؟
سید ناصر شیرازی:
یہ کریمنل انوسٹی گیشن ہے، سول انوسٹی گیشن نہیں ہے۔ جے آئی ٹی بااختیار ہے۔ اگر وزیراعظم پیش نہیں ہوتے تو سپریم کورٹ مداخلت کرسکتی ہے۔ نواز شریف پہ کریمنل الزام ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹر عاصم، ایان علی، وغیرہ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایڈمنسٹریشن حکمران خاندان کے پاس ہے، لہذا جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونا ان کا اتنا آسان نظر بھی نہیں آتا۔ تاہم سپریم کورٹ نے ان تحقیقات کے حوالے سے وزیراعظم کا استثنٰی ختم کیا ہے، جے آئی ٹی کو بااختیار کیا ہے اور بار ثبوت وزیراعظم اور ان کے بچوں کے کندھوں پر ہے، لہذا تعاون نہ کرنے کی صورت میں نقصان میاں نواز شریف اور ان کے بچوں کا ہی ہوگا۔

اسلام ٹائمز: پانامہ کیس فیصلے پر دو ججز کا عوامی سطح پر خیر مقدم اور تین کو شدید تنقید کا سامنا ہے، کیا ججز کیخلاف عوامی ردعمل بجا ہے۔؟
سید ناصر شیرازی:
اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا سمیت عوامی فورمز پر دو ججز کی ستائش اور تین کو تنقید کا سامنا ہے۔ ویسے بھی ججز نہیں بولتے، ان کے فیصلے بولتے ہیں۔ لوگوں کا حق ہے، ان کو توقعات تھیں، لہذا ان کا بات کرنا حق ہے۔ مطلقاً مایوسی نہیں ہے۔ جے آئی ٹی جب بلائے گی تو حسین نواز، حسن نواز کو آنا پڑے گا۔ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونا ان کے تکبر ٹوٹنے کی علامت ہے۔ سپریم کورٹ کے ماحول میں اور جے آئی ٹی کی تحقیقات میں بہت فرق ہوتا ہے۔ بہتر ہوتا کہ یہ خود سپریم کورٹ میں جاتے۔ جہاں وکیل بولتے ہیں اور سنتے ہیں، جبکہ جے آئی ٹی تو تفتیشی ٹیم ہے، جس کے سامنے ملزم کی حیثیت سے پیش ہونا ہے۔ قانوناً ان کے وکیل پیش نہیں ہوں گے بلکہ انہیں تفتیش کیلئے خود پیش ہونا پڑیگا۔ ممکن ہے کہ اس فیصلے پہ نظرثانی کیلئے درخواست کریں گے، کیونکہ جے آئی ٹی وزیراعظم کے چیمبر میں پیش نہیں ہوگی بلکہ وزیراعظم کو جے آئی ٹی میں پیش ہونا پڑیگا۔ سوالات ہوں گے اور ان کے جوابات ضرور دینے ہوں گے اور یہ فائنل فیز ہوگا۔ امید یہی ہے کہ یہ ہر قسم کے تمام تر جائز ناجائز اختیارات استعمال کرتے ہوئے ان سے بچنے کی کوشش کریں گے، مگر بہرحال تفتیش ہوئی تو وزیراعظم اور ان کے بچے خسارے میں ہیں۔
خبر کا کوڈ : 637176
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش