1
0
Thursday 21 Sep 2017 21:52
اسلام کے دشمن کی شناخت کربلا کا درس ہے

اپنی جانیں قربان کرکے آلِ سعود اور آل یہود جیسے دشمنانِ امامؑ زمانہ کے ناپاک ارادے ناکام بنائینگے، انصر مہدی

سعودی حکمران اپنے کردار سے مسلمان کم اور یہودی زیادہ لگتے ہیں
اپنی جانیں قربان کرکے آلِ سعود اور آل یہود جیسے دشمنانِ امامؑ زمانہ کے ناپاک ارادے ناکام بنائینگے، انصر مہدی
امامیہ طلبہ کے نو منتخب میر کارواں فیصل آباد ڈویژن سے تعلق رکھتے ہیں۔ 1991ء میں جھنگ میں پیدا ہوئے، انصر مہدی نے ابتدائی تعلیم جھنگ سے حاصل کی، یونٹ میں ذمہ داری انجام دی، 2012ء میں امامیہ اسکاوٹنگ میں ڈویژنل سطح پر فرائض انجامم دیئے اور اسکے بعد 2013ء ڈپٹی چیف اسکاوٹ رہے، 2014ء میں مرکزی امامیہ چیف اسکاوٹ رہے، اسوقت سرگودہا یونیورسٹی میں بی ایس سی انجنیئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، لاہور میں ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کے مرقد پر منعقد ہونیوالے آئی ایس او پاکستان کے سالانہ مرکزی کنونشن میں انہیں سال 2018ء کیلئے مرکزی صدر منتخب کیا گیا ہے، اس سے قبل 2015ء اور 2016ء میں دو سال تک مرکزی جنرل سیکرٹری کی ذمہ داری پہ خدمات انجام دیتے رہے ہیں، یونیورسٹی سطح پر تقریری مقابلہ میں حصہ لیتے ہیں اور شوتو کان کے کھلاڑی ہیں اور مارشل آرٹس کے کئی مقابلوں میں حصہ لے چکے ہیں۔ مرکزی صدر منتخب ہونیکے بعد انصر مہدی کا اسلام ٹائمز کیساتھ انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: مرکزی صدر کی ذمہ داری کیلئے جب آپکے نام کا اعلان کیا گیا تو آپ نے کیسا محسوس کیا۔؟
انصر مہدی:
جب مرکزی صدر کی ذمہ داری کیلئے نام کا اعلان ہوا تو جو چیز سب سے پہلے میرے ذہن میں آئی، وہ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کا یہ قول تھا کہ ذمہ داری کچھ نہیں بلکہ احساس ذمہ داری اصل چیز ہے، اسی کا ذکر میں نے اپنی گفتگو میں بھی کیا، ذمہ داری ملنے کے بعد بہرحال ایک تبدیلی محسوس کرتا ہوں، اپنی سوچ میں ایک تبدیلی محسوس کرتا ہوں، پہلے کہیں ذہن اجتماعی سرگرمیوں سے متعلق سرد مہری تھی، تو اب یہ جذبہ دوبارہ موجزن ہوگیا ہے۔

اسلام ٹائمز: اپنی ذمہ داری کے سال میں کن ترجیحات کو سامنے رکھتے ہوئے کون سے کام انجام دینا چاہیں گے۔؟
انصر مہدی:
اس سال تربیت پر توجہ دینگے، بالخصوص ہماری بنیاد چونکہ یونٹ ہیں، کوشش کرینگے، یونٹ کی سطح پر شب بیداری، دروس، دعاوں کی محافل منعقد ہوں اور علماء و مساجد اور امامبارگاہوں کیساتھ رابطہ مضبوط ہو۔ اسی طرح آئی ایس او کا عوامی رابطہ بنایا جائے، بنیادی سطح پہ جا کر تنظیم کو فعال کرنا چاہتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ اس حق میں ہیں کہ آئی ایس او کے سکڑتے ہوئے ڈھانچے کو وسعت دینے کیلئے تنظیم کو مرکز اور ڈویژن کی بجائے صوبوں اور اضلاع تک Decentralized ہونا چاہیے۔؟
انصر مہدی:
یہ بحث کافی عرصے سے جاری ہے، میں ذاتی طور پر اس حق میں ہوں، زیادہ سے زیادہ نوجوانوں تک رسائی حاصل کرنے کیلئے ضلعی سطح تک جانا چاہیے، کافی سارے ایسے علاقے ہیں، جہاں آئی ایس او کا ڈھانچہ نہیں ہے، وہاں تک پہنچنے کیلئے ضلعی
سطح کا اسٹرکچر ضروری ہے۔

اسلام ٹائمز: فضائے مجازی (Cyber Space) کا زمانہ ہے، اس حوالے سے رہبر معظم کی تاکید بھی موجود ہے، نوجوانوں کو کس طرح اپنی ذمہ داری انجام دینی چاہیے۔؟
انصر مہدی:
ٹیکنالوجی دن بدن ترقی کر رہی ہے، اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے، پہلے زمانے میں جنگیں میدانوں میں آلات کیساتھ ہوا کرتی تھیں، آج بڑی بڑی جنگیں میڈیا کے ذریعے لڑی جا رہی ہیں، جسے سافٹ وار کہا جاتا ہے، خواہ وہ سوشل میڈیا ہو یا دوسرا میڈیا، ہمیں بڑی پلاننگ کیساتھ اس میں وارد ہونے کی ضرورت ہے، اس کے مضر پہلو بھی ہیں، جن کے بہت زیادہ نقصانات بھی ہیں، امامیہ نوجوانوں سے کہوں گا کہ اس سے درست استفادہ کریں، اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کا دین اور اسکا پیغام ایکدوسرے تک پہنچانے اور پھیلانے کیلئے استعمال کریں، اسلام کے معارف اور اہلبیت علہیم السلام کی تعلیمات کی ترویج کا یہ بہت بڑا ذریعہ ہے، روزانہ کی بنیاد پہ ترویج ہونا چاہیے۔

اسلام ٹائمز: آپ علماء، قائدین اور سینیئرز میں سے کن شخصیات سے متاثر ہیں۔؟
انصر مہدی:
ارض پاکستان کے ہر نوجوان کی طرح قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی ذات اور افکار سے بہت زیادہ متاثر ہوں، تنظیمی زندگی میں جو ہمارے استاد ہیں، کافی سارے افراد ہیں، شروع سے اسکاوٹنگ سے وابستگی رہی، اسکاوٹنگ ہی کی وجہ سے آئی ایس او میں مختلف ذمہ داریوں پہ آیا ہوں، شاید اگر اسکاوٹنگ میں نہ ہوتا تو آئی ایس او کو ابتدائی دنوں میں ہی خیرآباد کہہ چکا ہوتا، اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ اسکاوٹنگ میں جو اساتید ملے، ان کے خلوص، شفقت اور پیار کیوجہ سے یہاں موجود ہیں، چند نام اگر لینا چاہوں تو ان میں سب سابق چیف اسکاوٹ ہیں، جن میں برادر شجر عباس ہیں، ناصر عباس شیرازی ہیں، ریحان بھائی اور حیدر بھائی ہیں، یہ میرے چار اساتید ہیں، جن سے میں سب سے زیادہ متاثر ہوں۔ آئی ایس او میں شمولیت بڑے دلچسپ انداز میں ہوئی، ہمارے گاؤں میں باقاعدہ یونٹ نہیں تھا، ہمارے محلے کے ایک شیعہ استاد تھے، میثم انکا نام تھا، جو ٹیوشن پڑھاتے تھے، انہوں نے ایک دن کہا کہ مل کر ایک تنظیم بناتے ہیں، نہ انہوں نے کسی کو مسئولیت دی، بس ایسے ہی ایک دن کہہ دیا کہ یہ تنظیم آئی ایس او ہے، آپ سب آئی ایس او میں شامل ہیں، انہی دنوں میں جھنگ میں ایف ایس سی میں داخلہ ہوگیا، وہاں امامیہ ہاسٹل میں برادر شاہد جو بعد میں سرگودہا کے ڈویژنل صدر بھی رہے، ان کی صحبت میں رہے، انہوں نے آئی ایس او سے متعارف کروایا، گاؤں میں جو ٹیوشن پڑھنے والے جو طلبہ تھے، انہیں یونٹ کی شکل دی، وہاں مجھے یونٹ صدر بنایا گیا۔

اسلام ٹائمز: پسندیدہ مصنف،
شاعر اور پسندیدہ کتب کونسی ہیں، پسندیدہ شعر کونسا ہے، امامیہ نوجوانوں کو کن کتب کے مطالعے کی تاکید کرینگے۔؟
انصر مہدی:
آئی ایس او میں شمولیت کے بعد مطالعہ کی رغبت ہوئی، اس سے قبل یہ ذوق نہیں تھا، ان آخری 9، 10 سالوں میں جو موقع ملا ہے، مطالعہ کرتا رہا ہوں، شہید مرتضٰی مطہری کی جتنی کتب کا مطالعہ کیا ہے، سب سے زیادہ متاثر ہوا ہوں، انکا انداز مدلل ہے اور منطقی بنیادوں پہ بات سمجھ آتی ہے، دلکو چھونے والا انداز ہے، امامیہ طلبہ کو بھی گذارش کروں گا کہ شہید مرتضٰی مطہری کے آثار کا مطالعہ کریں، بالخصوص حماسہ حسینی بہت اہم ہے، سیرت النبیؐ ہے، اسی طرح رہبر معظم سید علی خامنہ ای کی کتاب 250 سالہ انسان، جو معصومیں علیہم السلام کی سیرت پر کتاب ہے، وہ مطالعہ کرنا چاہیے۔ پسندیدہ شعر علامہ اقبال کا ہے، وہی پسندیدہ شاعر ہیں، شعر وہی ہے، خودی کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے، خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے۔ اسی طرح یہ شعر کہ وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا، شباب جس کا ہو بے داغ ضرب ہو کاری۔

اسلام ٹائمز: اعلٰی تعلیمی اداروں میں شدت پسندی سرایت کر گئی ہے، دہشتگردی کیصورت میں اسکا ظہور بھی ہو رہا ہے، اسکے کیا محرکات ہیں، والدین، یونیورسٹی، معاشرہ، میڈیا اور حکومت کی کیا ذمہ داری ہے۔؟
انصر مہدی:
بنیادی طور پر یونیورسٹیوں کا مقصد بہترین افرادی قوت فراہم کرنا ہے، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں تعلیم ایک کاروبار بن گیا ہے، معاشرے کو سنوارنے کا ذریعہ ہے تعلیم، لیکن اس میں خدمت والا جذبہ نہیں رہا، ناکارہ اور نااہل لوگ تعلیمی نظام کو ذاتی مفاد کیلئے استعمال کرتے ہیں، طلبہ کے ذریعے تصادم کی فضاء پیدا کی جاتی ہے، شدت پسندی کے رجحان کو فروغ دینے والے اساتذہ اور عناصر کی نشاندہی ہونی چاہیے اور اداروں سے انکا صفایا ہونا چاہیے، انکا وجود خطرناک ہے، نوجوانوں کے مستقبل کو محفوظ بنانا ضروری ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ دہشتگردی کیخلاف ریاستی اور حکومتی اقدامات سے مطمئن ہیں۔؟
انصر مہدی:
کسی حد تک کہہ سکتے ہیں کہ فرق پڑا ہے، قومی ایکشن پلان میں بہت ساری ایسی چیزیں ہیں، جو بہت اچھی ہیں، مسلح افواج نے قربانی دی ہے، جو قابل قدر ہے، ضرب عضب کے نتائج اچھے رہے ہیں، دہشت گردوں کی کمر ٹوٹی ہے، انکے ٹھکانے تباہ ہوئے ہیں، پناہ گاہیں ختم کی گئی ہیں، حکومت، فوج اور سب ادارے اسی عزم کیساتھ چلتے رہیں تو ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں ہیں، جب دہشت گردی کا وجود اس ملک سے ختم ہو جائیگا۔

اسلام ٹائمز: صدر ٹرمپ نے افغان پالیسی میں پاکستان کیخلاف الزمات لگائے ہیں، پاکستان کا ردعمل کیا ہونا
چاہیے تھا، آپکی نظر میں افغانستان کے مسئلے کا حل کیا ہے۔؟
انصر مہدی:
ٹرمپ کی بات کریں تو اسے بحیثیت ٹرمپ نہیں دیکھنا چاہیے، یہ بیان امریکہ کی دیرینہ پالیسیوں کا تسلسل ہے، امریکہ شروع سے عالم اسلام کے خلاف کھڑا ہے، ہم تو پاکستان کی سرزمین پہ کئی دہائیوں سے مردہ باد امریکہ کہہ رہے ہیں، امریکہ کو ہمدرد سمجھنے والے ان نعروں پر اعتراض کرتے تھے، یہ بانی آئی ایس او، شہید بزرگوار ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کا نعرہ ہے، آج کے حالات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ امریکہ کی اصلیت کیا ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالٰی کا فرمان رہنمائی کیلئے کافی ہے کہ یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست مت بناؤ۔ ہمیں انہیں اپنا دوست نہیں سمجھنا چاہیے، یہ دشمن ہیں، پاکستان کو انہوں نے ہر جگہ استعمال کیا ہے، افغانستان کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہے، ہماری معیشت تباہ ہوگئی ہے، جانوں کی قربانیاں دی ہیں، لیکن وہ الٹا الزام لگا رہے ہیں، امریکہ نے ان قربانیوں کی قدر نہیں کی، reward نہیں دیا، ہماری فوج نے خاموشی توڑی ہے، ٹرمپ کے الزام اور بیان کا مناسب جواب دیا ہے، ہر جانب سے اس کا جواب آنا چاہیے، افغان جنگ میں پاکستان کو دھکیلا گیا تو ہم نے امن قائم کرنے کی خاطر بہت ساری قربانیاں دی ہیں، ہر فورم پہ اور سفارت کاری کے ذریعے امریکہ کو بھرپور جواب دیا جانا چاہیے۔

اسلام ٹائمز: کشمیر میں تحریک انتفاضہ میں بدل چکی ہے، عوامی رنگ اختیار کرچکی ہے، شہید برہان وانی کی شہادت کے بعد، اسکولوں اور کالجز کے بچے بچیاں، مسلسل ان مظاہروں اور احتجاج کا حصہ بن چکے ہیں، آپ کشمیری نوجوانوں کے نام کیا پیغام دینگے۔؟
انصر مہدی:
شہید برہان وانی کی قربانی مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں کیلئے تحرک کا باعث بنی ہے، یہ شہداء کا خون ہی ہے جو لوگوں کے قلوب میں حرارت پیدا کرتا ہے، تاریخ بھی بتاتی ہے کہ آزادی آسانی سے حاصل نہیں ہوتی، قربانیاں دینی پڑتی ہیں، یہ جو تحرک پیدا ہوا ہے یہ رنگ لائے گا، کشمیر کے مسلمانوں کی امنگیں پوری ہونگی۔

اسلام ٹائمز: محرم الحرام کا آغاز ہو رہا ہے، قیام امام حسین علیہ السلام اور عصر حاضر میں نوجوانوں کی ذمہ داریوں کے حوالے سے آپ کیا پیغام دینگے۔؟
انصر مہدی:
یہ بہت اہمیت کا حامل مہینہ ہے، جیسا کہ رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے فرمایا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں امام حسین علیہ السلام کی محبت بقاء اسلام کی ضمانت ہے، عزاداری انتہائی اہم ہے، کربلا کو سمجھنے کی ضرورت ہے، کربلا رسم کا نام نہیں ہے، عزم کا نام ہے، کربلا اسلام کے دشمنوں اور منافقین کو بے نقاب کرتی ہے، عصر حاضر میں اہم ترین کام کربلا سے درس لیتے ہوئے
دشمنوں کو پہچاننا ہے، کربلا نے دشمن اور منافقوں کے چہروں سے نقاب اٹھا دیا ہے، ہم نے اس پیغام اور حسینیت کو سمجھنا ہے، یہ معرکہ حق و باطل ہے، کربلا کا پیغام ہے، مظلوم کی مدد اور ظالم کیخلاف برسر پیکار ہونا، علمِ مزاحمت بلند کرنا، احیائے دین کے عنوان سے کربلا انتہائی اہم ہے، نوجوان دنیا اور معاشرے کے بدلتے ہوئے حالات کو سامنے رکھیں، پھر سمجھیں کہ دنیا کے اکثر مناطق کل ارض کربلا، کل یوم عاشورا کا مصداق ہیں، آج بھی یزیدیت برسرپیکار ہے، حسینیت سے، اس وقت دنیا میں شیطان بزرگ امریکہ، اسرائیل اور ہندوستان یزیدی قوتوں کے نمائندہ ہیں، برما سمیت دنیا میں مسلمانوں پر ظلم ہو رہے ہیں، دشمن کو پہچانتے ہوئے جس طرح امام حسین علیہ السلام نے یزیدیت کا مقابلہ کیا، ہم نے بھی مقابلہ کرنا ہے، اگر ہماری تعداد کم بھی ہو تو مایوس نہ ہوں، جب حق کے راستے پر ہیں تو آپ غالب آسکتے ہیں، یہ کربلا کا سبق ہے۔ کربلا کی ان تعلیمات کو معاشرے میں پہنچانا یہ نوجوانوں کی ذمہ داریوں میں سے ہے۔

اسلام ٹائمز: فلسطین، یمن، عراق جیسے مناطق آج کربلا کا منظر پیش کرتے ہیں، جہاں مظلومین نائب امامؑ سید علی خامنہ ای کی رہبری میں یزیدی قوتوں سے نبردآزما ہیں، کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی ہل من کی صدا کو سامنے رکھتے ہوئے آج ملت پاکستان کسطرح نائب امامؑ کی نصرت کا حق ادا کرسکتی ہے۔؟
انصر مہدی:
آج اگر کوئی ںظام اس وقت کے طاغوت، یزید و شمر لعین کے مقابل کھڑا ہے تو فقط نظام ولایت فقیہ ہے، آج ہم نے ولایت کا دست و بازو بننا ہے، اسکا حصہ بننا ہے، اس سوچ کیساتھ کہ بہت جلد امامؑ وقت کا ظہور ہوگا، انکی حکومت قائم ہوگی، یہ انقلاب اسلامی متصل ہوگا ظہورِ امام علیہ السلام کیساتھ، فرزند حسین علیہ السلام سید علی خامنہ ای علم اسلام تھمائیں گے امام زمانہ علیہ السلام کو۔ رہبر معظم امام سید علی خامنہ ای کے افکار کو سمجھنا اور خطبات و بیانات کو پڑھنا اور ہدایات پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے، جب تک جانتے نہ ہوں کہ جس کی پیروی کر رہے ہیں، وہ کہہ کیا رہے ہیں تو ان کی اطاعت کیسے کرسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: سعودی بادشاہ، شاہ سلمان کے بیٹے نے کہا ہے کہ ہماری ان قوتوں کیساتھ جنگ ہے، جو امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کیلئے زمینہ سازی کر رہے ہیں، آئی ایس او بھی امام زمانہ علیہ السلام کی زمینہ سازی کر رہی ہے، آپ سعودی شہزادے کو کیا جواب دینگے۔؟
انصر مہدی:
سب سے پہلے تو یہ کہوں گا کہ سعودی حکمران اپنے کردار سے مسلمان کم اور یہودی زیادہ لگتے ہیں، اسی لئے انہیں آلِ سعود مثل یہود کہا جاتا ہے، ہمارے امام علیہ السلام
جب ظہور فرمائیں گے تو پوری دنیا پر پرچم اسلام کو لہرائیں گے، سب سے زیادہ اسکی نفی کرنیوالے یہودی ہیں، سعودی شہزادے اور یہودیوں کے موقف میں کوئی فرق نہیں ہے، آلِ سعود اور آلِ یہود ایک پیج پر ہیں، لیکن ان سے پہلے بھی کئی لوگ آئے، اس کے باوجود حجت آلِ محمد علیہم السلام کے ماننے والے پوری دنیا میں موجود ہیں، جو یہ باتیں کر رہے ہیں، یہ تباہ و برباد ہو جائیں گے، لیکن جس ہستی کیخلاف بات کر رہے ہیں، انکا نام رہتی دنیا تک موجود رہے گا۔ ہم اپنی جانیں قربان کرکے آلِ سعود اور آل یہود جیسے دشمنانِ امام مہدی علیہ السلام کے ناپاک ارادوں کو ناکام بنائیں گے۔ ان شاء اللہ انکے سرپرست اسرائیل جن سے یہ نظریہ لیتے ہیں اور جن کے نظریئے پہ چل رہے ہیں، اپنے عزائم میں ناکام ہونگے، جیسا کہ رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے فرمایا ہے کہ اسرائیل جلد نابود ہو جائیگا۔

اسلام ٹائمز: آپ نے گذشتہ سال اپنی تعلیم کیساتھ مرکزی جنرل سیکرٹری کی ذمہ داری اور جاب کو بھی جاری رکھا، بعض نوجوان سمجھتے ہیں کہ تعلیم کیساتھ تنظیم کی ذمہ داری انجام دینا مشکل ہوتا ہے، تعلیم اور تنظیم میں کیسے توازن برقرار رکھا جا سکتا ہے۔؟
انصر مہدی:
میرا خیال ہے کہ یہ دیکھنے میں مشکل لگتا ہے کہ اعلٰی تعلیمی ادارے میں انجنئیرنگ کی ڈگری، سرکاری ملازمت اور آئی ایس او میں مرکزی سطح پر ایسی ذمہ داری جہاں ملک بھر میں آنا جانا بھی ہو، کو اکٹھے لیکر چلنا ممکن نہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے، یہ مسئلہ اسوقت پیدا ہوتا ہے، جب ہم تنظیم کے اندر آجاتے ہیں، لیکن تنظیم ہمارے اندر نہیں آتی، اگر ہم اپنی ذات میں تنظیم پیدا کریں، امور کو منظم کریں، جس چیز کا جتنا ٹائم بنتا ہے اس کو اتنا ٹائم دیں، تو توازن برقرار رکھنا ممکن ہے۔ میرا تجربہ تو یہ ہے کہ جب تک میں آئی ایس او میں نہیں تھا، تعلیمی حوالے سے کمزوری تھی، اللہ کا شکر ہے کہ جب آئی ایس او میں آیا تو اک احساس پیدا ہوا، قومی احساس پیدا ہوا کہ میں اپنی ذات کیلئے نہیں پڑھ رہا، بلکہ سوچ یہ بنی کہ میں نے اپنے ملک و ملت کیلئے پڑھنا ہے، میری تعلیم کا براہ راست تعلق ہے میرے ملک و ملت کی ترقی و خوشحالی کیساتھ، اسی وجہ سے تمام امتحانات میں تعلیم کا گراف بہتر ہوتا گیا، ٹاپ پوزیشنز حاصل کی ہیں، انسان جب خدا کی راہ میں بے لوث ہو کر نکلتا ہے تو اللہ تعالٰی انسان کے سارے معاملات آسان کر دیتا ہے، مشکلات دور ہو جاتی ہیں۔ تعلیم، جاب اور مرکزی جنرل سیکرٹری کی ذمہ داری کیساتھ کراٹے گیم شوتوکان بھی کرتا رہا ہوں، کلاس لیتا ہوں، کئی مقابلوں میں حصہ بھی لیا ہے، یہ میرا شوق ہے۔
شکریہ
خبر کا کوڈ : 670855
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
MashAllah, khuda ye jazba salamt rakhay.
ہماری پیشکش