QR CodeQR Code

مسلم ممالک کو ایک ایک کرکے دشمن کا نشانہ بننے کے بجائے اتحاد و اتفاق و یکجہتی کیساتھ دشمن کیخلاف قیام کرنا چاہیئے

آج پاکستان کیلئے اچھا موقع ہے کہ امریکی بلاک اور اسکے اثر سے باہر نکل آئے، محمد عظیم بلوچ

موجودہ ملکی و عالمی حساس صورتحال کے تناظر میں ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کی ترجیحات کا ازسرنو تعین کرنا چاہیئے

18 Sep 2017 23:41

جماعت اسلامی سندھ کے نائب امیر کا ”اسلام ٹائمز“ کیساتھ خصوصی انٹرویو میں کہنا تھا کہ پاکستان میں اگر کوئی کہے کہ محرم الحرام کے مہینے میں کوئی ٹینشن پیدا ہو جاتی ہے، تو ایسا ہرگز نہیں ہے، کیونکہ اس پاکستان کے ہر شہر، دیہات میں شیعہ بھی رہتے ہیں، سنی بھی، اس پاکستان کے تعلیمی اداروں میں شیعہ بھی پڑھتے ہیں، سنی بھی پڑھتے ہیں، کاروبار بھی کرتے ہیں، لین دین بھی کرتے ہیں، معاملات بھی کرتے ہیں، کہیں بھی کوئی لڑائی موجود نہیں ہے، آپکے سامنے ملی یکجہتی کونسل کی مثال ہے، اس میں تمام مکاتب فکر، تمام مسالک کی دینی جماعتیں اس پلیٹ فارم پر اکٹھی ہیں، ان میں کوئی اختلاف و انتشار، کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہے، اسی طرح ہمارے معاشرے میں بھی نہیں ہے، ہم یہ سمجھتے ہیں ان مواقع پر کچھ مصنوعی قوتیں ہیں، جو انتشار پیدا کرنے کیلئے ایسا ماحول ایجاد کرنیکی سازشیں کرتی ہیں، یہ دشمن قوتیں نہیں چاہتی ہیں کہ مسلمان آپس میں متحد ہو جائیں، ان میں آپس میں اتحاد و اتفاق پیدا ہو جائے، یہ نہیں چاہتے کہ مسلمان کلمہ توحید پر جمع ہو جائیں، لہٰذا یہ دشمن قوتیں مسلمانوں کے درمیان انتشار پیدا کرنے کیلئے ایسے مواقعوں کو استعمال کرنیکی سازشیں کرتی ہیں، لہٰذا حکومت اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ ان منفی قوتوں پر گہری نظر رکھیں اور مسلمانوں کے درمیان انتشار پیدا کرنیکی سازشوں کو ناکام بنائیں۔


محمد عظیم بلوچ اسوقت جماعت اسلامی سندھ کے نائب امیر کی حیثیت سے ذمہ داری سرانجام دے رہے ہیں، زمانہ طالب علمی کے دوران 1985ء میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوئے، وہ جمعیت کی صوبائی اور مرکزی شوریٰ کے رکن، جمعیت بلوچستان اور سندھ کے ناظم رہ چکے ہیں، وہ شباب ملی سندھ کے صدر اور جماعت اسلامی یوتھ کے مرکزی نائب صدر بھی رہ چکے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے مسجد قبا گلبرگ کراچی میں قائم جماعت اسلامی سندھ کے دفتر میں انکے ساتھ مختلف موضوعات کے حوالے سے ایک مختصر نشست کی۔ اس موقع پر ان کیساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ پاکستان مخالف بیان امریکی پالیسی کا ہی حصہ ہے۔؟
محمد عظیم بلوچ:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔
امریکی صدر ٹرمپ کا پاکستان مخالف حالیہ بیان امریکی کی مستقل پالیسی کا ہی حصہ ہے، جو کبھی بھی پاکستان کے حق میں نہیں رہی، ہم اس حوالے سے عوام کو مستقل طور پر متوجہ کرتے رہے ہیں، لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے حکمران امریکہ کے سامنے بات کرنے سے عاجز نظر آتے رہے ہیں، امریکہ کی ایک فون کال پر ہمارے صدر صاحب تو لیٹ جاتے ہیں، لہٰذا ہر گزرتا دن امریکہ کو مزید شیر بناتا گیا اور امریکی صدر کا حالیہ بیان اس کا واضح ثبوت ہے، ٹرمپ نے اس وقت کھل کر ساری بات کر دی ہے، یہ ایک لحاظ سے ٹھیک بھی ہے کہ اب پاکستانی عوام کو سمجھ لینا چاہیئے کہ ہمارا دوست کون ہے اور دشمن کون ہے، اسی حقیقت کو سمجھ کر پاکستان کو اپنی مستقبل کی پالیسی ترتیب دینی چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: چین کے شہر شیامن میں ہونیوالے حالیہ برکس سربراہ اجلاس کے اعلامیہ میں مبینہ طور پر پاکستان میں موجود دہشتگرد گروپوں کو علاقائی سکیورٹی کیلئے خطرہ قرار دیتے ہوئے انکے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا، یعنی چین سمیت پاکستان کے دوست ممالک بھی یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں دہشتگرد تنظیموں کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں، کیا کہیں گے سے اس حوالے سے۔؟
محمد عظیم بلوچ:
پاکستان کی موجودہ حکومت کی تمام تر توجہ آج کل کرپشن اور پانامہ کیس کی جانب ہے، اس کی توجہ شاید اس بات کی طرف ہے ہی نہیں کہ پاکستان کے دفاع کو کس طرح مضبوط کرنا ہے، پاکستان کے مؤقف کو دوست اور دشمن ممالک اور دنیا بھر کے سامنے کیسے پیش کرنا ہے، حکومت کو اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملکی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے معاملات اور پالیسیوں کو ترتیب دینا چاہیئے اور دوست ممالک کو اعتماد میں لینا چاہیئے، پچھلے کئی سالوں سے پاکستان میں آپریشنز جاری ہیں، ضرب عضب، ردالفساد، راہ نجات وغیرہ، ان آپریشنز کے بعد پاکستان میں عسکریت پسند گروہ کسی دور میں اگر کہیں رہے ہوں، تو اس وقت وہ زمین پر کہیں نظر نہیں آتے، لہٰذا اب جو برکس اعلامیہ سامنے آیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی پوزیشن کو اپنے دوست ممالک کے سامنے بھی واضح نہیں کرسکے ہیں، درحقیقت برکس اعلامیہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے، اس کی وجہ جیسا کہ میں نے پہلے بیان کی کہ ہمارے حکمران ملکی و قومی مفادات کے تحفظ کے بجائے اپنی ذات اور مفادات کے تحفظ میں مصروف ہیں، لہٰذا ضروری ہے کہ حکمران اپنے ذات کے تحفظ کی فکر سے باہر آکر اپنے دوست ممالک کے پاس جاکر انہیں اعتماد میں لیں، انہیں اپنے مؤقف کے حوالے سے قائل کریں، جیسا کہ انہوں نے جانا بھی شروع کیا ہے، ایران اور ترکی کے دورہ جات اس حوالے سے اچھے اقدامات ہیں، جو شاید بہت پہلے ہو جانے چاہیئے تھے، دنیا بھر کے ممالک میں موجود پاکستان کے سفیروں کو حقیقی معنوں میں پاکستان کی ترجمانی اور پاکستانی مفادات کا تحفظ کرنا چاہیئے، اگر ایسا ہو جائے تو دوست ممالک میں جو غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں، وہ ختم بھی ہونگی اور معاملات درست سمت میں آگے بھی بڑھیں گے۔

اسلام ٹائمز: کامیاب خارجہ پالیسی کے حوالے سے کن اقدامات کو اٹھانے کی ضرورت ہے۔؟
محمد عظیم بلوچ:
موجودہ ملکی و عالمی حساس صورتحال کے تناظر میں ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کی ترجیحات کا درست سمت میں از سرنو تعین کرنا چاہیئے، اس حوالے سے ہمیں کہیں بھی اقدامات ہوتے نظر نہیں آتے کہ کن ترجیحات کے مطابق خارجہ پالیسی ترتیب دی جا رہی ہے، دوسرے مرحلے میں بیرون ممالک میں موجود پاکستانی سفیروں کو بریف کرنا اور انہیں تیار کرنا چاہیئے، انہیں تمام تر معلومات فراہم کرنا چاہیئے، کیونکہ سفیر ہوتے ہی اس لئے ہیں کہ وہ عالمی سطح پر پاکستانی مفادات کا تحفظ کریں اور اپنا مؤقف اس انداز میں پیش کریں کہ دنیا اسے تسلیم کرے، لیکن چونکہ یہ ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بنیادی کام ہونے چاہیئے تھے، وہ نہیں ہو رہے، سفیروں کو سفارت خانوں میں بیٹھے نہیں رہنا چاہیئے، بلکہ بیرون ممالک رائے عامہ کو پاکستان کے حق میں بہتر بنانا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: مختلف حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ بہترین موقع ہے کہ پاکستان امریکی بلاک سے باہر نکل آئے، ریجنل بلاک کیطرف جائے، اس حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے۔؟
محمد عظیم بلوچ:
عقل مندی کا تقاضا یہی ہے کہ پڑوسیوں سے تعلقات اچھے اور بہترین ہوں، دور دراز کے لوگوں سے بھی تعلقات اچھے ہونے چاہیئے، لیکن پڑوسیوں کے ساتھ بہترین تعلقات استوار کرنے کو ترجیح دینا چاہیئے، یہ عقلمندی نہیں کہلائے گی کہ شہر کے دوسرے کونے پر بیٹھے فرد سے تو ہمارے تعلقات اچھے ہوں اور پڑوسیوں سے ہمارے تعلقات خراب ہوں، کیونکہ یہ ہمارے اور ہمارے پڑوسیوں دونوں کیلئے دشواری و مشکلات کا باعث ہوگا، چونکہ امریکی صدر نے کھل پر پاکستان مخالف بات کر دی ہے، جس طرف پاکستان کا دینی طبقہ ہمیشہ متوجہ کراتا رہا ہے، جسے پہلے ہمارے ملک کا سیکولر اور لبرل طبقہ قبول نہیں کرتا تھا، لیکن آج ڈونلڈ ٹرمپ کے اس کھلے بیان کے بعد اچھا موقع ہے کہ امریکی بلاک اور امریکی اثر سے باہر نکل آنا چاہیئے اور نئے اتحادی اور نئے دائرے تلاش کرنے چاہیئے اور ان دائروں میں اپنے آپ کو مضبوط کرنا چاہیئے، جس کے بعد ہمارا بھی اثر بڑھے گا اور خطے میں امن بھی قائم ہوگا، کیونکہ برصغیر اور جنوبی ایشیا بدامنی کا شکار ہے۔

اسلام ٹائمز: روہنگیا مسلمانوں پر ہونیوالے مظالم کا خاتمہ کیسے ممکن ہے۔؟
محمد عظیم بلوچ:
روہنگیا مسلمانوں پر کئی سالوں سے جاری ظلم و بربریت کا سلسلہ آج اپنے عروج پر ہے، وہاں کی حکومت اور بدھ مت کے پیروکار اس میں ملوث ہے، ان مظالم کے خاتمے کیلئے مسلمان ممالک نے اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا نہیں کیا ہے، جو انہیں ادا کرنا چاہیئے، یہ اسلامی مسئلہ بھی ہے، یہ انسانی مسئلہ بھی ہے، اس مسئلے کے حوالے سے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے جس طرح قائدانہ اور جرأت مندانہ کردار ادا کیا ہے، یہی کردار پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک کو بھی ادا کرنا چاہیئے، پاکستان، سعودی عرب، ایران سمیت تمام مسلم ممالک کو یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ ہمیں دنیا بھر میں کلمہ توحید کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس تناظر میں تمام مسلم ممالک کو کلمہ توحید کی بنیاد پر متحد ہو جانا چاہیئے، ہمارا اتحاد و اتفاق، ہماری یکجہتی ہی ہمیں دنیا بھر میں مظالم سے نجات دلا سکتے ہیں، ہم آپس میں انتشار کے شکار ہونے کے باعث ایک ایک کرکے دشمن کا نشانہ بن رہے ہیں، مسلم ممالک کو ایک ایک کرکے دشمن کا نشانہ بننے کے بجائے اتحاد و اتفاق و یکجہتی کے ساتھ دشمن کے خلاف قیام کرنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: محرم الحرام کا آغاز ہونے کو ہے، کراچی سمیت سندھ بھر میں امن و امان کی صورتحال کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
محمد عظیم بلوچ:
کراچی سمیت صوبے بھر میں آپریشن کے بعد امن و امان کی صورتحال مجموعی طور پر بہتر ہوئی ہے، لیکن جیسے جیسے آپریشنز میں کمی یا کوتاہی پیدا ہوتی ہے، ویسے ویسے دہشتگردوں کی سرگرمیوں کا معاملہ بھی نظر آتا ہے، اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانا چاہیئے، درمیان میں نہیں چھوڑنا چاہیئے، ورنہ پہلے سے زیادہ نقصان ہو جائے گا۔

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے کہ محرم الحرام کی آمد کے موقع پر ایک حساسیت سی پیدا ہوتی نظر آتی ہے۔؟
محمد عظیم بلوچ:
پاکستان میں اگر کوئی کہے کہ محرم الحرام کے مہینے میں کوئی ٹینشن پیدا ہو جاتی ہے تو ایسا ہرگز نہیں ہے، کیونکہ اس پاکستان کے ہر شہر، دیہات میں شیعہ بھی رہتے ہیں، سنی بھی، اس پاکستان کے تعلیمی اداروں میں شیعہ بھی پڑھتے ہیں، سنی بھی پڑھتے ہیں، کاروبار بھی کرتے ہیں، لین دین بھی کرتے ہیں، معاملات بھی کرتے ہیں، کہیں بھی کوئی لڑائی موجود نہیں ہے، آپ کے سامنے ملی یکجہتی کونسل کی مثال ہے، اس میں تمام مکاتب فکر، تمام مسالک کی دینی جماعتیں اس پلیٹ فارم پر اکٹھی ہیں، ان میں کوئی اختلاف و انتشار، کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہے، اسی طرح ہمارے معاشرے میں بھی نہیں ہے، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان مواقع پر کچھ مصنوعی قوتیں ہیں، جو انتشار پیدا کرنے کیلئے ایسا ماحول ایجاد کرنے کی سازشیں کرتی ہیں، یہ دشمن قوتیں نہیں چاہتی ہیں کہ مسلمان آپس میں متحد ہو جائیں، ان میں آپس میں اتحاد و اتفاق پیدا ہو جائے، یہ نہیں چاہتے کہ مسلمان کلمہ توحید پر جمع ہو جائیں، لہٰذا یہ دشمن قوتیں مسلمانوں کے درمیان انتشار پیدا کرنے کیلئے ایسے مواقعوں کو استعمال کرنے کی سازشیں کرتی ہیں، لہٰذا حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ ان منفی قوتوں پر گہری نظر رکھیں اور مسلمانوں کے درمیان انتشار پیدا کرنے کی سازشوں کو ناکام بنائیں۔

اسلام ٹائمز: محرم الحرام میں مسلمانوں کے درمیان انتشار پیدا کرنہکی سازشوں کو ناکام بنانے میں تمام مسالک و مکاتب کی دینی جماعتوں کا کردار کیا ہونا چاہیئے۔؟
محمد عظیم بلوچ:
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ تمام مسالک و مکاتب فکر کی دینی جماعتیں ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم پر اکٹھی ہیں، علمائے کرام نے پاکستان کے آئین اور دستور کیلئے جو نکات بنائے تھے، وہ بھی سب نے مل کر بنائے تھے، اس میں بھی کوئی انتشار و اختلاف نہیں تھا، قیام پاکستان سے لیکر آج تک دینی طبقے نے انتشار و فرقہ واریت پھیلانے کی سازشوں کو ملکر ناکام بنایا ہے، دینی طبقے نے تو اپنی ذمہ داریوں کو پورا کیا ہے، خلیج اگر کہیں موجود بھی تھی تو ان کے آپس میں ملنے سے وہ خلیج بھی ختم ہوگئی، ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ایک ہی اسٹیج پر سب موجود ہیں، ایک ہی امام کے پیچھے سب نماز پڑھ رہے ہیں، کوئی انتشار، لڑائی، جھگڑا نہیں ہے، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہمارے درمیان کوئی انتشار نہیں ہے، اب جو بیرونی طاقتیں اور مصنوعی قوتیں پاکستان میں مسلمانوں کے درمیان انتشار پیدا کرنے کی کوششیں کرتی ہیں، کوئی بیرونی ہاتھ ہمارے ملک میں امن و امان کو تباہ کرنا چاہتا ہے، تو پھر ہمارے ملک کے اداروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان ہاتھوں اور قوتوں کو روکیں بھی، ان کی سازشوں کو ناکام بھی بنائیں۔


خبر کا کوڈ: 670133

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/670133/آج-پاکستان-کیلئے-اچھا-موقع-ہے-کہ-امریکی-بلاک-اور-اسکے-اثر-سے-باہر-نکل-آئے-محمد-عظیم-بلوچ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org