0
Thursday 31 Aug 2017 11:25
امریکہ پاکستان کو ڈرا کر دہشتگردی کیخلاف جنگ نہیں جیت سکتا

امریکہ خطے میں اسلحہ کی دوڑ تیز کروانا چاہتا ہے، میاں مقصود احمد

ڈان لیکس، والیم 10 اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کی باقر نجفی رپورٹ منظر عام پر لائی جائے
امریکہ خطے میں اسلحہ کی دوڑ تیز کروانا چاہتا ہے، میاں مقصود احمد
میاں مقصود احمد جماعت اسلامی پنجاب کے امیر ہیں۔ اچھرہ لاہور کے رہائشی ہیں جبکہ انکا آبائی تعلق چونیاں کے زمیندار گھرانے سے ہے۔ پنجاب یونیورسٹی لاء کالج سے قانون کی تعلیم حاصل کی، دوران تعلیم ہی اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوگئے اور مولانا مودودی کی قربت ملی۔ اسی قربت کی بدولت انہیں 1978ء اور 79 کے سیشن کیلئے اسلامی جمیعت طلبہ لاہور کا ناظم مقرر کر دیا گیا۔ بعدازاں پنجاب یونیورسٹی میں بھی جمیعت کے ناظم کے فرائض سرانجام دیئے۔ مولانا فتح محمد جب جماعت اسلامی پنجاب کے امیر تھے تو انہوں نے میاں مقصود احمد کو بطور سیکرٹری جنرل کابینہ میں منتخب کیا اور یہ حافظ محمد ادریس کے زمانے تک جنرل سیکرٹری ہی رہے۔ مجموعی طور پر میاں مقصود 1986ء سے 1999ء تک جماعت اسلامی پنجاب کے جنرل سیکرٹری رہے۔ بعدازاں جماعت اسلامی لاہور کے امیر بنا دیئے گئے۔ مختلف عہدوں پر کام کرنیکے بعد امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے انہیں 2015ء میں امیر جماعت اسلامی پنجاب منتخب کیا، تاحال اسی عہدے پر ہیں، شفیق انسان ہیں، ملکی و غیر ملکی حالات پر کڑی نظر رکھتے ہیں، "اسلام ٹائمز" نے ان کیساتھ لاہور میں ایک نشست کی، جسکا احوال قارئیں کیلئے پیش کر رہے ہیں۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: امریکی صدر کی حالیہ دھمکی کو کس تناظر میں دیکھتے ہیں؟ کیا اس سے پاک امریکہ تعلقات متاثر ہونگے یا ماضی کیطرح پاکستان ڈر کر اس بار بھی استعمال ہو جائیگا۔؟
میاں مقصود احمد:
ٹرمپ انتظامیہ سے خیر کی توقع پہلے روز سے نہیں تھی، اب اس کے بیان سے واضح ہوگیا ہے کہ امریکہ نے اپنی تمام نوازشات مودی کی گود میں ڈال دی ہیں۔ قوم کو ٹرمپ سے اس قسم کے ہی خدشات تھے، ٹرمپ نے اپنی اندرونی کیفیت کا اظہار کرکے پاکستانی قوم للکارا ہے، پاکستان نے ہر موقع پر امریکہ کا ساتھ دیا ہے، مگر امریکہ نے ہمیشہ ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپا۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ پاکستانی حکمران فوری کسی ردعمل کا اظہار کرتے، ان سے پہلے آرمی چیف نے امریکی سفیر سے ملاقات میں پاکستانی قوم کے جذبات کے ترجمانی کر دی اور اور امریکہ پر واضح کر دیا کہ افغان مسئلے کا حل پاکستان کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ حکومتی ترجمان سے پہلے تو چین جیسے دوست ملک نے امریکہ کو دوٹوک جواب دیتے ہوئے کہہ دیا کہ امریکہ پاکستان کو ڈرا کر دہشت گردی کیخلاف جنگ نہیں جیت سکتا، یہاں تک کہ حکومت سے پہلے اپوزیشن رہنماؤں سراج الحق، آصف علی زرداری اور عمران خان نے بھرپور انداز میں امریکہ کو کھرا کھرا جواب دے دیا۔ اصل میں امریکہ افغانستان میں اپنی ناکام پالیسی سے ڈسٹرب لگتا ہے، اسے افغانستان میں شدید مزاحمت کا سامنا ہے، وہ دراصل افغانستان سے باعزت نکلنے کا راستہ چاہتا ہے۔ طالبان نے افغانستان میں امریکہ کو شکست سے دوچار کر دیا ہے۔ وہ افغانستان میں امن کے قیام کیلئے حقیقی جمہوری حکومت قائم کرنے میں یکسر ناکام ہوچکا ہے۔ اس کی افواج آج تک افغانستان میں امن قائم نہیں کرسکیں، جس کیلئے اس نے اربوں ڈالر پانی کی طرح بہا دیئے ہیں۔

وہ اپنی شسکت کا سارا بوجھ پاکستان پر ڈالنا چاہتا ہے۔ ہمیں سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کو ڈالر کیلئے پرائی جنگ میں نہیں کودنا چاہیے تھا۔ بھارت کی طرح امریکہ بھی اپنی ناکامیوں کا بوجھ پاکستان پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہوسکتا۔ اسے اپنی ناقص حکمت عملی اور افغان پالیسی کا اعتراف کرنا ہوگا، ہمیں خدشہ ہے کہ ماضی کی طرح کہیں پھر پاکستانی حکومت امریکی دھمکیوں میں کے آگے سرنڈر نہ کر دے، اس لئے کہ کمزور اور کرپٹ حکمران دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کرسکتے۔ امریکہ نے اپنے حلفیوں بھارت، اسرائیل اور افغانستان کو خوش کرنے کیلئے پاکستان کیساتھ دھمکی آمیز لہجہ اختیار کیا ہے۔ امریکی صدر کا بیان پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی کی وجہ سے آیا ہے، اس لئے وزیر خارجہ کا احتجاجاً اپنا دورہ امریکہ ملتوی کرنا خوش آئند ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ خطے میں اسلحہ کی دوڑ تیز کروانا چاہتا ہے، پوری قوم نے امریکی صدر کے بیان کی مذمت کی ہے۔ حکومت کو قومی اتحاد کے اظہار کیلئے اس مسئلے پر فوری طور پر آل پارٹیز کانفرنس بلانی چاہیے تھی، تاکہ امریکہ کو پوری قوم کی طرف سے جواب جاتا، مگر ہماری حکومت نے امریکی صدر کی دھمکی کے 18 گھنٹے بعد جواب دے کر اپنی کمزوری ظاہر کر دی۔ امریکہ پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ یہ افغانستان نہیں ایٹمی ملک پاکستان ہے، پوری قوم اس ملک کے دفاع کیلئے عسکری قوت کی پشت پر کھڑی ہے۔ اس لئے ہمیں کسی بھی طاقت کا دباؤ قبول نہیں کرنا چاہیے۔

اسلام ٹائمز: جماعت اسلامی نے کرپشن کیخلاف مہم چلائی، وزیراعظم بھی نااہل ہوگئے، آپکا مقصد بھی پورا ہوگیا، اب جماعت اسلامی کس کیخلاف مہم چلانے کی تیاریاں کر رہی ہے۔؟
میاں مقصود احمد:
جماعت اسلامی بلاتفریق سب کا احتساب چاہتی ہے، ملک احستاب کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا، اس لئے کرپشن کا خاتمہ بے حد ضروری ہے، اگر عدالتیں غریب کیلئے کچھ اور امیر کیلئے کچھ اور فیصلے کریں گی تو ملک میں بدامنی پیدا ہوگی، جن ممالک سے انصاف اُٹھ جاتا ہے، وہ ملک تباہ ہو جاتے ہیں، وہاں خانہ جنگی ہوسکتی ہے، ہم سیاسی جماعتوں میں مذاکرات کے حامی ہیں، مگر یہ مذاکرات کرپشن کو تحفظ دینے کیلئے نہیں ہونے چاہیں، آج ملک میں چوروں ڈاکوؤں نے تو اتحاد کر لیا ہے، اب ملک کے دیانتداروں اور ایمانداروں کے درمیان اتحاد پیدا کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ سب مل کر ان چوروں ڈاکوؤں کا مقابلہ کرسکیں۔ کرپشن نے ملک کی جڑیں کھوکھلی کرکے رکھ دی ہیں، عدالتوں نے کرپشن کے خاتمے کیلئے جو مثال قائم کر دی ہے، اس پر وہ مبارکباد کی مستحق ہے۔ اب یہ سلسلہ رکنا نہیں چاہیے، ملک میں بلا تفریق سب کا احتساب کیا جائے، عدالتوں کی نظر میں غریب امیر سب برابر ہوں، انہیں چاہیے کہ کہ جس طرح وزیراعظم اور ان کی فیملی کا احتساب کیا گیا ہے، اس طرح ججز اور جرنیلوں اور بیوروکریٹس کی کرپشن پر بھی احتساب کیا جائے۔ ڈان لیکس، والیم 10 اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کی باقر نجفی رپورٹ منظر عام پر لائی جائے، تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے۔ پتہ چل سکے کہ کس نے ظلم و زیادتی کی۔

اسی طرح ہم آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 نکالنے کی بھی مخالفت کریں گے، اگر حکمرانوں نے ملی بھگت سے 62 اور 63 کو ختم کرنے کی کوشش کی تو جماعت اسلامی اس کیخلاف بھرپور مزاحمت کرے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکمرانوں کیلئے صادق اور امین ہونے کی شرط ضروری ہے۔ آئین کا یہ آرٹیکل سب پر لاگو ہوتا ہے، جماعت اسلامی نے 12 ستمبر سے لاہور تا اسلام آباد مارچ کا اعلان کیا ہے، جسے احتساب مارچ کا نام دیا گیا ہے، اس کے ذریعے ہم عوام میں آگاہی پیدا کریں گے اور حکمرانوں کی کرپشن کے بارے میں بتائیں گے۔ اس طرح ہم فاٹا اصلاحات پر عملدرآمد کا بھی مطالبہ کرتے آرہے ہیں، کیا فاٹا کے عوام پاکستان کے شہری نہیں، پھر ان کی حق تلفی کیوں کی جا رہی ہے۔؟ ہم قبائلیوں کیلئے ایف سی آر برداشت نہیں کرسکتے۔ ایف سی آر انگریز کا نظام ہے، قبائلی اسے تسلیم نہیں کرتے، اگر حکومت نے فاٹا اصلاحات کا نفاذ نہ کیا تو ہم قبائلیوں کے حق میں 25 ستمبر کو پشاور سے اسلام آباد مارچ کریں گے۔ جس کا اعلان امیر جماعت اسلامی سراج الحق پہلے ہی کرچکے ہیں۔

اسلام ٹائمز: لاہور کے این اے 120 میں تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے امیدوار کھڑے کئے ہیں، کیا اس حلقے میں جماعت اسلامی سیٹ جیت پائیگی جبکہ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ نواز شریف حلقہ ہے۔؟
میاں مقصود احمد:
این اے 120 کے عوام ترقیاتی کاموں کے فقدان کے باعث تبدیلی چاہتے ہیں، اس لئے ان کی نظریں جماعت اسلامی کے امیدوار ضیاء الدین انصاری پر ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ضیا الدین انصاری اپنی صاف ستھری شخصیت اور حب الوطنی کے سبب جیت جائیں گے۔ 120 کے عوام کرپٹ قیادت کو مسترد کر دیں گے، جنہوں نے عرصہ دراز سے اس حلقے پر قبضہ جما رکھا ہے۔ ہم اس قبضے سے اس حلقے کو واگزار کرائیں گے۔ آپ دیکھ لیں کہ این اے 120 کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں، گلیوں بازاروں میں گٹر ابل رہے ہیں، سیوریج کا انتظام ہے نہ صاف ستھرا ماحول، تو پھر لوگ کیوں نواز شریف کی جماعت کو ووٹ دیں گے؟ شہریوں نے اس حلقے سے نواز شریف کا ووٹ بینک ختم ہونے کی نوید سنا دی ہے۔ اب یہاں کے لوگ آزادانہ فیصلہ کریں گے۔ ان حکمرانوں نے آبائی حلقے میں ایک دھیلے کا کام نہیں کیا۔ البتہ ساری دولت اپنے محلات پر لگا دی ہے یا بیرون ملک آف شور کمپنیوں میں لگا رکھی ہے۔ ان سب کی چوری پکڑی گئی ہے۔ اس لئے اس بار یہ لوگ 120 سے کامیابی حاصل نہیں کرسکیں گے۔ حکمران جماعت نے حلقے کے عوام کو ترقی سے محروم رکھا، اب عوام کے پاس اختیار آگیا ہے کہ وہ اب بدلہ لیں گے۔

اسلام ٹائمز: تحریک انصاف نے این اے 120 میں آپ کیساتھ سیٹ ایڈجسمنٹ کرنیکی کوشش کی، لیکن جماعت کی قیادت نے ملنے سے ہی انکار کر دیا، اسکی کیا وجہ تھی۔؟
میاں مقصود احمد:
پی ٹی آئی والوں نے ہم سے رابطہ کیا تھا اور کہا تھا کہ ان کا وفد سراج الحق سے ملاقات کرنا چاہتا ہے۔ ہم نے سراج الحق صاحب سے وقت لے لیا اور ہم چاہتے تھے کہ پی ٹی آئی کیساتھ سیٹ ایڈجسمنٹ ہو جائے، ان کا امیدوار ہمارے حق میں دستبردار ہو جائے یا ہمارا ان کے حق میں بیٹھ جائے تو یہ سب باتیں ملاقات میں طے ہونا تھیں، سراج الحق صاحب انتظار کرتے رہے اور تحریک انصاف کا وفد نہیں آیا۔ دو دن کے بعد اعجاز چودھری نے غالباً رابطہ کیا کہ ہم اپنے پارٹی معاملات میں کچھ مصروف ہوگئے تھے، نہ آنے کی معافی چاہتے ہیں، اب ہم آنا چاہتے ہیں تو وقت بتا دیں کہ کب حاضر ہوں، تو امیر جماعت سراج الحق صاحب نے ملنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے واضح کہہ دیا کہ تحریک انصاف نے ٹرین مس کر دی ہے۔ اس کے بعد ہم اپنے امیدوار کیساتھ میدان میں ہیں اور ان شاء اللہ فتح ہماری ہوگی۔

اسلام ٹائمز: آج کی نئی نسل کو دو قومی نظریہ اور قیام پاکستان کے حقیقی مقاصد سے آگاہ کرنیکی ضرورت ہے، آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔؟
میاں مقصود احمد:
تاریخ شاہد ہے کہ گذشتہ 14 سو سال سے اسلام ہی وہ قوت ہے، جس نے مسلمانوں کو متحد رکھا، اس میں دولت و اسباب حرب کی بجائے ایمان کی قوت اور جذبہ جہاد اور شوق شہادت ہی کار فرما رہے ہیں۔ مسلمانوں کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کو اسلام کے سوا کسی اور مقصد نے کبھی کسی جدوجہد کیلئے نہیں ابھارا، اس امت نے مظالم برداشت کئے، مشقتیں اٹھائیں، مصائب جھیلے لیکن اسلام کے علاوہ کسی اور مقصد کی خاطر دل و جان سے قربانی کیلئے کبھی تیار نہیں ہوئی، اسلام سے محبت اور عقیدت کا یہی نظریہ تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کا سبب بنا اور آج بھی قوم اسی نظریے سے سرشار ہے۔ آئین سازی کا مرحلہ ہو یا حکومت سازی کا، ہر آن قوم نے اسلام کو بنیادی اہمیت دی ہے، قرارداد مقاصد جو 12 مارچ 1949ء کو منظور ہوئی، جسے دستور پاکستان کی بنیاد قرار دیا گیا، اسی نظریاتی عوامی تحریک کا نتیجہ تھا، لیکن جب ارباب اختیار اس قرارداد سے فرار کی راہیں نکالنے لگے تو قوم کے تمام مکاتب فکر کے علماء نے 22 نکات کی صورت میں حکومت کو دستور سازی کیلئے اپنے مطالبات پیش کئے۔ اسی طرح 1973ء کی دستور سازی کے موقع پر قوم کے رہنماؤں نے اسے اسلامی دستور بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1977ء کی تحریک جو "تحریک نظام مصطفٰی" کے نام سے موسوم ہے، قومی سطح پر اسلام سے عوام کی والہانہ محبت کا اظہار تھا۔ لیکن بدقسمتی سے جو لوگ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچے، ان کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ چند افراد کو چھوڑ کر ہر حکمران نے اسلامی اقدار کو پامال کیا۔ حکمرانوں کا اسلام سے کھلا انحراف اور عوام کی بے حسی کے نتائج آج ملک بھر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

ہم نے تحریک پاکستان کے دوران اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ اے اللہ تو ہمیں ہمارے مقصد میں کامیابی عطا فرما اور ہم تیری زمین پر تیرے نازل کردہ قوانین نافذ کریں گے۔ بلاشبہ یہ مسلمانوں کا قابل فخر قومی اور ملی جذبہ تھا اور یہی جذبہ ان کی روح کی آواز اور ایمان کی پکار اور ملی تمناؤں کا آئینیہ دار تھا، دو قومی نظریہ ایک ازلی اور ابدی حقیقت ہے۔ اس کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود بنی نوع انسان کی۔ قرآن حکیم اس امر کی شہادت دیتا ہے کہ اسلام کے دو قومی تصور کی بنیاد اسی روز رکھ دی گئی تھی، جس روز حضرت آدم علیہ السلام نے روئے زمین پر قدم رکھا تھا۔ اللہ نے سورہ بقرہ کی آیات نمبر 38 اور 39 میں فرمایا "اور ہم نے کہا تھا کہ تم یہاں سے اتر جاؤ، پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے، ان کیلئے کسی خوف و رنج کا موقع نہ ہوگا اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے، وہ ہماری آیات کو جھٹلائیں گے، وہ آگ میں جانیوالے لوگ ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔" ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی کی ہدایت کو قبول کرنیوالے اور ان کا انکار کرنیوالے یہی دو گروہ ہیں، دو قومیں ہیں، اس طرح ازل ہی سے دو قومی نظریہ کی بنیاد رکھ دی گئی تھی، اللہ تعالٰی نے انسان کے سامنے ایک فطری صداقت پیش کی اور ساری نوع بشر کو دعوت دی اور کہہ دیا کہ جو اس دعوت کو قبول کریں، وہ ایک قوم ہے اور جو اس کو رد کریں گے، وہ دوسری قوم ہے، گویا ایک قوم ایمان اور اسلام کی ہے اور دوسری کفر و گمراہی کی۔ عام فہم زبان میں دو قومی نظریہ دراصل حق و باطل کی بنیاد پر انسانوں کے دو گروہ ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا اسلام کے معاشی نظام پر عمل کئے بغیر اسلامی مملکت کا قیام کا ممکن ہے۔؟
میاں مقصود احمد:
اسلام کا معاشی نظام دور جدید کے دونوں معاشی نظاموں اشتراکیت اور سرمایہ داری انتہا پسندی کے درمیان اعتدال کی راہ دکھاتا ہے، یعنی معاشرے میں جس شخص کے پاس اپنی ضروریات سے زیادہ کچھ بچ رہے، وہ اسے غریبوں اور ناداروں کیلئے وقف کر دے۔ اسے انفاق فی سبیل اللہ کہتے ہیں، اس کی ایک صورت زکوۃ و عشر ہے، یہ اسلامی ریاست کا فرض ہے کہ وہ صدقات وصول کرکے ضرورت مندوں تک پہنچائے، اسی طرح سود کی ہر صورت میں ممانعت ہے، اسے حرام قرار دیا گیا ہے، بلکہ قرآن سود کھانے والوں کو کیخلاف اللہ اور اس کی رسول (ص) کی طرف سے کھلی جنگ کا اعلان کرتا ہے۔ اسی طرح اسلام نے یتیموں، بیواؤں، مسکینوں اور مسافروں اور غلاموں کیلئے معاشی تحفظات کا ایسا انتظام کیا ہے کہ جو کسی دوسرے نظام میں موجود نہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح نے سٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے بڑے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ اگر ہم نے مغرب کا معاشی نظام اختیار کیا تو عوام کیلئے امن اور خوشحالی حاصل کرنے کے نصب العین میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔ ہمیں تقدیر اپنے منفرد انداز میں بنانی پڑے گی۔ ہمیں دنیا کے سامنے ایک مثالی معاشی نظام پیش کرنا ہے، جو انسانی مساوات اور معاشرتی انصاف کے سچے اسلامی تصورات پر قائم ہو۔
خبر کا کوڈ : 665718
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش