2
0
Friday 15 Sep 2017 12:20
نہضت امام زمان علیہ السلام میں پاکستان کو بہت اہمیت حاصل ہے

امامؑ زمانہ کیلئے زمینہ سازی کرنیوالا سید علی خامنہ ای کی نصرت کرے، ورنہ وہ استعمار کا ایجنٹ ہے، سید سرفراز نقوی

تنظیم کے سابقین، موجودین کیلئے اقدار کا منبع ہیں
امامؑ زمانہ کیلئے زمینہ سازی کرنیوالا سید علی خامنہ ای کی نصرت کرے، ورنہ وہ استعمار کا ایجنٹ ہے، سید سرفراز نقوی
آئی ایس او پاکستان کے مرکزی صدر سید سرفراز حسین نقوی گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں اور فیصل آباد زرعی یونیورسٹی میں ایم فل مکمل کرچکے ہیں۔ 2009ء میں آئی ایس او میں شامل ہوئے، فیصل آباد یونیورسٹی، فیصل آباد ڈویژن کے صدر کی ذمہ داریاں سرانجام دی ہیں اور دو سال مرکزی نائب صدر کی ذمہ داری پہ فائز رہے ہیں۔ آئی ایس او پاکستان کے دوسرے مرکزی صدر ہیں جو متحدہ طلبہ محاذ کے صدر رہ چکے ہیں، وسیع المطالعہ اور حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ امامیہ نوجوانوں میں ہردلعزیز ہیں، یونیورسٹیز میں تنظیمی عمل اور فکری تربیت کو ترجیح قرار دیتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے تنظیم کے سالانہ کنونشن، مہدویت امید بشریت کے موقع پر ان سے انٹرویو کیا، جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: مہدویت امید بشریت، کنونشن کا عنوان جس حقیقت کا اعلان کر رہا ہے، کنونشن میں آنیوالے نوجوان اس پیغام کو کس طرح آگے بڑھائیں گے۔؟
سید سرفراز نقوی:
آئی ایس او پاکستان ایک الہیٰ طلبہ تنظیم اور نہضت امام زمان علیہ السلام کا حصہ ہے، ساری جد و جہد کا محور ہی امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کی زمینہ سازی ہے۔ امام زمانہ علیہ السلام کے منتظر کی بنیادی شرط اور خصوصیت ہے کہ وہ آپؑ کی معرفت حاصل کرے۔ یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ سعودی شہزادے نے جس طرح سے بیان دیا اور کس طرح امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کیلئے ہونیوالی زمینہ سازی کی مخالفت کی، ہم نے اہلسنت علماء کو بھی دعوت دی ہے، تاکہ اس کا تکرار ہوتا رہے کہ یہ موضوع کسی ایک مکتب فکر تک محدود نہیں، مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے۔ یہ موضوع ہر نوجوان کے دل کو چھوتا ہے، اثر کرتا ہے۔ یہ نوجوان پہلے ہی امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کی زمینہ سازی میں مصروف عمل ہیں، اس کنونشن سے اسی عمل کیلیے ان کے جوش جذبے میں اضافہ ہو گا۔

اسلام ٹائمز: بظور مرکزی صدر ایک سال آپ نے ذمہ داری انجام دی ہے، باقی زندگی کے مقابلے میں اس تجربے کو کیسا محسوس کیا ہے؟
سید سرفراز نقوی:
ذاتی طور پر اس نظم سے وابستہ ہونے کے بعد ہی میری زندگی میں بہت بڑی تبدیلی آئی، یہ ہر لمحہ محسوس ہوا کہ آئی ایس او میں آنے سے پہلے اور بعد کی زندگی میں واضح فرق ہے، یونٹ، ڈوئیژن یا مرکز میں
ذمہ داری کے متعلق احساس ہونا چاہیے، ذمہ داری کا احساس ضروری ہے، احساس نہیں تو آپ جس سطح پر بھی بیٹھے ہوں، کچھ بھی فرق نہیں پڑتا۔ جہاں تک مرکزی مسئولیت کی بات ہے، یہ اس لحاظ سے مختلف ہے کہ تنظیم کی پالیسی اور حکمت عملی مرکز کی سطح پہ انجام پاتی ہے، اس لیے یہ الگ نوعیت سے انجام دینا پڑتا ہے، اس دوران ہر لحاظ سے ہر پہلو کو مد نظر رکھنا پڑتا ہے، لیکن پھر بھی بہت سارے کاموں کیلئے تمنائیں اور آرزوئیں ہیں، جن پہ عمل نہیں کر سکے، سال گذر گیا، سال کے شروع میں ذکر ہوتا تھا کہ پتہ بھی نہیں چلے گا، سال گذر جائیگا، آج اس کا اختتام ہے، البتہ انشاء اللہ آنے والے دوست کو تجربات کا خلاصہ اور اپنی تجاویز ضرور منتقل کرینگے۔

اسلام ٹائمز: آئی ایس او کی مرکزی صدارت، یہ توفیق منتخب اور چیدہ افراد کے حصے میں آتی ہے، اس تجربے کی روشنی میں آئندہ ملک و قوم کی خدمت کیلئے کیا ارادہ رکھتے ہیں، کس شعبے کو ترجیح بنائیں گے، کس طرح سوچتے ہیں؟
سید سرفراز نقوی:
دیکھیں، ایک مسلمان اور مومن ہونے کے ناطے، ہم جہاں کہیں بھی ہوں، ولایت کے زیر سایہ ہیں، چاہے اس سسٹم میں رہیں، یا کسی اور نظم کاحصہ ہوں یا معاشرے میں کہیں بھی ہوں، کسی کو اپنی ذمہ داری سے چھوٹ نہیں ہے۔ اپنے طور پر اعلیٰ تعلیم مکمل کر کے ٹیچنگ کرنا چاہوں گا، یہ ایک بہت بڑا ذریعہ ہے، تبلیغ اور خدمت کا۔ آئی ایس او کے ساتھ رابطے میں رہنا تمام سابقین کی ذمہ داری ہے کہ رہنمائی اور تعاون کریں، میری خواہش ہے کہ جب تک پاکستان میں رہوں گا، آئی ایس او کے شعبہ تربیت سے منسلک رہنا چاہوں گا۔

اسلام ٹائمز: آئی ایس او کے سابقین ملک و قوم کیلئے اثاثہ ہیں، یہ ایک دیرینہ سوال ہے کہ سابقیں اس تنظیم کیلئے کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟
سید سرفراز نقوی:
سابقین بہت بڑا سرمایہ ہیں، نہ صرف ملک و قوم اور ملت کیلئے، بلکہ اسلام کی خدمت کیلئے ان کی ضرورت اور اہمیت مسلمہ ہے۔ دینی، اخلاقی، تعلیمی اور تنظیمی ہر میدان میں سابقین اب بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ موجودین کو سابقین سے بڑی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں، تنظیم کے کارکنان شفقت، محبت اور رہنمائی چاہتے ہیں۔ ایک اور بات کرنا چاہتا ہوں کہ آئی ایس او کی بنیاد، استحکام اور بقاء الہٰی اقدار پہ منحصر
اور پنہاں ہے، اگر یہ قدریں باقی رہینگی تو آئی ایس او باقی رہیگی، باقی رہیگی اور مستحکم رہیگی، آئی ایس او کیلئے تنظیم کے سابقین ان قدروں کے فروغ کا منبع (Source) ہیں، موجودین اپنے سینئرز اور سابقین سے ان قدروں کو سیکھتے ہیں، ان کے اخلاق اور الہٰی خصوصیات کو اپناتے ہیں، ان سے متاثر ہو کر اپنی کرادر سازی کرتے ہیں، یہ چیز تنظیم کی مضبوطی کا باعث بنتی ہے، یہ ایک کلی بات ہو گئی۔ اپنے سابقین سے استفادہ کرنے کیلئے مربی پروجیکٹ کے نام سے باقاعدہ ایک منصوبہ شروع کیا گیا ہے، شعبہ تربیت، تعلیم، اسکاوٹنگ اور فنانس سب کے لیے ہے، ہم چاہتے ہیں کہ تعلیم کے منصوبوں میں ترغیب تعلیم اور کیرئیر گائڈنس میں سابقین ہماری مدد کریں، تربیت کے شعبے میں بطور مربی، درس اور اسٹڈی سرکلز کیلئے یونٹس اور یونیورسٹیز میں سابقین مدد کریں، اسی طرح اسکاوٹنگ سے وابستہ رہنے والے دوست اسکاوٹ انسٹرکٹرز کے پروجیکٹ میں وقت دیں، نائٹ کیمپس، ڈویژن اور مرکزی کیمپوں میں ہماری مدد کریں، اسی طرح مالیات کیلئے خود بھی تعاون کریں اور دوسرے افراد سے بھی جمع آوری میں مدد دلوائیں، ساتھ ساتھ مزید بھی کام آگے بڑھیں گے، بیہت زیادہ گنجائش ہے کہ سابقین تنظیم سے تعاون کریں۔

اسلام ٹائمز: آئی ایس او سرزمین پاکستان پہ وجود میں آنے والی پہلی قومی تنظیم ہے، اجتماعیت آئی ایس او کی گھٹی میں ہے، قومی سطح پہ خدمات دوسری جماعتوں سے ملکر دی جاتی ہیں، اس دوران کسی رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا ہے، بالخصوص اپنا تشخص برقرار رکھنے میں؟ اگر ایسا ہو تو کیا طرزعمل اختیار کرتے ہیں؟
سید سرفراز نقوی:
تنظیم کا ایک اسکوپ طلبہ تنظیم ہونا ہے، لیکن یہ ہی کافی نہیں، آئی ایس او ایک الہیٰ تنظیم ہے، پہلے بھی عرض کیا کہ نہضت امام زمان علیہ السلام کا حصہ ہیں، اس عظیم مقصد اور تحریک کے تقاضے اس سے زیادہ ہیں، جہاں کہیں ظلم ہو وہاں آواز بلند کرنا ہمارا فریضہ ہے، تشیع اور امام حسین علیہ السلام کا شیعہ ہونے کی بنیاد ہی یہ ہے، یہ ممکن نہیں کہ ہم اس سے پہلو تہی اختیار کریں، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کہیں ظلم ہو رہا ہو اور ہم اپنا کردار ادا نہ کریں، آواز نہ اٹھائیں، چاہے یہ ظلم برما میں ہو، چاہے فلسطین میں، کشمیر میں، لبنان میں،
عوامیہ اور قطیف میں یا یمن میں یا ہمارے وطن پاکستان میں۔ آئی ایس او پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ پاکستان میں امریکہ کا اصلی چہرہ بے نقاب کیا، امریکہ مردہ باد کہا، اسوقت کئی لوگ اس تنظیم کے لوگوں کو کہتے تھے کہ یہ امریکہ کی مخالفت کرتے ہیں، یہ پاگل ہیں، تب سے لیکر آج تک، کئی سالوں سے موقف برقرار ہے، یوم مردہ باد امریکہ منعقد ہوتا ہے، یوم القدس منایا جاتا ہے، فلسطین کے قضیے کو پاکستان کو بڑے اور اچھے انداز میں اٹھایا گیا، آئی ایس او کی اجتماعی جد و جہد کا ماحصل ہیں یہ چیزیں، کئی مثالیں ہیں، ماضی میں، یہ اب بھی موجود ہے۔ دوسری تنظیموں یا جماعتوں کیساتھ تعلق اور ہم آہنگی کیلئے بنیادی اصول یہی ہے کہ جو بھی اس قوم اور ملک کیلئے اٹھے، بات کرینگے، بلاتفریق ساتھ دینگے، ساتھ چلنے میں ہمیں کسی قسم کی مشکل نہیں ہے۔ تشخص کیلئے ایک تو یہ ہے کہ صرف کسی ایک پروگرام اور ایونٹ میں اپنی پہچان برقرار رکھیں، ایک یہ ہے کسی کاز کی خاطر، مثال کے طور پر قدس کا مسئلہ بہت بڑا مسئلہ ہے، اس کیلئے اپنے پرچموں کو بھی ساتھ نہیں لاتے، جہاں ضرورت ہو، مقصد اس کاز کو آگے بڑھانا ہوتا ہے، کسی مقصد اور کاز کے تحت جو بھی تنظیم یا جماعت قدم اٹھاتی ہے تو ہم ان کے ساتھ ہیں، ہمیں کوئی مشکل نہیں کوئی مسئلہ نہیں۔

اسلام ٹائمز: آئی ایس او نے امام زمان علیہ السلام کے نام پہ کنونشن کا عنوان رکھا ہے، لیکن امام زمانہ علیہ السلام کے نام پہ لاہور میں موجود قومی مدرسے جامعۃ المنتظر میں یہ کنونشن کیوں نہیں منعقد کیا؟
سید سرفراز نقوی:
شروع سے ہی محسنِ ملت علامہ صفدر حسین نجفی مرحوم نے آئی ایس او کے نوجوانوں کو حکم دیا کہ ہمیشہ تنظیم کے جتنے بڑے پروگرام ہیں، وہ جامعۃ المنتظر میں منعقد کروائیں، یہ بھی فرمایا کہ ان بچوں کو جامعہ کے قریب رکھا جائے، آئی ایس او کیلئے بڑا ضروری ہے کہ ہم ان قومی مراکز سے وابستہ رہیں، مسجد، امام بارگاہ اور مدرسہ ہے، مدرسے میں جب کالجز یونیورسٹیز کے طلبہ آتے ہیں تو ان کا تعارف ہوتا ہے، دینی طلبہ سے، مدرسے سے، علماء سے، ملاقات رہتی ہے، اس سے نوجوانوں میں دینی رجحان پیدا ہوتا ہے، دہائیوں تک یہ سلسلہ جاری رہا ہے، گذشتہ تین سال سے جامعہ میں تعمیراتی کام
جاری تھا، کنونشن نہیں ہو سکا، لیکن اس سال تعمیراتی کام مکمل ہو چکا تھا، ہم نے جامعہ کے علمائے کرام سے کنونشن کے انعقاد کیلئے حسبِ سابق اجازت طلب کی، ہمیں جامعہ کے سربراہ کی جانب سے، علماء کی جانب سے اجازت نہیں ملی، میری نظر میں جو وجوہات مدنظر تھیں، وہ قابل حل ہیں، اب یہ معلوم نہیں کہ اجازت نہ دینے کی کیا وجوہات ہیں۔ لیکن مدارس کا رول اپنی جگہ، آئی ایس او سے ہزاروں نوجوان دین کی طرف مائل ہوتے ہیں، تنظیم میں آنے کے بعد متاثر ہو کر طلب علموں کی بڑی تعداد دینی تعلیم کیلئے راغب ہوئی ہے، آج وہ قوم و ملت کیلئے خدمات انجام دے رہے ہیں، کئی مدارس کے سربراہ ہیں، پرنسپل ہیں، آئی ایس او کا کرادر کسی مدرسے سے کم نہیں ہے، بلکہ یہ ایسا مدرسہ ہے جہاں روایتی انداز کی بجائے پڑھے لکھے افراد شعوری طور سفر طے کرتے ہیں، پھر دین کی خدمت انجام دیتے ہیں، یہ باصلاحیت افراد جب حوزہ سے فارغ ہو کر آتے ہیں، تو انہیں معاشرے اور نوجوان نسل کی ضروریات کا ادراک ہوتا ہے، مسائل کو سمجھتے ہوئے زیادہ موثر انداز میں تبلیغ کرتے ہیں، ہزاروں مثالیں ہیں کہ تنظیم میں آنے سے قبل جن نوجوانوں کی زندگی کسی اور قسم کی تھی، جو بعد میں الہیٰ رنگ میں ڈھل گئی، یہ رول مدرسے سے کم نہیں، اس کے باوجود مدرسے میں اجتماع سے ممانعت ہماری سمجھ سے بالاتر ہے، ہماری اب یہی خواہش ہے کہ ہمارا اجتماع مدرسے میں منعقد ہو۔

اسلام ٹائمز: یہ عصر امام خمینی ہے، ولایت کے زیر سایہ آئی ایس او رہبریت سے متعلق کیا جذبات رکھتی ہے؟
سید سرفراز نقوی:
خط امام خمینی، یعنی روایتی تصور اور فہم دین کی اصلاح شدہ شکل اور حقیقی اسلام کا چہرہ، جو امامِ راحل نے متعارف کروایا اور منوایا۔ دین اور سیاست کی جدائی کے تصور کو غلط ثابت کیا، اسکی روشنی میں انسانیت اور انسان کی نجات کیلئے امام زمان علیہ السلام کی حکومت اور اسکی زمینہ سازی ضروری ہے، یہ انسانی کمال کا تقاضا ہے کہ ایسا معاشرہ اور ماحول تشکیل دیا جائے، ، جس کے لیے کوشش دینی فریضہ ہے۔ آئی ایس او پاکستان کا بنیادی نظریہ بھی یہی ہے کہ نوجوان نسل کو تعلیمات قرآن اور سیرت اہلبیت علہیم السلام کے مطابق پروان چڑھانا، اسی لیے ہم فقط طالب علم نہیں، بلکہ مسلمان بھی
ہیں، شیعہ بھی ہیں اور پاکستانی بھی ہیں، یہ ساری حیثتیں، ہماری ذمہ داریاں بھی ہیں، کام کرنیکی ضرورت ہے، ممکن نہیں کہ ہم تعلیم تک محدود ہو جائیں اور اجتماعیت کو چھوڑ دیں، اسی طرح تعلیم کو نظر انداز نہیں کر سکتے، ہم معاشرے کو تمام شعبہ ہائے زندگی کیلئے مومن اور متعہد افراد تیار کر کے دیتے ہیں، جو ملک و ملت کی خلوص کیساتھ خدمت انجام دیتے ہیں، وہ افراد معاشرے کی اصلاح اور ترقی کیساتھ ساتھ دین مبین کی سربلندی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، یہی آئی ایس او کا ماضی اور حال میں مطمع نظر ہے۔ ہماری تاکید ہوتی ہے کہ شہید عارف حسین حسینی، شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے آثار کا مطالعہ ہر نوجوان کرے، تاکہ ہم دور نہ ہوں، شہید حسینی اور شہید ڈاکٹر سے۔

نظامِ ولایت انسانیت کی بنیادی ضرورت ہے، نہ صرف مسلمانوں کی، اسوقت دنیا میں بیداری ہے، تمام تحریکیں بلاشبہ امام خمینی سے متاثر ہیں، انقلاب کا اثر ہے، یہ رہبر معظم ایت اللہ سید علی خامنہ ٰی کی با بصیرت، شجاعانہ اور دلیرانہ رہبری کے نتیجے میں ہی دنیا میں مظلوموں کو فتح نصیب ہو رہی ہے، نائجیریا سے عراق اور یمن تک یہ تحریکیں جاری ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو نہضت امام زمان علیہ السلام میں نہایت اہمیت حاصل ہے، اس خطے میں ہم وہ لوگ ہیں جو ولایت کے زیر سایہ اس نہضت کیلئے کام کر رہے ہیں، رول ادا کر رہے ہیں، اس لیے ہم خداوند کریم کا ہزار بار شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمیں سید علی خامنہ ٰی جیسی شخصیت کی رہبری سے نوازا ہے، میرا یہ عقیدہ ہے کہ اگر اس دور میں بھی کوئی یہ کہے کہ کاش ہم ائمہ معصومین علہیم السلام کے دور میں ہوتے تو بہت کچھ کرتے، اب یہ عذر نہیں ہے، ہم سب کیلئے اللہ تعالیٰ نے ائمہ علہیم السلام کے بعد اور غیبت امام زمان علیہ السلام میں امام خمینی اور سید علی خامنہ یٰ کی صورت میں ہمارے اوپر حجت تمام کی ہے، بلاشبہ وہ نائب امام زمان علیہ السلام ہیں، وہ امام زمان علیہ السلام سے رہنمائی لیتے ہیں، انکی نصرت اس طرح ضروری ہے، جو انکی اطاعت میں نہیں وہ امام زمانہ علیہ السلام کی نصرت نہیں کر رہا، امام زمان علیہ السلام کے ظہور کی زمینہ سازی نہیں کر رہا بلکہ طاغوت اور استعمار کا ایجنٹ ہے۔ والسلام
شکریہ
خبر کا کوڈ : 669189
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سیدہ موسوی
United States
سلام۔۔۔ ہیڈنگ قابل اعتراض ہے،،،، اور یہ ہیڈنگ انٹرویو کے آخری پیراگراف سے غلط اخذ کی گئی ہے، یعنی آخری پیراگراف کی گفتگو صحیح ہے، مگر اس سے ہیڈنگ غلط نکالی گئی ہے۔۔۔ اگر آخری پیرا گراف کی گفتگو کو غور سے پڑھیں تو یہ ہیڈنگ بن سکتی ہے کہ
’’سید علی خامنہ ای کی نصرت نہ کرنے والا استعمار کا ایجنٹ ہے، سید سرفراز نقوی‘‘
آخری پیراگراف میں واضح کہا گیا ہے کہ
’’۔۔۔ جو انکی اطاعت میں نہیں وہ امام زمانہ علیہ السلام کی نصرت نہیں کر رہا، امام زمان علیہ السلام کے ظہور کی زمینہ سازی نہیں کر رہا ۔۔۔۔۔
جبکہ ہیڈنگ میں لکھا ہوا ہے کہ
’’امامؑ زمانہ کیلئے زمینہ سازی کرنیوالا سید علی خامنہ ای کی نصرت کرے۔۔۔‘‘
جب یہ بات آئی ایس او کے صدر نے کہی نہیں تو ہیڈنگ میں کیوں غلطی بنائی گئی،،،،
براہ کرم اگر آپ ہمارا یہ اعتراض درست سمجھتے ہیں تو اس ہیڈنگ کی اصلاح کی جائے، کیونکہ اس سے ناصرف مرکزی صدر بلکہ خود آئی ایس او کے حوالے سے لوگوں میں منفی تاثر پیدا ہوگا، جو کہ قطعاََ اسلام ٹائمز کی پالیسی نہیں لگتی۔
شکریہ
Iran, Islamic Republic of
مجھے یہ سرخی صیحح لگی، جو لگی ہوئی ہے، نہیں لگا کہ مفہوم بدل رہا ہے بلکہ زیادہ جالب ہے۔
ہماری پیشکش