0
Wednesday 13 Sep 2017 00:17
پاکستان کی سیاست بک چکی ہے

بلوچوں کی عزت نفس کا احترام کئے بغیر بلوچستان کی شورش کا خاتمہ ممکن نہیں، میر ظفر اللہ خان جمالی

پاکستان کی ترجیحات میں پہلے سعودی عرب اور اسکے بعد ایران آتا ہے
بلوچوں کی عزت نفس کا احترام کئے بغیر بلوچستان کی شورش کا خاتمہ ممکن نہیں، میر ظفر اللہ خان جمالی
میر ظفراللہ خان جمالی پاکستان کے سابق وزیراعظم ہیں۔ وہ 1996ء اور 1998ء کو دو مرتبہ وزیراعلٰی بلوچستان بھی منتخب ہوئے۔ وہ یکم جنوری 1944ء کو بلوچستان کے علاقے ڈیرہ مراد جمالی میں پیدا ہوئے۔ 2002ء سے لیکر 2004ء تک مشرف دور میں وزارت عظمٰی کے عہدے پر فائز رہے اور بعدازاں مشرف کیساتھ بعض معاملات پر اختلافات کی بناء پر مستعفی ہوگئے۔ انہوں نے زمانہ طالبعلمی سے ہی سیاسی سرگرمیاں شروع کر دی تھیں۔ جب 1962ء میں انکے ماموں میر جعفر خان جمالی نے صوبائی اسمبلی کی نشست کیلئے انتخابات میں حصہ لیا تو پہلی مرتبہ انہوں نے پولنگ ایجنٹ کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔ بعدازاں محترمہ فاطمہ جناح کی ایوب خان کیخلاف انتخابی مہم شروع ہوئی تو وہ جمالی ہاؤس جعفرآباد میں انکے ذاتی اٹنڈنٹ تھے۔ اسی طرح سردار شیر باز مزاری کیساتھ انکے پولنگ ایجنٹ بھی رہے۔ فروری 1966ء میں انکے ماموں میر جعفر خان جمالی انہیں باقاعدہ سیاست میں لیکر آئے۔ لاہور سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنیکے بعد باقاعدہ اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کر دیا۔ میر ظفراللہ خان جمالی سے انکی گذشتہ زندگی اور ملک کی موجودہ سیاسی کشمکش سمیت دیگر معاملات کے حوالے سے ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ایک مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کیلئے پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پانامہ کیس میں میاں نواز شریف نے سیاسی غلطی کی۔؟
میر ظفر اللہ خان جمالی:
جب پہلی مرتبہ یہ کیس سامنے آیا تو میں نے نواز شریف صاحب سے کہا تھا کہ آپ استعفٰی دے دیں، کیونکہ آپ ایک منتخب وزیراعظم ہیں، اس لئے کل دوبارہ عوام آپکو منتخب کرکے وزیراعظم بنا دے گی۔ کم از کم اگر وقت پر آپ غیر جانبدار رہے اور استعفٰی دیدیا تو آپکے سیاسی کیرئیر کیلئے بہتر ہوگا، لیکن انکے اردگرد موجود ساتھیوں نے انہیں مشورہ دیا کہ ایسا نہ کریں۔ شاید انہیں اپنی ذاتی عیش و عشرت ہاتھ سے چلے جانے کا خوف تھا۔ اگر آپ وقت کی قدر نہیں کرینگے تو وقت بھی آپکی قدر نہیں کریگا اور احتساب کی بات ہوتی ہے تو اس ملک میں پھر پہلے وزیراعظم و صدر سے لیکر آج تک کے تمام سربراہوں کی چھان بین ہونی چاہیئے۔ ہمارے گذشتہ صدر آصف علی زرداری صاحب کا بھی احتساب ہونا چاہیئے۔ انکے پاس تو ماشاء اللہ بہت دولت بھی ہے، شاید کروڑوں اور اربوں ڈالر موجود ہوں۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان اور دیگر وارداتیں آج بھی جاری ہیں، کیا وجوہات ہیں کہ آج تک بلوچستان کی مخدوش صورتحال کو بہتر نہیں بنایا جاسکا۔؟
میر ظفر اللہ خان جمالی:
بلوچستان میں آج نہیں بلکہ کافی عرصے سے چھڑائی کی جاچکی ہے۔ افغانستان کبھی ہمارا دوست نہیں رہا۔ کوئی زمانہ تھا جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان چودہ دن کیلئے سرخ رنگ کے انٹری پاس بنائے جاتے تھے۔ جسکے ذریعے آپ افغانستان بھر میں گھوم کر آجاتے تھے اور اسوقت چونکہ میں بھی کئی مرتبہ گیا تھا، آج بھی مجھے یاد ہے کہ کابل اور دیگر شہروں میں جو سکھ آبادی موجود تھی، وہ پاکستان کو تسلیم کرتے تھے، جبکہ ہندو آبادی پاکستان کو تسلیم نہیں کرتی تھی۔ لیکن پاکستان میں نائن الیون کے بعد میں بطور وزیراعظم بھی کہتا رہا اور اس سے پہلے بھی میں نے کہا تھا کہ افغانستان میں ہندوستان کا دباؤ زیادہ ہو رہا ہے۔ ایک زمانے میں عبدالصمد اچکزئی صاحب کو بلوچستان کا سرحدی گاندھی کہا جاتا تھا۔ یہ مخالفت اسوقت بھی جاری تھی کہ بلوچستان پاکستان کا حصہ نہ بنے، لیکن یہ الحمدللہ بن گیا۔ پاکستان میں کہا جاتا ہے کہ دیگر ممالک کی خفیہ ایجنسیاں کار فرما ہیں، جبکہ دنیا کے ہر ملک کے انٹیلی جنس اہلکار اپنے کاموں کو سرانجام دیتے ہیں۔ لیکن یہاں پر چونکہ ہماری اپنی گرفت کمزور ہے، اسی لئے نااہلی کا سارا ملبہ ہم غیر ملکی قوتوں پر ڈال دیتے ہیں۔ 1965ء میں جب انڈیا نے حملہ کیا تو پاکستانی قوم نے بھارت کیساتھ جنگ لڑی۔ اسی وجہ سے یہ جنگ پاکستان جیت گیا۔ 1971ء میں پاکستانی عوام نہیں بلکہ پاکستان کے اسوقت کی حکومت لڑی، اسی وجہ سے وہ پائیدار نہ رہی۔ لہذا جب تک ساری قوم اپنے پیروں پر کھڑی ہوکر ایک راستے کا انتخاب نہیں کرتی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

پاکستان کے جتنے بھی ریاستی ادارے ہیں، وہ سب حکومت کے ماتحت ہوتے ہیں۔ اگر ہم ہمیشہ یہی کہیں گے کہ عسکری اور سول قیادت کے درمیان تعلقات صحیح نہیں تو اس سے ملکی معاملات نہیں چل سکتے۔ بلوچستان جب ایک ایجنسی تھی، اسوقت یہاں پر ایک گورنر جنرل بیٹھا کرتا تھا۔ خان قربان علی خان، میاں امین الدین سمیت دیگر افراد اس عہدے پر رہے۔ جب تک بلوچستان صوبہ نہیں بنا تھا، اسوقت تک گیارہ فیلڈ افسران کی موجودگی ہوتی تھی۔ باقی ذمہ داریاں ہر علاقے کے سردار کو دی جاتی تھی۔ اسکے بعد 1970ء سے لیکر آج تک ہمارے ساتھ منصفانہ معاملات اپنائے نہیں گئے۔ بلوچستان میں اسوقت کل 20 ایم پی ایز اور 4 ایم این ایز بنتے تھے۔ اس صوبے کو کوئی پوچھتا بھی نہیں تھا۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ آپکو بلوچستان کیلئے کیا چاہیئے۔؟ میں نے کہا ہمارے لئے سب سے اہم چیز ہماری عزت نفس ہے۔ جو آپ اپنے صوبے کیلئے سوچتے اور کرتے ہیں، وہی ہمارے صوبے کیلئے بھی سوچیں اور کریں۔ سنڈیمن نے کہا تھا کہ پنجابی کو ڈراو، سندھی کو دھمکی دو، پٹھان کو خریدو اور بلوچ کو عزت دو۔ اس وقت سے لیکر آج تک کافی عرصہ گزر چکا، لیکن ہمیں سوچنا ہوگا کہ آپ بلوچستان کی اصل حیثیت کو کیوں قبول نہیں کر رہے۔؟ 1957ء کو میں بلوچستان سے پنجاب کیجانب گیا، تو وہاں پر مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ پاسپورٹ کیساتھ آئے ہے۔؟ اسوقت مجھے احساس ہوا کہ ہم غلط سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہاں پر حقیقیت سے متعلق کچھ کہا جائے، تو غداری کا ٹپہ لگا دیا جاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: تو جمالی صاحب! بلوچستان اور بلوچوں کو اصل عزت کس نے نہیں دی۔؟ اور آج تک اسکی زبوں حالی کا ذمہ دار کون ہے۔؟
میر ظفر اللہ خان جمالی:
آپ نے ون یونٹ کو بنایا ہی اسی لئے تھا، تاکہ آپ مشرقی پاکستان کا مقابلہ کرسکیں۔ لہذا یہ سوال آپ ان سے پوچھیئے جنہوں نے اسے بنایا تھا۔ ہمیں کہا جاتا ہے کہ آپ صحیح ڈیلور نہیں کرسکے۔ میں تو یہ پوچھنا چاہتا ہو کہ آپ نے ہمیں موقع کب دیا دیلور کرنے کا۔؟ جو چیف جسٹس بلوچستان سے تھے، ان کیساتھ کیسا کیا سلوک کیا گیا۔؟ بطور وزیراعظم میرے ساتھ کیسا سلوک کیا گیا۔؟ اسکے بعد نواب اکبر بگٹی کو شہید کیا گیا۔ کیا باقی تمام صوبے پاک پرست تھے۔؟

اسلام ٹائمز: آپکے دور میں نواب اکبر بگٹی کو مارنے کی کیا وجوہات تھیں۔؟
میر ظفر اللہ خان جمالی:
شہید اکبر بگٹی سے مشرف کی چپقلش تو میرے اقتدار میں آنے سے پہلے تھی۔ اسوقت جب ان دونوں کا جھگڑا چل رہا تھا، تو میں نے پیشکش کی کہ بگٹی کو آپکے پاس لے آتا ہوں، لیکن انہوں نے میری بات نہیں مانی۔ بعدازاں انہوں نے آخری فیصلہ کر لیا کہ بگٹی کو مارنا ہے، تب میں نے کہا کہ آپ کوئی اور وزیراعظم ڈھونڈ لیں۔ اگر آپ لوگوں پر اعتماد کرینگے تو عوام بھی آپ پر اعتماد کرے گی۔ جہاں تک مجھے علم ہے تو مشرف نے بگٹی کیساتھ معاملات کو اپنی ذاتی انا کا مسئلہ بنا دیا تھا اور اسی وجہ سے انہیں مارا۔

اسلام ٹائمز: بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کو کسطرح پہاڑوں سے واپس لایا جاسکتا ہے۔؟
میر ظفراللہ خان جمالی:
خان آف قلات، قاضی عیسٰی، جعفر خان جمالی اور محمد خان جوگیزئی کے کہنے پر پاکستان میں شامل ہوگئے۔ اسوقت آغا عبدالکریم صاحب پہاڑوں پر تھے۔ اس زمانے میں بریگیڈیئر حق نواز قرآن شریف لیکر انکے پاس گئے، لیکن قرآن کیوجہ سے جب آغا عبدالکریم پہاڑ سے نیچے اترے تو بعدازاں انہیں جیل میں ڈال دیا اور عمر قید دیدی۔ ایوب خان کے زمانے میں ائیرفورس نے خضدار اور قلات میں بمباری کی۔ لہذا آپ نے تاریخ میں اس صوبے کو صرف دھوکہ دیا ہے۔ اسی وجہ سے آپ پر اب کوئی اعتماد نہیں کرتا۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں عام انتخابات عوام کی رائے کیمطابق ہوتے ہیں یا اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کیمطابق۔؟
میر ظفر اللہ خان جمالی:
بظاہر جو مجھے نظر آتا ہے تو یہی ہے کہ پاکستان کے انتخابات میں اصل کردار اسٹیبلشمنٹ کا ہوتا ہے۔ بعض افراد ہونگے جو عوامی رائے کے مطابق آگے لائے گئے ہو، لیکن مرکزی طور پر انہی کی مرضی چلتی ہے۔

اسلام ٹائمز: اس لحاظ سے کیا آپ بھی اسٹیبلشمنٹ کیجانب سے وزیراعظم منتخب ہوئے۔؟
میر ظفر اللہ خان جمالی:
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں جتنے وزرائے اعظم گزرے، سب کو اسٹیبلشمنٹ کی مرضی سے لایا گیا۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نیک نیتی سے لاتی ہے، لیکن جب کرسی مل جاتی ہے تو فوج کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا جاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپکا ماننا ہے کہ موجودہ پاکستان، قائداعظم کا پاکستان نہیں رہا۔ اسکی کیا وجوہات ہیں۔؟
میر ظفر اللہ خان جمالی:
قائداعظم کی موجودگی میں پاکستان مشرقی اور مغربی حصے پر مشتمل تھا۔ لیکن اسکے بعد صرف مغربی حصہ رہ گیا۔ اب یہ بھی کس حد تک باقی رہ پائیگا، اس سے متعلق تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ جب قائداعظم زندہ تھے تو انہوں نے پاکستان کا تصور اپنی تقریروں میں کئی مرتبہ کیا تھا، جسکا ریکارڈ آج بھی موجود ہے۔ لیکن افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ دور میں انکے احکامات پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔

اسلام ٹائمز: لیکن قائداعظم تو پاکستان میں سویلین سپریمیسی کی بات کرتے تھے، جبکہ بعض سیاستدان یہاں ہمیشہ فوج کی آمد کی امید لگائے رہتے ہیں۔؟
میر ظفر اللہ خان جمالی:
لارڈ ماونٹ بیٹن کا کہنا ہے کہ میں نے قائداعظم کو پاکستان سے دستبردار ہونے کیلئے بہت لالچ دیا، لیکن قائداعظم کسی صورت بکنے کیلئے تیار نہیں تھے، جبکہ آج کے دن پاکستان کی سیاست کو خریدا جا چکا ہے۔ اس ملک میں اگر کوئی ادارہ نہیں بکا تو وہ فوج ہے۔ لہذا آپ کسی بے ایمان شخص سے اچھائی کی امید کیسے لگا سکتے ہیں۔؟

اسلام ٹائمز: کہتے ہیں کہ آپکے دور میں کشمیر کا مسئلہ حل ہوچکا تھا، کیا آپ اس سے متفق ہیں۔؟
میر ظفر اللہ خان جمالی:
کشمیر تقریباً بک چکا تھا۔ اسوقت ریاض کھوکھر جو پاکستان کے سیکرٹری خارجہ تھے، ان سے آپ پوچھیں تو معلوم ہوگا کہ سودا کیوں طے نہیں پایا۔ قصوری صاحب تو کہتے ہیں کہ ہم کشمیر کا فیصلہ کرچکے تھے۔ ہمیں حقائق کو عوام کے سامنے لانا ہوگا۔ الحمداللہ میں نے کوئی چیز نہیں بیچی۔ اسوقت کشمیر کا حل صرف یہ ہے کہ اسے اقوام متحدہ کے ذریعے ایک آزاد ریاست بنایا جائے۔ اسکے علاوہ اس مسئلے کا کوئی حل موجود نہیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کے ایران اور دیگر ہمسایہ ممالک کیساتھ تعلقات کو کسطرح سے دیکھتے ہیں۔؟
میر ظفر اللہ خان جمالی:
شروع میں ہمارے تعلقات ایران کیساتھ اچھے رہے، لیکن پاکستان کی ترجیحات میں پہلے سعودی عرب اور اسکے بعد ایران آتا ہے۔ ہمارے آبائی مہربان سعودی عرب کو آپ کسی طرح نظرانداز نہیں کرسکتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگوں میں ایران نے پاکستان کا ساتھ دیا ہے، لیکن پھر بھی یہاں پر پہلے بات سعودی عرب کی سنی جاتی ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کی یہ پالیسی تھی کہ پاکستان کی فوج کو اپنوں کیساتھ لڑایا جائے۔ آج تقریباً چھے ہزار فوجی اہلکار شہید اور 16 ہزار کے قریب زخمی ہیں۔ اب ان شہداء کا حساب کون دیگا، یہ بھی ایک سوال ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا نائن الیون کے بعد پاکستان نے جو ملکی پالیسی بنائی تھی، آج تک ہماری ریاست اسی پالیسی پر کاربند ہے۔؟
میر ظفر اللہ خان جمالی:
اگر آپ پالیسی میں تبدیلی لاچکے ہیں تو عوام کو وہ کیوں دکھائی نہیں دیتی۔ چار سالوں تک پاکستان میں وزیر خارجہ موجود نہیں تھا۔ پچھلے ادوار میں جو چیزیں وزیراعظم کے پاس تھیں، وہ اختیارات آپ کھو چکے تو یہ تمام چیزیں قوم کیساتھ سراسر ناانصافی ہے۔ اگر آپکی ٹیم صلاحیت نہیں رکھتی، تو آپکو اپنی کابینہ میں ردوبدل کرنی چاہیئے تھی۔ آپ گذشتہ چار سالوں سے لوڈشیڈنگ کو ختم نہ کرسکے اور پارلیمنٹ میں پوری قوم کے سامنے جھوٹ بولتے رہے۔ صرف چند افراد کے ہاتھوں آپ نے پورے ملک کی باگ ڈور دے رکھی تھی تو اس طرح سے ملک کو نہیں چلایا جاسکتا۔

اسلام ٹائمز: آخر میں یہ سوال کرنا چاہونگا کہ اسوقت پاکستان کے تمام مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے، اس ملک کی ترجیحات کیا ہونی چاہیں۔؟
میر ظفراللہ خان جمالی:
اپنے ملک کی حفاظت ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیئے۔ حکومتیں اس حوالے سے کچھ نہیں کرسکتیں۔ عوام کی حمایت کے بغیر کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔ اس قوم کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہوگا اور لیڈرشپ کی تبدیلی ہونی چاہیئے، تب جاکر اس ملک کو خوشحالی دی جاسکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 668603
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش