0
Thursday 20 Jul 2017 23:01

بھارت اور اسرائیل کے مفادات ایک ہوگئے، کشمیر اور فسلطین پر دونوں کا ایک ہی موقف ہے، ثاقب اکبر

بھارت اور اسرائیل کے مفادات ایک ہوگئے، کشمیر اور فسلطین پر دونوں کا ایک ہی موقف ہے، ثاقب اکبر
جناب ثاقب اکبر چیئرمین البصیرہ ٹرسٹ علمی حلقوں میں جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ علم و تحقیق کا میدان ہو، محافل شعر و سخن ہوں یا اہم عالمی معاملات پر مذاکرے، ملکی مسائل پر رائے کا اظہار ہو یا سماجی خدمات، مذہبی علوم پر ریسرچ ہو یا اسکالرز اور طالبان علم کی راہنمائی، کسی بھی شعبہ زندگی میں انکی خدمات اور کوششیں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ انہوں نے تحصیل علم کے دوران ہی اپنے آپکو ایک سماجی کارکن اور رہنما کے طور پر منوایا۔ بیرون ملک حصول تعلیم کے دوران ہی علمی دنیا میں انکے عمق نظر اور وسعت مطالعہ کا اعتراف کیا جانے لگا۔ اسی دوران انہوں نے محسوس کیا کہ عصر حاضر کے مفکرین اسلام کے افکار کو اہل وطن تک پہنچانا ضروری ہے۔ اس احساس نے انکو ترجمے کیطرف راغب کیا۔ اس کیساتھ ساتھ انہوں نے ایک ایسے ادارے کی بنیاد رکھی، جسکا مقصد مختلف علمی امور پر تحقیق، علمی مصادر و منابع کا ترجمہ اور اشاعت تھی۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے محققین اور مترجمین کی تربیت اور تیاری کے سلسلے کا بھی آغاز کیا۔ 1995ء میں پاکستان واپسی کے بعد انہوں نے ایک ریسرچ اکیڈمی کی بنیاد رکھی۔ اس اکیڈمی میں تفسیر قرآن، علوم حدیث، کلام جدید، فقہ، اصول فقہ اور فلسفہ جیسے بنیادی اسلامی علوم کے حوالے سے مختلف کام کئے گئے۔ اسکے علاوہ وہ ملی یکجہتی کونسل میں بھی اہم ذمہ داری پر فائز ہیں۔ اسلام ٹائمز نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ اسرائیل، امریکی صدر ٹرمپ کے دورہ ریاض اور افغانستان میں داعش کو جمع کرنے سمیت آیت اللہ خامنہ ای کے کشمیر سے متعلق بیان پر ایک خصوصی انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے حالیہ دورہ اسرائیل کے بعد خطے میں اسکے کیا اثرات یا تبدیلیاں رہنما ہوسکتی ہیں۔؟
ثاقب اکبر:
یہ بہت ہی اہم موضوع ہے، اس کو تنہا مودی کے دورہ اسرائیل کے تناظر میں دیکھیں گے تو حقائق تک نہیں پہنچ سکیں گے، ہمیں اسے ٹرمپ کے دورہ ریاض کے تناظر میں دیکھنا چاہیئے۔ یہ دورہ دراصل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ ریاض کا ہی تسلسل ہے، یہ دورہ ایک پلان کے تحت عالمی سیاست کے تناظر میں طے شدہ چیزیں تھیں۔ یہاں عرض کروں کہ یہ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ مسلمان ملکوں کی بھاری تعداد ریاض میں موجود تھی اور اسے عرب مسلمان ممالک اور امریکہ سمٹ کہا گیا، اس اجلاس کی سربراہی کیلئے پہلی بار امریکی صدر کو بلایا گیا، اس اجلاس میں حماس اور اخوان المسلمون کو دہشتگرد تنظیموں کے طور پر پیش کیا گیا، حتٰی ایران کو دہشتگردی کا محور قرار دیا گیا، اگلے دن ٹرمپ تل ابیب جاتا ہے، ادھرے (ریاض) کی تصویریں دیکھیں، بہت ہی پرٹوکول اور پرتکلافانہ دکھائی دیں اور اُدھر (اسرائیل) کی تصویریں دیکھیں تو گھر جیسا ماحول دکھائی دیا، یعنی بہت ہی قربت دیکھی گئی۔ ایک اور اہم تبدیلی رونما ہوئی ہے، وہ یہ کہ دو اڑھائی دہائی پہلے انہوں نے مصری فوجی صدر انور سادات کیساتھ معاہدہ کیا تھا، یعنی امریکیوں نے اسرائیل اور مصر کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کرائے۔ یاسر عرفات کے ساتھ ثالثی کا کام کرایا گیا۔ امریکہ، یورپی یونین اور سلامتی کونسل کا نظریہ دو ریاستی تھا، اگرچہ وہ غلط تھا، کیوں یہ ریاست جبری نافذ کی گئی۔ دو ریاستی تو اول روز سے تھی ہی نہیں۔

اسلام ٹائمز: دو ریاستی نظریہ سے مراد کیا تھا۔؟
ثاقب اکبر:
ایک مثال دیکر اس کو واضح کرتا ہوں کہ جیسے باہر سے کچھ لوگ کسی ایک گھر میں آئیں اور تین چار کمروں پر قبضہ کر لیں اور گھر والوں کو ایک کمرے میں قید کر دیا جائے، پھر کہا جائے کہ ان کو بھی رہنے دو اور قبضے کرنے والوں کو بھی رہنے دو، بجائے اس کے کہ قبضہ مافیا سے اس گھر کو آزاد کرایا جائے، یہ دو ریاستی نظریہ اسی طرح کا ہی ہے۔ ان کا پہلا معاہدہ جو یاسر عرفات کے ساتھ ہوا تھا، اس میں فلسطینیوں سے جتنے وعدے کئے گئے، وہ بھی پورے نہیں کئے گئے۔ ریاست کا تصور ہمارے ہاں بلدیہ کے تصور سے بھی کمتر اور کمزور تھا۔ فلسطینی حصے کا بجٹ اور گریٹر اسرائیل کا بجٹ ہے، اس کا حصہ ہے، اس کے مطابق تو اس کی تنخواہیں بھی اسرائیل نے دینی ہے، وہاں تو پولیس کو بھی اختیار نہیں کہ وہ اسرائیل کی اجازت کے بجائے کوئی کام کرسکے۔ فلسطین کی پولیس اپنی مرضی سے اسلحہ منتقل نہیں کرسکتی، یہ ایک دھوکہ اور فراڈ تھا، اب یہ پہلی بار ہوا ہے کہ امریکی صدر نے کہا ہے کہ ہم ایک ریاستی نظریہ پر بھی بات کرسکتے ہیں۔ یعنی اب گریٹر اسرائیل ہی ہے اور اسی پر ہی بات ہوسکتی ہے۔ اس پر عالمی سطح پر مدبرین نے کہا کہ یہ امریکی پالیسی کا بہت بڑا یو ٹرن ہے، چونکہ پہلے معاہدے کے تحت اسرائیل نئی بستیاں آباد نہیں کرسکتا تھا، سلامتی کونسل کی قردادوں کے مطابق بھی نئی بستیاں آباد نہیں کرسکتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود پوری دنیا نے دیکھا کہ اسرائیل نئی بستیاں آباد کرتا جا رہا ہے اور امریکہ زبانی جمع خرچ پر لگا ہوا ہے۔ آہستہ آہستہ کئی سو نئی یہودی بستیاں آباد ہوگئی ہیں اور اب کہتے ہیں کہ جی فلسطین کی تو گنجائش ہی پیدا نہیں ہوتی۔

اسی تناظر اور تسلسل میں بھارت کے ساتھ چیزوں کو ملا کر دیکھیں تو چیزیں اور واضح ہو جاتی ہیں۔ اسرائیل کے بعد سے سب سے زیادہ نوازشیں امریکہ کی انڈیا پر ہیں، اگر انڈیا نے ایٹمی دھماکے کئے اور اس کے جواب میں پاکستان نے بھی ایٹمی دھماکے کئے، لیکن امریکیوں نے بھارت کے ساتھ جوہری معاہدہ، ہم آہنگی اور اس کو محفوظ بنانے کیلئے معاہدے کیا، 99ء سے یہ چیزیں جاری ہیں، انڈیا کو پاکستان کیخلاف ہمیشہ تھپکی دی جاتی ہے، چائنہ کے خلاف بھی بھارت کو تھپکی دی جاتی ہے، بھارت اس وقت خطے میں امریکہ کا ترجمان بن کر سامنے آگیا ہے۔ یہ ایک مثلث بن گئی ہے، یعنی امریکہ، اسرائیل اور بھارت، ان کے اس خطے میں اور عالمی سطح پر مفادات یکجا ہوگئے ہیں۔ اب چیزیں اور عریاں اور ننگی ہوگئی ہیں۔ اب اس معاملے میں کسی کو کوئی ابہام نہیں رہا۔ یہ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ کوئی بھارتی عہدیدار اسرائیل گیا ہے، جو فسلطینی علاقوں میں نہیں گیا، پہلے اس لئے جایا کرتے تھے کہ یہ ظاہر کیا جا سکے ہم غیر جانبدار ہیں اور غیر جانبدار ہونے سے متعلق انڈین کا شمار ہوتا تھا، اس مرتبہ انہوں نے یہ تکلف ہی نہیں کیا۔ مودی نے یک ریاستی نظریئے کے لفظ پر عمل کر دکھایا ہے، ان کے سارے تعلقات آشکار ہوگئے ہیں۔ اسرائیل ان کو کہہ رہا ہے کہ جیسے آپ دہشتگردی کا شکار ہیں، ہم بھی دہشتگردی کا شکار ہیں۔ انہوں نے ایک نام رکھا ہوا ہے لشکر طیبہ، بھائی لشکر طیبہ کی کیا حیثیت ہے۔؟ وہ وہاں کے عوام تھے، اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ کشمیر کے عوام وہاں کھڑے ہوئے ہیں، وہاں کی پرانی تحریکیں بےمعنی ہوگئی ہیں، حریت کانفرنس کو دیکھ لیں، اس قدر عوام جوش و خروش سے نکلے ہیں کہ کسی کو توقع نہ تھی، میں یہ نہیں کہتا کہ پرانی تحریکوں کی جدودجہد میں کمی آئی ہے، بلکہ یہ کہہ رہا ہوں کہ اب یہ تحریک عوامی بن چکی ہے۔ ایسے حالات میں بھارت اور اسرائیل نے فلسطینوں اور کشمیروں کو دبا کر رکھا ہوا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ وہاں کھل کر پاکستان کا نام آیا ہے۔

اسلام ٹائمز: ریاض کانفرنس، چوالیس ممالک کی سربراہی ٹرمپ نے کی، لگتا ایسا ہے کہ فلسطینیوں کو خود مسلمان ملکوں کے درمیان بھی تنہا کیا جا رہا ہے۔ اب کوئی سپورٹ کرتا دکھائی نہیں دیتا۔؟
ثاقب اکبر:
دیکھیں ان کا مقصد یہی تھا اور تاثر بھی یہی دیا گیا، لیکن ایسا نہیں ہے، پاکستان سمیت کئی ممالک نے ایسا تاثر نہیں دیا، پاکستان کے وزیراعظم سمیت بیشتر ممالک کے ڈیلی گیٹس نے تقاریر نہیں کیں اور خاموشی بہتر سمجھی، لوگ کہہ رہے ہیں کہ انہیں موقع نہیں دیا گیا، لیکن اصل صورتحال یوں ہے کہ انہوں نے خاموشی کو ہی بہتر سمجھا۔ چونکہ یہ وہاں مہمان تھے، یہ نہیں چاہتے تھے کہ وہاں کوئی اختلاف ہو، ورنہ آپ دیکھیں کہ عملی طور پر کیا ہو رہا ہے، انہوں نے یمن کے معاملے پر فوجیں مانگیں، لیکن پاکستان کی پارلیمنٹ نے اس کے برعکس قرارداد منظور کی۔ باقی ٹرمپ کے آنے کی جو برکتیں ہوئیں، وہ قطر کا معاملہ سامنے ہے، خود خلیج تعاون کونسل میں شامل ممالک ہیں، انہوں نے اس کا ساتھ نہیں دیا، اگر ایسا ہوتا یہ ممالک قطر کے معاملے پر سعودی عرب کا ساتھ دیتے، خود پاکستان نے ساتھ نہیں دیا اور کہا کہ ہم غیر جانبداری کا کردار ادا کریں گے۔ آپ مختلف ممالک کی خارجہ پولیسی کو دیکھ کر کوئی فیصلہ کرسکتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ ریاض کانفرنس میں ہونے والی باتیں خاموش رہنے والے ممالک کے عوام اور حکومتوں کی ترجمانی کر رہی تھیں۔

اسلام ٹائمز: رہبر معظم سید علی خامنہ ای کے کشمیر سے متعلق تازہ ترین بیان کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
ثاقب اکبر:
میرا خیال ہے کہ بہت ہی اہم بیان ہے، پہلے بھی ایسے بیان تسلسل کے ساتھ دیتے چلے آئے ہیں، وہ دنیا کی مستضعف اور مظلوم قوموں کی حمایت میں ہمیشہ بیان دیتے چلے آئے ہیں، آزادی کے متوالوں کی حمایت میں کئی بیانات آن ریکارڈ ہیں۔ ایسے موقع پر جب کشمیر کے خلاف اتنی بڑی عالمی سازش بےنقاب ہوگئی ہے، مودی کے دورے کا مقصد جدوجہد آزادی کشمیر کو دبانے کی ایک شازش ہی تھی، دوسرا آیت اللہ خامنہ ای کا خود عالمی سطح کا ویژن ہے، وہ ہمیشہ مظلوموں کی حمایت کرتے ہیں، اس لئے انہوں نے کشمیریوں کی حمایت میں بیان دیکر مودی کی اس سازش کو ناکام بنا دیا ہے اور اس مسئلے کو دورباہ زندہ کر دیا ہے۔ رہبر معظم کے بیان کے پاکستان میں بھی تاثیر دیکھی گئی ہے، یہاں کی سیاسی جماعتیں، خارجہ امور کے ماہرین اور خود دفتر خارجہ نے ویلکم کیا ہے، خود کشمیری رہنماوں نے اس بیان کو ویلکم کیا ہے، کشمیری قیادت سید علی گیلانی، میراعظ عمر فاروق سمیت دیگر نے اس بیان کو بیحد سراہا ہے اور خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سب نے سمجھا ہے کہ یہ بروقت اور مناسب بیان دیا گیا ہے، جس سے کشمیریوں کی دلجوئی ہوئی ہے۔

اسلام ٹائمز: مسجد اقصٰی میں کئی دن سے نماز نہیں پڑھنے دی گئی، ایسی صورتحال میں مسلم امہ کی خاموشی کیا معنی رکھتی ہے۔؟
ثاقب اکبر:
آپ ان چیزوں کو دو طرح سے دیکھیں، ایک ہے حکمرانوں کی خاموشی، جس کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ مسلم امہ کے عوام یہ سمجھ گئے ہیں کہ ان کے حکمرانوں کی ماہیت کیا ہے، خود فسلطینی عوام سمجھ گئے ہیں کہ ان حکمرانوں سے ہمیں کوئی توقع نہیں رکھنی چاہیئے، لہذا عوام نے خود ہی اٹھنا ہے اور اپنا دفاع کرنا ہے۔ امہ کے ترجمان وہی ہیں، جو اس ظلم کے خلاف کھل کر ساتھ دیتے ہیں اور اعلانیہ ساتھ کھڑے ہین۔ باقی رہ گیا پاکستان، تو آپ یہ داد تو پاکستانیوں کو دیں گے کہ جتنی بھی کچھڑیاں پکتی رہی ہیں، پس دیوار ان سب کے باوجود پاکستانی عوام نے ہمیشہ ہی اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست سمجھا ہے۔ ہم ہمیشہ آواز اٹھاتے رہے ہیں، حکمرانوں نے بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا، جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے، ہماری وزارت خارجہ اور حکمران مزید مضبوط ہوں گے، خاص کر مودی کے دورہ اسرائیل کے بعد ہمارے حکمرانوں کیلئے لائن اور بھی زیادہ واضح ہوگئی ہے۔ اس صورتحال میں ہم اسرائیل کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں خاص تبدیلی کے اشارے دیکھ رہا ہوں، پاکستان اس مسئلے میں یکسو ہوجائیگا، وہ فسلطینیوں کی حمایت میں کبھی دستبردار نہیں ہوگا۔ ہمیں فلسطین اور کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر یکسوئی کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا۔

اسلام ٹائمز: سنا ہے کہ اب داعش کو موصل اور شام کے بعد افغانستان مین جمع کیا جا رہا ہے، ایسی صورتحال میں پاکستان اور خطے کے ممالک کیلئے کیا تھرٹس کھڑے ہوسکتے ہیں۔؟
ثاقب اکبر:
میرے خیال میں پاکستان اس صورتحال کو بہت پہلے ہی سمجھ چکا تھا، کچھ عرصہ پہلے ہم نے روس کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں کیں تو دنیا حیران تھی، تمام تزویراتی ادارے اور عالمی امور کے ماہرین ان مشترکہ مشقوں پر چونک گئے اور حیران ہوئے۔ اس کو بہت بڑی تبدیلی کی طرف اشارہ سمجھا گیا، خود انڈیا نے روس سے کہا کہ آپ ایسا نہ کریں۔ روس جس کے انڈیا کے ساتھ زبردست تعلقات تھے، روسی صدر نے ایک بھارتی صحافی کے سوال پر بہت واضح کر دیا تھا کہ ہمارے بھارت سے تعلقات پاکستان کے ساتھ تعلقات کی قیمت پر نہیں ہیں۔ یہ بڑی زبردست تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ اس نے واضح کیا کہ آپ کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، لیکن پاکستان کے ساتھ بھی تعلقات رکھیں گے۔ روس، چین اور پاکستان کا افغانستان کے معاملے پر امریکہ کے بغیر اجلاس کرنا سمجھ آ رہا تھا کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔ حلب میں شکست کے بعد یہاں کی قوتیں سمجھ گئی تھیں کہ داعش کا اگلا ٹھکانہ افغانستان بننا ہے، کیونکہ امریکہ کا مشرق وسطٰی میں داعش کے حوالے سے کردار مشکوک رہا ہے، کہیں حامی تو کہیں نیم مخالف۔ امریکہ کے بارے میں اطممنان سے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ داعش کو کنٹرول کرنے میں کوئی کام کرے گا۔ لہذا داعش کا وجود ان ریاستوں کیلئے خطرہ ہے، جو روس سے آزاد ہوئی ہیں یا پھر روس کے ساتھ اس کی سرحدیں لگتی ہیں۔ اسی طرح سے چائنہ کے علاقے ہیں، ان کو بھی خطرہ ہے، دہشتگردوں کا ان علاقوں میں اثر و رسوخ ہے۔ اسی طرح پاکستان کے علاقے کو خطرات لاحق ہیں۔ اسی طرح تورا بورا میں امریکہ نے مدر آف آل بمز گرا کر اس علاقے سے طالبان کا قبضہ چھڑوایا ہے اور اب وہاں داعش نے قبضہ کر لیا ہے۔ یہ معاملہ سمجھ آنے والا ہے۔
خبر کا کوڈ : 654703
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش