0
Saturday 9 Sep 2017 20:59

اب پاکستان کو ایران کیساتھ اپنے تعلقات بہت بہتر بلکہ برادرانہ کرنے پڑینگے، عبداللہ گل

اب پاکستان کو ایران کیساتھ اپنے تعلقات بہت بہتر بلکہ برادرانہ کرنے پڑینگے، عبداللہ گل
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حمید گل مرحوم کے فرزند عبد اللہ گل نے ابتدائی تعلیم ایف جی سکول سے حاصل کی، نیو یارک یونیورسٹی سے بزنس میں ماسٹر کیا ہے، عبداللہ گل اسوقت الجزیرہ کیلئے آرٹیکل لکھتے ہیں، اسکے علاوہ امریکہ سمیت جنوبی افریقی ممالک کے صحافتی اداروں کیلئے بھی آرٹیکلز لکھتے ہیں۔ عبداللہ گل میثاق ریسرچ کے نام سے ایک سینٹر بھی چلا رہے ہیں، جسکا فوکس ہاٹ ریجن ہے۔ اس میں ایران، پاکستان، کشمیر، انڈیا اور افغانستان شامل ہیں۔ عبد اللہ گل کیمطابق وہ 2007ء سے تمام یوتھ تنظیموں کے منتخب صدر بھی ہیں، اسکے علاوہ وہ محسنانانِ پاکستان فاونڈیشن ادارہ بھی چلا رہے ہیں، جسکا مقصد غیر سیاسی لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا ہے۔ عبداللہ گل اسوقت تحریک جوانان کے صدر بھی ہیں۔ پاکستان سمیت بین الاقوامی حالات حاضرہ پر ایک خاص نقطہ نگاہ رکھتے ہیں، اسی لئے مختلف ٹی وی چینلز پر انکے بےلاگ تبصروں کو بیحد سراہا جاتا ہے۔ اسلام ٹائمز نے عبداللہ گل سے ملکی اور عالمی صورتحال پر خصوصی انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: افغانستان اور جنوبی ایشیاء کے حوالے سے امریکی نئی پالیسی کو کس تناظر میں دیکھتے ہیں۔؟
عبداللہ گل:
افغانستان اور جنوبی ایشیاء کے حوالے سے امریکہ کی کوئی نئی پالیسی تو نہیں ہے، یہ تو وہی پالیسی ہے جو بش اتنظامیہ نے ترتیب دی تھی، ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ پالیسی بش اور باراک حسین اوباما کی پالیسی کا ہی تسلسل ہے، باوجود یہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا ایمان کچھ اور تھا، انہوں نے الیکشن کمپین اور 13 اگست کو کہا تھا کہ ہمارے جرنیل یہ جنگ ہار چکے ہیں، ہمیں افغانستان سے نکلنا چاہیے۔ اب یہ وہی پرانی پالیسی آنا کیا معنی رکھتا ہے، میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ پالیسی ایک ہارے ہوئے شخص کی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا نئی امریکی پالیسی اور ٹرمپ انتظامیہ کی دھمکیوں پر حکومت پاکستان کا موقف درست ہے۔؟
عبداللہ گل:
جی نئی امریکی پالیسیوں اور دھمکیوں پر حکومت پاکستان کا موقف تو درست ہے، یہ وہ وقت ہے کہ پرویز مشرف کی وہ غلط پالیسیاں جو اس نے امریکیوں کے آگے سرنڈر کر دیا تھا، ایک جعلی کمانڈو نے پورے پاکستان کا سر شرم سے جھکا دیا، اب اس پالیسی سے یوٹرن لینے کا وقت آن پہنچا ہے، اب یہ یوٹرن لینا ہوگا، یہ اہم بات ہے کہ رائٹ ہوں یا لفٹ ہوں، وہ سیکولر ہوں یا ریلیجس، اب پوری پاکستانی قوم یہ بات کرتی ہے کہ نو مور۔

اسلام ٹائمز: چین میں ہونیوالی بریکس کانفرنس اور اسکا اعلامیہ ظاہر کر رہا ہے کہ دوست ملک بھی ہم پر اعتبار نہیں کر رہے۔ کیا سبھی غلط ہیں یا پھر کچھ ہمیں بھی اپنا گھر ٹھیک کرنیکی ضرورت ہے۔؟
عبداللہ گل:
چین میں اس کانفرنس کا جو اعلامیہ ہے، اس میں اس بات پر کوئی زور دیکر تو نہیں کہا گیا، اعلامیہ کے ستر نکات ہیں، ان میں سے ایک نکتہ یہ ہے، جو آپ بیان کر رہے ہیں۔ اس لئے یہ کہہ دینا کہ ہم غلط ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ واقعی ہم غلط تھے، نائن الیون کے وقت ہم نے غلط لائن لی، اس پر ہمارے دوست بھی ناراض ہوئے تھے۔ یہ کہنا کہ بریکس سمٹ وہ بات ہے جو امریکہ کہہ رہا ہے، میرے خیال میں یہ وہ بات نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: برما میں ہونیوالے مظالم پر 41 رکنی اسلامی فوجی اتحاد اور او آئی سی کی خاموشی، جبکہ اسرائیل کو ذرا بھی تکلیف پہنچتی ہے تو امریکہ سمیت دیگر ممالک فوراً چیخ پڑتے ہیں اور اقوام متحدہ کا اجلاس بھی طلب کر لیا جاتا ہے، اس صورتحال پر کیا کہیں گے۔؟
عبداللہ گل:
میں تو ماضی میں بھی کہہ چکا کہ برما ہو، شام، لیبیا ہو یا کشمیر، یا کوئی اور ملک، اسلام کے ہی لوگ مارے جا رہے ہیں، مسلمانوں کو قتل کیا جا رہا ہے، پھر بھی پاکستان اور عرب دنیا کے چند ممالک بیٹھ کر تماشا دیکھتے رہیں گے۔؟ پھر وہی بیل والی کہانی ہوگی، جب بیل نے بھائی کو مروانے کیلئے شیر کی مدد تھی، آخر میں وہ بھی مارا گیا تھا، وہ بیل تو اسی دن مرگیا تھا جب اس نے بھائی کا تماشا دیکھا تھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس اتحاد کے بارے میں کہا گیا تھا کہ یہ دہشتگردی کے خلاف استعمال ہوگا، لیکن دہشتگردی ریاست کی سرپرستی میں ہو رہی ہے، اتنی دہشتگردی تو داعش نے بھی نہیں کی۔ یہ وہ وقت ہے کہ او آئی سی کوئی کردار ادا کرے، لیکن افسوس کہ او آئی سی تو کسی سرد خانے سے بھی نیچے کسی جگہ پر چلی گئی ہے، نہ اس نے شام کے معاملے پر کوئی کردار ادا کیا، نہ کشمیر پر، نہ افغانستان کے مسئلے پر اس تنظیم نے اپنا کوئی کردار ادا کیا ہے۔ مسلمان اور انسان مارے جا رہے ہیں، انسانیت کا قتل عام ہو رہا ہے، اب اقوام متحدہ بھی تقریباً ختم ہوچکی ہے، اب ابھرتی ہوئی طاقت شنگھائی کارپوریشن آرگنائزیشن ہے، جن کے پاس طاقت و وسائل بھی ہیں، جن کے پاس خواہش بھی ہے، اب ان پر اعتبار بڑھ رہا ہے۔ ماضی کے اندر بھی لیگ آف دی نیشن بھی ختم ہوئی تھی۔ دیکھیں اسرائیل تو ان کا باپ ہے، ان کو معلوم ہے کہ اسرائیل کے اوپر جب کوئی مسئلہ آئے تو سب اکٹھے ہو جائیں، اب اگر مسلمانوں کو نظر نہیں آ رہا کہ کیا کریں، پھر اللہ ہی حافظ ہے۔ داعش ہزاروں کلومیٹر دور پر تو حملہ کرتی ہے لیکن چند کلومیٹر پر اسرائیل ہے، اس پر حملہ نہیں کرتی۔ اس پر مجھے سے بہتر آپ جانتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کی خارجہ پالیسی میں کوئی خاص تبدیلی دیکھ رہے ہیں، خاص طور پر چین، روس اور خطے کے دوسرے ممالک کیساتھ ملکر افغانستان سے امریکی انخلا کے تناظر میں۔؟
عبداللہ گل:
جی بالکل پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلی آ رہی ہے۔ جو کل کے دوست تھے، وہ آج دشمن بنتے دکھائی دے رہے ہیں، جو دشمن تھے ان کے ساتھ دوستی ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ پاکستان اور روس کے درمیان جو گیپ تھا، وہ چین کی وجہ سے کم ہوا ہے اور روابط کو تقویت ملی۔ اب ہمیں ایران کے ساتھ اپنے تعلقات بہت بہتر بلکہ برادرانہ کرنے پڑیں گے، اگر ہم یہ نہیں کریں گے تو ہمارے لئے آسانیاں نہیں بلکہ ہماری مشکلات میں اضافہ ہوگا، ایران وہ ملک ہے جس نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا تھا، ہمیں ان کے ساتھ کسی معاملے پر اختلاف ہے بھی تو اسے بیٹھ کر حل کرنا چاہیئے۔ بطور سلطنت نہ اختلاف ہونے چاہیئے اور نہ تھے۔ میں دیکھ رکھ رہا ہوں کہ ہمارے ایران کے ساتھ جلد روابط شروع ہو جائیں گے۔ عالمی سطح پر سفارتکاری بہت کمزور ہے، شکر ہے کہ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے، اب ایک وزیر خارجہ آگئے ہیں، گو کہ ابھی تک ان کی صلاحیتوں کو خاص پذیرائی نہیں ملی، لیکن اب حکومت پاکستان، عوام پاکستان اور افواج پاکستان کی پالیسی ایک ہی پیج پر آرہی ہے، امریکہ کی طاقت ٹوٹ رہی ہے، افغانستان میں شکست فاش یہ عندیہ دے رہی ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہمارا دفتر خارجہ فعال کردار ادا کرے۔

اسلام ٹائمز: عالمی سطح پر سفارتی تنہائی پاکستان کو کس طرف لیکر جا رہی ہے اور ہمیں کیا اقدامات کرنیکی اشد ضرورت ہے۔؟
عبداللہ گل:
ہمیں ایکٹو سفارت کاری کی ضرورت ہے، جو دہشتگردی کی وجہ سے نقصان ہوا ہے، جو کشمیر میں ریاستی دہشتگردی ہوئی ہے، ہندوستان کے جو اقدامات ہیں، کلبھوشن کا پاکستان کے اندر نیٹ ورک ہے، اس نیٹ ورک کے سندھ اور بلوچستان میں جو سلیپر سیلز موجود ہیں، اس پر دنیا کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے، سوشل میڈیا سمیت ہر جگہ پر ان کے کرتوتوں کو نمایاں کرنے کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: نیشنل ایکشن پلان کے تحت کالعدم جماعتوں کیخلاف کارروائی کرنا تھی، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کئی کالعدم جماعتیں اب بھی اسی طرح سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور نام بھی بدل رہی ہیں۔ ایسی صورتحال میں پاکستان پر بداعتمادی میں اضافہ ہونا فطری امر نہیں کہلائے گا۔؟
عبداللہ گل:
نیشنل ایکشن پلان کے جو چار نکات تھے، اس پر صرف افواج پاکستان نے کام کیا ہے، باقی جو نکات تھے، اس پر حکومت پاکستان نے عمل کرنا تھا۔ حکومت نے ان نکات پر عمل نہیں کیا۔ کالعدم جماعتوں کے حوالے سے جو مشرف نے امریکہ کے ایما پر جو انہیں کالعدم قرار دیا، ان پر بھی فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا واقعی ان کو کالعدم کرنے کی ضرورت ہے۔؟ کیا انہوں نے پاکستان کے خلاف کارروائی کی تھی، ہاں میں کہتا ہوں کہ جو فرقہ واریت میں ملوث جماعت ہیں، ان کے خلاف موثر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ جو فارن فنڈڈ تنظیمیں ہیں، ان کے خلاف فی الفور کارروائی کرنی چاہیئے۔ اس سارے منظرنامے میں تبدیلی آرہی ہے، ہم امریکہ سے دور ہو رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 667602
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش