0
Wednesday 21 Jun 2017 02:48
مشرق وسطٰی کی بدلتی صورتحال میں ہمیں متوازن پالیسی اپنانی چاہیئے

بلوچ عسکریت پسندوں سے زیادہ لشکر جھنگوی یا داعش ریاست کیلئے بڑا خطرہ اور چیلنج ہے، میر حاصل بزنجو

اگر مردم شماری میں حقائق کو چھپایا گیا تو ریاست مشکل میں چلی جائے گی
بلوچ عسکریت پسندوں سے زیادہ لشکر جھنگوی یا داعش ریاست کیلئے بڑا خطرہ اور چیلنج ہے، میر حاصل بزنجو
میر حاصل خان بزنجو ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن اور نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر ہیں۔ انکا شمار بلوچستان کے معتبر سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔ میر حاصل بزنجو نے 1958ء میں ضلع خضدار کی تحصیل نال میں بلوچستان کے سابق گورنر میر غوث بخش بزنجو کے گھر میں آنکھ کھولی۔ حاصل بزنجو نے 70ء کی دہائی میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا۔ 1972ء میں بی ایس او نال زون کے صدر اور بعد میں تنظیم کے مرکزی جوائنٹ سیکرٹری منتخب ہوئے۔ 1987ء میں بی ایس او اور بی ایس او عوامی کے اتحاد کیخلاف تنظیم سے علیحدگی اختیار کی۔ 1988ء میں پاکستان نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور نال سے انتخابات میں حصہ لیا۔ 1989ء میں والد کی وفات کے بعد پاکستان نیشنل پارٹی کی سرگرمیوں میں زیادہ فعال ہوگئے۔ جسکی قیادت انکے بڑے بھائی میر بیزن بزنجو نے سنبھالی۔ بیزن بزنجو 1990ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر کامیاب ہوئے۔ بعد ازاں ایک نشست چھوڑ دی، جس پر حاصل بزنجو نے انتخاب لڑا اور پہلی دفعہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1997ء کے عام انتخابات میں وہ دوسری بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ پھر انہوں نے بلوچستان نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کی بنیاد رکھی، جو 2003ء میں بلوچ نیشنل موومنٹ کیساتھ زم ہوگئی اور یوں نیشنل پارٹی معرض وجود میں آئی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں حکومت کیخلاف تقریر کرنیکی پاداش میں انہیں کچھ عرصہ قید بھی کاٹنی پڑی۔ "اسلام ٹائمز" نے ان سے بلوچستان کابینہ کی تشکیل، امن و امان کی صورتحال سمیت دیگر امور پر گفتگو کی ہے، جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: نواز حکومت کیجانب سے آپکو 2015ء میں وفاقی وزیر برائے پورٹس اینڈ شپنگ بنایا گیا۔ اس سے پہلے جتنے بھی افراد اس وزارت پر رہے، انہوں نے اسکا بھرپور استحصال کیا۔ اب آپ اسکی بہتری کیلئے کیا کر رہے ہیں اور کیا مذکورہ وزارت بلوچستان کی وزارت اعلٰی کے بدلے آپکو دی گئی۔؟
میر حاصل بزنجو:
بنیادی طور پر ایم کیو ایم کے اور ہمارے زمانے میں ایک فرق ہے۔ مجھے سے پہلے اس وزارت پر جو بھی رہے، وہ وزیر رہے ہیں۔ مگر جو بابر غوری کا زمانہ ہے، اس زمانے میں وہ وزیر نہیں بلکہ مالک تھے، کیونکہ وزارت میں چیئرمین سے لیکر نیچے طبقے تک ہر قسم کی پوسٹنگ انکے مطابق ہوتی تھی۔ اب شہر بھی انکا اپنا، پولیس بھی اپنی اور وزارت بھی انہی کی، تو وہ جس طرح چاہیں گے، اسکا برا حال کرینگے۔ کیونکہ آگے مشرف صاحب بیٹھے ہوئے تھے، تو انکی موجودگی میں کسی کو کوئی جواب دینے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ جب مجھے وزارت دی گئی تو اس وقت تک وزیراعظم ہاؤس کیجانب سے ایم کیو ایم کے سفارشی افسران کو نکال دیا گیا تھا اور اب میرے دور میں تقریباً 3 سو کے قریب گذشتہ منسٹری میں بھرتی کئے گئے لوگ نوکری کر رہے ہیں۔ لیکن برطرف کئے گئے ملازمین سپریم کورٹ سے برطرفی پر حکم امتناع لئے بیٹھے ہیں اور جہاں تک بات بلوچستان میں وزارت اعلٰی کے تبدیلی کی ہے تو ہماری حکومت شروع دن سے مری میں وزیراعظم کی سربراہی میں باہمی اعتماد و اتحاد سے بنائی گئی تھی۔ ہمیں اڑھائی سال تک بلوچستان میں خدمت کرنے کا موقع دیا گیا اور ہم نے اپنی ذمہ داری کو بھرپور طریقے سے نبھانے کی کوشش کی۔ لہذا میری وزارت کا بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی سے کوئی تعلق نہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ اور آپکی جماعت کو وزارتیں اور حکومت تو دی گئی، یعنی آپکو سالوں کی سیاسی جدوجہد کا پھل مل گیا، لیکن بلوچستان کے عام عوام آج تک پانی جیسی بنیادی سہولت کو ترستے ہیں۔ صوبے کی پسماندگی میں جتنا ہاتھ وفاق کا ہے تو اتنی ہی ذمہ دار بلوچ سردار اور لیڈر بھی ہیں۔؟
میر حاصل بزنجو:
آپکی بات درست ہے، لیکن جس طرح آپ نے کہا اس میں دو چیزیں ہیں۔ ایک وفاق اور دوسرا صوبائی حکومت۔ ماضی میں دونوں نے بلوچستان کے عوام کیساتھ انصاف نہیں کیا۔ وفاقی حکومت نے 1947ء کے بعد کچھ لوگ پالے۔ جسطرح انگریز کچھ سرداروں کو تنخواہ دیکر اپنی حکومت چلاتا تھا، اسی طرح ہم نے اس صوبے کیساتھ کیا۔ ایک بات تو واضح ہے کہ جتنے پیسے آج صوبے کو مل رہے، اس سے بلوچستان کبھی ترقی نہیں کر پائے گا۔ میں آپکو ایک چھوٹی سی مثال دیتا چلوں کہ اگر آپ بلوچستان کے تمام بچے اور بچیوں کو پرائمری اسکول لے جانا چاہیں تو تب بھی آپکو پچیس ہزار اسکولز کی ضرورت ہیں اور جس تناسب سے تعلیم کی فنڈنگ ہو رہی ہیں، تو اس میں آئندہ سو سالوں تک بھی کوئی بہتری نہیں آسکتی۔ وفاق تو ہم سے میلوں دور ہے۔ لیکن ہماری جو گذشتہ صوبائی حکومتیں رہی ہیں، انہوں نے بھی اس صوبے کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ ہم نے اڑھائی سال میں کوشش کی، مگر 65 اراکین اسمبلی میں 8 بندے کوشش بھی کرینگے تو انہیں کوئی خاص نتیجہ نہیں ملے گا اور بدقسمتی سے جن سیاسی جماعتوں کی حکومت ہوتی ہے، وہ اپنی جماعت پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے کو تیار ہی نہیں۔ جو انکا جی چاہے، وہ کرسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: پاک چین اقتصادی راہداری کس حد تک کامیاب ہوگی، چینی باشندوں کے اغواء اور قتل سے اس منصوبے پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔؟
میر حاصل بزنجو:
اس اقتصادی راہداری میں مجھے ذاتی طور پر کوئی برائی نظر نہیں آتی۔ لیکن جسطرح یہ منصوبہ آپکو نظر آرہا ہے، اس طرح مجھے نظر نہیں آتا۔ اس وقت سی پیک منصوبے سے متعلق بلوچستان میں کوئی بڑا پروجیکٹ شروع نہیں ہوا۔ اس پروجیکٹ میں صرف گوادر کو اہمیت دی جا رہی ہے، باقی بلوچستان کے دیگر علاقوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ جہاں تک بات چینی باشندوں کی ہے تو یہ بات عیاں ہے کہ بیرونی قوتیں اس منصوبے کو کامیاب ہونے نہیں دینا چاہتی۔ چینی باشندوں کا قتل سکیورٹی فورسز کی کارکردگی پر سوالیہ نشان چھوڑتا ہے۔ ہمیں چاہیئے کہ بیرونی سرمایہ کار چاہے جو بھی ہو، انہیں فول پروف سکیورٹی فراہم کریں۔

اسلام ٹائمز: آپ نے مردم شماری کو ملتوی کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔ اسکی وجہ کیا تھی۔؟
میر حاصل بزنجو:
باہر والوں کی موجودگی میں آپ نے مردم شماری کی ہے۔ اب اس میں کوئی ڈیموگرافک تبدیلی آئی تو ہم اور مشکل میں چلے جائینگے۔ بلوچستان میں موجودہ دہشتگردی کو بھی بڑھاوا ملے گا، تو اسی وجہ سے ہماری گزارش تھی کی حکومت پہلے انہیں صوبے سے نکالے اور بعد میں مردم شماری کروائے۔

اسلام ٹائمز: لیکن پشتون سیاسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ماضی کی مردم شماری میں انکے حلقے میں پشتون آبادی کی اصل تعداد کو نظرانداز کیا گیا اور انکا دعویٰ ہے کہ اسوقت انکی آبادی پچاس فیصد ہے، تو اس حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
میر حاصل بزنجو:
یہ پشتون نہیں کہہ رہے بلکہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کہہ رہی ہے۔ اسکے علاوہ بلوچستان میں فارسی بولنے والی قوم شیعہ ہزارہ بھی ہے، جنکی ایک تعداد افغانستان سے حال ہی میں آئی ہے۔ اسوقت ہم سے زیادہ پشتون علاقوں میں خود پشتونوں کو زیادہ تکلیف پہنچ رہی ہیں، کیونکہ یہ پشتون مہاجرین خود انہی کیلئے مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا مردم شماری کے نتائج آپکو قبول ہونگے۔؟
میر حاصل بزنجو:
ہم تو پہلے ہی یہ بات واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ اگر مردم شماری میں کسی بھی طرح حقائق کو چھپایا گیا تو پاکستان کی پوری ریاست مشکل میں چلی جائے گی اور یہ بلوچ قوم کیلئے کسی صورت قابل قبول نہیں ہوگا۔

اسلام ٹائمز: اسوقت آپ خود حکومت میں نواز شریف صاحب کیساتھ ہیں تو مردم شماری سے قبل اپنے تحفظات آپ نے دور کیوں نہیں کروائے۔؟
میر حاصل بزنجو:
ہمارا تو پچھلے دس سالوں سے یہ مطالبہ ہے۔ ہم نے انہیں دو راستے دکھائے تھے کہ پہلے آپ چھوٹے پیمانے پر مردم شماری کریں، جسکا مقصد پورے ملک میں موجود افغان مہاجرین کو باہر نکالنا ہو۔ بعدازاں آپ پورے ملک میں اصل پاکستانیوں کی مردم شماری کرائیں۔ اگر آپ نے مہاجرین کو واپس ہی بھیجنا ہے تو اس مردم شماری میں انکو اسکا حصہ کیوں بنا رہے ہیں۔؟ اور میرے خیال میں مذکورہ مردم شماری موجودہ حکومت نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے زور پر ہو رہی ہے۔ نواز حکومت مردم شماری کروانا نہیں چاہتی تھی۔

اسلام ٹائمز: وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی ناراض بلوچوں کو غدار بلوچ کا نام دیتے ہیں۔ آپکی حکومت ان ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں واپس لانے میں کیوں کامیاب نہ ہوسکی۔؟
میر حاصل بزنجو:
میں نہ انہیں غدار کہونگا اور نہ ہی ناراض۔ بلوچستان میں 1970ء کے بعد ایک گروپ تشکیل پایا، جسکے سربراہ خیر بخش مری تھے۔ انکی یہ واضح سوچ تھی کہ میں پاکستان کو نہیں مانتا، پاکستان کو ٹوٹنا چاہیئے۔ بلوچستان کے مسائل کا حل پاکستان میں نہیں ہے۔ اسی لئے بلوچستان کو علیحدہ ہو جانا چاہیئے۔ یہ معاملہ موجود تھا، لیکن وقت اور حالات کے مطابق یہ بات ختم ہوچکی تھی۔ بعدازاں دو اہم عوامل سامنے آگئے، ایک نواب اکبر بگٹی کا واقعہ، جس نے اس سوچ کو مزید تقویت دی۔ دوسری دنیا میں بین الاقوامی طور پر جو نئی صف بندی ہو رہی ہے، اس نے بھی مذکورہ سوچ پر تیل کا کام کیا۔ ہماری حکومت ناراض بلوچوں کو وطن واپس لانے میں کامیاب تو نہیں ہوئی، لیکن ہم نے ہر فورم پر اس سوچ کی مخالفت کی کہ بندوق کے زور پر بلوچستان کے حالات کو ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔ یعنی ہم نے ریاست کے تمام ستونوں میں اس سوچ کو ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اس مختصر سے عرصے میں ہم مزید کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے۔ لیکن کم از کم ہم نے آنے والے دنوں کیلئے بلوچستان کی زمین کو تھوڑا بہت ہموار تو کیا۔

طویل مدتی عسکریت پسندی بیرونی تعاون کے بغیر کبھی چل ہی نہیں سکتی۔ ایسے گروہوں کو جب تک باہر سے کوئی ملک سپورٹ نہیں کرتا، تب تک یہ کامیاب نہیں ہوسکتے۔ اب بلوچستان میں تخریب کاری کرنے والوں کے پیچھے کوئی ہاتھ نہیں، یہ ممکن ہو ہی نہیں سکتا۔ جب ہماری حکومت بلوچستان میں موجود تھی تو ہم انہی ناراض دوستوں کے پاس گئے اور ان سے بات چیت کی۔ اس دوران ہم نے انہیں کہا کہ ہماری جماعت آپکے ساتھ آزادی کی تحریک کو تعاون کرنے کیلئے تیار ہے، لیکن کیا آپ یہ آزادی حاصل کرسکتے ہیں۔؟ کیا آپکو کبھی کامیابی ملے گی۔؟ اس سوال کے جواب میں وہ خاموش تھے۔ اسی وجہ سے ہم نے انہیں منانے کی کوشش کی کہ ان تحریکوں سے آپ بلوچ جوانوں کو کیوں موت کے منہ میں ڈال رہے ہیں۔؟ اس قتل و غارت گری کا کوئی مستقبل نہیں۔ اسی وجہ سے ہم سب کو سیاسی جدوجہد کرنا ہوگی۔ دوسری جانب ہم نے آرمی چیف سے بھی گفتگو کی اور ان سے کہا کہ اگر آپ یہ اقدامات اٹھائیں گے، تو حالات بہتر ہونگے۔ کچھ چیزیں انہوں نے مانی اور بعض چیزیں انہوں نے ماننے سے انکار کر دیا۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں ویمن یونیورسٹی، پولیس ٹریننگ سینٹر، سول ہسپتال اور مولانا عبدالغفور حیدری سمیت تمام بڑے حملوں میں کالعدم لشکر جھنگوی یا داعش ملوث رہی ہیں۔ اسی طرح شیعہ ہزارہ قوم کو بھی مسلسل اسپنی روڈ پر ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کیا لشکر جھنگوی یا داعش کا نیٹ ورک ہر گزرتے دن کیساتھ پاکستان اور خصوصاً کوئٹہ میں مزید مضبوط و مستحکم ہو رہا ہے۔؟
میر حاصل بزنجو:
ہمارا موقف بھی یہی ہے کہ بلوچستان میں بلوچ عسکریت پسندوں سے زیادہ اسوقت لشکر جھنگوی یا داعش ریاست اور صوبے کیلئے زیادہ بڑا خطرہ اور چیلنج ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں ہونے والے واقعات کی فہرست آپ ملاحظہ کرسکتے ہیں، جن میں سب سے زیادہ تباہ کن حملے انہی تنظیموں کیجانب سے کئے گئے اور یہی اس بات کو تقویت دیتا ہے کہ ہمیں اس ناسور کیخلاف آخری حد تک کارروائی کرنا ہوگی۔ دنیا میں اسوقت ایک نئی صف بندی ہوگئی ہے، جس میں ایران اور سعودی عرب بنیادی طور پر نبردآزما ہیں۔ اس حوالے سے میں نے اسمبلی فلور پر بھی کہا کہ پاکستان کو مشرق وسطٰی جیسی صورتحال سے بچنے کیلئے ہر صورت اپنے آپ کو اس جنگ سے دور رکھنا ہوگا۔ چاہے وہ یمن کا معاملہ ہو یا شام کا، پاکستان کسی بھی قیمت پر اس جنگ میں فریق بننے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اب اسلام آباد اس حوالے سے جو بھی فیصلہ کرتا ہے، اسکا سب سے زیادہ اور سب سے پہلا اثر صوبہ بلوچستان پر ہوگا۔ بلوچستان کا بارڈر اسوقت مکمل طور پر افغانستان کیساتھ کھلا پڑا ہوا ہے۔ جس کی مینیجمنٹ سیاسی و اقتصادی لحاظ سے انتہائی مشکل ہے۔ لہذا جو پچھلے عرصے میں واقعات ہوچکے ہیں، ہمیں ان سے سبق سیکھتے ہوئے انکے نیٹ ورک کو مکمل طور پر ختم کرنا ہوگا۔ جب تک انکی جڑوں کو نہیں کاٹا جاتا، تب تک صوبے میں بیرونی سرمایہ کاری ایک خواب بنی رہے گی۔

اسلام ٹائمز: قطر اور سعودی عرب کے مابین بڑھتی خلیج کے ہمارے ملک پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔؟
میر حاصل بزنجو:
ہمیں کسی بھی ملک کے اندروںی معاملات میں‌ ہر صورت مداخلت سے گریز کرنا ہوگا۔ چاہے وہ قطر کا معاملہ ہو، یا شام اور یمن۔ ہمارا ملک قطعی طور پر بیرونی جنگ میں فریق بننے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کی اپنی داخلی پوزیشن بہت کمزور ہے، اسی لئے زیادہ سے زیادہ ہم تنازعات کو ختم کرنے میں تعاون فراہم کرسکتے ہیں، جبکہ اپنے مختصر المدتی مفادات کیلئے پوری قوم کو آگ میں جھونک نہیں سکتے۔ اگر ہماری یہی متوازن پالیسی برقرار رہی تو ہم اس جنگ سے کافی حد تک بچ سکتے ہیں، البتہ اس آگ کے شعلوں کی تپش ہم ضرور محسوس کرینگے۔
خبر کا کوڈ : 647634
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش