QR CodeQR Code

عالمی قیادت کشمیر کے تنازعہ سے نظریں نہ چرائے

جموں کشمیر کے سیاسی مستقبل سے متعلق فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے، شبیر احمد شاہ

کشمیر کا مسئلہ سیاسی ہے اور اسکا حل بھی سیاسی ہے

4 Aug 2017 13:41

جموں و کشمیر فریڈم پارٹی کے سربراہ کا ’’اسلام ٹائمز‘‘ کیساتھ خصوصی انٹرویو میں کہنا تھا کہ جموں کشمیر کا مسئلہ سیاسی ہے اور اس کا حل بھی سیاسی ہے۔ ہمیں بھارت یا بھارت میں رہنے والے لوگوں سے کوئی ذاتی عناد نہیں ہے، البتہ ہم ایک ایسے مسئلہ کے پُرامن حل کی جستجو کر رہے ہیں، جسکی گارنٹی اقوام متحدہ کے چارٹر میں موجود ہے اور جس کیلئے اقوم متحدہ میں اٹھارہ سے زائد قرادادیں منظور کی گئی ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک سو پچاس سے زائد بار مذاکرات کے میز سجائے گئے، لیکن اصل فریق کی غیر موجودگی کیوجہ سے کسی نتیجے پر پہنچنا ممکن نہیں ہوا۔ میں خود مسئلہ کشمیر کے پراُمن و سیاسی حل کی تلاش میں اپنی زندگی کے تیس سال جیل میں گزار چکا ہوں۔


شبیر احمد شاہ کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے شہر خاص سے ہے۔ جموں و کشمیر فریڈم پارٹی کے سربراہ شبیر احمد شاہ نویں جماعت کے طالب علم تھے، عمر 14 سال کی تھی کہ انکو پہلی بار بھارتی مظالم کا شکار بن کر قید میں رکھا گیا، 1968ء سے ہی وہ کشمیر کی آزادی کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں، 1980ء میں انہوں نے جموں و کشمیر فریڈم پارٹی قائم کی اور اپنی کم عمری میں ہی 27 سال بھارت کی مختلف جیل خانوں میں گذارے، جسکی وجہ سے انہیں ’’ضمیر کا قیدی‘‘ کے لقب سے بھی نوازا گیا ہے، انہوں نے کبھی بھی کشمیر پر بھارتی تسلط کو قبول نہیں کیا اور ابتداء زندگی سے ہی کشمیر کی آزادی کیلئے کوشاں رہے ہیں، ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے شبیر احمد شاہ سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: بھارتی تحقیقاتی ایجنسی ’’این آئی اے‘‘ اور دیگر ایجنسیوں کے ذریعے کشمیری مزاحمتی قائدین کو ہراسان کرنیکی کارروائیوں پر آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
شبیر احمد شاہ:
دیکھئے حریت قائدین کو گرفتار کرنے، بھارتی میڈیا کے ذریعے ان پر بے بنیاد اور جھوٹے الزامات عائد کرنا اور انہیں جسمانی اذیتوں سے دوچار کرنے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ جموں کشمیر کے عوام کو تحریک آزادی سے متنفر کیا جائے اور انہیں مزاحمتی قائدین کے بارے میں بدظنی میں مبتلا کیا جائے۔ یوں بھارت الزام تراشیوں کے سہارے، گرفتاریوں اور تعدیب و تعزیب کا چکر چلاکر ہماری مبنی بر حق جدوجہد کو بزور طاقت دبانا چاہتا ہے۔ مزید یہ کہ اب مقبوضہ کشمیر کی مزاحمتی قائدین پر بیرونی ممالک سے فنڈز وصول کرنے کے نام پر ہراسان کیا جا رہا ہے اور اس طرح بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں ڈھائے جا رہے ظلم و ستم پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوششیں کی جا رہی ہے اور دوسری طرف بیرونی ٖممالک سے فنڈز کے حصول اور حوالہ رقومات کا ہوا کھڑا کرکے یہ باور کرانے کی کوششیں کی جا رہی ہے کہ رواں جدوجہد مقامی نویت کی نہیں بلکہ بیرونی ممالک کی شہہ پر اور فنڈز کے سہارے یہ قائم ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا مزاحمتی قائدین کی ’’این آئی اے‘‘ کے ذریعے گرفتاریوں سے ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت نے ریاست کو مکمل طور پر بھارت کے کنٹرول میں دیدیا ہے۔؟
شبیر احمد شاہ:
ہم یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بھارت اور اس کے مقامی حاشیہ بردار جب عوامی جذبے کو دبانے میں ناکام رہے تو انہوں نے حریت پسند قائدین کو ہدف تنقید بنانے کے ساتھ ساتھ انہیں گرفتار کرکے اور کئی ایک کو دہلی میں مقید رکھا۔ ہمارا ماننا یہ ہے کہ اس طرح کے الزامات کی کھلی اور شفاف جانچ کے لئے کشمیر کے آئین کے اندر کافی گنجائش تھی، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ جو لوگ ’’خیالات کی جنگ‘‘ اور ’’گولی کے بدلے بولی‘‘ کا نقارہ بجا رہے تھے، انہوں نے ہی اس طرح کی کارروائیوں کے لئے اپنی حامی بھر لی اور یوں انتقامی جذبے کے تحت نہ صرف حریت قیادت کو دہلی کے ہاتھوں میں سونپ کر من مانی کرنے کی کھلی ڈھیل دی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ انہی لوگوں کا کیا دھرا ہے۔ کٹھ پتلی حکومت و انتظامیہ اگر قائدین کے خلاف بے بنیاد کیسسز کی بنیاد پر تحقیقات کرانے پر بضد ہی تھی تو اُنہیں دہلی میں مقدمے درج کرانے کے بجائے جموں کشمیر کے آئین کے تحت اپنی ضد پوری کرنے کے لئے کافی مواقع تھے، لیکن اس کے باوجود آزادی پسند قیادت کے خلاف انتقام لینے کے لئے اور انہیں جسمانی اذیتوں سے گزارنے کے لئے مقامی انتظامیہ نے اپنی حامی بھر لی، انہیں بھارت کے حوالے کیا اور یوں اقتدار کے سنگھاسن پر رہنے کے لئے انہوں نے اس سارے ڈرامے کے لئے منتخب مہروں کو حرکت میں لایا۔

اسلام ٹائمز: کیا ’’این آئی اے‘‘ کی کارروائیوں سے آپ خوف و ڈر محسوس نہیں کرتے ہیں۔؟
شبیر احمد شاہ:
پہلے یہ عرض کروں کہ مجھے گرفتار کرکے غیر انسانی ماحول میں ٹارچر کرنا اور غیر قانونی حراست میں رکھنا کسی بھی قانون کی رو سے جائز نہیں ہے۔ یہ ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ بھارتی حکومت کے پاس مجھے قید میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں بلکہ یہ صرف ایک بہانہ ہے کہ میری پُرامن سرگرمیوں پر قدغن لگانے کے لئے۔ دوسرے یہ کہ جہاں میرے قوم کے بچے اور نوجوان اپنی عزیز جانیں پیش کر رہے ہیں، وہی میں اس بات کا عہد دہراتا ہوں کہ اگر حق کی جستجو میں مجھے پھانسی بھی چڑھنا پڑے، تو یہ میرے لئے سعادت ہوگی، لیکن نہ سرنڈر کروں گا اور نہ سر خم کروں گا۔ حق کے راستے میں خوف و ہراس کیسا۔

اسلام ٹائمز: بھارتی حکومت کی ایسی کارروائیوں کا اصل مقصد کیا ہے۔؟
شبیر احمد شاہ:
جیسا کہ میں نے کہا کہ بھارتی حکومت کے پاس مجھے قید رکھنے کو کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ سب ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے۔ بھارتی حکومت ہم پر دباؤ بڑھا کر جدوجہد آزادی کے لئے کی جا رہی پُرامن کوششوں سے ہمیں باز رکھنا چاہتی ہے۔ ہمارا ماننا یہ ہے کہ بھارتی حکومت حق پر مبنی ہماری جدوجہد کو بدنام کرنے کی کوششیں کر رہی ہے اور عوامی ذہن کو متاثر کرنے کی کوششیں میں مصروف ہے۔ این آئی اے کی کارروائی بھی حریت قائدین کو مشکوک اور غیر معتبر ٹھہرانے کی ایک دانستہ کوشش ہے۔ حریت قائدین کی کی زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح ہے، انہوں نے کبھی تشدد کی سیاست کو نہیں اپنایا ہے۔ وہ پُرامن جدوجہد کے قائل ہیں اور اس سلسلے میں ان کی ساری زندگی گواہ اور ایک کھلی کتاب کی طرح ہے، البتہ حریت رہنما کشمیری عوام پر ہورہے ظلم و تعدی اور قتل و غارتگری کی لہر پر خاموش نہیں رہ سکتے اور ہر صورت میں اپنی آواز بلند کرتے رہیں گے۔

اسلام ٹائمز: کیا مسئلہ کشمیر کا دائمی حل ایسی کارروائیوں کے نتیجے میں ممکن ہے یا مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل ممکن ہے۔؟
شاہ احمد شاہ:
میں نے اپنے سارے سیاسی کیرئیر میں مذاکرات کو اہمیت دی ہے اور بات چیت کے ذریعے مسائل کے حل پر زور دیا ہے اور اسی نظریہ کی وکالت کرتا آیا ہوں۔ ہم جس سیاسی نظریہ کی بات کر رہے ہیں، وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ جموں کشمیر کی ریاست کے سیاسی مستقبل سے متعلق فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے اور ہم اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں یا سہ فریقی مزاکرات ذریعے ایک پائیدار و مستقل حل ڈھونڈنے کی وکالت کرتے آرہے ہیں، یہی ہمارا موقف رہا ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ جموں کشمیر کا مسئلہ سیاسی ہے اور اس کا حل بھی سیاسی ہے۔ ہمیں بھارت یا بھارت میں رہ رہے لوگوں سے کوئی ذاتی عناد نہیں ہے، البتہ ہم ایک ایسے مسئلہ کے پُرامن حل کی جستجو کر رہے ہیں، جس کی گارنٹی اقوام متحدہ کے چارٹر میں موجود ہے اور جس کے لئے اقوم متحدہ میں اٹھارہ سے زائد قرادادیں منظور کی گئی ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک سو پچاس سے زائد بار مذاکرات کے میز سجائے گئے لیکن اصل فریق کی غیر موجودگی کی وجہ سے کسی نتیجے پر پہنچنا ممکن نہیں ہوا۔ میں خود مسئلہ کشمیر کے پراُمن و سیاسی حل کی تلاش میں اپنی زندگی کے تیس سال جیل میں گزار چکا ہوں۔

اسلام ٹائمز: عالمی اداروں کی مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے کیا ذمہ داری بنتی ہے۔؟
شبیر احمد شاہ:
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کی دیگر عالمی تنظیموں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے مزاحمتی قائدین کے خلاف بھارتی مظالم کو روکنے کے لئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔ ہم عالمی قیادت سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ جموں کشمیر کے تنازعہ سے نظریں نہ چرائیں اور اگر وہ یہ چاہتے ہیں برصغیر میں پُرتناؤ اور کشیدگی کا خاتمہ ہو اور برصغیر کے عوام پُرامن زندگی گزاریں تو مسئلہ کشمیر کا حل عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرنا ان کے لئے ایک اولین ترجیح کی حثییت رکھتی ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ اگر عالمی قیادت مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کے مسئلے کا حل تلاش کرسکتے ہیں تو مسئلہ کشمیر حل کرنے میں کونسی رکاوٹ مانع ہے۔


خبر کا کوڈ: 658437

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/658437/جموں-کشمیر-کے-سیاسی-مستقبل-سے-متعلق-فیصلہ-ہونا-ابھی-باقی-ہے-شبیر-احمد-شاہ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org