0
Saturday 24 Jun 2017 04:05
ایف سی نے پرامن مظاہرین پر سیدھی فائرنگ کی، چودہ افراد نشانہ بن گئے

سکیورٹی اداروں کی کڑی نگرانی میں موجود علاقے میں دہشتگرد کیا آسمان سے ٹپکتے ہیں، علامہ حمید امامی

انتظامیہ سکیورٹی کے نام پر پاراچنار کے شہریوں کو محصور اور کمزور کرنا چاہتی ہے
سکیورٹی اداروں کی کڑی نگرانی میں موجود علاقے میں دہشتگرد کیا آسمان سے ٹپکتے ہیں، علامہ حمید امامی
علامہ حمید حسین امامی کا تعلق کوہاٹ سے ہے۔ وہ شیعہ علماء کونسل اور اسلامی تحریک خیبر پختونخوا کے صوبائی صدر ہیں، وہ میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد علامہ شہید عارف حسین الحسینی کے مدرسہ جعفریہ میں دینی تعلیم کے حصول کیلئے گئے اور 6 سال تک علامہ عارف حسین الحسینی اور سید عابد حسینی کی شاگردی اختیار کرنے کے بعد انہوں نے مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے ایران کے شہر قم المقدسہ کا رخ کیا اور 14 سال تک وہاں تعلیم حاصل کی، اس دوران انہیں آیت اللہ فاضل لنکرانی، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی، آیت اللہ مشکینی اور آیت اللہ جوادی آملی کی شاگردی کا اعزاز حاصل ہوا، انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری قم سے حاصل کی، 1996ء کے اواخر میں وطن واپس آئے اور اسلامی تحریک کیساتھ وابستہ ہوگئے، 2 سال سے ایس یو سی خیبر پختونوا کے صوبائی صدر ہیں۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے ان سے پاراچنار کے حالیہ سانحہ اور اسکے ذمہ داران کے عنوان پہ گفتگو کی، جو قارئین کی خدمت میں انٹرویو کی صورت پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: پاراچنار ایک طویل عرصے سے تسلسل کیساتھ دہشتگردی کا نشانہ بن رہا ہے، بنیادی وجہ کیا ہے۔؟
علامہ حمید حسین امامی:
دیکھیں جی، وجہ کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ پورے فاٹا میں پاراچنار شیعہ اکثریتی علاقہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ الحمداللہ باقی فاٹا کے مقابلے میں یہاں جرائم کی شرح بہت کم ہے۔ شرح خواندگی ریکارڈ ہے۔ یہاں کے شہریوں نے ہمیشہ ہی سکیورٹی اداروں اور انتظامیہ سے ہر ممکن تعاون کیا ہے، بلکہ سکیورٹی فورسز کے شانہ بشانہ دہشت گردوں سے لڑے ہیں اور دہشت گردوں کے خلاف لڑائی میں قیمتی جانیں نذرانہ کی ہیں۔ تو یہ جتنے بھی اوصاف ہیں، شائد دشمن کی نگاہ میں یہی یہاں کے شہریوں کا جرم ہے۔ جو ایک طویل عرصے سے پاراچنار دہشت گردی کا مسلسل نشانہ بن رہا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ یہاں کے شہری صرف دہشت گردوں کی مذموم کارروائیوں کا ہی نشانہ نہیں بن رہے بلکہ اس دہشت گردی کے خلاف، دہشت گردوں کے خلاف، اداروں میں چھپی کالی بھیڑوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے والے بے گناہ شہریوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے مارنے والوں کی شناخت دہشت گرد کی ہے، لہذا اسے خلاف قانون قرار دیا جاتا ہے، بعد میں مارنے والوں کی شناخت سرکار سے وابستہ ہے، لہذا اس قتل عام کو سرکار شائد قانون کا چولا ہی پہنانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

اسلام ٹائمز: بعد میں مارنے والوں کی شناخت سرکار سے وابستہ ہے، ذرا وضاحت سے بیان فرمائیں۔؟
علامہ حمید حسین امامی:
پہلے تو دہشت گردوں نے پاراچنار کے شہریوں کو طوری مارکیٹ میں یکے بعد دیگر ے دو دھماکوں میں نشانہ بنایا۔ تاہم اس کے بعد انتظامیہ یعنی ایف سی نے کونسی کسر باقی رکھی۔؟ انتہائی سخت سکیورٹی کے باوجود ایک ہی جگہ پہ دو دھماکے کیونکر ہوئے۔ یہ سوال پاراچنار کا ہر شہری پوچھنے کا حق رکھتا ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جو انتظامیہ جینے کا حق دینے پہ تیار نہیں، وہ سوال پوچھنے کا حق کیونکر دے سکتی ہے۔ اس دہشت گردی کے خلاف پرامن شہریوں نے اکٹھے ہوکر دھرنا دیا۔ تاہم ایف سی نے ان مظاہرین پر براہ راست سیدھی فائرنگ کر دی۔ جس کا نشانہ چودہ بے گناہ شہری بنے ہیں۔ جن میں سے چھ شہید بھی ہوگئے ہیں۔ اب آپ خود بتائیں کہ کیا احتجاج کرنا اتنا بڑا جرم ہے، گناہ ہے کہ مظاہرین پر براہ راست گولیاں برسائی جائیں۔ پارا چنار کے شہریوں کو شیعہ ہونے کی اور پرامن ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔ یہ کوئی پہلا سانحہ تو نہیں ہے۔ ایک تسلسل ہے، ابھی سبزی منڈی میں ہونے والے دھماکے کو کتنا عرصہ ہوا ہے۔؟ کہ جس میں بے گناہ مزدور اور معصوم بچے نشانہ بنے تھے۔ آج کے سانحہ میں روزہ دار نشانہ بنے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں کہ ایک جانب دہشت گرد حملے کر رہے ہیں اور دوسری جانب ادارے بھی مار رہے ہیں تو شہداء کے لواحقین دونوں کے درمیان کتنی تفریق کریں گے۔

اسلام ٹائمز: پارا چنار میں داخلے کیلئے ایک نہیں بلکہ درجنوں چیک پوسٹوں سے گزرنا پڑتا ہے، تو دہشتگرد کیونکر داخل ہو جاتے ہیں، آخر انکا راستہ کیوں نہیں روکا جاتا۔؟
علامہ حمید حسین امامی:
یہ سوال تو ہم وزیراعظم پاکستان، وزیر داخلہ، گورنر اور انتظامی و سکیورٹی اداروں سے کرتے ہیں۔ سکیورٹی کے نام پر پورے پارا چنار کو ایک جانب تو انتظامیہ نے ریڈ زون میں تبدیل کیا ہوا ہے۔ شہری امن کی خاطر پیدل آنے جانے پر مجبور ہیں، دوسری جانب انہی شہریوں کو دن دہاڑے بم بارود سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ امر انتہائی تشویش ناک کہ ایک ایسا علاقہ جو مکمل طور پر سکیورٹی اداروں کی کڑی نگرانی میں ہے اور ان اداروں کی نظروں میں آئے بغیر پرندہ بھی پر نہیں مارتا، ایسے علاقے میں تسلسل کے ساتھ دہشت گردانہ حملے اداروں اور انتظامیہ کی کارکردگی اور کردار پر سوالیہ نشان ہیں۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ اتنے بندوبست کے باوجود یہ سانحہ اور اس سے پہلے والے سانحات کیسے پیش آئے۔ کیا خودکش حملہ آور آسمان سے اترتے ہیں۔؟ کیا یہ سکیورٹی فیلیئر نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ پاراچنار کے گرد خندق کھودنے اور طوری قبائل کو نہتا کرنیکی ایک مہم انتظامیہ نے چلائی تھی، اس مہم کا انجام کیا ہوا اور اسباب کیا تھے۔؟
علامہ حمید حسین امامی:
یہ واقعی سمجھ سے بالاتر ہے، ایک جانب یہ قبائل افغانستان سے آنے والے شرپسند دہشت گردوں کے سامنے ناقابل تسخیر دیوار کی طرح قائم ہیں۔ پاک فوج کے شانہ بشانہ طالبان اور دیگر دہشت گرد گروہوں سے نبرد آزما ہیں۔ دوسری جانب حکومت انہی قبائل کو کمزور سے کمزور کرنے پر کمر بستہ ہے۔ بالخصوص ان علاقوں میں جہاں شیعہ اکثریت ہے یا قابل ذکر تعداد میں موجود ہیں، وہاں اسلحہ جمع کرنے اور علاقے کو اسلحہ سے پاک کرنے کی خواہش سب سے زیادہ ہے، اس کی کیا خاص وجہ ہے، اس کا جواب دینے سے حکومت قاصر ہے۔ کبھی خندق کھودنے کی نرالی تجویزیں سامنے آتی ہیں۔ جس سے یہ شائبہ ہوتا ہے کہ انتظامیہ سکیورٹی کے نام پر ان قبائل کو محصور اور کمزور کرنا چاہتی ہے، حالانکہ ان قبائل کی کمزوری خطے میں لامحالہ تکفیری عناصر کی تقویت کا باعث بنے گی۔ میری رائے میں دونوں تجاویز یہاں کے قبائل کے ہاتھ پیر باندھنے کے مترادف تھیں۔

اسلام ٹائمز: اب تک سانحہ میں کتنا جانی نقصان ہوچکا ہے۔؟
علامہ حمید حسین امامی:
اب تک شہادتوں کی تعداد ستر سے تجاوز کرچکی ہے، جبکہ زخمیوں کی تعداد 80 کے لگ بھگ ہے۔ جن میں سے کئی زخمیوں کی حالت نازک ہے۔ شہداء میں زیادہ تعداد جوانوں کی ہے۔

اسلام ٹائمز: اس دہشتگردی اور انتظامیہ کی بربریت کیخلاف شیعہ علماء کونسل نے ابتدائی طور پر کیا لائحہ عمل ترتیب دیا ہے۔؟
علامہ حمید حسین امامی:
میں آج صبح پاراچنار پہنچوں گا۔ ہم اس سانحہ اور ایف سی کی فائرنگ والے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہیں اور حکومت سے فی الفور حالات کی بہتری کیلئے مناسب اقدامات کی امید کرتے ہیں۔ اگر حکومت اور اداروں نے پارا چنار کے شہریوں کا درد محسوس کرتے ہوئے اپنے رویے میں تبدیلی نہیں لائی تو خدانخواستہ حالات قابو سے باہر بھی ہوسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: جمعۃ الوداع یوم القدس کے موقع پر یہ سانحہ پیش آیا، کیا سانحہ کا ایک محرک یہ بھی ہوسکتا ہے۔؟
علامہ حمید حسین امامی:
پہلی بات تو یہ ہے کہ امام خمینی (رہ) کے فرمان اور حکم کے مطابق یوم القدس پوری دنیا میں پوری شان و شوکت سے منایا گیا جبکہ سندھ پنجاب اور پختونخوا سمیت پورے پاکستان میں منایا گیا۔ تاہم نشانہ پاراچنار کو بنایا گیا۔ یوم القدس آزادی فلسطین کے طور پر منایا جاتا ہے، جبکہ فلسطین میں تو شیعہ ہیں ہی نہیں، جبکہ پارا چنار کو نشانہ بنانے اور بار بار نشانہ بنانے کی بڑی وجہ اول یہاں کے تشئع شہریوں کی استقامت ہے۔ جو انہیں ظلم اور ظالم کے خلاف آمادہ رکھتی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ میرا نہیں خیال کہ یوم القدس کی وجہ سے یہ سانحہ برپا ہوا، کیونکہ پاراچنار ایک مشکل ٹارگٹ ہے، یہاں چاروں طرف سکیورٹی ادارے مصروف ہیں، جبکہ یوم القدس کے اجتماعات تو ان علاقوں و شہروں میں بھی ہوئے ہیں، جہاں سکیورٹی واجبی سی بھی میسر نہیں تھی۔ گرچہ پاک فوج نے یہ موقف دیا ہے کہ یہ کارروائی بھی سرحد پار سے ہوئی ہے۔ تاہم سوال تو یہ ہے کہ کیا دہشتگرد خودکش حملہ آور اڑ کر پہنچے ہیں۔ دنیا جان لے کہ دہشت گردی کی یہ کارروائیاں، بم دھماکے، خودکش حملے ہمارے حوصلے نہیں توڑ سکتے۔ ہم ہر حال میں ظالم کی نفی اور مظلوم کی حمایت کرتے رہیں گے۔
خبر کا کوڈ : 648466
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش