0
Thursday 31 Aug 2017 19:18
پاکستان سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات بہتر کرانیکی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ کردار ہمیں ادا کرنا ہوگا

امریکہ پاکستان کو افغانستان نہ سمجھے، مداخلت کی تو ذلیل و خوار ہوکر نکلنا پڑیگا، علامہ سید ضیاء اللہ شاہ بخاری

پاکستان میں شدت پسندی اتنا مسئلہ نہیں ہے، یہاں سیاسی شدت پسندی بڑا مسئلہ ہے
امریکہ پاکستان کو افغانستان نہ سمجھے، مداخلت کی تو ذلیل و خوار ہوکر نکلنا پڑیگا، علامہ سید ضیاء اللہ شاہ بخاری
علامہ سید ضیاء اللہ شاہ بخاری متحدہ جمعیت اہل حدیث کے سربراہ اور امت واحدہ کے سیکرٹری جنرل ہیں، اسکے علاوہ وہ ملی یکجہتی کونسل کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل بھی ہیں، اتحاد امت کے حوالے بے پناہ خدمات ہیں، قرآن و سنت کا گہرا مطالعہ رکھتے ہیں، مذہبی و فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے حوالے سے صف اول کے علماء میں شمار ہوتے ہیں۔ بنیادی تعلق پنجاب کے شہر ساہیوال سے ہے، مدینہ یونیوسٹی سے فاضل ہیں۔ کئی کالجز اور اسکولز کا بھی سسٹم رکھتے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام اور خاندان نبوت کے ساتھ بے حد محبت و عقیدت رکھتے ہیں۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے سید ضیاء اللہ شاہ بخاری سے ملکی و عالمی حالات پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: امریکہ اسوقت پاکستان کی سالمیت کیلئے خطرہ بن گیا ہے اور براہ راست دھمکی دے رہا ہے، ایسے میں مذہبی و سیاسی جماعتوں کو کیا مؤقف اختیار کرنا چاہیئے۔؟
علامہ سید ضیاء اللہ شاہ بخاری:
بعض اوقات زندگی کے امور میں ایسے موڑ آجاتے ہیں، جو ہمیں باکل ناپسند ہوتے ہیں، لیکن اللہ نے ہماری خیر اور بھلائی اُسی میں رکھی ہوتی ہے، خدا شر سے خیر اور اندھیرے سے اُجالے پیدا کر دیتا ہے۔ اس وقت امریکی صدر نے جو ہمیں دھمکی دی ہے تو اللہ تعالٰی نے اس میں بھی ہماری خیر رکھی ہے اور سب سے پہلی خیر تو یہ ہے کہ اس سے ہماری پوری قوم میں یکجہتی پیدا ہوئی ہے۔ اسلامی جہموریہ پاکستان جو اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے، اس کیلئے پوری قوم کے اندر ایک تحریک پیدا ہوئی ہے اور ایک نیا جذبہ آیا ہے، اس وقت چیف آف آرمی اسٹاف اور چیئرمین سینیٹ نے جو بیان دیا ہے، وہ پوری قوم کی ترجمانی ہے، مجھے امید ہے کہ اس شر سے یہ خیر نکلی ہے۔ پاکستان اللہ اور اس کے رسولؐ کے ماننے والوں کا ملک ہے، یہ قوم اللہ اور رسولؐ پر ایمان رکھتی ہے، میں نے بہت دنیا دیکھی ہے لیکن اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے سب سے زیادہ بے پناہ محبت کرنے والی صرف پاکستانی قوم ہی دیکھی ہے۔ یہ وہ قوم ہے جو اپنے وطن کیلئے مر مٹنے کیلئے تیار ہے، امریکہ نے یہاں بھی مداخلت کی تو اسے ذلیل و خوار ہو کر نکلنا پڑے گا، امریکہ کو افغانستان سے کیا رزلٹ ملا ہے، امریکہ پاکستان کو افغانستان نہ سمجھے، ہماری فوج دنیا کی بہترین فوج ہے، ملکی سلامتی کے ایشو پر پاکستان کے تمام ادارے بشمول پارلیمنٹ کے فوج کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اللہ اپنے وعدے کبھی ضائع نہیں ہونے دیتا اور پاکستان اللہ کی منشا سے بنا ہوا ہے، ریاست مدینہ کے بعد پاکستان ایک ملک ہے، جو اللہ اور رسولؐ کے نام پر بنا اور قرآن پاک رمضان المبارک کی ستاسویں شب کو نازل ہوا اور پاکستان بھی اسی رات کو بنا اور ایسی چیزیں بننے میں خدا کی مرضی شامل حال ہوتی ہے اور پاکستان قیامت تک رہے گا اور اس سے پوری دینا استفادہ کرے گی۔ ان شاء اللہ

اسلام ٹائمز: اسوقت نیا اتحاد وجود میں آتا دکھائی دے رہا ہے، پہلے چین نے، پھر روس اور اب ایران نے پاکستان کے حق میں بیان دیا ہے۔ گو کہ ماضی میں ہمارے روس کیساتھ کچھ اچھے تعلقات نہیں رہے، لیکن نئی صورتحال میں کیا دیکھ رہے ہیں اور پاکستان کو کیا کرنا چاہیئے۔؟
علامہ سید ضیاء اللہ شاہ بخاری:
چین ہمارا درینہ دوست ہے، اس نے جس طرح پاکستان کی کھل کر حمایت کی اور دوٹوک امریکہ کو جواب دیا ہے، اس حوالے سے میں چین کی جتنی تعریف کروں کم ہے اور میرے پاس الفاظ بھی نہیں کی تعریف کر سکوں۔ اسی طرح اگر میں روس کی بات کروں تو وہ ہمارے پڑوس میں ہے۔ جہاں تک ماضی کے تعلق کی بات ہے تو تلخی زندگی میں ہوتی ہے اور ایسا تو گھر میں بھی ہوتا ہے اور ہماری پاک فوج کے ساتھ جو تعلقات بڑھا رہا ہے اور ہمارے قریب آرہا ہے، یہ خوش آئند بات ہے۔ روس نے پاکستان کے استحکام کی بات کی ہے اور ساتھ دینے کی بات کی ہے اور عملی طور پر ساتھ بھی رہا ہے، ہم اس کو قدر کی نگاہ سے دیکتھے ہیں اور وہ ایک قدم اٹھائے گا، تو ہم دو قدم آگے ہوں گے اور وہ ہمیں اچھا دوست پائے گا۔ اسی طرح ایران ہمارا برادر اسلامی ملک ہے اور اس کے ساتھ ہمارے اچھے اور پرانے تعلقات ہیں، اس کے ساتھ ہمارے دینی اور ثقافتی رشتے ہیں اور پڑوسی بھی ہے۔ ایران کے انڈیا کے ساتھ تجارتی تعلقات بھی ہیں، مگر کسی وقت ایران کو انڈیا اور پاکستان میں کسی ایک کا چناؤ کرنا پڑا، تو وہ پاکستان کا انتخاب کرے گا۔

اسلام ٹائمز: حکومت پاکستان نے 41 ممالک کے اسلامی اتحادی کا جس انداز میں ساتھ دیا اور شامل ہوا، انکی طرف سے مشکل کی اس گھڑی میں ہماری خیر خواہی میں کوئی بیان نہیں آیا۔ اسکی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔؟
علامہ سید ضیاء اللہ شاہ بخاری:
ہماری خارجہ پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا ہے اور اپنا مقدمہ بھی واضح طور پر کسی کو نہیں سمجھا پائے اور خاص کر ہماری خارجہ پالیسی بہت کمزور ہے، مشکل وقت میں باقی تمام ممالک ہمارے ساتھ ہیں اور سعودی عرب نے ہمارا بہت ساتھ دیا 65ء اور 71ء کی جنگ میں اور ایٹم بم کے حوالے سے ساتھ دیا، اگر اب پاکستان کا گرم جوشی سے ساتھ نہیں دیا تو یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی کمزوری ہے۔ پاکستان سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات بہتر کرانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ کردار ہمیں ادا کرنا ہوگا، نہیں معلوم ہمارے لیڈروں کی کیا مجبوریاں ہیں کہ وہ یہ کردار نہیں کر پا رہے۔ اگر یہ ہو جائے تو امت مسلمہ کیلئے فائدہ مند ہے۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ ایرانی قونصیلٹ گئے اور کوشش جاری ہے کہ یہ کام ہو جائے۔ امت مسلمہ کا اتحاد ہم سب کیلئے سودمند ہوگا۔

اسلام ٹائمز: کیا اپوزیشن نے امریکہ کو درست جواب دیا ہے۔؟
علامہ سید ضیاء اللہ شاہ بخاری:
میں سمجھتا ہوں ہماری فوج، سینیٹ اور عمران خان نے بہت اچھا جواب دیا ہے اور تمام دینی جماعتوں، سیاسی اور اپوزیشن یہ سب ایک جگہ کھڑے نظر آرہے ہیں، لیکن خارجہ پالیسی کو ٹھیک کیا جائے، اس کے ساتھ اپنی کمزریوں کو دور کیا جائے اور پاکستان کے عوام کی ترجمان جیسے کرنی چاہیے، ویسے نہیں ہو رہی۔

اسلام ٹائمز: کتنے سالوں سے معطل پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ابھی تک مشکلات کا شکار ہے، اس وجہ سے ہماری انڈسٹری تباہ ہو رہی ہے، اس میں گرم جوشی نظر کیوں نہیں آتی۔؟
علامہ سید ضیاء اللہ شاہ بخاری:
میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں اور تمام اسلامی ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات مثالی ہونے چاہیئے، جو اللہ اور اس کا رسولؐ ہمیں بتاتے ہیں، ہمیں اس پر پورا اترنا چاہیے اور ایک دوسرے کا سہارا بننا چاہے۔

اسلام ٹائمز: آپ امت واحدہ کا بھی حصہ ہیں اور امت کی وحدت کیلئے بھی کام کیا ہے، آپکی نظر میں معاشرے میں شدت پسندی کی وجوہات کیا ہیں اور اسکو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے۔؟
علامہ سید ضیاء اللہ شاہ بخاری:
پاکستان میں شدت پسندی اتنا مسئلہ نہیں ہے، یہاں سیاسی شدت پسندی کا بڑا مسئلہ ہے، جب مشرقی پاکستان الگ ہوا، کیا یہ سیاسی مسئلہ نہیں تھا، کراچی کا اتنا مسئلہ تھا، جو ہماری فوج نے اتنا خون دے کر حل کیا ہے، کیا یہ مذہبی شدت پسندی کا معاملہ تھا، نہیں یہ سیاسی مسئلہ تھا، تو یہ مذہبی نہیں ہے بلکہ سیاسی ایشوز ہیں، دینی جماعتوں میں اچھے اور سمجھدار افراد ہیں، جو پیار محبت کی بات کرتے ہیں اور اُن کی جو کوشش ہیں، وہ حب وطن کی کوشش ہیں اور امن پسندی پر مبنی ہیں اور اتحاد امت پر مبنی ہیں اور اسی طرح اہل حدیث میں بڑے علماء ہیں، ان کو دیکھ لیں، دیوبند میں مولانا فصل الرحمان ہیں، اس کے ساتھ مولانا سمیع الحق ہیں، بریلوی میں ابوالخیر صاحب ہیں اور اسی طرح جماعت اسلامی میں شخصیات ہیں، خود اہل تشیع میں علامہ سید ساجد نقوی صاحب، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری اور علامہ امیں شہیدی صاحب ہیں، ان سب کی کوششیں امت واحدہ کیلئے اور ان سب نے امت کی وحدت کیلئے بہت کام کیا اور کر رہے ہیں اور ان لوگوں نے فارمولے بنا کر دیئے قوم کو۔ یہ وہ لوگ ہیں، جن کی معاشرے میں آواز سنی جاتی ہے، یہ امن پسند لوگ ہیں اور حکومت ان کی کوششوں کو اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے استعمال کرے۔

اگر جاہل لوگوں کو سامنے لاکھڑا کریں، جن میں اخلاص نہیں ہے اور ایسے لوگ ہر فرقے میں موجود ہیں، جن کے پاس علم نہیں ہے، اسلام کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے، ان کے اندار جاذبیت نہیں ہے، جو قرآن کا ترجمہ نہیں جانتے، ایک حدیث ٹھیک سے نہیں پڑھ سکتے، یہ اُن کا کیا دھرا ہے، جو مذہبی لوگ ہیں، وہ تو ملی یکجہتی اور امت واحدہ اور اس طرح کی اور مذہبی جماعتیں ہیں، وہ تو اس کام میں لگے ہوئے ہیں، جن کا شدت پسندی سے کوئی واسطہ نہیں۔ جو پیسے کے پجاری ہیں، یہ اُن کا کام جو امت کی وحدانیت میں لگے ہوئے، اُن کا نہیں ہے یہ کام، پاکستان میں شیعہ، سنی، دیوبندی، اہلحدیث، بریلوی سب ہیں اور جن کا میں نام لے چکا ہوں، یہ اُن کے ذمے ہے، جو وحدانیت کیلئے کام کر رہے، ان کا شدت پسندوں سے کوئی تعلق نہیں ہے، ہاں جاہل لوگ کسی بھی مسلک میں ہوسکتے ہیں اور ہیں بھی، یہ کم عقل اور کم علم افراد ہوتے ہیں، لوگ جن کی باتوں میں آجاتے ہیں، ان کی تعدار کم ہے اور ان کا شر زیادہ ہوتا ہے، پتہ نہیں ایسے لوگ کس کیلئے کام کر رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 665795
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش