0
Thursday 7 Apr 2011 11:34

فرقہ واریت کا تاثر دے کر مذہب اور شعائر دینی کو بدنام کرنے والے ناکام و نامراد ہوں گے، علامہ قاضی احمد نورانی صدیقی

فرقہ واریت کا تاثر دے کر مذہب اور شعائر دینی کو بدنام کرنے والے ناکام و نامراد ہوں گے، علامہ قاضی احمد نورانی صدیقی
علامہ قاضی احمد نورانی صدیقی کا شمار ملک پاکستان کے جید علماء کرام میں ہوتا ہے، آپ وطن عزیز میں اتحاد بین المسلمین کے داعی شمار کئے جاتے ہیں، آپ جمیعت علمائے پاکستان کے مرکزی رہنما اور فدائیان ختم نبوت پاکستان کے مرکزی رابطہ سیکریٹری کے علاوہ فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کی سرپرست کمیٹی کے رکن ہیں، اسلام ٹائمز نے ملکی و بین الاقوامی حالات و واقعات پر آپ سے ایک خصوصی انٹرویو کیا، جو قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز:علامہ صاحب جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ کراچی شہر پاکستان کا معاشی حب ہے اور یہاں کے حالات جب خراب ہوتے ہیں تو اس کے اثرات پورے پاکستان میں محسوس کیے جاتے ہیں۔ آئے روز جاری ٹارگٹ کلنگ میں کس کا ہاتھ دیکھتے ہیں اور کون لوگ ہیں جن کا نہ تو پی پی کو پتہ اور نہ ہی ایم کیو ایم جانتی ہے۔؟
علامہ قاضی احمد نورانی صدیقی:پاکستان ایک اسلامی نظریاتی مملکت ہے اور کراچی اس کا دل ہے، عالم اسلام کا وہ عظیم شہر ہے کہ جہاں بڑی تاریخ ساز تحریکوں نے جنم لیا، شہر کراچی وہ مرکز ہے، کہ جہاں شعائر اسلام کے اعتبار سے بڑے بڑے اجتماعات بالخصوص نبی کریم کے میلاد کا یوم، اہلبیت اطہار کے ایام ، صحابہ کرام کے ایام اور غرض دیگر مذہبی رسومات شان و شوکت کے ساتھ ادا کی جاتی ہیں، کراچی کا مزاج شروع ہی سے مذہبی ہے اور کسی بھی مکتب کے جید علمائے کرام کو جو پذیرائی کراچی میں حاصل ہوئی وہ کہیں اور حاصل نہ ہوسکی، 2005ء میں جب ڈنمارک اور دیگر ممالک میں رسول اکرم ص کے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت ہوئی تو دنیا کے دیگر شہروں کی طرح کراچی میں بھی احتجاج ہوا، اور 16 فروری 2006ء کو تحفظ ناموس رسالت کے لئے جو ریلی نکالی گئی دنیا بھر کے میڈیا نے اس بات کو تسلیم کیا کہ یہ ریلی تحفظ ناموس رسالت کے لئے نکالی جانے والی دنیا کی سب سے بڑی ریلی تھی، یہ اجتماع دیکھنے کے بعد ایسے تمام عناصر کی کمر ٹوٹ گئی جو گزشتہ بیس پچیس سال سے کراچی کو سیکولر بنانے کی کوشش کر رہے تھے، اس سازش میں عالمی استعمار اور ملک میں موجود اس کے ایجنٹ دونوں برابر شریک تھے، یہی اصل وجہ تھی کہ شہر قائد کے امن کو برباد کرنے کے لئے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے، تاکہ نبی ص کے چاہنے والے خواہ شیعہ ہوں یا سنی، تحفظ ناموس رسالت کی خاطر جمع نہ ہوسکیں۔
اسلام ٹائمز:علامہ صاحب وہ کون سے عناصر ہیں کہ جو اس قسم کے واقعات میں ملوث ہیں اور ان عناصر کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے؟
علامہ قاضی احمد نورانی صدیقی: دیکھیں ان عناصر کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ ان کے عزائم کو واضح کرنا ضروری ہے، میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ اس سازش میں عالمی استعمار بالخصوص امریکہ، اسرائیل، بھارت اور ملک میں موجود اس کے ایجنٹ دونوں برابر شریک تھے، 16فروری کو تحفظ ناموس رسالت کے عظیم الشان اجتماع کے بعد عالمی استعمار نے اپنی سازش کو نیا رنگ دیا اور 11 اپریل 2006ء کو کراچی میں وہ تاریخی سانحہ پیش آیا، جو جشن عید میلاد النبی کے موقع پر شہر کراچی میں نشتر پارک میں خودکش دھماکے کی صورت میں کیا گیا، پھر شہر میں مزید فتنوں نے جنم لیا، جن میں ایک بڑا فتنہ لسانی جنگ کا تھا، جب اردو بولنے والوں کو پشتو، بلوچی، سندھی، پنجابی بولنے والوں سے لڑوا دیا گیا، اور شہر مختلف لسانی بنیادوں پر تقسیم ہو گیا، لیکن عوام سمجھ دار تھی عوام نے اس فتنہ کو پہچانا اور اسے ناکام بنایا، جب یہ فتنہ بھی کام نہ کر سکا تو انہوں نے مذہبی فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی، شیعہ سنی ، سنی دیوبندی غرض اس قسم کے اختلافات کو ہوا دی کہ جس کے بعد سنی شیعہ فرقوں کے علماء کا قتل ہوتا رہا، اور بعض مقامات پر بم دھماکے بھی کئے گئے، جیسے کہ عاشور و چہلم امام حسین کے جلوس میں بم دھماکہ کیا گیا، جب اس سے بھی استعمار کی مذموم سازش کامیاب نہیں ہوئی تو ایک اور سازش شروع ہوئی کہ جو پچھلے مہینے سے تاحال جاری ہے کہ علمائے اہلسنت کو نشانہ بنایا جائے، نیو کراچی میں مولانا عدنان شیخ، تیسر ٹاؤں میں مولانا عبدالرزاق، اورنگی میں ڈاکٹر خالد صدیقی، کورنگی میں علامہ سید محمود حسین شاہ اور اورنگی میں علامہ قمر الہدیٰ، اس طرح لگا تار علماء کو قتل کرنا شروع کیا گیا، اور یہ کوشش کی گئی کہ فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑیں، لیکن خدا کا کرم ہے کہ علماء جانتے ہیں کہ اصل سازش کرنے والا کون ہے، اس تمام سازش کے پیچھے عالمی استعمار کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے اور یہی وجہ کہ حکومت وقت اور اس کی حلیف جماعتیں بھی کوئی فیصلہ نہیں کر پاتیں، کیونکہ یہ معاملات حکومتی اہلکارو ں کے بس سے باہر ہیں، لیکن عوام اس سازش کو ناکام بنائیں گے اور اس شہر کے امن کو بحال کریں گے، اور فرقہ واریت کا تاثر دے کر مذہب اور شعائر دینی کو بدنام کرنے والے ناکام و نامراد ہوں گے، اس شہر کی رونقیں بھی لوٹیں گی اور یہاں کا دینی مزاج بھی برقرار رہے گا۔



اسلام ٹائمز:علامہ صاحب، قومی مجرم ریمنڈ ڈیوس کو جس انداز میں رہا کیا گیا، کیا یہ قومی غیرت کا سودہ کرنے کے مترادف نہیں۔؟
علامہ قاضی احمد نورانی صدیقی:بڑی واضح بات یہ ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک امریکہ کو عملی طور پر سپر پاور تسلیم کر چکے ہیں اور جب سے روس ٹکڑوں میں تقسیم ہوا ہے تو دنیا، امریکہ یا پھر اس کے باج گزاروں کے ماتحت ہے، ان میں چند اسلامی ممالک کے علاوہ باقی تمام اسلامی ممالک بھی شامل ہیں، وطن عزیز میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں امریکن سی آئی اے کے چیف باب ووڈز نے یہاں جو کاروائیاں کیں اور بعد میں ایک کتاب لکھی جس میں اقرار کیا کہ اس وقت پاکستان سی آئی اے کا سب سے بڑا مرکز تھا، تو جو ملک سی آئی اے کا سب سے بڑا مرکز رہا ہو ،جس ملک کے اندر سی آئی اے اتنی زیادہ اپنی مداخلت کر چکی ہو کہ اس ملک کے انتخابی معرکے بھی دھرے کے دھرے رہ جائیں، فیصلے وہیں سے ہوتے ہوں، ظاہر ہے کہ وہ اپنے مفادات کی جنگ یہاں لڑ رہے ہیں، یہ تو ریمنڈ ڈیوس کی بدقسمتی ہے کہ وہ پکڑا گیا اور سامنے آ گیا، نہ جانے اس ملک میں بلیک واٹر اور سی آئی اے کے کتنے ریمنڈ ڈیوس کن کن ناموں سے آزاد گھوم رہے ہیں، ہم نے تو ہمیشہ ہی سے یہ بات کی ہے کہ سانحہ نشتر پارک کے ذمہ دار بھی امریکن خفیہ ایجنسیاں ہیں، جنہوں نے یہ سارا ڈرامہ رچایا ہے اور یہاں کے مقامی ایجنٹوں سے کروایا، تو یہ پاکستان کی حکومت کی ذمہ داری ہے، پاکستان کی افواج کا فرض بنتا ہے کہ ان ایجنٹس کے بارے میں عوام کو بتائیں اور ان کیخلاف کارروائی کریں، وطن عزیز کا دفاع پاک فوج کی ذمہ داری میں سے ہے۔
اسلام ٹائمز:ریمنڈ ڈیوس کی رہائی میں پنجاب حکومت اور عدلیہ نے اہم کردار ادا کیا ہے، کیا یہ عوام اور ملک کے ساتھ غداری نہیں۔؟
علامہ قاضی احمد نورانی صدیقی:یہ تو کھلی بات ہے کہ امریکہ کے پاکستان میں مفادات ہیں اور وہ اپنے مفادات سے لاتعلق نہیں ہونا چاہتا جبکہ حکمران طبقہ یہ تسلیم کر چکا ہے وہ امریکی آشیر باد کے بغیر انتخابات میں کامیاب نہیں ہو سکتے، جس کی وجہ وہ امریکہ کا ہر مطالبہ تسلیم کر لیتے ہیں، یہ بات تو مانی جاسکتی ہے کہ کسی ملک کے دوسرے ملک سے سفارتی تعلقات ہوا کرتے ہیں لیکن یہاں تو تعلقات کی کوئی حد ہی نہیں۔ حکمران طبقے کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ آیا وہ وطن عزیز میں رہنے والے افراد کے مینڈیٹ کا احترام کریں یا امریکی حکمرانوں کے حکم کو مانیں۔ یہ بات سب کے سامنے واضح ہے کہ ملک میں خودکش حملوں کے پیچھے ایک فرقہ ضرور نظر آتا ہے، لیکن ان کو یہ سب کچھ فراہم کرنے والا بھی تو کوئی ہے، تو یہ سب ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں جن کا مقصد پاکستان میں افراتفری پیدا کرنا اور پاکستان کے عوام کو اتنا مایوس کرنا کہ وہ اپنے وطن سے مایوس ہو جائیں اور پاکستان ٹوٹنے کے کنارے پر پہنچ جائے، یہ ہی سب کچھ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کی صورت میں ہوا اور امریکہ نے ہمیں یہ پیغام دیا کہ ایک امریکی کی قیمت دس پاکستانیوں کے برابر ہے۔ افسوس کہ ہمارے حکمران کمزور ہیں ان کی کمزوری کو یوں دیکھتے ہیں صدر مملکت جس نام کا دن رات کا وظیفہ پڑھتے ہیں وہ ان کی برسی یا یوم پیدائش پر ان کے آبائی شہر میں جلسے سے خطاب نہیں کر سکتے، اس سے کمزور حکمران کیا ہو گا کہ اس ہی شہر میں دیکھ لیں وزیراعلٰی سندھ قائم علی شاہ ہوں یا وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا اس شہر میں کہیں پر کھڑے ہو کر جلسہ نہیں کرسکتے، یہ تو مذہبی لوگ پھر شہر میں صبح شام تک رہتے ہیں، چھوٹے ممالک کو بھی جینے کا حق ہوتا ہے، لیکن جینے کا حق اس ہی کو ہوتا ہے کہ جو خودداری سے جینا چاہے۔
اسلام ٹائمز:ریمنڈ ڈیوس کی رہائی میں جہاں پنجاب حکومت کا کردار ہے وہیں سعودی عرب نے بھی اس میں اہم کردار ادا کیا ہے، کیا یہ کسی دوسرے میں ملک میں مداخلت کے مترادف نہیں۔؟؟
علامہ قاضی احمد نورانی صدیقی:دیکھیں سعودی عرب کا معاملہ یہ ہے کہ چونکہ اس کے تمام اسلامی ممالک سے تعلقات برادرانہ اور دوستانہ ہیں، اب چونکہ دیگر ممالک کی طرح سعودی عرب بھی امریکہ کو سپر پاور کی حیثیت کو تسلیم کر چکا ہے ، تو جب بھی کسی اسلامی ملک میں امریکہ کو اپنا معاملہ حل ہوتا نظر نہیں آتا وہ اس کے حل کئے سعودی عرب کی خدمات حاصل کرتا ہے، اور سعودی عرب ان ممالک کو سمجھاتا ہے کہ اپنے ملک کو افغانستان بننے سے بچاؤ، اپنے ملک کو عراق بننے سے بچاؤ یا حال ہی میں اپنے ملک کو لیبیا بننے سے بچاؤ اور امریکہ کی بات مانو، اب اس میں آپ کی نظر ہے کہ آپ اس بات سے کیا مطلب لیتے ہیں۔
اسلام ٹائمز: یعنی آپ کی بات کا ہم یہ مطلب نکال سکتے ہیں کہ سعودی عرب نے جو مداخلت پاکستان میں کی ہے، جو مداخلت مصر میں عوام کے خلاف کر رہا ہے اور امریکہ حمایتیوں کو سپورٹ کر رہا ہے، شام میں امریکہ مخالف حکومت کو گرانے کی کوشش کر رہا ہے، لبنان میں حزب اللہ کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے، بحرین میں پرامن عوامی جمہوری تحریک کو کچلنے کے لئے اپنے فوجی دستے بھیج چکا ہے، یہ سب امریکہ کے ظلم میں اس کا ساتھ دینے والی بات ہے، کیونکہ یہ سب تحریکیں امریکی بالادستی کا خاتمہ چاہتی ہیں اور سعودی عرب بجائے اس کے کہ مسلمانوں کا ساتھ دے امریکہ کا ساتھ دے رہا ہے۔
علامہ قاضی احمد نورانی صدیقی:امریکہ یہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں کو تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزار کر مسلمانوں کی طاقت کو بالکل ہی ختم کر دیا جائے، لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ایران کی عوام اگر ایک زمانے میں رضا شاہ پہلوی کے خلاف اٹھی تو وہ کوئی سنی نہیں تھا بلکہ ایک شیعہ تھا، بلکہ اپنے آپ کو امام علی رضا کے روضہ کا مجاور اور خادم کہلواتا تھا، لیکن جب عوام نے دیکھا کہ ہم بھی شیعہ اور یہ بھی شیعہ لیکن اس کا مقصد دین نہیں بلکہ دنیا ہے تو شیعہ عوام ایک شیعہ حکمران کے خلاف اٹھ گئی، اسی طرح مصر میں اکثریت سنی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہے اور وہ حاکم بھی سنی تھا کہ جس کے خلاف لوگوں نے قیام کیا، تو یہ امریکہ کی خام خیالی ہے کہ وہ سعودی عرب کی معاونت حاصل کر رہا ہے اور اس غلط فہمی کا شکار ہے کہ مسلم اقوام کو شیعہ سنی بلاک میں تقسیم کرے، سعودی عرب کو بھی یہ احساس کرنا چاہیے کہ عالم اسلام اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے وہ قدر اس لئے ہے کہ وہ اپنے آپ کو خادم حرمین کہلواتا ہے، یہ اتنا بڑا اعزاز ہے کہ اس کی وقعت کم نہیں ہے، تو اس اعزاز کی حرمت کو باقی رکھنے کے لئے سعودی عرب کو کسی بھی اسلامی ملک میں امریکہ کا ساتھ نہیں دینا چاہیے اور مداخلت سے گریز کرنا چاہیے، ورنہ جو قوم اس کو خادم حرمین کا لقب دے سکتی ہے وہ اسے خائن حرمین کے نام سے بھی یاد کر سکتی ہے۔
اسلام ٹائمز:علامہ صاحب مشرق وسطیٰ میں جاری اسلامی بیداری کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں اور کیا اس کے اثرات پاکستان میں بھی پڑسکتے ہیں۔؟
علامہ قاضی احمد نورانی صدیقی:دیکھیں تیونس سے شروع ہونے والی بیداری کہاں پر ختم ہو سکتی ہے، کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن اس جانب سے ہوشیار رہنا ضروری ہے کہ امریکہ نے اس بیداری میں مصنوعی عنصر بھی شامل کر دیا ہے، وہ چاہتے ہیں ایک وفادار جائے تو دوسرا وفادار اس کی جگہ لے، مثال کے طور پر حسنی مبارک کے خلاف تحریک میں محمد البرادی ہمیں بہت فعال نظر آتا ہے، پاکستان میں انہوں نے پرویز مشرف کو اس وقت رخصت کیا جب ان کو زرداری مل گیا، مشرق وسطیٰ کی بیداری کو امریکی اثر سے بچانے کیلئے امام خمینی رہ جیسی شخصیت کی ضرورت ہوا کرتی ہے جو حکیم بھی تھے اور دشمن شناس بھی۔
اسلام ٹائمز:علامہ صاحب مصر میں آنے والی تبدیلی کے بعد اسرائیل کے مستبقل کو کہاں دیکھتے ہیں۔؟
علامہ قاضی احمد نورانی صدیقی:نہ صرف یہ کہ حسنی مبارک کا زوال اسرائیل کے لئے پریشانی کا باعث ہے، بلکہ دنیا کے تمام حکمرانوں کے لئے جو امریکہ کی آشیر باد پر پھلتے اور پھولتے ہیں یہ دیکھ لیں کہ امریکہ ان کو صرف ٹشو پیپر سمجھتا ہے کہ جب مقصد پورا ہوا تو اٹھا کر پھینک دیا، مصر میں حسنی مبارک کی حکومت کا گرنا اچھی نوید ہے، نہ صرف مصر والوں کے لئے بلکہ فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے لئے بھی کہ آنے والے وقت میں غزہ کے راستے بھی کھلیں گے اور مسلمانوں کے لئے قوت اور امداد بھی پہنچے گی، وہ دن دور نہیں کہ بیداری کی لہر بڑھے گی تو حماس اور حزب اللہ اکیلی نہیں ہوں گی بلکہ بہت ساری انقلابی تحریکیں ان کے ساتھ ہوں گی اور یقیناً اسرائیل کے عزائم خاک میں ملانے کے لئے ایک بڑا کردار ادا کریں گی۔
اسلام ٹائمز:علامہ صاحب امریکہ اور اسرائیل کا خطے میں کیا مسبتقل دیکھتے ہیں۔؟
علامہ قاضی احمد نورانی صدیقی:جی ایک وقت آئے گا جب نہ صرف اسرائیل نابود ہو گا بلکہ یہ عمل خود امریکہ کی نابودی کا نوشتہ دیوار ثابت ہو گا، اگر مسلم حکمران ہوش سے کام لیں تو امریکہ کی معیشت اس وقت اتنی زیادہ مضبوط نہیں ہے کہ وہ دیر تک دنیا کو سنبھال پائے، وہ تو خود ہم کو لڑوا کر اپنا اسلحہ ہمیں ہی بیچ کر اور ہمارے وسائل پر قبضہ کر کے اپنا گزارا کر رہا ہے ورنہ اگر اعداد و شمار دیکھے جائیں تو امریکہ کا زوال بھی بہت جلد ہونے والا ہے، اور ویسے بھی ظلم جب حد عروج پر پہنچتا ہے تو اس کا زوال تو بالآخر ہوتا ہی ہے۔
اسلام ٹائمز:عالم اسلام میں جاری اسلامی تحریکوں میں انقلاب اسلامی ایران کے اثرات کہاں تک ہیں۔؟
علامہ قاضی احمد نورانی صدیقی:انقلاب اسلامی ایران کی طرح دنیا میں جہاں کہیں بھی اسلامی تحریکوں نے کامیابی حاصل کی وہ ہمارے حوصلے بلند کرنے کا باعث ہیں، ایران کی خوش قسمتی یہ تھی کہ وہاں پوری قوم کا نظریہ ایک تھا اور پھر قیادت بھی آیت اللہ روح اللہ خمینی جیسی عظیم شخصیت کی تھی، افسوس کہ دنیا کہ دیگر اسلامی ممالک میں ایسی صورتحال نہیں ہے، جہاں لوگوں کا نظریہ ایک ہے، تو وہاں امام خمینی جیسی کسی شخصیت کا وجود ہی نہیں ہے، لیکن یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی اسلامی مزاحمتی تحریکوں نے اپنے قدم جمائے وہ تمام تحریکیں انقلاب اسلامی ایران ہی کا ایک ثمر تھیں، ایران جیسی صورتحال تو کہیں نہیں ہے لیکن مصر کی تحریک نے ثابت کیا ہے کہ اگر عوام متحد ہوں تو بڑی سے بڑی طاقت کو بھی اپنے اتحاد، عزم، اور حوصلے سے سر نگوں کر سکتے ہیں۔
اسلام ٹائمز:ملک میں دہشتگردی کی مسلسل جاری کارروائیوں میں کون سی فکر کارفرما دیکھتے ہیں، دوسرا یہ کہ حقیقی اتحاد بین السلمین کے حوالے مذہبی جماعتوں کو کیا کردار ادا کرنا چاہیئے۔؟ علامہ قاضی احمد نورانی صدیقی: اس ملک میں امن و امان ہر شخص کی آرزو بھی ہے اور اس کی تمنا بھی ہے، آپ کو یاد ہو گا کہ سندھ مدرستہ السلام میں موجود مسجد حیدری جو کہ اہل تشیع حضرات کے لئے ہے، میں جب خودکش دھماکہ ہوا تو برابر ہی میں موجود دوسری مسجد جو اہلسنت برادری کی ہے، وہ افراد سب سے پہلے اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کے لئے دوڑے ، یہ معلوم تھا کہ دھماکہ کرنے والا نہ شیعہ ہے اور نہ ہی سنی بلکہ وہ ایک مخصوص فکر کا حامل فرد ہے، تو یہ بات تو واضح ہے کہ لوگوں میں اتحاد کی فضاء قائم ہے، مذہبی جماعتوں کی جہاں تک بات ہے تو اس ملک میں ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل کی مثال موجود ہے، کہ بدترین حالات میں ان کی بنیاد پڑی کہ ایک وقت ایسا تھا کہ شیعہ اور سنی کے نام پر قتل و غارت گری کا بازار گرام تھا، تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اتحاد کی کوششیں ضرور ہوئی ہیں، لیکن یہ الگ بات ہے کہ ان کے نتائج اس سطح پر برآمد نہیں ہوئے کہ جس طرح ہونے چاہیے تھے، اس لئے خلوص نیت بہت لازمی امر ہے، لیکن بہر کیف جب انتخابی اتحاد عمل میں آ سکتے ہیں تو حقیقی بنیادوں پر بھی اتحاد ہو سکتا ہے، لیکن جیسا میں نے پہلے کہا کہ اس کے لئے خلوص نیت ضروری ہے۔
خبر کا کوڈ : 63748
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش