0
Tuesday 29 Aug 2017 16:40
روک سکو تو روک لو، مریم نواز بہت جلد ری ٹوئٹ کرنیوالی ہیں

ہمیں آج بھی امریکہ کی خدمت پہ اعتراض نہیں بلکہ امریکی ایماء پہ بھارت کی خدمت سے انکاری ہیں، ڈاکٹر ابوبکر عثمانی

پاکستان میں امریکہ کے سفارتی عملے کی تعداد اتنی ہو کہ جتنی امریکہ میں پاکستانی عملے کی ہے
ہمیں آج بھی امریکہ کی خدمت پہ اعتراض نہیں بلکہ امریکی ایماء پہ بھارت کی خدمت سے انکاری ہیں، ڈاکٹر ابوبکر عثمانی
معروف ریسرچ اسکالر، کالم نویس، مقالہ نگار، ڈاکٹر ابوبکر عثمانی کا نام کسی تعارف محتاج نہیں۔ طویل عرصہ شعبہ تدریس سے منسلک رہے ہیں۔ تاہم انکی وجہ شہرت انکی تحریریں ہیں۔ راولپنڈی، اسلام آباد کے مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیمی حوالے سے خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ حالات حاضرہ پر گہری نگاہ رکھنے کیساتھ ساتھ انقلاب اسلامی کے اثرات و ثمرات میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ بنیادی طور پر چکوال سے تعلق رکھتے ہیں، مگر ایک طویل عرصے سے وفاقی دارالحکومت میں مقیم ہیں۔ گذشتہ دو برس سے طبعیت کی ناسازی کے باوجود بھی قلمی سلسلہ رواں رکھے ہوئے ہیں اور اپنی رہائشگاہ پر طالب علموں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ مختلف ممالک کا سفر کرنیکے بعد اپنے مشاہدات کو قلم بند کرچکے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں وقوع پذیر تبدیلیوں اور امریکی دھمکی کے بعد کی صورت حال پر اسلام ٹائمز نے ڈاکٹر ابوبکر عثمانی کیساتھ ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا ہے، جسکا احوال انٹرویو کیصورت میں پیش خدمت ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: کبھی رپورٹ آتی ہے کہ جنرل راحیل شریف کی صدارت میں ٹیکنو کریٹ حکومت بننے جا رہی ہے اور کبھی آواز آتی ہے کہ عمران خان وزارت عظمٰی سنبھالنے جا رہے ہیں، سیاسی صورتحال پہ آپکا تجزیہ کیا ہے۔؟
ڈاکٹر ابوبکر عثمانی:
پاکستان کی تاریخ میں کبھی ریٹائرڈ جرنیل کی واپسی ہوئی تو نہیں، پھر کیونکر ایسا ممکن ہے کہ جنرل (ر) راحیل شریف فقط اس بناء پر سعودی عرب میں نوکری چھوڑ کر واپس آئیں کہ وہاں انہیں وہ پروٹوکول دستیاب نہیں جو یہاں بطور آرمی چیف میسر تھا یا ایک سپہ سالار کے طور پر اکیس کروڑ سے زیادہ پاکستانی عوام انہیں چاہتے اور انکی داد و تحسین کرتے تھے۔ ریاض اسلامک کانفرنس میں انہیں سکیورٹی انچارج کی ذمہ داری ملی تھی، جو کہ یہاں کرنل عہدے کے افسران انجام دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی سیاست و عوام کا ایک خاص مزاج ہے۔ یہاں وردی میں موجود جنرل کی چاہے جتنی بھی داد و تحسین ہو، بنا وردی کے وہ چیز نہیں رہتی۔ بنا وردی کے تو سابق جنرل بطور صدر مملکت نہیں رہ پایا تو بنا وردی کے ایک جنرل کو باہر سے بلا کر صدارت سونپنا، معیوب سا لگتا ہے۔ ویسے مریم نواز نے جو ’’روک سکو تو روک لو‘‘ والا ٹویٹ کیا تھا، عین ممکن ہے کہ آئندہ ماہ دوبارہ دوہرایا جائے۔ بیگم کلثوم نواز ضمنی انتخاب لڑنے جا رہی ہیں اور منتخب ہونے کی صورت میں وہ وزارت عظمٰی کی امیدوار ہوں گی۔ جس ایوان سے شاہد خاقان عباسی صاحب بھاری اکثریت لیکر وزیراعظم منتخب ہوئے، اس ایوان سے بیگم کلثوم نواز کو وزارت عظمٰی حاصل کرنے سے کون روک پائے گا اور میاں نواز شریف کو وزیراعظم کے خاوند کی حیثیت سے ایوان وزیراعظم میں جانے سے کون روک پائے گا۔؟ اب بطور وزیراعظم فیصلے کون کر رہا ہے، میاں نواز شریف یا بیگم کلثوم نواز، کیسے فیصلہ ہوگا۔ شہباز شریف اگر نواز لیگ کے صدر منتخب ہوتے ہیں تو شائد حکمران جماعت مزید بھی قابل قبول ہو جائے۔

اسلام ٹائمز: یعنی آپکو میاں صاحب بمعہ بیگم کے ایوان وزیراعظم شفٹ ہوتے نظر آرہے ہیں، اتنا یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں۔؟
ڈاکٹر ابوبکر عثمانی:
بیگم کلثوم نواز کی عیادت اور خیر سگالی کے پیغامات کس کس نے بھیجے، وہ فہرست اشارہ دیتی ہے کہ یہ کچھ ہونے جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: ٹرمپ سمیت پوری امریکی حکومت نے ایکدم سے پاکستان کیخلاف الزامات اور دھمکیوں کی بوچھاڑ کر دی ہے، اسکی بنیادی وجہ کیا ہے۔؟
ڈاکٹر ابوبکر عثمانی:
امریکہ کو اپنی منوانے کیلئے یا مزید کچھ ہتھیانے کیلئے پاکستان کیخلاف اس طرح کی جارحانہ حکمت عملی ترتیب دینے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔ ہم تو ماضی کی طرح کیا بلکہ ماضی سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر امریکی خدمت کیلئے آمادہ ہیں۔ اگر آپ کو میری بات سے اتفاق نہ ہو تو ذرا ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی سے متعلق تقریر کے بعد پاکستان کی نمائندگی کرنے والوں کے بیانات سے اندازہ کرسکتے ہیں۔ ابتدائی ردعمل میں سبھی نے یہی کہا کہ امریکہ ہماری خدمات کا اعتراف کرے، اب یہ تو ثابت ہوگیا کہ ہم خادم ہیں اور مزید خدمت کیلئے بھی تیار ہیں، بس ہماری خدمات کو تسلیم کیا جائے، مگر بات یہ ہے کہ 25 جولائی سے 4 اگست 1999ء نیول وار کالج امریکہ نے تقریباً دو درجن امریکی تھنک ٹینکس کو بلاکر ایک نئی پالیسی ترتیب دی تھی۔ جسے ایشیاء 2025ء کا نام دیا گیا تھا۔ اس پالیسی میں پاکستان، افغانستان اور انڈونیشا کیلئے سخت گیر رویے کی تجویز دی گئی تھی۔ اس پالیسی کا تسلسل برقرار رکھا گیا، ایشیاء 2025ء منصوبے میں پاکستان کو 2018ء تک کئی حصوں میں تقسیم کرنے کی پوری طرح تیاری کی گئی تھی، جس کے تحت امریکہ نے اندرونی مداخلت کرنی تھی اور اس کے بعد انتظامی صورتحال بہتر کرنے کے نام پر بھارت کو پاکستان میں داخل کرنے کا پروگرام ترتیب دیا گیا تھا، تاہم امریکی خواہشات پر مبنی یہ منصوبہ موخر ہوا تو اس کی وجہ بھی مشرف دور حکومت میں حد سے بڑھ کر پاکستان کی تابعداری تھی۔

ٹرمپ کا حالیہ بیان جس میں پاکستان کو مورد الزام اور بھارت کو پلکوں پہ بٹھایا گیا ہے، اسی ایشیاء 2025ء منصوبے کا تسلسل ہے۔ پاکستان کی سلامتی کو شدید خطرات کا سامنا ہے۔ امریکی فیکٹر ہمارے اداروں میں سرایت کرچکا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمیں امریکی تھانیداری پہ نہ اعتراض تھا اور نہ ہے، ہمارے لئے حقیقی تکلیف کا باعث امریکہ کی یہ خواہش ہے کہ ہم بھارت کو بعین امریکہ کی طرح مقدم رکھ کر امریکہ سے تعلقات والی پالیسی بھارت کے ساتھ مرتب کریں، یعنی بھارتی تھانیداری کو من و عن قبول کریں۔ جس کیلئے پاکستانی سیاستکار تو ہمہ وقت تیار ہیں، بس چند عوامی نمائندے اور خوددار باوردی، وطن پرست افسران ایسے ہیں، جو اس امریکی مطالبے پر اور بھارتی بالادستی و تھانیداری کو قبول کرنے پہ ہرگز ہرگز تیار نہیں۔ اس کے علاوہ شمالی کوریا پہ دھمکی دباؤ کارگر ثابت نہ ہوا اور وہاں سے سخت جواب موصول ہوا تو کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق امریکہ نے اپنے دبدبے کے اظہار کیلئے پاکستان کا رخ کیا ہے، افسوس اس بات کا ہے کہ امریکی جارحانہ، دھمکی آمیز رویے کا مناسب اور بروقت جواب نہیں دیا گیا۔

اسلام ٹائمز: آپکے خیال میں کیا مناسب جواب ہوسکتا ہے۔؟
ڈاکٹر ابوبکر عثمانی:
پاکستان روس و چین کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کی جانب گامزن ہے۔ دوسری جانب اقتصادی تعاون کونسل تنظیم کا اہم رکن ہے۔ وزیر خارجہ نے امریکہ کا دورہ موخر کرکے روس و چین کے دورے کا بہت احسن فیصلہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکی نائب وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان منسوخ کراکے واضح پیغام دیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وزیر خارجہ اور وزارت خارجہ موثر سفارتکاری اور کوششوں کے ذریعے نہ صرف چین و روس کے ساتھ تعلقات کو مزید فروغ دیں بلکہ روسی صدر کا جو دورہ کافی عرصے سے موخر ہے، کوشش کرنی چاہیئے کہ وہ دورہ جلد ہو۔ اس طرح وزارت خارجہ کو یو این سمیت سلامتی کونسل کے تمام ممبران کو خط لکھنے چاہیئے کہ امریکہ نے پاکستان کو اندرونی مداخلت اور حملوں کی دھمکی دی ہے، جو کہ یو این چارٹر کے تحت جرم ہے، لہذا امریکہ معافی بھی مانگے اور ہرجانہ بھی ادا کرے۔ پاکستان میں امریکہ نے سفارتخانے کے نام پر اپنا ایک بہت بڑا اڈاہ و نیٹ ورک قائم کیا ہے، جس کے ذریعے اداروں میں امریکی عنصر گہرائی تک نفوذ کرچکا ہے۔ پاکستان امریکی صدر کے بیان کیخلاف سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پر اعلان کرنا چاہیئے کہ امریکہ کو پاکستان میں اتنا ہی عملہ رکھنے کی اجازت ہے کہ جتنا عملہ امریکہ میں پاکستان کے سفارتخانے میں موجود ہے۔ یہی شرط قونصل خانوں کے عملے بھی لاگو کرے۔ اسی طرح لاجسٹک سپورٹ، کولیشن فنڈ، دہشتگردی کیخلاف جنگ کے نام پر نقصانات کے ازالے وغیرہ کیلئے جاری فنڈ یعنی پینٹا گان اور جی ایچ کیو کے مابین ایم او یوز یا معاہدوں کی توثیق پارلیمنٹ سے کرانے کا اعلان، نیٹو سپلائی لائن جاری رکھنے یا معطل کرنے کا فیصلہ بھی پارلیمنٹ سے کرانا چاہیئے۔ اعلٰی وفود کو ای سی او میں شامل ممالک کے دورے کرکے مشترکہ مفادات کو فروغ اور خطے کیلئے امریکی عزائم کو واضح کرنا چاہئے۔ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں امریکی رویے کیخلاف قراردادیں پیش ہونی چاہیئے۔ امریکہ کے سامنے اس موقع پر نرمی پاکستان کو درپیش مسائل میں مزید اضافے اور سنگینی کا باعث بنے گی، لہذا ضرورت اس بات کی ہے امریکہ سے برابری کی سطح پر بات کی جائے۔

اسلام ٹائمز: حالیہ امریکی الزامات کے فوری بعد پاکستانی وزیراعظم فوری طور پر سعودی عرب گئے اور سعودی عرب اسوقت کثیر الملکی اسلامی فوج کی سربراہی بھی رکھتا ہے، کیا پاکستان سعودی عرب تعلقات امریکی ارادوں میں دیوار نہیں بنیں گے۔؟
ڈاکٹر ابوبکر عثمانی:
وزیراعظم پاکستان کا دورہ سعودی عرب وقت، حالات اور شخصیات کے چناؤ کے اعتبار سے انتہائی کمزور تھا۔ ان حالات میں شاہد خاقان عباسی کا سعودی عرب جانا بہتر فیصلہ نہیں تھا۔ اول یہ کہ جس کثیر الملکی عسکری اتحاد اور اس کی سربراہی سعودی عرب کے پاس ہونے کی بات آپ کر رہے ہیں، اس کثیر الملکی اسلامی اتحاد کی پہلی نشست کی صدارت اسی ڈونلڈ ٹرمپ نے کی کہ جس نے پاکستان کے خلاف اعلانیہ محاذ کھولا۔ کثیر الملکی اتحاد کے ابتدائی اغراض و مقاصد میں اس کا پہلا ہدف دہشت گردی کو قرار دیا گیا تھا اور اسی پہلی سمٹ میں بھارت کو دہشتگردی کا شکار ملک قرار دیکر اس کی تعریف و توصیف کی گئی تھی۔ اب کثیر الملکی اتحاد کی پہلی نشست کی صدارت کرتے ہوئے ٹرمپ نے پاکستان پر دہشتگردی کا الزام لگایا ہے۔ اس تناظر میں سعودی عرب امریکہ کے حامی اور پاکستان کے مخالف کیمپ کا تو حصہ بن سکتا ہے، امریکہ کے مقابلے میں پاکستان کا ساتھ نہیں دے سکتا، اس کے علاوہ سعودی عرب ظاہراً و باطن دونوں حوالوں سے امریکہ اسرائیل کیمپ کا حصہ ہے، پاکستانی وزیراعظم کے فوری دورہ سعودی عرب سے یہ بھی تاثر ملا کہ پاکستان ناراض امریکہ بہادر کو رام کرنے کیلئے سعودی عرب سے درخواست گزار ہے۔ یہ المیہ تو اپنی جگہ ہے کہ پاکستان نے سعود ی چینل کے ذریعے امریکی ناراضگی دور کرنے کی اپنی سی کوشش کی، اس سے بڑھ کر المیہ تو یہ ہے کہ سعودی عرب نے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کے مصداق پاکستان کو اپنے تعاون کی یقین دہانی تو درکنار درخواست وصول کرنے سے بھی انکار کر دیا۔

وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کو اولاً تو ائیرپورٹ سے ہی واجبی سا پروٹوکول نصیب ہوا، پھر بعدازاں سعودی شاہ سلمان نے ملاقات کے لئے وقت ہی نہیں دیا اور شاہد خاقان عباسی کو ولی عہد سے ملاقات پہ ہی اکتفا کرنا پڑا۔ ایک جانب تو سعودی عرب جانے کیلئے وقت کا انتخاب ہی غلط تھا، جس سے امریکہ سمیت پوری عالمی برادری کو بڑا کمزور پیغام گیا، دوسری جانب وزارت عظمٰی کے منصب پہ ایک ایسی شخصیت موجود تھی جو کہ قطری گیس کی سب سے بڑی کلائنٹ بھی ہے۔ شاہد خاقان عباسی نہ صرف قطر سے ایل این جی کے بڑے خریدار ہیں بلکہ سعودی عرب جانے سے محض ایک دن قبل انہوں نے قطر سے پاکستان کیلئے حاصل کی جانے والی گیس کی مقدار بھی دگنی کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اب سعودی عرب اور قطر کے مابین تعلقات و تنازعہ کسی سے پوشیدہ تو ہے نہیں۔ اب سعودی عرب جو ایک جانب امریکی حلیف، دوسری جانب قطر کا حریف کیونکر پاکستان کا گرمجوشی سے خیر مقدم کرسکتا تھا۔

اسلام ٹائمز: ایران نے امریکہ کیخلاف اور پاکستان کی تائید و حمایت کی، حالانکہ اس مقصد کیلئے کسی نے ایران کا دورہ بھی نہیں کیا، کیا اب بھی ہمارے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کون حقیقی دوست ہے اور کون نہیں۔؟
ڈاکٹر ابوبکر عثمانی:
کہیں تعلقات بڑھانے میں ملک و قوم کا مفاد ہوتا ہے اور کہیں مقتدر عناصر ذاتی مفادات کی خاطر ملک و ملت کے مفاد کو قربان کرکے اسے قومی مفاد کا نام دیتے ہیں، جو کہ صریحاً دھوکہ ہوتا ہے۔ پاک ایران تعلقات کی بھی یہی کہانی ہے۔ پاکستان ایران ایک دوسرے کے فطری اتحادی ہیں اور ایک دوسرے کے دفاعی مورچے بننے کی بھرپور صلاحیت کے حامل ہیں۔ دونوں کی عسکری قوت اس قابل ہے کہ اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو خاک چاٹنے پہ مجبور کرسکتے ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ ایران اپنے دوستوں و دشمنوں کو مشخص کرنے میں یا قومی مفادات کی شناخت میں کسی اگر مگر یا شش و پنج کا شکار نہیں جبکہ ہم زبردستی کے ڈھول گلے میں لٹکا کر کہیں دوستی تو کہیں دشمنی کا نقارہ پیٹنے پہ مجبور ہیں اور ہر عشرے بعد ہمارے دوستوں و دشمنوں کی فہرست میں تبدیلی وقوع پذیر ہوتی ہے۔ جس امریکی تھپکی پہ ہم افغانستان میں داخل ہوئے اور روس سے لڑے، اسی امریکہ کیخلاف آج روس سے حمایت و تائید مانگنے چلے ہیں۔ پہلے غیر ریاستی عناصر امریکی خواہش پہ تخلیق کئے پھر انہیں مجاہدین کا رتبہ دیا اور پھر انتہاپسند اور آخر کار دہشتگرد قرار دے دیا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنی خارجہ پالیسی کبھی ترتیب دے ہی نہیں پائے، ہمیشہ ہی کسی نہ کسی کی ایماء پر ہم دنیا سے تعلقات بناتے اور توڑتے رہے، جس کی وجہ سے ہم آہستہ آہستہ مخلص دوستوں سے محروم ہوتے گئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خارجہ پالیسی کا معیار فقط وقتی مفادات کو ہی قرار نہ دیں بلکہ مستقل دوستوں کا تعین بھی لازم ہے۔
خبر کا کوڈ : 665267
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش