0
Saturday 9 Sep 2017 01:37
سیاستدان اگر خفیہ طاقت کا سہارا نہ لیتے تو جمہوری ادارے مضبوط ہوتے

دنیا بدل چکی، حقائق تبدیل ہوگئے، غیر ریاستی عناصر کی موجودگی میں کشمیر کی آزادی ممکن نہیں، رانا افضل

سفارتی محاذ پہ ایٹم بم نہیں، حقائق سامنے رکھنا پڑتے ہیں، یہ دنیا اب بدل چکی ہے
دنیا بدل چکی، حقائق تبدیل ہوگئے، غیر ریاستی عناصر کی موجودگی میں کشمیر کی آزادی ممکن نہیں، رانا افضل
پاکستان مسلم لیگ نون فیصل آباد کے رہنماء رانا محمد افضل خان پارلیمانی سیکرٹری برائے فنانس، ریوینیو، اقتصادی امور اور نجکاری ہیں۔ پارٹی میں اہم مقام اور قومی، علاقائی اور بین الاقوامی امور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ فیصل آباد سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 82 سے 2013ء میں الیکشن جیتے، اس سے قبل پہلی بار 1997ء سے 1999ء اور دوسری بار 2008ء سے 2013ء تک پنجاب اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں۔ سپریم کورٹ سے لیگی وزیراعظم کی نااہلی، بدلتے سیاسی ماحول، امریکی صدر ٹرمپ کی پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے سامنے آنے والی نئی پالیسی اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کو متاثر کرنیوالے داخلی امور سے متعلق اسلام ٹائمز کیساتھ انکا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: جی ٹی روڈ کی ریلی کیساتھ ہی چوہدری شجاعت حسین نے مسلم لیگی دھڑوں کو یکجا کرنیکے کیلئے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے، اگر شریف خاندان آوٹ ہو جاتا ہے تو نون لیگ برقرار رہ پائے گی۔؟
رانا محمد افضل خان:
میرے خیال میں چوہدری شجاعت کی نظر اس بات پر ہے کہ نیب کے ریفرنس شروع ہوں گے، شریف فیملی کا کوئی ایک بندہ جیل چلا جائے گا، مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں افراتفری مچے گی اور اس افراتفری میں کچھ مال غنیمت ان کے ہاتھ بھی آجائے گا، مگر ان کی حالت یہ ہے کہ ان کے ہاتھوں میں جنبش ہے نہ آنکھوں میں دم ہے، اس کے باوجود وہ سیاست کے ساغر و مینا سے دور رہنا پسند نہیں کرتے، حالانکہ رفتار اور گفتار دونوں معاملوں میں وہ ارباب سیاست سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں، پنجاب میں سردار ذوالفقار کھوسہ اور ان کے متعدد ساتھی مسلم لیگ (ن) کے ناراض لیڈروں میں شامل ہیں، مگر اس جاگیردار گروپ سے رجوع کرنے کی چوہدری شجاعت ہمت نہیں کرتے، وہ بھی چوہدری صاحب کے انداز سیاست کو پسند نہیں کرتے، چوہدری صاحب اگرچہ اوپر سے اشاروں کے تابع رہتے ہیں، مگر روز روز کہاں پرویز مشرف نمودار ہوں گے، پرویز مشرف بھی کیا خوب ترقی پسند اور روشن خیال تھے کہ انہیں چوہدری شجاعت حسین اور ان کے مسلم لیگ (ن) کے باغیوں سے مدد حاصل کرنی پڑی، لگتا ہے ان کی روشن خیالی رقص و موسیقی تک محدود تھی، اس قسم کے روشن خیال تو ہر پارٹی میں بھی بکثرت پائے جاتے ہیں۔ لیکن ان کی اس طرح کی روشن خیالی بند کمرے اور ڈرائنگ روم سے باہر نہیں نکلتی، اس مسلم لیگ کے نظریات پر شک ہی کیا جاسکتا ہے جو ضیاء الحق اور پرویز مشرف دونوں کے ہم رکاب رہی، البتہ مسلم لیگ (ن) پرویز مشرف کے ہم رکاب نہ ہوسکی، جو ہوئی وہ مسلم لیگ (ق) کا لبادہ اوڑھ کر ہوئی، لیگی دھڑوں کو اکٹھا کرنے سے پہلے چوہدری صاحب اپنی صحت کی خبر لیں، اسے بہتر کریں، صحت بہتر ہوئی تو سیاست بھی فعال رہے گی۔

اسلام ٹائمز: آپکے خیال میں سیاستدان چاہیے جیسے بھی ہوں اور جسطرح ملک چلائیں، انہیں ہی حکومت کا حق ہے۔؟
رانا محمد افضل خان:
جمہوریت کسی بھی قسم کی آمریت سے بہتر ہے، اسوقت تک جب جو بھی جمہوری حکومت آتی ہے، وہ اپنے سہارے کے لئے جس خفیہ طاقت کے کندھوں کا سہارا نہ لیتی ہو، وہاں اپوزیشن بھی خفیہ اشاروں پر ناچ رہی ہوتی ہے اور عوامی جلسوں میں عوام کے سمندر کے سامنے کہا جاتا ہے کہ تھرڈ امپائر انگلی اٹھا دے گا اور جب تھرڈ امپائر کا پوچھا جاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس سے مراد تو عوام ہے، جمہوریت کی بنیادی تعریف تو یہ ہے کہ عوام اپنی مرضی سے مرضی کا حکمران چن سکے اور حکمران جو بھی فیصلہ کریں، وہ عوام کی عدالت میں رکھا جائے اور اپنے ملک کی آئینی مدت کے مطابق جمہوری حکومت اپنا دور مکمل کرے، اس کے بعد عوام فیصلہ کرے کہ جو فیصلے حکومت نے کئے ہیں، وہ اگر عالمی توقعات کے مطابق ہیں، تو عوام ووٹ کے ذریعے فیصلہ کر دے گی، لیکن پاکستان میں جب بھی جمہوریت آئی، اس کی مخالف جہاں خفیہ طاقتیں ہوئیں، وہاں ہی اپوزیشن کی جماعتیں بھی ان خفیہ طاقتوں کی آلہ کار بن گئیں اور ماضی کے نتائج سے بھی سیاسی جماعت نے سبق نہیں سیکھا، کیونکہ جو بھی سیاست خفیہ طاقتوں کی آلہ کار بن کر اقتدار میں آئی، ان کا حشر بھی کچھ مختلف نہیں ہوا۔ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ کا جائزہ لیں تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جمہوری ادارے وہ طاقت حاصل نہیں کرسکے، جو کسی ملک کی ترقی کے لئے لازم ہے اور پاکستان کی تاریخ میں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جب بھی پاکستان میں سیاسی بحران جنم لیتا ہے، اس وقت اپوزیشن جماعتیں تھرڈ امپائر کی طرف دیکھنا شروع کر دیتی ہیں اور یہ بھی حقیقت عیاں ہے کہ حکومت میں شامل اراکین اسمبلی بھی حکومت میں ہوتے ہوئے کسی آمر کا آلہ کار ہوتے ہیں، جب اپوزیشن چور دروازے سے کسی آمر کی گود میں بیٹھنے کا انتظار کر رہی ہوتی ہے، ان حالات میں پاکستان میں جمہوریت کبھی مضبوط نہیں ہوسکی، دوسری جانب عالمی طاقتیں بھی اپنے مفادات کی خاطر تیسری دنیا کے ممالک میں سیاسی عدم استحکام کا فائدہ اٹھاتی ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت مخالف قوتوں کی حوصلہ افزائی ہوتی رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: پانامہ کیس میں تو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیدیا ہے، کیا اعلٰی ترین آئینی اداروں کا احترام ملحوظ رکھے بغیر جمہوریت پنپ سکتی ہے۔؟
رانا محمد افضل خان:
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سپریم کورٹ نے اقامہ کو بنیاد بنا کر پاکستان کے منتخب وزیرِاعظم میاں محمد نواز شریف کو وزارتِ عظمٰی کے منصب سے نااہل قرار دیا، جو ماہرینِ قانون، اہلِ دانش اور جمہوریت سے محبت رکھنے والوں کیلئے وجہِ اضطراب بنا ہوا ہے۔ کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں، بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے، جب وزیرِاعظم راجیو گاندھی کے خلاف بو فورز اسکینڈل کا زور و شور تھا، تو اس وقت گیانی ذیل سنگھ جو کہ صدرِ جمہوریہ بھارت تھے اور کانگریس کی حمایت سے صدر منتخب ہوئے تھے، ان پر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے سخت دبائو تھا کہ وہ کرپشن کے الزامات کو بنیاد بنا کر راجیو گاندھی کی حکومت کا خاتمہ کر دیں، لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ میں ہی وہ پہلا شخص کیوں بنوں، جس کے ہاتھوں منتخب وزیرِاعظم اور اسمبلی کی برخاستگی کا حکم صادر ہو؟، ان کے اس انکار کے بعد راجیو گاندھی نے اپنی آئینی مدت پوری کی اور صدرِ جمہوریہ بھارت نے اسمبلی کی برخاستگی اور وزیرِاعظم کی رخصتی جیسے حکم نامہ کو جاری کرنے کی روایت کا آغاز کرنے کی نوبت نہ آنے دی، جس سے بھارت میں جمہوریت مضبوط ہوئی۔ یہ الگ بات کہ کرپشن الزامات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے عوام نے عام انتخابات میں راجیو گاندھی اور کانگریس کو شکست سے ہمکنار کیا۔ میرا بھی یہی خیال ہے کہ عوامی عدالت چونکہ دنیا کی سب سے بڑی عدالت ہوتی ہے، لہذا جمہوری طریقہ یہی ہے کہ سیاستدانوں کا احتساب عوامی عدالت سے کروایا جائے، جبکہ پاکستان میں 2 بی اور کرپشن کے نام پر کئی حکومتیں تحلیل ہوئیں اور وزرائے اعظم کو سزا بھی ہوئی، جس کی حالیہ مثال میاں نواز شریف ہیں، اس سے نہ صرف سیاسی کارکن بلکہ ووٹر کی حوصلہ شکنی بھی ہوتی ہے۔

اسلام ٹائمز: ٹرمپ نے پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ کیا اور پھر چین بھی تحفظات کا اظہار کر رہا ہے، ایک دن میں پالیسی بدلنے سے پاکستان کو یہ تبدیلی برقرار رکھنا ممکن ہوگا۔؟
رانا محمد افضل خان:
مسئلہ امریکہ کی اپنی افغان پالیسی کا ہے، امریکی فوج کو افغانستان سے واپس جانا ہوگا، وہاں لوگ اپنے مسائل خود حل کرسکتے ہیں، ہم کسی ملک میں مداخلت نہیں چاہتے اور نہ اس بات کی اجازت دے سکتے ہیں کہ پاکستان کی جغرافیائی حدود میں مداخلت کی جائے، قوم دفاع پاکستان کے لئے متحد ہے اور پاکستان کی مسلح افواج طاقتور اور منظم ہیں۔ (ن) لیگ دہشت گردی کی جنگ میں اپنی فوج کے ساتھ کھڑی ہے، سکیورٹی ادارے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں اور قربانیاں دے رہے۔ (ن) لیگ شہداء کی عظمت کو سلام پیش کرتی ہے، پاکستان کے دشمن سن لیں، دفاع پاکستان کے لئے پوری قوم متحد ہے، جبکہ پاکستان کو ڈو مور کی ہدایت کرنے والے ہماری قربانیوں کا اعتراف کریں۔ پاکستان ایٹمی طاقت ہے، پاک فوج طاقتور فوج ہے، لہذا جغرافیائی حدود کی طرف میلی نظر دور رکھی جائے، جہاں تک جنوبی ایشیاء میں قیام امن کی بات ہے، کشمیریوں کو حق خود ارادیت نہ ملنے تک امن ایک خواب ہی رہے گا۔

اسلام ٹائمز: ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں، اسکے باوجود مظلوم کشمیریوں کی داد رسی کیلئے پوری دنیا میں ہماری کوئی بات سننے کیلئے تیار نہیں، برما میں ہمارا کوئی کردار نہیں، اسکی کیا وجہ ہے۔؟
رانا محمد افضل خان:
برما میں مسلمانوں پر جو قیامت توڑی جا رہی ہے اس کو بند ہونا چاہیے، برمی مسلمانوں کی آواز عالمی فورم پر پہچانے کے لئے حکومت اپنا کردار ادا کرے گی۔ کشمیر ہماری شہ رگ ہے، لیکن میرے خیال میں خارجہ پالیسی تب بدلے گی، جب ہمیں بھی اور دنیا کو بھی اس کا احساس ہوگا کہ یہ پالیسی بنانے والے عوامی نمائندے ہیں اور انہیں پورے ملک اور اس ملک کے عوام کی تائید حاصل ہے، میرے خیال میں خارجہ پالیسی سمیت جب تک ملک کے فیصلے غیرجمہوری انداز میں ہونگے، غیر نمائندہ قوتیں کرینگی، اسوقت تک یہ غیر موثر ہوگا، اب 80ء اور 90ء کی دہائی نہیں ہے، جب خطے میں عالمی طاقتوں کو اپنی پالیسی نافذ رکھنے یا مفادات کو آگے بڑھانے کیلئے مختلف ملکوں کی آمریتوں کو ساتھ ملا کر چلنا پڑتا تھا، جس کیلئے آمریتیں اپنے اقتدار کو عالمی طاقتوں کے ذریعے مضبوط بنا لیتی تھیں، اب تو سب کہہ رہے ہیں کہ ہمیں ٹرمپ سے پیسہ نہیں چاہیے، عزت اور مقام چاہیے، اس کا مطلب ہے کہ ہم نے کوئی ایسی پالیسی اپنائے رکھی ہے، جس کا نتیجہ رسوائی کی صورت میں نکلا ہے، وہ یہی پالیسی تھی، جس کے ذریعے پہلے ایک آمر نے امریکہ کا ساتھ دیا پھر دوسرے نے۔ کشمیری عوام بڑی قربانی دے رہے ہیں، وہ خود ایک آواز بن چکے ہیں، بھارت بوکھلا چکا ہے، لیکن جب تک غیر ریاستی عناصر کے بارے میں فیصلہ نہیں کر لیا جاتا، کشمیریوں کی جدوجہد تکمیل تک نہیں پہنچا سکتے، کشمیریوں کی جدوجہد کو اسپورٹ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ جدوجہد آزادی کو دہشت گردی کیساتھ نتھی نہ ہونے دیا جائے، لیکن افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سیاسی اور عوامی قوتوں کو زیر کرنے کیلئے خارجہ پالیسی کو شدت پسند عناصر کیساتھ جوڑ دیا گیا ہے، اس میں تبدیلی آنی چاہیے، سفارتی محاذ پہ ایٹم بم نہیں، حقائق سامنے رکھنا پڑتے ہیں، یہ دنیا اب بدل چکی ہے۔

اسلام ٹائمز: عمران خان کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے ملک کو دیوالیہ ہونیکے نزدیک پہنچا دیا ہے، پھر ترقی کے دعوؤں سے کیا مراد ہے۔؟
رانا محمد افضل خان:
مسلم لیگ نون کی حکومت نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا۔ حکومت نے دہشت گردی کو شکست دی اور اندھیرے دور کئے، مرکز میں عمران خان کی حکومت ہوتی تو ہمارا حال بھی پشاور میں ڈینگی والوں جیسا ہوتا۔ ملک چلانا اناڑیوں کا کام نہیں، پاکستان کی معیشت بحال ہو رہی ہے، اپوزیشن کے پاس منفی ایجنڈے کے سوا کچھ نہیں۔
شکریہ
خبر کا کوڈ : 667450
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش