0
Wednesday 24 May 2017 15:07
نواز شریف کو ملکی مفاد عزیز نہیں، وزیراعظم صاحب سعودی احسان کا بدلہ چکانا چاہتے ہیں

ریاض میں ہونیوالی کانفرنس میں ایران کیخلاف بننے والے سعودی فوجی اتحاد کی حقیقت سامنے آگئی، صاحبزادہ ابوالخیر زبیر

امریکی جنگ میں شامل ہوکر اب تک اسکی سزا بھگت رہے ہیں، اب نئے محاذ کیطرف جا رہے ہیں
ریاض میں ہونیوالی کانفرنس میں ایران کیخلاف بننے والے سعودی فوجی اتحاد کی حقیقت سامنے آگئی، صاحبزادہ ابوالخیر زبیر
ملی یکجہتی کونسل کے صدر اور جمعیت علمائے پاکستان کے مرکزی رہنما صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر کا شمار ملک کے اہم مذہبی و سیاسی رہنمائوں میں ہوتا ہے، ملک میں نظام مصطفٰی (ص) کا نفاذ انکی جماعت کا مشن ہے، صاحبزادہ ابوالخیر زبیر نے دوسری مرتبہ ملی یکجہتی کونسل پاکستان کی صدارت سنبھالی ہے۔ اسلام ٹائمز نے صدر ملی یکجہتی کونسل سے حالیہ امریکہ اسلامی سربراہ کانفرنس، اسکے اثرات اور پاکستان کے حالات پر اہم انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: ریاض کانفرنس میں جس طرح وزیراعظم کی توہین کی گئی اور خطاب تک نہیں کرنے دیا گیا، اسکو کیسے دیکھتے ہیں۔؟
صاحبزادہ ابوالخیر زبیر:
دیکھیں اس پر پوری قوم متفق ہے کہ پوری ملت پاکستان کی تذلیل کی گئی ہے، یہ فقط ہمارے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی نہیں بلکہ پوری قوم کی تذلیل ہے، ہمارے سر شرم سے جھک گئے ہیں، نہ تقریر کی دعوت دی گئی، نہ خطاب کا موقع دیا گیا، نہ مناسب سیٹ دی گئی، نہ ہی کسی مناسب پروگرام میں بٹھایا گیا، نہ ہی ان کی ملاقات کرائی گئی، نہ ہی پاکستان کی خدمات گنوانا گوارہ کیا گیا، آپ دیکھیں کہ اس کانفرنس میں دہشتگرد ہندوستان کی خدمات کو سراہا جا رہا ہے، بجائے اس کے اس کی دہشتگردی پر بات ہوتی، یہ تمام چیزیں حکمرانوں کے سوچنے کیلئے کافی ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا واضح نہیں ہوگیا کہ سعودی فوجی اتحاد دراصل امریکی اتحاد ہے۔؟
صاحبزادہ ابوالخیر زبیر:
جی بالکل 100 فیصد واضح ہوگیا ہے کہ یہ امریکی اتحاد ہے، امریکہ اس اتحاد کی سرپرستی کر رہا ہے، یہ بھی چیز واضح ہوگئی ہے کہ یہ اتحاد ایران کے خلاف ہے، سعودی فرمانروا شاہ سلمان اور امریکی صدر ٹرمپ نے بالکل واضح کر دیا ہے کہ یہ اتحاد ایران کے خلاف ہے، انہوں نے اپنے خطابات میں ایران کا نام لیا ہے۔ اب کیا چیز واضح کرنے والی رہ گئی ہے۔؟

اسلام ٹائمز: پاکستان کے اس اتحاد میں شامل ہونے پر کیا کہتے ہیں۔؟
صاحبزادہ ابوالخیر زبیر:
دیکھیں اس صورتحال کے بعد سوچنے کی بات ہے کہ کیا اب بھی ہمیں اس اتحاد میں رہنا چاہیئے۔ ہمارے حکمرانوں نے واضح کیا تھا کہ یہ اتحاد ایران کے خلاف نہیں ہے، اگر ہوا تو ہم اس اتحاد میں شامل نہیں ہوں گے، اب بتائیں کہ آپ کا اسٹیس کیا ہے۔؟ اب تو اس کانفرنس کے بعد اعلان بھی ہوگیا ہے کہ یہ اتحاد ہے ہی ایران کے خلاف۔ اب تو واضح ہوگیا ہے کہ دو بلاکس ہیں، ایک امریکہ کے خلاف اور دوسرا ایران کے خلاف۔ اب یہ حکمرانوں کی سوچنے کی بات ہے کہ کیا ہمارا اس اتحاد میں باقی رہنا بنتا ہے۔

اسلام ٹائمز: راحیل شریف صاحب سعودی عرب بیٹھے ہیں اور وہ اس اتحاد کو لیڈ کر رہے ہیں تو سوال یہ بنتا ہے کہ پاکستان کی غیرجانبداری والی باتیں کہاں گئیں۔؟
صاحبزادہ ابوالخیر زبیر:
یہ واضح بات ہے کہ پاکستان کی غیر جانبداری کی باتیں مجروح ہوگئی ہیں، صرف مجروح نہیں بلکہ آپ اپنے پڑوسی ملک کو اشتعال دلا رہے ہیں۔ آپ اپنے اسلامی بھائی کو دشمن بنا رہے ہیں، پہلے ہی افغانستان کو دشمن بنا چکے ہیں، بھارت ہے ہی دشمن اور اب آپ تیسرے ہمسایہ ملک کو بھی دشمن بنانا چاہتے ہیں۔؟ آپ اپنی سرحدوں کو غیر محفوظ بنا کر کہاں کی عقل مندی کا کام کر رہے ہیں۔؟ امریکی جنگ میں شامل ہوکر اب تک اس کی سزا بھگت رہے ہیں، اب نئے محاذ کی طرف جا رہے ہیں۔ کیا اب اس جنگ میں شامل ہوکر بچا کچھا پاکستان برباد کرنا چاہتے ہیں۔؟ یہ سوچنے والی بات ہے کہ آپ پاکستان اور پاکستان کی سالمیت کو تباہ کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کی خارجہ پالیسی کو کہاں دیکھ رہے ہیں، ماضی میں ایک پالیسی کا نتیجہ ابھی تک بھگت رہے ہیں، اب نئے محاذ پر ناکامی سامنے آرہی ہے۔؟
صاحبزادہ ابوالخیر زبیر:
وزیراعظم نواز شریف صاحب نے خارجہ پالیسی اپنے پاس رکھی ہوئی ہے، اسی لئے مستقل وزیر نہیں لگایا، تاکہ سب کچھ اپنے پاس رکھوں اور اپنی مرضی کے فیصلے کروں۔ اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دوں، ان کو ملکی مفاد عزیز نہیں ہے۔ وزیراعظم صاحب سعودی احسان کا بدلہ چکانا چاہتے ہیں اور کچھ نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: عالمی عدالت میں بھارت کا جانا اور کلبھوشن کی پھانسی کا رک جانا، اسکو کیسے دیکھتے ہیں۔؟
صاحبزادہ ابوالخیر زبیر:
جی اس کو بھی اسی تناظر میں دیکھتے ہیں کہ میاں صاحب کو ذاتی مفاد عزیز ہے، جس طرح سے کلبھوشن یادیو نے پاکستان میں دہشتگردی کی ہے اور کارروائیان کی ہیں، اس کا اعترافی بیان ریکارڈ پر موجود ہے، لیکن میاں صاحب نے آج تک کلبھوشن کا نام تک لیا ہے، نہ ہی اس معاملے کو عالمی سطح پر اجاگر کیا ہے، کیونکہ ان کے بھارت میں کارخانے چل رہے ہیں اور مودی کی محبت میں یہ سب کچھ قربان کرچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہ یہ بھارت کے خلاف بولتے ہیں، نہ عالمی عدالت، عالمی میڈیا اور عالمی اداروں میں معاملہ لیکر جا رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: جندال کے پاکستان آنے کو کیسے دیکھتے ہیں۔؟
صاحبزادہ ابوالخیر زبیر:
دیکھیں یہ جندال پاکستان آیا ہے، دراصل وہ کلبھوشن کی پھانسی رکوانا چاہتے ہیں، آرمی ہر صورت اس کو پھانسی دینا چاہتی ہے۔ اس سے پاکستان کا دفاع مضبوط ہوگا اور دہشتگردی ختم ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ پاکستان میں دہشتگردی قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ پاکستان کا استحکام نہیں چاہتے۔ میاں صاحب نے ایک دہشتگرد کو بچانے کیلئے راہیں نکالی ہیں، عالمی عدالت میں جانے کا مشورہ نواز شریف نے بھارت کو دیا ہے۔ انہوں نے پہلے سے چیزیں طے کرلی تھیں کہ ہم عالمی عدالت میں وکیل بھی نہیں کریں گے اور وکیل بھی فوج کو کرنا پڑا ہے۔ نہ اس کیس کی تیار کی گئی۔ اول تو عالمی عدالت میں جانے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ کیوں گئے ہیں۔؟ جب تک دونوں فریق راضی نہ ہوں عالمی عدالت میں کیس نہیں جاسکتا۔ انہوں نے 26 تاریخ کو راضی ہونے کا لکھ کر دیا ہے، انہوں نے کیوں لکھ کر دیا ہے کہ ہم راضی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مودی اور نواز شریف کا اس معاملے پر معاہدہ ہوچکا ہے۔ نواز شریف نے ان کو کہا ہے کہ ہم آرمی سے نہیں نمٹ سکتے، آپ عالمی عدالت میں چلے جائیں، اس طرح آرمی بھی خاموش ہو جائے گی۔

اسلام ٹائمز: کشمیر، ڈیمز کی تعمیر اور پانی کے معاملات سمیت کسی بھی ایشو پر پاکستان تو عالمی عدالت میں نہیں گیا۔؟
صاحبزادہ ابوالخیر زبیر:
جی بالکل، یہ لوگ کبھی بھی نہیں گئے اور نہ یہ کبھی جائیں گے، کیوںکہ ان کی بھارت کے ساتھ دوستیاں ہیں۔ پانی اور ڈیمز کے کتنے اہم مسئلے ہیں، ہماری زمینیں کھنڈرات بن رہی ہیں، بنجر ہو رہی ہیں، کیا ان کا فرض نہیں بنتا کہ یہ لوگ بھی عالمی عدالت میں جائیں۔ عالمی عدالت میں اپنے جج مقرر ہوسکتے تھے، ہندوستان نے اپنا جج مقرر کرایا۔ یہ لوگ ایک طرف ہمیں ہندوستان سے مروانا چاہتے ہیں اور دوسری طرف افغانستان اور ایران کے ساتھ مسائل کرکے ہمیں مروانا چاہتے ہیں، یہ لوگ تو پاکستان کے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں۔ یہ پاکستان کے ساتھ غداری کر رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 640016
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش