0
Monday 12 Jun 2017 15:19
اس مرتبہ ایم ڈبلیو ایم، آئی ایس او، اسلامی تحریک اور ملی یکجہتی کونسل ملکر القدس منائیں گے

مسلم امہ کی تباہی میں آل نہیان اور آل سعود برابر کے شریک ہیں، علامہ ناصر عباس

ہم اپنی قوم کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہم شیعہ کاز کے اتحاد کیلئے بڑی سے بڑی قربانی دینے کیلئے تیار ہیں
مسلم امہ کی تباہی میں آل نہیان اور آل سعود برابر کے شریک ہیں، علامہ ناصر عباس
ممتاز عالم دین اور مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا تعلق راولپنڈی سے ہے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم مقامی اسکول اور دینی تعلیم جامعہ اہلبیت ؑ اسلام آباد سے حاصل کی۔ بعد ازاں اعلٰی دینی تعلیم کے حصول کیلئے حوزہ علمیہ قم تشریف لے گئے، جہاں عالم اسلام کے قابل فخر فقہاء اور مجتہدین سے کسب فیض کیا۔ انیس برس قم میں حصول علم کے بعد 2002ء میں واپس پاکستان تشریف لے آئے اور اسلام آباد میں جامعۃ الحجت کے نام سے جدید ترین تعلیمی سہولیات سے آراستہ دینی درسگاہ کا قیام عمل میں لائے، جہاں طلباء دینی علوم کیساتھ ساتھ عصری علوم بھی حاصل کرتے ہیں اور طلباء کا تعلیمی معیار ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ لیول تک ہے۔ ملت جعفریہ پاکستان میں موجود مایوسی، سیاسی و معاشرتی محرومیوں کے خاتمے اور مکتب اہل بیت ؑ کی قومی داخلہ و خارجہ پالیسی میں نمایاں نقش اور رول ادا کرنے کیلئے نو برس قبل مجلس وحدت مسلمین (ایم ڈبلیو ایم) کے نام سے ملک گیر دینی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی، جس نے انتہائی قلیل عرصے میں زبردست مقبولیت حاصل کی۔ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری اتحاد و وحدت کے داعی ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے اہلسنت کیساتھ بھی بہترین تعلقات استوار کرکے اتحاد بین المسلمین کا عملی مظاہرہ کیا ہے۔ اسکے علاوہ ملت جعفریہ کو بھی ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ اسلام ٹائمز نے علامہ ناصر عباس جعفری سے حالیہ ریاض کانفرنس اور موجودہ عالمی حالات کے تناظر میں ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: ریاض کانفرنس کے بعد خطے کے حالات بدل رہے ہیں، اس بدلتی ہوئی صورتحال کو کس طرح سے دیکھ رہے ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری:
اللہ تعالٰی قرآن مجید میں فرماتا ہے، جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ ’’یہ سب جو ملے ہیں سمجھتے ہیں کہ اکٹھے ہیں، حالانکہ ان کے دل اکٹھے نہیں ہیں، یہ اس لئے ہے کہ یہ عقل نہیں رکھتے۔‘‘ تو اصل بات یہ ہے کہ ان کے بدن اکٹھے ہیں، جسمانی لحاظ سے ایک چھت تلے بیٹھے ہیں، لیکن حقیقت میں ان کے دل اکٹھے نہیں ہیں۔ ہر ایک کی اپنی سمت ہے، جو ریاض سمٹ میں ٹرمپ کیساتھ بیٹھے تھے اور اب اس کے بعد یہ چیزیں واضح ہو رہی ہے کہ ان کے آپس میں بہت سارے اختلافات ہیں۔ 56 ممالک بیٹھے، بیانیہ ریاض دیا، ابھی اس کی سیاہی خشک کی نہیں ہوئی تھی کہ اس پر اختلاف سامنے آگئے، قطر اور لبنان سمیت دیگر ملکوں نے کہا کہ یہ طے ہی نہیں ہوا تھا کہ کوئی بیانیہ جاری ہوگا۔ ان ممالک نے اس کی مخالفت کر دی، پس ثابت ہوا کہ ان کے بدن اکٹھے تھے، لیکن دل ایک ساتھ نہیں تھے، یہ منافقین کا اجلاس تھا، یہ ایک دوسرے کے بارے میں صاف نہیں ہیں۔ دیکھیں ٹرمپ اپنے اہداف لیکر ریاض آیا، اسی طرح سعودی عرب کے اپنے اہداف اور مقاصد تھے جبکہ دیگر ممالک جو شریک ہوئے، ان کے اپنے اہداف و مقاصد تھے۔ سعودی عرب چاہتا ہے کہ یہ ممالک اس کے تابع ہو جائیں، ان پر ریاض کا کنٹرول ہو، طفیلی ملک بن جائیں، وہ (سعودی عرب) اپنے آپ کو مضبوط ظاہر کرے، ویسے بھی متکبر لوگ کبھی نہیں چاہتے کہ ان کے آگے کوئی آئے، اسی بنیاد پر جھگڑے ہوتے ہیں۔

ٹرمپ چاہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ گائے سے دودھ دوھے یعنی پیسے نکالے، وہ قطر، سعودی عرب اور دیگر ممالک سے مزید پیسے نکالے گا۔ اس کا مقصد پیسے ہیں۔ اسی طرح اسرائیل کی اپنی خواہشات ہیں، وہ چاہتا ہے کہ جو عرب ممالک میں اس کے خلاف رکاوٹیں ہیں، وہ ختم ہو جائیں، عرب ممالک تل ابیب کے ساتھ ہو جائیں۔ اب یہ قطر کے خلاف ہوگئے ہیں اور ان کو اپنی پڑ گئی ہے، خدا ظالموں کو ظالموں کے ساتھ ٹکرا رہا ہے۔ یہ خدا کے قوانین کے مطابق ہو رہا ہے، یہ منافقوں، متکبروں کا ٹولہ ہے، ان کو سرنگوں ہونا ہے، اب یہ ایران کو بھول گئے ہیں، اب کہتے ہیں کہ یہ قطر ہے جو طالبان، داعش اور اخوان المسلمون کو سپورٹ کرتا ہے۔ پہلے یہ سارے اکٹھے تھے، طالبان کے ساتھ اکٹھے تھے، طالبان کی حکومت کو سعودی عرب، یو اے ای اور پاکستان کی حکومت نے تسلیم کیا تھا، قطر نے  تو اس وقت تسلیم نہیں کیا تھا، القاعدہ اور داعش کی سپورٹ میں سمیت یمن اور لیبیا کو تباہ کرنے میں یہ سب اکٹھے تھے، اس کے باوجوہ ایک دوسرے کے خلاف ہوگئے ہیں۔ ان کا عراق، یمن، شام میں منصوبہ ناکام ہوگیا ہے، یہ ناکام ملکوں کا ٹولہ ہے۔ اب یہ سارا ملبہ قطر پر ڈال رہے ہیں، سب کی ذمہ داری سعودی عرب پر عائد ہوتی ہے۔ نائن الیون کے ذمہ دار تم (سعودی عرب) ہو، قطر نہیں ہے، تکفیری اور وہابی آئیڈلوجی کا مرکز تم ہو قطر نہیں ہے۔ دنیا بھر میں کہیں بھی دہشتگردی ہوتی ہے، اس میں سلفی، جہادی اور وہابی سوچ کارفرما ہوتی ہے، اسی پاکستان میں سلفی، جہادی اور دیوبندی جہادی سوچ دہشتگردی میں ملوث ہوتی ہے، دونوں ایک ہی تکفیری اونٹنی کا دودھ پیتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ٹرمپ نے سعودی اقدامات پر بیان دیا ہے کہ قطر کیخلاف یہ عمل دہشتگردی کیخلاف نقطہ آغاز ہے، آپ کیا کہتے ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری:
یہ
کس کو تباہ کر رہے ہیں؟، وہ (قطر) جو ان کے ساتھ کھڑا تھا۔ جس نے ان کے کہنے پر یمن میں اپنی فوجیں بھیجیں ہوئی تھیں، جس نے شام میں داعش کو ان کے کہنے پر سپورٹ کیا تھا، وہ جو قذافی حکومت گرانے میں ان کو سپورٹ کرتا تھا، انہی کا ساتھی ہے۔ ٹرمپ کا مقصد تو ان کو لوٹنا ہے، وہ ان سے 15 سو ارب ڈالر نکالے گا۔ وہ قطریوں پر دباو ڈال کر ان سے پیسے نکالے گا، یا پھر ان کی جگہ کسی اور کو لیکر آئیں گے اور مزید پیسے نکالیں گے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ اس کی حالت بہتر ہونی چاہیے، وہ کہتا ہے کہ میں تمہارا (عرب ممالک کا) باپ ہوں، تمہیں تحفظ دیتا ہوں، اس لئے مجھے پیسے دو۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ظالموں کو ظالموں سے لڑایا ہے۔ عراق کے اندر کس طرح سے داعش کا صفایا کیا جا رہا ہے، اسی طرح شام میں تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ بہترین دور ہے۔ امریکی بلاک نفسا نفسی کا شکار ہے۔ یہ ایک دوسرے کو قصائیوں کی طرح چیر پھاڑ ڈالیں گے۔ بعض جگہوں پر پڑھا ہے، شاہ سلمان کو قطر کے امیر پر اس لئے غصہ ہے کہ وہ اس کے ساتھ تلوار لیکر ناچا نہیں ہے۔ یہ دنیا پرست لوگ ہیں، جس کی وجہ سے ان کے جھگڑے ہیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات پر کیا کہتے ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری:
امریکہ چاہتا ہے کہ ویسٹرن ایشیا عدم استحکام سے دوچار ہو جائے، عراق، شام اور یمن میں یہ کامیاب نہیں ہوئے ہیں، ان کا ٹارگٹ ہے کہ مغربی ایشیا کو مسائل سے دوچار کیا جائے۔ یہ چاہتے ہیں کہ ان ممالک میں سکیورٹی کا بحران رہے، اسی طرح سیاسی بحران رہے، یہ ملک آگے نہ بڑھ سکیں۔ پچھلے دنوں جو افغانستان میں واقعات ہوئے ہیں، وہ بہت اہم ہیں، وہ پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں، مشرقی اور مغربی بارڈر دونوں پر سنجیدہ تھریٹس ہیں۔ پاکستان کے اندر بحران ہے، کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا، بروقت چیزوں کو حل نہیں کیا جاتا، مسائل کو طول دیتے ہیں، یہ پانامہ کا معاملہ ایک ماہ میں حل جانا چاہیئے تھا، ایک سال سے اس مسئلے میں الجھے ہوئے ہیں۔ اندرونی طور پر ہمارے ادارے آپس میں ایک پیج پر نہیں ہیں، اس ملک کا کوئی وزیر خارجہ نہیں، قومی مفاد کی کوئی تعریف نہیں ہے، کوئی یکسوئی نہیں ہے، آئندہ کیا کرنا ہے کچھ پتہ نہیں، ایک طرف سی پیک مکمل کرنا چاہتے ہیں، دوسری جانب اس 41 ملکی اتحاد کا حصہ ہیں، جو دہشت گردی پھیلانے میں ملوث ہیں، ان کی کوئی سوچ واضح نہیں ہے کہ آخر کرنا کیا ہے۔ سی پیک استحکام چاہتا ہے جبکہ امریکہ عدم استحکام کا شکار پاکستان چاہتا ہے، دوسری جانب پاکستان نے دو کشتیوں پر ٹانگیں رکھی ہوئی ہیں، ایک ٹانگ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ دوسری ٹانگ چین کے ساتھ، دو کشتیوں کا مسافر کب منزل پر پہنچا ہے۔؟ اندرونی طور پر وفاقی حکومت ناکام ہے، سندھ، بلوچستان اور کے پی کے میں ان کو کون پوچھتا ہے؟، دوسرا یہ کرپٹ ہیں، ان کی کمزریاں باہر بھی موجود ہیں اور ملک میں بھی کمزریاں ہیں۔ پاکستان کے حالات اچھے نہیں ہے، سیاسی اور سکیورٹی کا سب سے بڑا بحران درپیش ہے۔ چاروں طرف سے پاکستان کیلئے مشکلات کھڑی ہیں، اگر صورتحال یہی برقرار رہی تو پاکستان ایک بڑے سکیورٹی بحران کا شکار ہو جائیگا۔

امریکہ کو کمزور پاکستان چاہیئے جبکہ چائنا کو ایک مضبوط ملک چاہیئے۔ لیکن یہاں تضادات چل رہے ہیں، نواز شریف کے سعودیوں کے ساتھ ذاتی تعلقات ہیں، جس کی بنیاد پر وہاں جا رہا ہے۔ عجیب نہیں ہے کہ سعودی عرب والے ایک اتحاد بناتے ہیں اور آپ سے پوچھتے تک نہیں اور آپ اس کا حصہ بن جاتے ہیں۔ آپ کا بندہ (راحیل شریف) بڑا پیکیچ دیکھ کر چلا جاتا ہے، ایک بندے کو پاکستان میں بہت عزت ملی، لیکن اس نے دو ٹکے میں اپنی عزت بیچ ڈالی اور اب دو ٹکے کا ہوگیا ہے۔ یہ درست نہیں ہوا ہے، آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل نے لندن میں پریس کانفرنس میں کہا کہ سعودی اتحاد کا حصہ بننا ریاست کا فیصلہ ہے، ہم پوچھتے ہیں کہ یہ کیسا ریاست کا فیصلہ ہے، جس میں اس کو ٹی او آرز تک کا پتہ نہیں۔ یہ اتحاد اسرائیل کے مفاد اور امت مسلمہ کو تقسیم کرنے کیلئے بنایا گیا ہے، یہ غلط فیصلہ ہوا ہے، قومی مفاد کی نفی کرکے یہ اس اتحاد کا حصہ بنے ہیں۔ اب یہ پھنسے ہوئے ہیں، اب سعودی عرب کہہ رہا ہے کہ تم قطر کے ساتھ بھی تعلقات خراب کرو، یہ برے طریقے سے پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں، کیا ہم ملک نہیں ہیں، ہمارے قومی مفادات نہیں ہیں، کیا ہم سعودی طفیلی ریاست ہیں کہ ان کی ہاں میں ہاں ملائیں۔؟ ہم سعودی عرب کے غلام اور صوبہ نہیں ہیں، ان کو کیسے جرات ہوئی ہے یہ کہنے کی، ہمارے حکمرانوں کی عزت نفس ہی نہیں ہے، یہ بےغیرت لوگ ہیں۔ ہماری قوم اور وطن کی توقیر ان لوگوں نے ختم کر دی ہے۔ یو اے ای سے ہزاروں لوگوں کو نکالا گیا ہے، اسی طرح سعودی عرب سے پاکستانیوں کو نکالا گیا ہے، لیکن یہ بولتے تک نہیں۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اپنے شہریوں کے حق میں بات کرے، یہ تو بولتے تک نہیں، زرداری کو یو اے ای کی پناہ مل جاتی ہے، اور نواز شریف سعودی حکمرانوں کے احسانات تلے دبے ہوئے ہیں۔ آل نہیان اور آل سعود یہ امریکہ کے ایجنٹ ہیں، ان کیلئے کام کر رہے ہیں، جو ان کے احسانات تلے دبے ہوئے ہیں، وہ پاکستان کے مفادات کی حفاظت نہیں کرسکتے۔ یہ پاکستان کو مزید کمزور کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: جے آئی ٹی پر الزامات عائد جا رہے ہیں، اسکا کیا مقصد دیکھتے ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری:
دیکھیں یہ سچ بات ہے کہ نواز شریف کے وزیراعظم ہوتے ہوئے انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا، ایک جے آئی ٹی کیسے ممکن ہے کہ وہ چیف ایگزیکٹو کے خلاف تحقیقات کرسکے، تمام ادارے وزیراعظم کے ماتحت ہیں، جان بوجھ کر جے آئی ٹی کو متنازعہ بنایا جا رہا ہے، تاکہ اسے انڈر پریشر رکھا جاسکے۔ بہرحال ہم سمجھتے ہیں کہ جے آئی ٹی کی تحقیقات کے بعد سپریم کورٹ کو جلد فیصلہ کرنا چاہیئے اور اس کے بعد انتخابی اصلاحات کے ذریعے صاف اور شفاف الیکشن کرانے چاہیئے، جس کے بعد ملک ایک سمت کی طرف بڑھ سکے گا۔

اسلام ٹائمز: نگر میں آپ تحریک جعفریہ کو سپورٹ کر رہے ہیں، کیا آگے کوئی بڑا اتحاد ممکن ہے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری:
دیکھیں مجلس وحدت مسلمین پاکستان میں یتیمان آل محمد ﷺ کا دفاع کرنے والی جماعت ہے، پچھلے الیکشن میں بھی ہم چاہتے تھے کہ اسلامی تحریک کے ساتھ اتحاد ہوسکے، تاہم کچھ وجوہات کی بنیاد پر ایسا نہ ہوسکا، میں اس طرف نہیں جاوں گا کہ اس کی وجوہات کیا تھیں، لیکن اب ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے جو حالات ہیں، جس طرح دشمن ہمارے کے خلاف اکٹھے ہیں، ہمیں بھی اکٹھے ہونا چاہیئے، ناامنی کے خلاف، جان و مال کی حفاظت کیلئے اور وطن کی حفاظت کیلئے اکٹھا ہونا چاہیئے۔ انہیں وجوہات کی بنیاد پر ہم نے ان کا ساتھ دیا ہے اور اس الیکشن میں بھرپور ساتھ دیں گے۔ ہم اپنی قوم کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہم شیعہ کاز کے اتحاد کیلئے بڑی سے بڑی قربانی دینے کیلئے تیار ہیں، آپ ہمیں اپنی قوم کے دفاع اور مفاد کی خاطر قربانی دینے والا اور ایثار و فداکار پائیں گے، ہم اپنی قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، ہمیں طاقت اور اقتدار کی کوئی پیاس نہیں ہے، ہمیں اپنی قوم کی خدمت اور مفاد کی پیاس عزیز ہے۔ ان شاء اللہ صداقت کے ساتھ قوم کے ساتھ شفاف گفتگو کریں گے اور کوشش کریں گے کہ ہمارے عمل اور اسٹینڈ سے وہی پیغام جائے، جو ہم زبان سے کہتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا نگر میں ہونیوالی حمایت کو ایک بڑے اتحاد کا ابتدائیہ کہہ سکتے ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری:
دیکھیں اس سال ہم مظلوم فلسطینیوں کے حق میں اکٹھے نکلیں گے، اپنے دوستوں، عزیزوں اور بھائیوں کو پیغام دیتا ہوں کہ جہاں جہاں القدس کی ریلیاں نکلتی ہیں، وہاں شیعہ سنی ملکر ریلیاں نکالیں، جتنی بھی مذہبی جماعتیں ہیں، وہ ملکر اس سال مظلوم فلسطینیوں کیلئے آواز بلند کریں۔ امریکہ، اسرائیل اور آل سعود کی کوشش ہے کہ لوگ فلسطین کو بھول جائیں، لوگ قبلہ اول کو بھول جائیں، اپنے مظلوموں کو بھول جائیں، یہ چاہتے ہیں کہ فلسطین میں ہونے والی قتل گری کو بھول جائیں، ہزاروں مرد، بچے جو اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں، ان کو بھول جائیں، لاکھوں لوگ جو جلاوطن ہیں ان کو بھول جائیں، لیکن ایسا نہیں ہونے دیں گے، یہ اپنی مرضی کا دشمن بناکر سامنے لانا چاہتے ہیں، یعنی ایران، مقاومت، اہل تشیع اور وہ اہل سنت جو ظلم سے ٹکرانے والے ہیں، انہیں دشمن بناکر سامنے پیش کیا جائے۔ ہم نے ملکر پاکستان کی سرزمین پر عالمی استکباری اور استعماری قوتوں کو پیغام دینا ہے کہ آپ کے سارے حربے ناکام ہوگئے، امت مسلمہ آگاہ ہے، بیدار ہے، بابصیرت ہے، باشعور ہے اور میدان میں حاضر ہے۔ ان شاء اللہ اس مرتبہ ایم ڈبلیو ایم، آئی ایس او، اسلامی تحریک اور ملی یکجہتی کونسل ملکر القدس منائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 645190
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش