0
Wednesday 5 Jul 2017 20:05
ایران کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کی کھل کر حمایت کرتا ہے

ٹرمپ نے ریاض کانفرنس میں عرب حکمرانوں کو خوش کرنے کیلئے ایران کیخلاف بیان دیا، خورشید قصوری

امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کو استعمال کیا، اب اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنیکا وقت آگیا ہے
ٹرمپ نے ریاض کانفرنس میں عرب حکمرانوں کو خوش کرنے کیلئے ایران کیخلاف بیان دیا، خورشید قصوری
خورشید محمود قصوری پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما ہیں، 2002ء سے 2007ء تک پاکستان کے وزیر خارجہ بھی رہ چکے ہیں، خورشید قصوری 18 جون 1941ء کو پیدا ہوئے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے عالمی امور پر خصوصی مشیر اور پی ٹی آئی کی کور کمیتی کے رکن ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنیکے بعد کیمریج یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ خورشید محمود قصوری نے سیاسی کیرئر کا آغاز ایئر مارشل (ر) اصغر خان کی جماعت تحریک استقلال سے کیا۔ بعدزاں 1993ء میں پاکستان ڈیموکریٹک الائنس کے بھی جنرل سیکرٹری رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور ضیاء الحق دور میں متعدد بار جیل بھی جا چکے ہیں۔ 1997ء اور 2002ء میں رکن قومی اسمبلی بھی منتخب ہوئے۔ ملکی و بین الاقوامی صورتحال پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ "اسلام ٹائمز" نے لاہور میں ان کیساتھ ایک مختصر نشست کی، جسکا احوال قارئین کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: آپ وزیر خارجہ رہے ہیں، یہ بتائیے کہ پاکستان ہر بار تعاون کرتا ہے، لیکن امریکہ ہر بار پاکستان کو دھوکہ دیتا ہے، امریکہ کی پاکستان کے حوالے سے پالیسی میں بھی روز بروز سختی آتی جا رہی ہے، آخر امریکہ چاہتا کیا ہے۔؟
خورشید قصوری:
امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ کا پاکستان سے متعلق اپنی پالیسی میں زیادہ سختی پر آمادہ نظر آنا کوئی نئی بات نہیں، اسی لئے تو پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں دی جانیوالی امداد کو بند کرنے یا اس میں مزید کمی کرنے کی دھمکی دی گئی ہے۔ سابق دور میں پاکستان کی سرزمین امریکہ کو استعمال کرنے کی اجازت دی گئی تھی، لیکن اس کے بدلے میں معاوضہ یا تقاضا نہیں کیا گیا تھا، جس کا مفاد پرست امریکہ نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اگرچہ امریکہ نے کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں پاکستان کو کچھ عرصہ ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ دیا، لیکن پھر رفتہ رفتہ اس میں کمی کی جاتی رہی۔ یہی نہیں بلکہ ہر ادائیگی پر پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ پہلے سے زیادہ سخت انداز میں کیا جاتا۔ گذشتہ برس 90 کروڑ ڈالر دینے کا امریکہ نے اعلان کیا، لیکن ان میں سے صرف 52 کروڑ ڈالر جاری ہوئے اور اس پر بھی 35 کروڑ ڈالر حقانی نیٹ ورک کیخلاف کارروائی سے مشروط کر دیئے گئے۔ 2015ء کیلئے کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں ایک ارب ڈالر رکھے گئے تھے، جس میں اسے صرف 70 کروڑ ڈالر جاری ہوئے ہیں اور 30 کروڑ ڈالر کی ادائیگی روک لی گئی۔ امریکہ پاکستان کو 2002ء کے بعد سے تقریباً 18 ارب ڈالر کی امداد کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں دے چکا ہے، جبکہ پاکستان کو دہشتگردی کیخلاف جنگ میں اب تک سوا سو ارب ڈالر کا مالی اور 70 ہزار قیمتی جانوں کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ دہشتگردی نے پاکستان کے ترقی کے سفر کو آگے جانے کے بجائے کئی دہائیاں پیچھے دھکیل دیا ہے۔ اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود بھی
امریکہ کو تسلی نہیں ہوئی کہ کس طرح ہنستے بستے پاکستان کو اس نے آگ و خون میں نہلا دیا، مگر امریکہ ہے کہا کہ پاکستان کی دہشتگردی کیخلاف کی جانیوالی کوششوں سے مطمئن ہی نہیں۔

ایسے میں پاکستان کے عوام امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر امریکہ 16 سال بعد بھی افغانستان میں جنگ جیت نہیں سکا تو اس کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرانے کی بجائے اپنی غلطیوں کا برملا اعتراف کرے اور پاکستان پر بیہودہ الزامات لگانے سے گریز کرے کہ یہاں سے افغانستان پر حملے ہو رہے ہیں۔ اگر بھارت، افغانستان اور امریکہ کے پچھلے چند ماہ کے بیانات کو ملا کر پڑھا جائے تو سب کا بیانیہ ایک ہی دکھائی دیتا ہے کہ خطے میں ہونیوالی تمام دہشتگردی کا ملبہ پاکستان پر ہی ڈالا جائے۔ امریکہ نے آج سے کئی برس قبل دہشتگردی کیخلاف جنگ کیلئے افغانستان پر طاقت کا استعمال کیا تو پاکستان نے اسے کمک اور مدد فراہم کی، لیکن امریکہ تمام حدیں عبور کرچکا ہے، اس لئے تو پاکستان کی سرزمین پر ڈرون حملے تیز کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یوں بھی حکومت کو نئی امریکی انتظامیہ سے کسی اچھے کی اُمید نہیں رکھنی چاہیئے، کیونکہ ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم کے دوران پاکستان کیخلاف پابندیاں عائد کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ اس طرح ڈونلڈ ٹرمپ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کو پاکستان کو دی جانیوالی امداد سے پہلے ہی مشروط کرنے کی بات کر چکا ہے۔ پاکستان کی جانب سے کئی مرتبہ دہشتگردوں کیخلاف بلاامتیاز کارروائی کی یقین دہانی بھی امریکہ کو مطمئن نہ کرسکی، جس پر پاکستان نے یہاں تک کہہ دیا کہ امریکہ حقانی نیٹ ورک کی پاکستان میں موجودگی اور اس کے ٹھکانوں کے بارے میں بتائے، خود کارروائی کریں گے۔ مگر وہ اس پر بھی نہیں آیا۔ وقت آگیا ہے کہ امریکہ کو دبنگ انداز میں بتایا جائے کہ چند ٹکوں کے عوض پاکستان پر دشنام طرازی کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور ساتھ ہی ساتھ امریکہ کو یہ بھی باور کرایا جائے کہ جسے وہ امداد کا نام دیتا ہے، وہ پاکستان کے اڈوں اور تنصیابت کے استعمال پر نیٹو فورسز کے کنٹینرز کی آمدورفت کی مد میں دیا جانیوالا معاوضہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان امریکی دباؤ میں آئے بغیر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے اور خود انحصاری کی پالیسی پر عمل درآمد کیا جائے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کو اندرونی و بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے، لیکن پھر بھی وزیر خارجہ نہیں ہے، کیا فل ٹائم وزیر خارجہ کی ضرورت نہیں؟ اور یہ بھی بتائیں کہ سعودی عرب اور قطر کے معاملے میں پاکستان کی کیا پالیسی ہونی چاہیے۔؟
خورشید قصوری:
پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ اس معاملے میں غیر جانبدار رہا جائے، یہ تجویز 100 فیصد درست ہے، کیونکہ پاکستان اس وقت جن
مشکلات سے دوچار ہے، ان کے باعث غیر جانبدار رہنا ہی بہترین آپشن ہے۔ یوں بھی یہ ہماری خارجہ پالیسی کا شروع سے ہی خاصا رہا ہے کہ پاکستان 2 مسلم ممالک کے مابین اختلافات میں فریق نہیں بنتا بلکہ اختلافات دور کرنے کیلئے ثالثی کا کردار ادا کرتا ہے۔ اس مقصد کیلئے وزیراعظم نواز شریف چند روز قبل سعودی عرب کے دورے پر گئے تھے، آرمی چیف بھی ہمراہ تھے اور سعودی عرب کو قطر کیساتھ تنازع مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ پاکستان آج جس دوراہے پر کھڑا ہے، اسے ہر قدم سوچ کر رکھنا چاہیے اور کسی بھی ایسے تنازع میں پڑنے سے گریز کرنا چاہیے، جس کے اثرات اس کے مستقبل پر پڑیں، کیونکہ اسلامی عسکری اتحاد کی سربراہی جنرل راحیل شریف کو سونپے جانے پر بھی اپوزیشن میں موجود سیاسی جماعتوں میں تشویش پائی جاتی ہے اور وہ حکومت کو اس معاملے میں پارلیمنٹ میں آکر پوزیشن کلیئر کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

اسلام ٹائمز: سعودی عرب کے اسلامی عسکری اتحاد کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
خورشید قصوری:
اسلامی عسکری اتحاد کے خدوخال کے بارے میں ابھی کچھ واضح نہیں، اس لئے اس حوالے سے کچھ کہنا قبل ازوقت ہے، تاہم اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا پاکستان اور افغانستان کے اختلافات کو ختم کرکے دہشتگردوں سے نمٹنے کا مشورہ انتہائی صائب ہے، مگر اس کو کیا کہا جائے کہ افغان حکومت اپنے معاملات کی درستگی اور امن و امان کے قیام کی بجائے اپنی تمام تر توجہ پاکستان پر جھوٹے اور بے بنیاد الزامات پر مرکوز کئے ہوئے ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بہتر بنانے کیلئے پاکستان نے ایٹمی ملک ہونے کے باوجود 2 قدم آگے بڑھ کر افغانستان کو گلے لگایا، مگر احسان فراموش افغان حکومت تمام حدیں عبور کرچکی ہے۔ جس کا دہشتگرد بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اب افغانستان میں تورا بورا کی غاروں میں داعش کے قبضے کی اطلاعات آ رہی ہیں۔ یہ اطلاعات انتہائی تشویشناک ہیں، کیوںکہ یہ علاقہ پاکستان کے ساتھ ملحق ہے۔ ان حالات میں جب پاکستان کو اندرونی اور بیرونی محاذوں پر ان گنت چیلنجز کا سامنا ہے تو ایسے میں ایک جامع اور ٹھوس خارجہ پالیسی اور فل ٹائم وزیر خارجہ کی ضرورت ہے، کیوںکہ ایک کمزور خارجہ پالیسی کے سہارے ان مسائل کو حل نہیں کیا جا سکتا، خاص طور پر اس وت جب ٹرمپ جیسا شخص امریکہ کا صدر ہو۔

ان حالات میں ضروری ہے کہ حکومت ان تمام مسائل کے حل کیلئے پارلیمنٹ سے رجوع کرے اور بہترین ملکی مفاد میں بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر پالیسی اختیار کرے۔ حکومت کیلئے پارلیمنٹ سے رجوع کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ مشرق وسطٰی میں تیزی کیساتھ جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، ان کے باعث ابھی سے پاکستان کو اپنی حکمت عملی بہترین ملکی مفاد میں وضع کرنی چاہیئے،
کیوںکہ داعش جسے دنیا کی نمبرون دہشتگرد تنظیم کہا جاتا ہے، جس کے سامنے طالبان اور القاعدہ جیسے دہشتگردوں کے برانڈ بھی ماند پڑ جاتے ہیں، وہ افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہی ہے۔ اس لئے پاکستان کو داعش کی افغانستان میں مضبوطی کو بڑا خطرہ سمجھنا چاہیے، بالخصوص اس وقت جب پاکستان کی فوج دہشتگردی کیخلاف جنگ جیتنے کے بہت قریب پہنچ چکی ہے اور آپریشن ردالفساد کے خاطر خواہ نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں تو ضروری ہے کہ افغان حکومت پر داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کیلئے دباؤ ڈالا جائے، کیونکہ روئے زمین پر ایسا کوئی ملک موجود نہیں، جس نے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان جتنی لازوال قربانیاں دی ہوں اور ویسے بھی پاکستان کے 20 کروڑ عوام اب کسی جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ اس جنگ نے جہاں ملکی معیشت اور امن و امان کو ختم کر دیا ہے، وہیں عوام کے ذہنی اعصاب بھی شل کر دیئے ہیں، اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے تمام سٹیک ہولڈرز درپیش سنگین چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک جامع، ٹھوس لائحہ عمل مرتب کریں، جس میں صرف اور صرف ملکی مفاد کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔

اسلام ٹائمز: داعش کو شام میں تو بہت بری طرح مار پڑی ہے۔؟
خورشید قصوری:
جی بالکل، اسی لئے تو وہ وہاں سے بھاگ کر افغانستان میں پناہ لے رہی ہے، اس کیلئے قبل از وقت ہی سدباب کرنا ہوگا، کیونکہ شام میں بشارالاسد کی حکومت مضبوط تھی، عوام اس کیساتھ تھے، لیکن پاکستان میں صورتحال ایسی نہیں، یہاں حکومت کمزور ہے، وہ کسی بھی بیرونی جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی، اسی لئے تو ہم نے عرض کیا کہ حکومت پاکستان فوراً اپنا وزیر خارجہ مقرر کرے، وہ عالمی سطح پر داعش کیخلاف رائے عامہ ہموار کرے اور دنیا کو ساتھ ملا کر اسے افغانستان میں پنپنے کا موقع نہ دے۔ کیونکہ اگر داعش نے افغانستان میں پنجے گاڑھ لئے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کا ہدف پاکستان ہوگا اور پاکستان دشمن قوتوں کی یہ کوشش ہوگی کہ وہ داعش کو افغانستان میں ہی اکاموڈیٹ کریں، تاکہ اس سے فوائد حاصل کئے جا سکیں، اس سے یہ ہوگا کہ ملک میں خانہ جنگی کی فضا بنے گی اور سی پیک کا منصوبہ ناکام ہوگا، بھارت اور امریکہ کسی طور نہیں چاہتے کہ سی پیک کا منصوبہ کامیاب ہو، کیوںکہ مستحکم پاکستان بھارت کو وارا نہیں کھاتا، پاکستان مستحکم ہوگیا تو پھر کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ افسوس کہ نواز شریف اس نازک صورتحال کا ادراک نہیں کر رہے، داعش کے فتنے کو درک کرکے اس کا خاتمہ پاکستان کی بقاء کیلئے ضروری ہے۔

اسلام ٹائمز: پاناما لیکس کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔؟
خورشید قصوری:
سپریم کورٹ نے جب جے آئی ٹی بنانے کا اعلان کیا تھا تو حکمران جماعت نے مٹھائیاں تقسیم کی تھیں اور خوشی کا اظہار کیا تھا، اب تحقیقات شروع ہوئی ہیں تو رونا
شروع کر دیا ہے، جے آئی ٹی کو متنازع بنانے اور اس کے ارکان کو دھمکانے کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومت اس سلسلہ میں تعاون کرے، ہٹ دھرمی نہ دکھائے، کیونکہ ہٹ دھرمی کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑے گا۔ عدالت عظمٰی کے 2 ججز نے پاناما کیس میں دستیاب معلومات کا جائزہ لینے پر نواز شریف کو نااہل کرنے کا واضح موقف اپنایا، لیکن دیگر 3 ججز کے مشورے سے مکمل حقائق تک پہنچنے کیلئے جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس وقت لڈیاں ڈالنے والے اب اقتدار بچانے کیلئے جے آئی ٹی ارکان کو دھمکیاں دے رہے ہیں اور کیس کا من پسند فیصلہ چاہتے ہیں۔ اداروں کو ڈرا دھمکا کر من مانے فیصلے حاصل کرنا نواز لیگ کی تاریخ ہے، لیکن آج پاکستان اس غلط پالیسی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ لٰہذا حکومت کو چاہیے کہ پاناما کے حقائق تک پہنچنے کی غرض سے عدالت عظمٰی کی بنائی گئی جے آئی ٹی کو آزادانہ کام کرنے دیا جائے، تاکہ انصاف کا بول بالا ہو۔ پاناما سکینڈل پر مختلف ممالک کے حکمرانوں نے استعفے دے دیئے، لیکن میاں صاحبان جے آئی ٹی میں پیش ہونے پر بھی رو رہے ہیں۔ رونے کی بجائے حقیقت تسلیم کریں، دوسروں پر الزامات کی بجائے خود کو احتساب کیلئے قوم کے سامنے پیش کریں۔ شہباز شریف کو چاہیے تھا کہ جے آئی ٹی میں ان سے کیا کیا سوالات کئے گئے ہیں اور انہوں نے جو جواب دیئے وہ بھی میڈیا کو بتائے جانے چاہیے تھے۔ عمران خان نے تو پہلے دن ہی کہہ دیا تھا کہ یہ نااہل ہوں گے اور اب وہ دن قریب ہیں۔

اسلام ٹائمز: پیپلز پارٹی کے لوگ آپکی جماعت میں آرہے ہیں، پرانے چہروں کیساتھ آپ نیا پاکستان کیسے بنائیں گے، یہ تو وہی لوگ ہیں، جن سے عوام پہلے ہی تنگ ہیں۔؟
خورشید قصوری:
جہاں تک پیپلز پارٹی کے لوگوں کی پی ٹی آئی میں شمولیت کا تعلق ہے تو کسی پارٹی کے افراد پر پابندی عائد نہیں کی جا سکتی، سیاست دان کو کسی بھی پارٹی میں جانے سے روکا نہیں جا سکتا، اس سے آپ اندازہ کر لیں کہ تحریک انصاف کتنی مقبول جماعت ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی جیسی نظریاتی جماعت کے کارکن بھی ہماری مقبولیت سے متاثر ہو کر ہماری جماعت میں شامل ہو رہے ہیں۔ ہماری پارٹی میں کوئی جہاں سے مرضی آئے، کام وہ عمران خان کے وژن کے مطابق کرے گا۔ اس کو اپنی سابق پارٹی کی پالیسیاں یہاں نہیں چلانے کی اجازت دی جائے گی اور یہ تو ظاہری سی بات ہے کہ جو بھی پی ٹی آئی میں آ رہا ہے، وہ عمران خان کے منشور سے متاثر ہوکر آ رہا ہے اور سیاستدان سمجھتے ہیں کہ عمران خان ہی پاکستان کو مسائل سے نجات دلا سکتے ہیں۔ عمران خان واحد لیڈر ہیں، جن پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں، دوسری جانب کوئی مسٹر 10 پرسنٹ ہے تو کوئی پاناما کے جال میں پھنسا ہوا ہے۔ اس لئے اس حوالے سے کسی کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، شاہ محمود قریشی بھی تو پی پی پی سے آئے تھے، لیکن
وہ عمران خان کے وژن کے مطابق چل رہے ہیں، چودھری محمد سرور نون لیگ سے آئے، وہ بھی عمران خان اور اس کی پارٹی کے وژن کے مطابق چل رہے ہیں، لہذا جو جدھر سے مرضی آجائے لائن آف ایکشن عمران خان دیں گے اور وہی لائن آف ایکشن پاکستان کو ترقی کی جانب لے جائے گی اور نئے پاکستان کی بنیاد بنے گی۔

اسلام ٹائمز: اب ذرا مشرق وسطٰی چلتے ہیں، سعودی عرب میں امریکی اسلامی کانفرنس ہوئی، پاکستان کو نظر انداز کرکے بھارت کے گیت گائے گئے، ایران کو دہشتگردی کا ذمہ دار قرار دیا گیا، کیا اب ٹرمپ اُمت مسلمہ کی رہبری کرینگے۔؟
خورشید قصوری:
ریاض کانفرنس امت مسلمہ کو تقسیم کرنے کی سازش تھی، لیکن وہ سازش ناکام ہوگئی البتہ ٹرمپ کامیاب ہوگیا۔ یہ وہی ٹرمپ تھا، جس نے اپنی انتخابی مہم میں سعودی عرب کو نائن الیون کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اقتدار میں آکر وہ سعودی عرب پر پابندیاں لگا دیں گے، لیکن جب وہ اقتدار میں آیا اور اسے امریکہ کی حقیقت کا علم ہوا تو اسے اپنی پالیسی پر ندامت ہوئی، اب اس نے کیا کیا کہ سعودی عرب کو اپنا اسلحہ بیج کر اپنی معاشی حالت بہتر بنانے کا منصوبہ بنایا، اس کانفرنس کا مقصد امت مسلمہ کے مسائل حل کرنا نہیں تھا، نہ ہی یہ دنیا میں قیام امن کیلئے کوئی کوشش تھی، یہ کانفرنس محض امریکی مفادات کے تحفظ کیلئے تھی، جس کا ون پوائنٹ ایجنڈا یہ تھا کہ شریک ممالک کس کس طرح امریکہ کی مدد کرسکتے ہیں۔ امریکہ نے سب سے پیسے بٹورنے تھے، اس میں وہ کامیاب رہا، اب ان میں قطر اڑ گیا، قطر نے جب انکار کیا کہ وہ امریکہ کو "بھتہ" نہیں دے گا تو اس کو دہشتگردوں کا حامی قرار دے کر اس کے گرد گھیرا تنگ کر دیا گیا۔ لیکن مجھ لگ رہا ہے قطر ہتھیار ڈال دے گا۔ جہاں تک ایران کی بات ہے، تو ایران کیخلاف اس نے بیان دے کر عربوں سے داد وصول کی ہے۔ اس موقع پر وہ ایران کیخلاف نہ بولتا تو عرب خوش نہ ہوتے، عرب حکمرانوں کو خوش کرنے کیلئے اس نے یہ بیان داغ دیا۔ اب امریکہ نہ ایران کا کچھ بگاڑ سکتا ہے اور نہ ہی یہ عرب حکمران ایران کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ایران ہر حوالے سے اپنے آپ کو مضبوط بنا چکا ہے۔ ایران کی خوش قسمتی ہے کہ اس کے پاس ایک دُوراندیش قیادت ہے، جس کی پالیسیوں سے وہ مار نہیں کھائے گا۔ ایران نے ہمشہ اتحاد امت کی بات کی ہے، ایران نے کبھی دہشتگردی کو سپورٹ نہیں کیا۔ دہشتگردی پھیلانے کے حوالے سے الزامات محض الزامات ہیں، ایران مسلمانوں کی حمایت کرتا ہے، وہ فلسطین ہو یا کشمیر، کشمیر پر سعودی عرب نہیں بولا، لیکن ایران کی قیادت نے واضح بیان دیا ہے کہ کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دیا جائے۔ وہ فلسطین میں حماس کی سپورٹ کرتا ہے کہ وہ مسلمان ہے، سعودی عرب بتائے کہ وہ امریکہ، اسرائیل اور بھارت کی حمایت کس بنیاد پر کرتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 651068
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش