0
Monday 31 Jul 2017 23:56
نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے کو تاریخ میں ایک کمزور اور بیمار فیصلے کے طور پر یاد رکھا جائیگا

پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ اور فوج نے آج تک کسی وزیراعظم کی مدت پوری نہیں ہونے دی، پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو بھی پاکستان میں جمہوریت اب زیادہ پسند نہیں آرہی ہے
پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ اور فوج نے آج تک کسی وزیراعظم کی مدت پوری نہیں ہونے دی، پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان
پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان پاکستانی صحافت کی انتہائی معروف شخصیت اور سینیئر بے باک کالم نگار و تجزیہ کار ہیں، وہ شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ اردو کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں اور آجکل بحیثیت Adjoint پروفیسر جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ سے وابستہ ہیں۔ وہ گذشتہ تیس سال سے زائد عرصے سے سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں، اسکے ساتھ ساتھ وہ چالیس سال سے زائد عرصے سے صحافت سے بھی وابستہ ہیں، انکے کالم و تجزیئے روزانہ مختلف قومی اخبارات و جرائد کی زینت بنتے ہیں۔”اسلام ٹائمز“ نے پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان کیساتھ پاناما فیصلہ، وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی سمیت دیگر اہم موضوعات کے حوالے سے جامعہ کراچی میں انکے دفتر میں ایک مختصر نشست کی۔ اس موقع پر انکے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: پاناما کیس میں نواز شریف کو نااہل قرار دیئے جانیکے سپریم کورٹ کے فیصلے کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان:
نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ ایک کمزور فیصلہ ہے، پاکستانی عدلیہ کی تاریخ میں ایک فیصلہ پہلے بھی ہوا تھا، جس میں منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تھی، اس وقت جنرل ضیاء کی آمریت کے خلاف آواز اٹھانے کی اجازت نہیں تھی، لیکن اس وقت بھی کئی ماہرین نے کہا تھا کہ یہ بہت برا عدالتی فیصلہ ہے، جسے تاریخ نے صحیح ثابت کیا کہ آج تک نواب قصوری قتل کیس میں بھٹو کی پھانسی کا جو عدالتی فیصلہ ہے، وہ کسی بھی نظریئے کے طور پر پیش نہیں کیا جاتا، کسی بھی عدالت میں نہ کسی جج نے اس فیصلے کا حوالہ دیا نہ ہی کسی وکیل نے، لہٰذا اس غلط عدالتی فیصلے کا تاریخ نے خود فیصلہ کیا، ایس ایم ظفر صاحب کو بھٹو صاحب کے مخالف تھے، انہوں نے بھی کہا کہ وہ بدترین فیصلہ تھا، جس میں انصاف کے بنیادی اصولوں کو نظر انداز کیا گیا، یہی صورتحال پاناما فیصلے میں بھی سامنے آئی، اس میں عدالت کا متعصبانہ رویہ سامنے آتا ہے، عدالت نے بنیادی حقائق کو نظر انداز کیا اور ایک ایسا کمزور فیصلہ دیا کہ جس کے نتیجے میں ایک منتخب وزیراعظم گیا، جسے تاریخ میں ایک کمزور اور بیمار فیصلے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: پاناما فیصلے کے بعد جمہوری نظام کے چلنے کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان:
اس فیصلے کے بعد ایک بہت بڑا سوال اٹھتا ہے پاکستان کیلئے، وہ یہ کہ ملک میں جمہوری نظام کیسے چلے گا، کیونکہ پاکستان کی بقاء جمہوری نظام میں ہے، جمہوری نظام کے بغیر یہ ملک نہیں بچ سکتا، پہلے بھی جمہوری نظام نہ ہونے کی وجہ سے اس ملک کی اکثریت نے علیحدگی کا فیصلہ کیا، اگر جمہوری نظام چلتا ہے، پارلیمنٹ اپنی مدت پوری کرتی ہے اور پھر شفاف انتخابات منعقد ہوتے ہیں، پھر تو سب ٹھیک ہے، ورنہ دوسری صورت میں بہت سارے معاملات الجھ جائیں گے۔

اسلام ٹائمز: منتخب وزیراعظم کو آرٹیکل 62، 63 کے تحت نااہل قرار دیا گیا، اسے صرف سیاستدانوں کیخلاف استعمال کئے جانے کو کیسے دیکھتے ہیں۔؟
پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان:
ایسا لگتا ہے کہ سویلین کیلئے جگہ کم ہو جائے گی، کیونکہ یہ جو عدالت نے آرٹیکل 62، 63 استعمال کرنے کا اختیار حاصل کر لیا ہے، اس کا بہت زیادہ غلط استعمال ہوگا اور یہ صرف سیاستدانوں کے خلاف ہی استعمال ہوا، کیسی بدقسمتی ہے کہ جنرل مشرف نے پاکستان کا آئین توڑا، سب کو پتہ ہے اور وہ کسی عدالت میں پیش نہیں ہوئے، جنرل اسلم بیگ نے پیسے بانٹے، ان کے خلاف مقدمہ نہیں چلا، جنرل ضیاءالحق نے پاکستان کو تباہ کر دیا، ان کے بارے میں کسی عدالت میں کوئی ریفرنس نہیں ہے، لہٰذا سب کے ساتھ برابری کا سلوک نہ ہونے کی وجہ سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ سویلین کیلئے جگہ کم ہو جائے گی اور اگر سویلین کیلئے جگہ کم ہوئی تو اس کا بہت زیادہ نقصان پاکستان سمیت پورے خطے کو ہوگا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ جو ہوگیا وہ ہوگیا، لیکن جمہوری نظام چلنا چاہیئے، اسمبلی کو اپنی پانچ سال کی مدت پوری کرنی چاہیئے، بہت ہی جامع انتخابی قوانین پاس ہونے چاہیئے کہ جس کی طرف پارلیمنٹ نے توجہ نہیں دی، عمران خان نے بھی توجہ نہیں دی، تاکہ شفاف انتخابات منعقد ہوں اور جو بھی انتخابات جیتے اسے اقتدار منتقل ہونا چاہیئے، اگر یہ مرحلہ طے کر لیا تو پھر تو ٹھیک رہے گا، اگر ایسا نہ ہوا تو پھر ایک نیا بحران شروع ہو جائے گا۔

اسلام ٹائمز: کیا جمہوری ادوار پاکستانی عوام کیلئے سودمند ثابت ہوئے یا آئندہ بھی ثابت ہونگے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان:
دیکھیں جمہوریت کا تو فائدہ سب کو نظر آگیا کہ ایک منتخب وزیراعظم کے خلاف اس کے ماتحت افسران نے انکوائری کی اور اسی انکوائری رپورٹ کی بنیاد پر عدلیہ نے وزیراعظم کو نااہل قرار دیدیا، تو یہ صرف جمہوری نظام میں ہی ممکن ہے، یہ کسی آمرانہ نظام میں ممکن نہیں ہے، اس پورے خطے میں جہاں ہم رہتے ہیں، ہزار سال سے ایسی مثال نہیں ملتی کہ کسی برسراقتدار حکمران کا احتساب کیا جائے، ایسی کوئی مثال نہیں ہے، امریکہ میں واٹر گیٹ اسکینڈل ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں اس وقت کے امریکی صدر رچرڈ نکسن کا مواخذہ ہونے جا رہا تھا، اسے چھوڑنا پڑا، امریکہ کا اتنا بڑا جمہوری نظام ہے، جس کی وجہ سے یہ ہوا، لیکن یہاں کہیں ایسی مثال نہیں ملتی، لہٰذا یہ جمہوریت کی وجہ سے ہوا ہے، اس کے بغیر ایسا ہونا ممکن نہیں، تو یہ جمہوری نظام کا فائدہ ہے، جمہوریت چلے گی تو باقی بدنما چیزیں بھی کم ہونگی، جمہوریت کو چلنا چاہیئے، جو جمہوریت کے خلاف اترتے ہیں، انہیں اسی ایک فیصلے پر توجہ دینی چاہیئے کہ ایسا ہونا جمہوریت میں ہی ممکن ہے، برسر اقتدار منتخب وزیراعظم کے خلاف احتساب ہونا، یا پچھلے دور میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا محض توہین عدالت کے فیصلے پر چلا جانا کسی اور نظام میں ممکن نہیں۔

اسلام ٹائمز: جمہوری نظام جیسے تیسے چل رہا ہے، اب اس میں ملک و قوم کیلئے مزید بہتری کیسے ممکن ہے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان:
بہتری اسی صورت میں ممکن ہے کہ پارلیمنٹ جو انتخابی قوانین بنا رہی ہے، اسے مزید زیادہ شفاف بنائے، الیکشن کمیشن کو خود مختار کیا جائے، الیکشن کی شفاف اور سخت ترین مانیٹرنگ کا معاملہ ہو، تاکہ شفاف اور منصفانہ انتخابات منعقد ہوں، جب شفاف اور منصفانہ انتخابات ہونگے تو اقتدار منتقل ہوگا، تو پھر حکومت خود ہی جواب دہ ہوگی، 1977ء سے دو ہی قوتیں تھیں، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ، 2008ء میں الیکشن ہونے کے بعد، 2013ء میں الیکشن ہونے کے ایکدم سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوگیا، پیپلز پارٹی اپنی مقبولیت کھو بیٹھی اور تحریک انصاف سامنے آئی، یہ سب جمہوریت کی وجہ سے تو ہوا ہے، دوسری صورت میں تھوڑی ہوتا، لہٰذا اگر یہ پروسس چلتا رہا تو مزید اس میں نکھار آئے گا اور نکھار کیلئے میڈیا، سول سوسائٹی اور عوام  سب کو کوششیں کرنا ہونگی۔

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے کہ آج تک کوئی منتخب وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کرسکا۔؟
پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان:
آج تک کسی بھی وزیراعظم کی مدت اسٹیبلشمنٹ نے پوری نہیں ہونے دی، پاکستانی کی فوج نے کسی وزیراعظم کی مدت پوری ہونے نہیں دی، پاناما فیصلے کے پیچھے بھی ہمیں نادیدہ قوتیں نظر آتی ہیں، اس کا اظہار تصویر لیکس کے معاملے سے بھی ہوتا، پاکستان میں معاملات شفاف اور منصفانہ پورے نہیں ہو رہے ہیں، اگر ایسا ہوتا تو پرویز مشرف کو بھی سزا ہونی چاہیئے، وہ تو کسی عدالت میں پیش ہی نہیں ہوئے، اس جج کے خلاف بھی سپریم جوڈیشل کونسل کارروائی کر دیتی کہ جس کا نام بھی پاناما اسکینڈل میں ہے، اگر ایسا ہو تو پھر کہا جائے گا کہ سب کے ساتھ برابری کی بنیاد پر سلوک ہو رہا ہے، لیکن ہمیں ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ بہرحال اس سے قطع نظر کہ جو بھی ہو رہا ہے، یہ جمہوری نظام چلتے رہنا چاہیئے، یہ نظام چلے گا تو بہت ساری خرابیاں دور ہوسکتی ہیں، ورنہ پوری زندگی ختم نہیں ہونگی۔

اسلام ٹائمز: کیا یہ درست نہیں ہے کہ پاناما کیس میں فوج کا کردار غیر جانبدارانہ رہا ہے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان:
پاکستان کی تاریخ جن لوگوں نے غور سے پڑھی ہے، وہ آپ کے اس مفروضے پر یقین نہیں رکھتے، جو آپ نے بیان کیا۔

اسلام ٹائمز: سیاسی اور عسکری اداروں میں ہم آہنگی کیسے ممکن ہے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان:
قائداعظم محمد علی جناح نے اسٹاف کالج کوئٹہ میں 1948ء میں ایک تقریر کی تھی، جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ آئینی حکومت کیا ہے اور مسلح افواج کا کردار کیا ہے، انہوں نے کہا تھا کہ مسلح افواج کا ایک ہی کردار ہے کہ وہ آئینی حکومت کی پاسداری کرے، سارے ممالک میں مسلح افواج کا ایک ہی کردار ہوتا ہے کہ وہ آئین کی پاسداری کرے، ہم انڈیا کو بہت برا بھلا کہتے ہیں، لیکن انڈیا میں اتنی مضبوط جمہوریت ہے کہ وہاں فوج حکومت کے ماتحت کام کر رہی ہے، تو ہمارے ملک میں بھی فوج سمیت تمام اداروں کو آئین کی پاسداری کرنی چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: موجودہ حساس عالمی صورتحال میں پاناما فیصلے کے ملک پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان:
اصل میں جو نئے حقائق سامنے آئے ہیں، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو بھی پاکستان میں جمہوریت اب زیادہ پسند نہیں آ رہی ہے، کیونکہ پاکستان میں جمہوریت اور پارلیمنٹ کے متحرک ہونے سے ان کے مفادات پورے نہیں ہو رہے ہونگے، ان کی بھی اس بات میں دلچسپی نہیں رہی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت رہے، مگر اس کے باوجود نواز شریف کے جانے کے بعد مسلم لیگ (ن) اپنی پرانی پالیسی پر گامزن رہتی ہے تو پھر تو ملک میں صورتحال معمول میں رہے گی، اگر پالیسی میں تبدیلی آتی ہے تو وہ مسائل پیدا کریگی۔
خبر کا کوڈ : 657658
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش