0
Monday 19 Jun 2017 04:29

یوم کشمیر کی طرح یوم القدس مناکر واضح کرینگے کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے، عبداللہ گل

یوم کشمیر کی طرح یوم القدس مناکر واضح کرینگے کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے، عبداللہ گل
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حمید گل مرحوم کے فرزند عبداللہ گل نے ابتدائی تعلیم ایف جی سکول سے حاصل کی، نیو یارک یونیورسٹی سے بزنس میں ماسٹر کیا ہے، عبداللہ گل اسوقت الجزیرہ کیلئے آرٹیکل لکھتے ہیں، اسکے علاوہ امریکہ سمیت جنوبی افریقی ممالک کے صحافتی اداروں کیلئے بھی آرٹیکلز لکھتے ہیں۔ عبداللہ گل میثاق ریسرچ کے نام سے ایک سینٹر بھی چلا رہے ہیں، جسکا فوکس ہاٹ ریجن ہے۔ اس میں ایران، پاکستان، کشمیر، انڈیا اور افغانستان شامل ہیں۔ عبداللہ گل کیمطابق وہ 2007ء سے تمام یوتھ تنظیموں کے منتخب صدر بھی ہیں، اسکے علاوہ وہ محسنانانِ پاکستان فاونڈیشن ادارہ بھی چلا رہے ہیں، جسکا مقصد غیر سیاسی لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا ہے۔ عبداللہ گل اسوقت تحریک جوانان کے صدر بھی ہیں۔ پاکستان سمیت بین الاقوامی حالات حاضرہ پر ایک خاص نقطہ نگاہ رکھتے ہیں، اسی لئے مختلف ٹی وی چینلز پر انکے بےلاگ تبصروں کو بیحد سراہا جاتا ہے۔ اسلام ٹائمز نے عبداللہ گل سے ریاض کانفرنس، اسکے خطے پر اثرات اور یوم القدس کے حوالے سے ایک خصوصی انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: پانامہ کیس میں انصاف ہوتا دیکھ رہے ہیں۔؟
عبداللہ گل:
پانامہ کیس سے کچھ برآمد ہونے والا نہیں، اگر کچھ نکلنا ہوتا تو بہت پہلے نکل چکا ہوتا، اس کو اتنی طوالت نہ دی جاتی، اہم بات یہ ہے کہ یہ عدالتیں کاغذوں پر چلتی ہیں، جب تک کوئی مضبوط کاغذ نہ ہو تو اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی، مجھے اس میں کوئی خاص چیز نظر نہیں آ رہی۔

اسلام ٹائمز: جے آئی ٹی پر اعتراضات، کیا مشترکہ تحقیقاتی ٹیم عوام کی امنگوں پر پورا اتر پائیگی یا پھر کرپشن کے گارڈ فادر اس پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔؟
عبداللہ گل:
سب کہتے تھے کہ وزیراعظم جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہیں ہوں گے، لیکن میں کہتا تھا کہ وزیراعظم ضرور پیش ہوں گے، کہا جا رہا ہے کہ کوئی پروٹول نہیں تھا، تو میرا سوال ہے کہ پروٹوکول کیسے نہیں تھا، ناکے لگے ہوئے تھے، پولیس اور رینجرز تعینات تھی، روٹ لگا ہوا تھا، ہاں آگے پیچھے سائرن بجاتی گاڑیاں نہیں تھیں جو شور مچاتیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ ماتحت افسران وزیراعظم سے سوال کر پائے ہوں گے اور وہ کیسے احتساب کرسکیں گے، جبکہ حالات سب کو نظر آ رہے ہیں، خاص طور پر اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کوئی پریشر نظر نہیں آ رہا، جس کی بنیاد پر کہا جا سکے کہ جے آئی ٹی عوام کی امنگوں کے مطابق کوئی فیصلہ دے، فیصلہ تو پہلے دن ہی ہوگیا تھا، وزیراعظم کیس ہار گئے تھے، جب پانامہ کا معاملہ آیا تھا تو وہ لندن چلے گئے تھے، اب کہا جائیگا کہ جی وزیراعظم کے بیٹے تو لندن کے شہری ہیں، ان کے خلاف کیسے کارروائی ہوسکتی ہے، دوسرا قطری خط کی تصدیق بھی آجائیگی اور اس کی تائید ہو جائیگی، کیونکہ ان (قطر) کو اس وقت ہماری ضرورت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب تک جے آئی ٹی پر ایک بھرپور قوت نہیں ہوگی، یہ فیصلہ نہیں دے سکے گی، تاخیر سے ہونے والا فیصلہ ہمیشہ انصاف فراہم نہیں کرتا اور اسے انصاف کے منافی سمجھا جاتا ہے۔ اس سے کچھ نہیں نکلنے والا۔

اسلام ٹائمز: افغان تنازعہ بڑھتا جا رہا ہے اور بداعتمادی کی فضاء ہر گزرتے دن کیساتھ خراب ہوتی جا رہی ہے۔ بہتری لانے کیلئے کیا اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں۔؟
عبداللہ گل:
افغان تنازعہ گھمبیر صورتحال اختیار کر گیا ہے، اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ چائنا پاکستان اور افغانستان کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیش کش کر رہا ہے۔ یہ بہت ہی جگ ہنسائی والی بات ہے، ایک وقت تھا پوری دنیا پاکستان کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھتی تھی، اس کا سیدھا سا حل ہے کہ مشرف کے یوٹرن پر یوٹرن لینا پڑے گا، پتہ نہیں کیوں اس معاملے میں مشکل نظر آ رہی ہے۔ کابل تو ہمیشہ آپ کا مخالف تھا، میں پوچھتا ہوں کہ ظاہر شاہ کے دور میں کیا حالات تھے؟، انقلاب سے قبل کابل روس نواز تھا اور اب وہ بھارت نواز ہوگیا ہے۔ افغان عوام ہمیشہ سے پاکستان کے ساتھ کھڑی رہی ہے، وہ پہلے بھی دوست تھے اور اب بھی دوست ہیں، کابل کو حقیقی منظر کو دیکھنا چاہیئے، پچیس سال آگے کی سوچنا چاہیئے۔ آپ نے دیکھا کہ کابل نے الیکشن کروا لئے، کرزئی کو لے کر آگئے، اب اشرف غنی صاحب آئے اور آگے حکمت یار کو لے آئیں تو میرا سوال یہ ہے کہ کیا ان الیکشنز سے مسئلہ حل ہونے والا ہے۔؟ الیکشن میں تو یہ کامیاب ہو جائیں گے، لیکن امن نہیں آئے گا، امن تو طالبان کے پاس ہے، وہاں کے عوام کے پاس ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں سے چلے جائیں، ہمارے قیدی رہا کریں، ہمارے ملک کو چھوڑ کر چلے جائیں اور تاریخ دیں جانے کی۔ جب تک یہ نہیں ہوگا اور طوالت دی جائیگی یہ معاملہ خرابی کی ہی طرف ہی جائیگا، پاکستان کو بھی واضح پوزیشن حاصل کرنا ہوگی، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے، جو لوگ (strategic depth) تزویراتی گہرائی کی بات کرتے ہیں تو مانیں کہ آج بھارت نے وہ تزیراتی گہرائی حاصل کر لی ناں۔ اب تو ٹھنڈ ہے ناں، اب دیکھ لیں کہ آپ کا مشرقی اور مغربی دونوں بارڈر گرم ہیں۔

اسلام ٹائمز: ریاض کانفرنس کا اعلامیہ پڑھا، واضح ہوگیا کہ اتحاد کس کیخلاف ہے، اسی طرح اخوان المسلمون اور حماس کو بھی دہشتگرد کہا گیا۔ اس پوری صورتحال کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
عبداللہ گل:
جس بیانیہ کی آپ بات کر رہے ہیں، اس پر ہمیں بھی بہت تشویش ہے، اس میں کشمیر کا ذکر نہیں ہے، حالانکہ کشمیر کا ذکر ہونا چاہیئے تھا، وزیراعظم پاکستان کو موقع ملنا چاہئیے تھا جو نہیں ملا، بہرحال یہ ہمارے جذبات ہیں جو پیش کر رہے ہیں، بھارت کی خطے میں دہشتگردی سب پر واضح ہے۔ جہاں تک اخوان المسلمون کی بات ہے اور دہشتگردی کی بات ہے تو میرے خیال میں پھر اسرائیل کو بھی ضرور دہشتگرد قرار دینا چاہیئے تھا۔ پہلے اسرائیل کو بتاتے کہ تمام قوتیں متحد ہیں، ایران کے خلاف کوئی ثبوت ہے تو پہلے پیش کرنے چاہیئے تھے، اگر ثبوت ہیں تو پھر اس پر ایران سے بات کرنی چاہیئے تھی، زبانی کلامی چیزیں کرنا مناسب طریقہ نہیں ہے، اگر آپ کے پاس کوئی ثبوت ہیں تو وہ پوری دنیا کے سامنے لائیں، اگر ایران ملوث ہے تو پھر یقیناً ایران کے خلاف اقدامات کرنا چاہیے، ساتھ میں اخوان المسلمون کو مغرب کے ایماء پر دہشتگرد قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ ان کے خلاف ثبوت کیا ہیں۔ سینیٹر جان مکین کی داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کے ساتھ جو تصاویر ہیں، ان کو بھی پھر دہشتگرد قرار دیں ناں۔ اسی طرح بتانا چاہیے کہ سعودی عرب کو کوئی معاملات ہیں اور خطرات لاحق ہیں تو سامنے لائیں، پھر اس اتحاد کا حتمی دشمن اسرائیل ہونا چاہیئے۔ ہم یہودیوں کی ناجائز ریاست کو اکھاڑ پھینکیں گے۔ اسرائیل کو ناجائز ریاست قرار دیں۔

اسلام ٹائمز: سعودی عرب قطر کو کس جرم کی سزا دے رہا ہے۔؟
عبداللہ گل:
دیکھیں قطر کافی عرصے سے مسلم ملکوں کے اندر اپنا نام پیدا کر رہا ہے، بہت سے ممالک کو یہ بات بھا نہیں رہی، چاہے سوڈان کے حوالے سے کانفرنس ہو، مہاجرین سے متعلق کانفرنس ہو، چاہے وہ دیگر اسلامی معاملات ہوں، اگر قطر دہشتگردوں کو سپورٹ کر رہا تھا کہ تو امریکہ اس کے ساتھ ملکر مشترکہ ملٹری ایکسرسائز کیوں کر رہا ہے، دہشتگردوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں تو امریکہ کا سب سے بڑا اڈہ جو قطر میں ہے، وہاں ان کی موجودگی میں دہشتگردی کی پشت پناہی ہو رہی تھی؟، میں نہیں مانتا، انہوں نے بارہ بلین ڈالر کا اسلحہ لے لیا، اب امریکہ خاموش ہوگیا ہے، ان کے ساتھ مشترکہ ملٹری ایکسرسائز کی بات ہو رہی ہے، امریکہ کے قول و فعل میں تضاد ہے۔ ایک طرف دہشتگردی کا الزام لگاتے ہیں، پھر ان کے ہاتھ اسلحہ بیچتے ہیں اور مشترکہ فوجی مشقیں شروع کر دیتے ہیں، ان کے فوجی بھی وہاں بیٹھے ہوئے ہیں، یہ اچانک سنی ممالک کے درمیان مسائل پیدا ہوئے ہیں، یہ خطے کیلئے بہت نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں، قطر بھی پاکستان کا دوست ملک ہے اور سعودی عرب کا بھی پاکستان کے ساتھ برادرانہ رشتہ ہے۔ میں سعودی عرب سے بھی اپیل کروں گا کہ رمضان کے بابرکت مہینہ میں اپنی سرحدیں کھول دینی چاہیں، تاکہ کھانے پینے کی چیزیں پہنچ سکیں۔ رمضان کے تقدس کا خیال رکھنا چاہیے اور یہ عمل اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ ہم تو دشمن پر بھی شفقت کرتے ہیں، وہ تو مسلمان ملک ہے۔ رمضان شریف گزر جائے پھر بےشک آپ سرحدیں بند کریں۔

اسلام ٹائمز: اس صورتحال کے بعد کیا راحیل شریف کو واپس نہیں آجانا چاہیئے۔؟
عبداللہ گل:
جنرل راحیل شریف کے معاملے پر مجھ سمیت جن کی ان سے قربت تھی اور وہ سمجھتے تھے کہ جنرل راحیل شریف کسی ایسے اتحاد کے ساتھ نہیں جا سکتے، جو مسلمانوں کے خلاف ہو، ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ وہ ایران مخالف کسی اتحاد میں شامل نہیں ہوں گے، انہوں نے کہا کہ وہ ایران اور سعودی عرب کی قربتیں بڑھانے جا رہے ہیں۔ اب یہ بات سامنے آئی ہے تو ہم سمجھ رہے تھے کہ ایسا اسلامی اتحاد جو کشمیر، شام اور دیگر مسائل جو اقوام متحدہ 70 سال سے حل کرنے میں ناکام رہا ہے، اس کو حل کرانے میں یہ اتحاد اپنا کردار ادا کرے گا اور اقوام متحدہ کا نعم البدل ثابت ہوگا، میرے خیال میں اس اتحاد کے خدوخال واضح ہوچکے ہیں، پاکستان کے دو طرف بھارت آکر بیٹھ چکا ہے، ایران کے ساتھ ہمارا 900 کلومیٹر طویل بارڈر لگتا ہے، اس پر غور کرنا چاہیے۔ جنرل راحیل شریف کا جانے کا فیصلہ ٹھیک تھا، وہ اچھی نیت سے جا رہے تھے، وہ دو ممالک کو قریب لانے کی بات کر رہے تھے، میری اطلاعات کے مطابق جنرل راحیل شریف کافی پریشانی کے عالم میں ہیں، وہ اس معاملے پر یقیناً سوچ بیچار کر رہے ہوں گے۔ ان کے دوست ان کو کیا مشورہ دیتے ہیں اور وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں، یہ تو خود جنرل راحیل شریف کو ہی پتہ ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ بات چیت کرکے یہ ٹنشن کو کم کرنے میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: القدس پر کیا کہتے ہیں، اس حوالے سے کوئی پیغام دینا چاہیئں۔؟
عبداللہ گل:
جی میری اپنی جماعت تحریک جوانان پاکستان قدس پر اپنا موقف رکھتی ہے، ہم اسرائیل کی ناجائز ریاست کو تسلیم نہیں کرتے، بیت المقدس میں اسرائیلی مظالم ڈھا رہے ہیں، جو برداشت سے باہر ہیں، ایک ایسا انٹرنیشل مذہبی ایشو جو خطے کا معاملہ نہیں بلکہ دین کا معاملہ بھی ہے، اس کیلئے ہم کئی جنگیں لڑ چکے ہیں، کئی شہادتیں دے چکے ہیں، ایسا دن اس عہد کے ساتھ منانا چاہیئے کہ ہم اسرائیل کے خلاف اکٹھے ہیں۔ یہ دن ایسا ہی ہے، جیسے ہم پانچ فروری کو یوم کشمیر مناتے ہیں، ہم بھرپور طریقہ سے اس دن کو منائیں گے، دنیا کو باور کرایا جائے گا کہ عالم اسلام مسئلہ قدس پر خاموش نہیں ہے، نہ ہی ان کا جذبہ ٹھنڈا پڑا ہے، اسرائیل کو باور کرایا جا سکے گا کہ وہ ایک ناجائز ریاست ہے، جس کو جتنا جلدی ہوسکے ختم کرایا جا سکے۔
خبر کا کوڈ : 646688
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش