0
Friday 9 Jun 2017 21:44
فلسطین ہو یا کشمیر، یمن ہو یا شام، جہاں بھی مظلوم ہیں، ایران انکی ڈھارس ہے

ایران کو مظلومین جہاں کی حمایت کی سزا دی گئی ہے، بیرسٹر عامر حسن

آل سعود کے اقتدار کا سورج غروب ہوتا دیکھ رہا ہوں، عرب دنیا بیدار ہو رہی ہے
ایران کو مظلومین جہاں کی حمایت کی سزا دی گئی ہے، بیرسٹر عامر حسن
بیرسٹر عامر حسن پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما ہیں، ممتاز قانون دان اور سیاست دان ہیں۔ لندن سے قانون کی تعلیم حاصل کی اور لاہور میں پریکٹس شروع کر دی۔ پیپلز پارٹی کے سینیئر عہدیداروں میں شمار ہوتے ہیں۔ بے لاگ تبصروں کے باعث عوام میں مقبول ہیں۔ ملکی سیاست اور عالمی حالات پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ان کیساتھ ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال اور مشرق وسطٰی میں ہونیوالی حالیہ تبدیلیوں کے حوالے سے گفتگو کی، جو قارئین کیلئے پیش کی جا رہی ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: وزیراعظم کے صاحبزادے جے آئی ٹی میں پیش ہو رہے ہیں، دوسری جانب عمران خان کی نااہلی کیلئے مسلم لیگ سپریم کورٹ میں ہے، آپ ان دونوں کی محاذ آرائی کا نتیجہ کیا دیکھ رہے ہیں۔؟
بیرسٹر عامر حسن:
اب جبکہ وزیراعظم اور ان کے صاحبزادوں سے حساب لیا جا رہا ہے تو انہیں کہنا پڑ رہا ہے کہ جے آئی ٹی کے ارکان کا لہجہ درست نہیں تھا۔ اس کے برعکس پی پی پی کے قائد شہید ذوالفقار علی بھٹو کو کس طرح ضیاءالحق نے پولیس تشدد کا نشانہ بنایا، جیل میں سختیاں دیں، کال کوٹھڑی میں رکھا، مگر اس دلیر لیڈر نے کبھی اُف تک نہیں کی اور شہادت کی منزل حاصل کر لی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو اسی نواز شریف کے دورِ حکومت میں جیل میں رکھا گیا۔ ہمارے قائد آصف علی زرداری کو طویل جیل کاٹنا پڑی۔ جیل میں ان پر جس طرح کا تشدد روا رکھا گیا، ان کی زبان کاٹی گئی، انہوں نے تو یہ سب برداشت کیا، مگر عدلیہ اور تفتیشی اداروں کے ارکان کو ہراساں یا بلیک میل نہیں کیا۔ ان حکمرانوں کو تلاشی دینی پڑ رہی ہے تو انہیں "لہجے" پر اعتراض ہو رہا ہے۔ ان لوگوں نے ہمیشہ افسر شاہی کو اپنا ذاتی ملازم سمجھا ہے، اگر آج سپریم کورٹ نے پاناما لیکس پر افسران کی جے آئی ٹی بنا دی ہے تو وزیراعظم کے صاحبزادوں کو اعتراض ہوا ہے، اب ان لوگوں کو کٹہرے میں آنا پڑے گا۔ پاناما لیکس حکمرانوں کے گلے کا پھندہ بن چکی ہے، یہ لوگ جے آئی ٹی میں جواب دینے کے بجائے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں۔ یہ معاملہ اب صرف وزیراعظم کے صادق اور امین رہنے یا نہ رہنے کا نہیں بلکہ یہ عمران خان کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ دوسروں پر الزام تراشی کرنیوالے کو اپنے اوپر لگنے والے الزامات میں اپنی سچائی ثابت کرنا پڑے گی۔

عمران خان پر لگنے والے الزامات سے پتہ چل گیا ہے کہ وہ کس طرح کی تبدیلی لانا چاہتے ہیں، میرے اندازے کے مطابق وزیراعظم نواز شریف اور عمران خان کا بچنا اب مشکل ہے، لیڈر آف اپوزیشن سید خورشید شاہ کا تجزیہ بالکل درست لگتا ہے کہ دونوں پارٹیوں کے سربراہ اگلے انتخابات میں کہیں دکھائی نہیں دیں گے، دونوں نااہل ہوسکتے ہیں۔ اعتراز احسن کا کہنا بھی حق بجانب ہے کہ اگر شریف فیملی نے منی ٹریل پیش کی تو پھنس جائیں گے۔ شریف خاندان جے آئی ٹی کے ارکان پر دباؤ ڈال کر انہیں بلیک میل کر رہا ہے۔ حکمران سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کے سامنے ڈائس لگا کر بڑھکیں مار رہے ہیں، حالانکہ یہ موقع ہے کہ انہیں عوام کی خدمت کیلئے سڑکوں پر آنا چاہیے، اس سے پہلے کہ لوگ سڑکوں پر نکلیں انہیں حقیقی مسائل کی طرف توجہ دینی چاہیئے۔ جتنے پاور پلانٹ ان حکمرانوں نے لگائے ہیں، اگر حقیقی معنوں میں ان سے بجلی مہیا کی جاتی تو آج ہم ملک کیا ملک سے باہر بھی بجلی دے رہے ہوتے۔ افسوس کی حکمران ایک ایک پاور پلانٹ کے کئی کئی فیتے کاٹ چکے ہیں۔ یہ سب کچھ فوٹو سیشن اور پبلسٹی سٹنٹ کے سوا کچھ نہیں، اگر ملک میں ان کے پلانٹس چل رہے ہوتے تو لوگ ماہ رمضان المبارک میں بجلی کیلئے ترس نہ رہے ہوتے۔

اسلام ٹائمز: نہال ہاشمی کی تقریر کے بعد حکومت عدلیہ کیخلاف کھل کر سامنے آچکی ہے، عدالت نے بھی حکومت کو مافیا قرار دیا ہے، اس طرح کے حالات پیدا کرکے حکمران کیا نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں، ادھر اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی تقریر بھی براہ راست نشر نہیں کی گئی۔؟
بیرسٹر عامر حسن:
نہال ہاشمی کا بیان ذاتی نہیں، دراصل یہ مسلم لیگ (ن) کی پالیسی ہے، یہ لوگ ہمشیہ عدالتوں پر اس قسم کا دباؤ ڈالتے آئے ہیں، یہ ان کے سیاسی کلچر کا حصہ ہے۔ ماضی میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ پر حملہ اسی پارٹی نے اپنے لیڈر کی ایماء پر کیا تھا۔ حکمران ضمیر خریدتے ہیں یا خوفزدہ کرتے ہیں۔ مسلم لیگ نون کی قیادت نے پہلے مشاہد اللہ اور پھر پرویز رشید کو اپنے مذموم مقاصد کے تکمیل کیلئے استعمال کیا، اب نہال ہاشمی کی باری تھی، اس قسم کی دھمکیوں سے ملک کی اعلٰی عدلیہ کا وقار مجروح ہوا اور اب پھر ان کا یہی وطیرہ جاری ہے۔ ایسے وقت میں جب حکمرانوں کی تفتیش کیلئے جے آئی ٹی اپنا کام سرانجام دے رہی ہے۔ ہمیں تو احتساب کے اداروں کا مستقبل خطرے میں نظر آتا ہے۔ نہال ہاشمی کے بیان سے آئین اور قانون کی بالادستی کو شدید دھچکا لگا ہے۔ پی پی پی آئین اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے۔ ہمارے تو وزیراعظم تک اعلٰی عدالتوں میں پیش ہوتے رہے، ان کے بچوں کو پولیس اٹھا کر لاتی رہی، ہم نے تو احتجاج نہیں کیا، مسلم لیگ نون والوں نے اصل میں کبھی عدلیہ کا سامنا نہیں کیا۔ اسی لئے انہیں دقت محسوس ہو رہی ہے، دوسری طرف آپ سپیکر قومی اسمبلی کا رویہ دیکھ لیں کہ جنہوں نے قائد حزب اختلاف کی تقریر ٹی وی پر براہ راست دکھانے کی اجازت نہ دے کر متعصب رویے کا اظہار کیا۔ اصل میں ایاز صادق قومی اسمبلی کے نہیں، محض نون لیگ کے سپیکر بن چکے ہیں۔ اس کے جواب میں پوری اپوزیشن اسمبلی کا بائیکاٹ کرکے سڑکوں پر آگئی، اس طرح ایک اجلاس اسمبلی میں دوسرا اسمبلی کے باہر چل رہا تھا، عوامی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے بتایا تھا کہ صرف میری تقریر دکھانے کی بات مان لی ہے مگر انہوں نے اسے مسترد کر دیا اور پوری اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کا عندیہ دیا۔

اسلام ٹائمز: سپیکر کے حوالے سے دوسری جماعتیں بھی کہتی ہیں کہ وہ جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔؟
بیرسٹر عامر حسن:
حکومت نے اسمبلی کے اندر اور باہر آمریت قائم کر رکھی ہے، وہ جس طرح قومی اسمبلی کا اجلاس اپنے مرضی سے چلانا چاہتے ہیں، اسی طرح عدلیہ کو اپنے اشارے پر چلانا چاہتے ہیں۔ اب تو عدالت نے بھی انہیں مافیا قرار دے دیا ہے۔ پہلے 2 ججز نے وزیراعظم کو گارڈ فادر قرار دیا تھا، اب مزید ججز نے انہیں مافیا قرار دے دیا ہے اور کیا کسر باقی رہ جاتی ہے۔ اصل میں نواز شریف کو پتہ چل گیا ہے کہ جے آئی ٹی میں ان کی چوری کا پول کھل جائے گا۔ اس سے پہلے کہ ان کی چوری پکڑی جائے، انہوں نے "چور مچائے شور" کے مصداق شور مچانا شروع کر دیا ہے۔ اب ان کے سامنے پی پی پی اور نہ تحریک انصاف، اس لئے انہوں نے براہ راست عدلیہ کو ہدف تنقید بنانا شروع کر دیا ہے، جو انہیں مہنگا پڑے گا۔ انہیں پتہ چل گیا ہے کہ پاناما لیکس کے سلسلے میں کیا فیصلہ ہوسکتا ہے۔ اس لئے یہ خود سیاسی شہید بننا چاہتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے عدلیہ پر چڑھائی شروع کر دی ہے، تاکہ فیصلہ آنے سے پہلے ہی جے آئی ٹی اور اعلٰی عدلیہ کے ججز کو متنازع بنا دیا جائے، لوگ اس شور میں ان کی کرپشن بھول جائیں مگر ایسا ممکن نہیں۔ ہم اداروں کو دھونس اور دھاندلی سے ڈرانے کی مذمت کرتے ہیں، اب حکمرانوں کے دن پورے ہوچکے ہیں، وہ اس قسم کی لڑائی جھگڑے والا ماحول پیدا کرکے بچ نہیں پائیں گے۔ عوام ان کرپٹ مافیا کو انجام تک پہنچا کر دم لیں گے۔

اسلام ٹائمز: آپ اس سیاسی صورتحال میں پیپلز پارٹی کا مستقبل کیا دیکھ رہے ہیں جبکہ آپکے کئی رہنما دوسری پارٹیوں میں جا رہے ہیں۔؟
بیرسٹر عامر حسن:
آپ کا اشارہ اگر فردوس عاشق اعوان کی طرف ہے تو وہ کبھی بھی پی پی پی کی بنیادی رکن نہیں رہی، فصلی بیٹرے تو ہمیشہ پارٹیوں میں آتے جاتے رہتے ہیں، پی پی ایک نظریاتی پارٹی ہے، اس کے حقیقی کارکن کبھی پارٹی سے انحراف نہیں کرتے۔ جن لوگوں نے پارٹی کو بچانے کیلئے قربانیاں دیں، ان کا خون پارٹی کی رگوں میں شامل ہے، اس لئے کوئی کارکن اپنی پارٹی چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا، پی پی پی نظریاتی جماعت ہے، اس لئے پیپلز پارٹی کے بنیادی اصول آج بھی اسی اہمیت کے حامل ہیں ،جتنے اہم یہ اس کی بنیاد کے وقت تھے۔ یہ اصول شہید بھٹو کے وژن اور تدبر کو ظاہر کرتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا پہلا اصول "اسلام ہمارا دین ہے" کیوںکہ پاکستان کی غالب اکثریت کا تعلق اسلام سے ہے، لہذا یہ اسی عزم کا اظہار ہے کہ ہم ہر شہری کو اس کے مذہبی عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کا حق دیتے ہیں۔ لہذا اس اصول کے تحت چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اسلام کے پیغام کے علمبردار کی حیثیت سے انتہا پسندی اور دہشتگردی کیخلاف سینہ سپر ہیں۔ وہ کبھی مجلس حسینؑ میں شریک ہو کر مظلوم کیساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں اور ظلم کیخلاف اعلان جہاد کرتے ہیں۔ کبھی شہباز قلندر سے لے کر داتا صاحب تک وہ امن و سلامتی کے داعی بن کر مسیحوں اور ہندوں کے تہواروں میں شریک ہوتے ہیں اور کبھی اقلتیوں کے بھی یکساں حقوق کی بات کرتے ہیں۔ پی پی پی کا دوسرا رہنما اصول "سوشل ازم ہماری معیشت ہے" پاکستان میں دولت کا ارتکاز چند خاندانوں تک اور امیر اور غریب کے درمیان شدید تفاوت بڑھتئی ہوئی خلیج اس کے حق میں سب سے بڑی دلیل ہے۔ مخالفین ہمیشہ اس اصول کو لادینیت سے تعبیر کرکے پروپیگنڈہ کرتے رہے، تاکہ پاکستان میں سرمایہ داری نظام کو تحفظ دیا جا سکے۔ لیکن پی پی پی روز اول سے اس اصول پر کار بند ہے، دولت کے ارتکاز کو ختم کرکے وسائل کا رخ امیر سے غریب کی طرف موڑا جا سکے۔

اسلام ٹائمز: پی پی پی نے غریب عوام کیلئے اب تک کیا کیا ہے اور آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہے۔؟
بیرسٹر عامر حسن:
قومی اداروں کو قومیانے سے لے کر غریب کسانوں اور ہاریوں میں زمینوں کی تقسیم، مزدوروں کو ان کے مقدر کا مالک بنانا، روزگار مہیا کرنا، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں شاندار اضافہ کرنا، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت وسیلہ حق، وسیلہ صحت اور وسیلہ تعلیم، ایسے اصول کے تحت پاکستان کے عوام کو خوشحال بنانا مقصود ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سے ملک میں مصنوعی قیادتیں پروان چڑھائی جا رہی ہیں، تاکہ غریب مفلوک الحال اور محروم طبقات کو سیاست سے بے دخل کیا جا سکے۔ "جمہوریت ہماری سیاست ہے" پاکستان پیپلز پارٹی تیسرا اصول ہے۔ اس ضمن میں پارٹی کی جدوجہد کو مخالفین اور دشمن بھی مانتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے لوگوں کو رعایا سے عوام بنایا اور ان کو حقوق کا شعور دیتے ہوئے سب کچھ قربان کر دیا۔ نصرت بھٹو نے جمہوریت کیلئے اپنے سر پر لاٹھیاں کھائیں اور بے نظیر بھٹو کا 3 سال تک جمہوریت کی بحالی اور مضبوطی کیلئے جدوجہد کرنا آمریتوں سے ٹکراتے ہوئے عوام راج کے قیام کیلئے ثابت قدم رہیں۔ آصف علی زرداری کا دلیری اور برداشت کیساتھ جمہوریت کے ارتقاء کو قید خانوں سے لے کر ایوان صدر تک ممکن بنانا۔

بلاول بھٹو کی میراث جمہوری جدوجہد سے وابستہ ہے، اس میں ہزاروں جیالے اپنی جانوں کے نذرانے دے کر شمع جمہوریت پر قربان ہوچکے ہیں۔ انہی وجوہات کی بنا پر پاکستان پیپلزپارٹی ہر طعنہ سہنے کے باوجود کسی غیر جمہوری عمل کی حمایت نہیں کرتی اور نہ وہ کسی ایمپائر کے اشارے کی منتظر ہے اور نہ ہی لشکر کشی اور اداروں کے ذریعے جمہوریت کے خاتمے کے حق میں ہے، بلکہ چیئرمین بلاول بھٹو کے 4 مطالبات جمہوریت کی مضبوطی اور ارتقاء کیلئے ناگزیر ہیں۔ پی پی پی کا چوتھا اصول "طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں" بھٹو شہید کا عوام الناس کو سیاسی شعور دینا، مظلوم طبقات کو زبان دینا، پسے کچلے طبقے کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانا ہی بھٹو ازم کہلاتا ہے۔ بے نظیر بھٹو نے اسی فلسفے کو آگے بڑھاتے ہوئے پنجاب میں تمام بڑے بڑے خاندانوں کے مقابلے میں لوئرمڈل کلاس کے سیاسی کارکن جہانگیر بدر کو قیادت دے کر اسی اصول پر مہر ثبت کی تھی۔ پی پی پی کے جیالے سینیٹر جہانگیر بدر مرحوم کی جدوجہد کو سلام پیش کرتے ہیں، لیکن یہ کمال بھی پیپلزپارٹی ہی کرسکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی کو کہاں دیکھ رہے ہیں۔؟
بیرسٹر عامر حسن:
چیئرمین بلاول بھٹو نے پارٹی کی بنیاد رکھتے ہوئے انہی اصولوں کی روشنی میں پارٹی کو دوبارہ شہید بھٹو اور شہید بی بی کی پارٹی بنانے کیلئے پرعزم ہیں۔ پی پی کا ہر جیالا چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں اپنے رہنما اصولوں، اسلام ہمارا دین ہے، سوشل ازم ہماری معیشت ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں" کے مطابق نئے دور کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی نئی قیادت کے شانہ بشانہ جدوجہد کرنے کیلئے تیار ہیں، پی پی پی کا پنجاب میں مستقبل روشن اور شاندار ہے۔ جو لوگ تحریک انصاف میں چلے گئے تھے، اب وہ عمران خان کی غلط پالیسیوں اور فیصلوں کی وجہ سے سوچ رہے ہیں کہ ملک میں ایک ہی جماعت پی پی پی ہے۔ جو عوام کے دکھ اور درد کو سمجھتی ہے۔ یہاں کچھ لوگ دودھ کے دھلے ہوئے ہیں، جو ہمیں اور میڈیا کو نظر آتے ہیں، لیکن اور لوگوں کو نظر نہیں آتے۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ تحریک انصاف کبھی ملک میں حکومت بنا پائے گی، بلکہ میں تو کے پی بھی پی ٹی آئی کے ہاتھ سے جاتا ہوا دیکھ رہا ہوں۔ پی پی پی واحد جماعت ہے، جس نے معاشی پروگرام دیا۔ ہمارے خلاف اتنا پروپیگنڈہ کیا گیا اور میڈیا کی مہربانی سے ہم چور ہوگئے اور پاناما والے ٹھیک ہوگئے۔ یہاں 24 گھنٹے اور 6 ماہ میں بجلی لانے کے دعوے کئے گئے، لیکن بدقسمتی سے ہمیں جھوٹ پر باہر نکال دیا گیا اور جھوٹ کو سچ بنا دیا گیا۔ پارٹیاں تحریکوں سے نہیں بنتیں، بعض اوقات اس سے مسائل بڑھتے ہیں، اس سے ملک کمزور ہوتا ہے۔ جب ملک میں جمہوریت نہیں تھی تو پی پی پی نے تحریک چلائی اور ہم آمروں کیخلاف کھڑے ہوئے۔ آج تو لوگ سول حکومت کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں کرسکتے۔ پی پی پی آئندہ الیکشن میں بلاول کی قیادت میں ایک نئے جذبے کے ساتھ ابھرے گی۔

اسلام ٹائمز: ایران میں ہونیوالی دہشتگردی کے حوالے سے کہا کہیں گے۔؟
بیرسٹر عامر حسن:
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایرانی پارلیمنٹ اور امام خمینیؒ کے مزار پر دہشتگرد حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے ایران میں دہشتگرد حملوں کو خطے میں امن کیلئے خطرہ قرار دیا ہے اور دہشتگردی میں شہید ہونیوالے شہریوں کے ورثاء اور ایران کی عوام کے ساتھ ہمدردی و یکجہتی کا اظہار بھی کیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کسی بھی ملک میں ہونیوالی دہشتگردی کی مذمت کرتی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ خطے میں دہشتگردی کیخلاف مشترکہ کوششیں کی جائیں۔ دہشتگردی کسی ایک ملک کا نہیں بلکہ پوری دنیا کا مشترکہ مسئلہ ہے، افسوسناک امر یہ ہے کہ اس دہشتگردی کا بیج امریکہ نے خود بویا تھا، افغان وار کے نام پر ضیاءالحق نے کلاشنکوف کلچر اور ہیروین پاکستان میں درآمد کی اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس کا نتیجہ کیا نکلا، ہزاروں افراد اس جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ غیر کی جنگ ہم اپنے ملک میں لڑتے رہے۔ ایران پاکستان کا دوست ملک ہے، اس نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا، لیکن ہم نے ایران کو اس دوستی کا کیا صلہ دیا، سعودی عرب کی دوستی میں ہم نے ایران کو نظر انداز کیا۔

یہاں ایرانی سفارتکار قتل ہوئے لیکن کبھی کوئی سعودی قتل نہیں ہوا، امریکہ نے دہشتگردی کیلئے نام نہاد مجاہدین کو استعمال کیا اور وہی مجاہد افغان جنگ سے فارغ ہو کر ہمارے ہی گلے پڑ گئے۔ بھٹو کا قتل جہاں جوڈیشل دہشتگردی تھی، وہیں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت طالبانی دہشتگردی تھی، جسے آج بھی حکمران اچھے اور برے طالبان کے نام سے یاد کرتے ہیں اور جب انہی حکمرانوں کے "سیاسی باپ" ضیاء الحق کی لگائی ہوئی آگ اے پی ایس پہنچی تو انہیں ہوش آیا، پھر تو آپریشن ضرب عضب اور اب ردالفساد شروع ہوچکے ہیں۔ ان آپریشنز میں بھی فوج نے کردار ادا کیا جبکہ حکومت کی جانب سے کوئی پیشرفت نظر نہیں آئی، بلکہ فوج کام اور حکمران باتیں کرتے رہے۔ جہاں تک ایران میں دہشتگردی کی بات ہے تو ایران کو مظلوموں کی حمایت کی سزا دی جا رہی ہے۔ ایران نے دنیا میں مظلوموں کا ہاتھ تھاما ہے، فلسطین ہو یا کشمیر، یمن ہو یا شام، جہاں بھی مظلوم ہیں، ایران ان کی ڈھارس ہے اور اسی جرم میں داعش کو استعمال کرتے ہوئے ایران میں دہشت گردی کروائی گئی ہے۔ لیکن ایرانی قوم حوصلہ مند ہے، وہ اس سے خوفزدہ ہونیوالی نہیں۔

اسلام ٹائمز: امریکی صدر کی سربراہی میں ہونیوالی عرب کانفرنس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
بیرسٹر عامر حسن:
وہ ایک کریمنل گینگ کی میٹنگ تھی، جنہوں نے اپنی آئندہ کی جارحیت کیلئے منصوبہ بندی کرنے کیلئے اجلاس بلایا تھا۔ اس اجلاس میں جو چیزیں طے کی گئیں، وہ اب سامنے آچکی ہیں اور آئندہ بھی آئیں گے۔ قطر کیساتھ اچانک ایکشن لیا گیا ہے، حالانکہ یہ قطری اس اجلاس میں بھی شریک تھے۔ اگر یہ مجرم تھے تو اس کانفرنس میں ان کی سرزنش کیوں نہ کی گئی، یہ اچانک کیا ہوا کہ امریکی نمک خواروں نے اعلان کر دیا کہ قطر مجرم ہے اور اس کا مکمل سفارتی بائیکاٹ کر ڈالا۔ لیکن میرے خیال میں یہ معاملات طے پا جائیں گے، قطر بھی اسی کشتی کا سوار ہے، جس کا سعودی عرب ہے تو اس نے امریکہ کو بھتہ دینے سے انکار کیا ہے، لیکن اس ناکہ بندی میں مجھے لگ رہا ہے کہ قطر ہتھیار ڈال دے گا اور امریکہ کو بھتہ دے دیگا، جس سے تمام پابندیاں ختم ہو جائیں گی۔ ٹرمپ دراصل ایک پاگل صدر ہے، جس سے اب امریکی خود پریشان ہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ ٹرمپ تو امریکہ کو دنیا بھر میں تنہا کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی عربوں سے ملتا ہے تو کبھی اسرائیل جاتا ہے، کبھی ویٹی گن کا دورہ کرتا ہے تو کبھی روس سے تعلقات بہتر کرنے کی باتیں کرتا ہے۔ ٹرمپ بے اعتبارا آدمی ہے، جس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا اور میں دیکھ رہا ہوں کہ ٹرمپ امریکہ کو کھائی میں پھینک دے گا۔ جہاں تک عربوں کی بات ہے تو یہ سمجھتے ہیں امریکہ کی چاپلوسی سے ان کا اقتدار بچ جائے گا، لیکن ایسا نہیں، اب عرب ممالک میں بیداری کی لہر اٹھ چکی ہے، عوام باشعور ہوچکے ہیں، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے گلوبل ویلج کو اور قریب کر دیا ہے اور عربوں کو اندازہ ہوگیا ہے کہ ان پر مسلط حکمران ان کے خیر خواہ نہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایک تحریک جنم لے رہی ہے، جو ایک دم لاوے کی طرح پھٹے گی اور پوری عرب دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ اس میں عرب حکمران خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گے۔ پھر ان کو ٹرمپ بچا سکے گا نہ کوئی اور اور میں سعودی عرب میں بھی تبدیلی کی ہوا محسوس کر رہا ہوں، آل سعود کے اقتدار کا سورج غروب ہونے والا ہے۔
خبر کا کوڈ : 644583
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش