0
Monday 25 Sep 2017 15:56
شریف خاندان کا پودا فوج نے لگایا، فوج کی ذمہ داری ہے کہ ان سے قوم کی جان چھڑائے

پاکستان نے امریکہ کے سامنے جھکنے سے صاف انکار کر دیا ہے، امریکہ بیان بازی سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتا، عبداللہ خان

برکس اعلامیہ دہشتگردی کیخلاف پاکستان کے موقف کے عین مطابق ہے
پاکستان نے امریکہ کے سامنے جھکنے سے صاف انکار کر دیا ہے، امریکہ بیان بازی سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتا، عبداللہ خان
عبداللہ خان پاک انسٹی ٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز (PICSS) کے مینجنگ ڈائریکٹر ہیں۔ انکا ادارہ دہشتگردی اور سکیورٹی کے معاملات پر دقیق تحقیق کرتا ہے۔ پاکستان کے داخلی و خارجی مسائل پر انکی گہری نظر ہے۔ عبداللہ خان کانفلیکٹ مانیٹرنگ سنٹر کے بانی بھی ہیں۔ اسلام آباد میں قائم یہ ادارہ دہشتگردی کے واقعات اور اس میں ہونیوالے نقصانات پر رپورٹس مرتب کرتا تھا، مگر بعد ازاں یہ ادارہ بھی انسٹی ٹیوٹ میں ضم کر لیا گیا۔ خطے میں دہشتگردی کے حوالے سے عبداللہ خان نے متعدد تحقیقی پیپر جاری کئے ہیں، جو متعدد اداروں نے اپنی سالانہ و دیگر رپورٹس میں شائع کئے ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز (PICSS) آکسفورڈ ریسرچ گروپ (برطانیہ) کا حصہ بھی ہے۔ پکس نے ڈرون حملوں سے متعلق بھی اپنی رپورٹس جاری کی ہیں۔ انکی رپورٹس سے زیادہ تر سفارتی اور دفاعی معاملات سے منسلک ادارے استفادہ کرتے ہیں۔ عبداللہ خان نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی سکیورٹی ورکشاپس میں بھی شرکت کرچکے ہیں، جو کہ پارلیمنٹ کے ممبران، اعلٰی ماہرین کیلئے مخصوص ہوتی ہیں۔ عبداللہ خان نے اپنے قلمی، صحافتی اور تحقیقی کیریئر کا آغاز 1997ء میں روزنامہ اوصاف کے خصوصی نامہ نگار کی حیثیت سے مظفرآباد، آزاد کشمیر سے کیا۔ اس دوران بھارت کیخلاف لڑنے والے جہادی گروپوں کے خیالات کو پڑھنے سمجھنے میں انہیں مدد ملی۔ اسکے بعد وہ روزنامہ خبریں، روزنامہ پاکستان و پرنٹ میڈیا کے دیگر اداروں سے منسلک رہے۔ گذشتہ دس سالوں میں انہوں نے مختلف موضوعات پر جامع رپورٹس مرتب کیں۔ اسلام ٹائمز نے عبداللہ خان کیساتھ ایک مختصر نشست کا اہتمام کیا، جس میں ایشیاء کے دل افغانستان اور خطے کو درپیش چیلنجز پہ بات ہوئی۔ اس مختصر نشست کا احوال انٹرویو کیصورت پیش خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: ایشیا کے دل افغانستان کے غیر مستحکم، بدامن اور انتشار زدہ رہنے سے کون کون سے ممالک زیادہ متاثر ہو رہے ہیں اور امریکہ و بھارت کی افغانستان میں موجودگی تک کیا امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔؟
عبداللہ خان:
آپ نے خود اپنے سوال میں ہی فرما دیا کہ افغانستان ایشا کا دل ہے تو جب دل بیمار ہو تو پورا جسم بیمار ہوتا ہے۔ جب تک افغانستان میں امن نہیں ہوتا تو اس کے اثرات پورے براعظم ایشا پر مرتب ہوں گے، تاہم جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا خاص طور پر متاثر رہیں گے۔ پاکستان چونکہ افغانستان میں حالیہ امریکی جنگ کا فرنٹ لائن اتحادی ہے تو جب تک افغانستان میں صورتحال خراب رہے گی، پاکستان میں مکمل امن کا خواب نہیں دیکھا جا سکتا۔ افغانستان میں امریکہ کی موجودگی بھی مسائل کو بڑھاتی ہے اور اس کا فوری طور پر نکلنا بھی ملک کو مکمل خانہ جنگی کی لپیٹ میں لے لے گا۔ اس لئے جلد از جلد مسئلے کا سیاسی حل نکالنا ہوگا۔ جہاں تک بھارت کا سوال ہے تو اگر وہ افغانستان میں اپنی مثبت موجودگی رکھے تو پاکستان کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے، مگر افسوس کہ وہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے اور پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے گروپوں کی پشت پناہی کرنے کے ساتھ کلبھوشن جیسے اپنے افسران بھی بھیج رہا ہے، جو حالات کو مزید گھمبیر بنا دیتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا آج بھی طالبان ماضی کیطرح پاکستان کے کنٹرول میں ہیں۔؟
عبداللہ خان:
وہ دن گئے جب طالبان پر پاکستان کا گہرا اثر و رسوخ تھا۔ اب طالبان نے خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ بھی گہرے روابط استوار کر لئے ہیں۔ ان میں ایران سرفہرست ہے۔ داعش کو روکنے کے لئے ایران اور روس نے طالبان سے ہاتھ ملا رکھے ہیں۔ چین بھی طالبان کو انگیج رکھے ہوئے ہے۔ طالبان اپنی مرضی سے ہی مذاکرات کی میز پر آئیں گے۔ اب پاکستان اس پوزیشن میں نہیں کہ بازو سے پکڑ کر انہیں مذاکرات کی میز پر بٹھا دے، تاہم اس میں پاکستان اپنا محدود کردار ضرور ادا کرسکتا ہے، البتہ اصل فیصلہ خود طالبان کی قیادت نے کرنا ہے۔

اسلام ٹائمز: امریکی پراڈکٹ داعش افغانستان و پاکستان میں پہنچ گئی ہے، امریکہ خطے کو پرامن رکھنا چاہتا ہے یا مزید انتشار کو پھیلانا چاہتا ہے۔؟
عبداللہ خان:
موجودہ امریکی پالیسیوں کا نتیجہ تو مزید بدامنی کی صورت میں ہی نکلے گا، تاہم امریکہ نے امن عمل کی بات بھی کی ہے اور لگتا ہے کہ چار فریقی مذاکراتی عمل جلد ہی بحال ہو جائے گا۔ جس میں پاکستان، چین، امریکہ اور افغانستان شامل تھے۔ لیکن اگر امریکہ نے امن عمل کو آگے نہ بڑھنے دیا اور صرف طاقت کے استعمال پر اپنی پالیسی موقوف رکھی تو پھر اس کے نتائج خود امریکہ کے لئے بھی اچھے نہیں ہونگے، جبکہ خطے میں تشدد بڑھے گا اور یہ صورتحال داعش جیسے گروپوں کے لئے بہت موزوں رہتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ داعش سے لڑنے کے لئے امریکہ کس قدر سنجیدگی دکھاتا ہے۔ خاص طور پر افغانستان میں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کو نہ صرف سخت امریکی رویئے بلکہ دھمکی آمیز بیانات اور پابندیوں کا بھی سامنا ہے، کیا پاکستان بھی کوئی سٹینڈ لینے کی پوزیشن میں ہے۔؟
عبداللہ خان:
پاکستان نہ صرف سٹینڈ لینے کی پوزیشن میں ہے بلکہ اس بار پاکستان نے واضح اور مضبوط سٹینڈ لیا ہے۔ آرمی چیف کا یہ بیان کہ ہم نے بہت کچھ کر لیا، اب دنیا کو ڈو مور کرنا ہوگا، اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان نے امریکہ کے سامنے جھکنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ ہندوستان ٹائمز میں جو یہ آرٹیکل شائع ہوچکا ہے کہ پاکستان کے دباؤ پر امریکی وزیر دفاع اپنے دورہ بھارت کے دوران بھارت پر دباو ڈالیں گے کہ وہ ٹی ٹی پی کے ساتھ تعلقات ختم کرے اور افغانستان میں گڑ بڑ نہ کرے۔ دراصل امریکہ اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ پاکستان کے خلاف بیان بازی سے زیادہ کچھ کرسکے۔ جب تک افغانستان میں امریکی فوجی موجود ہیں، اسے پاکستان کا مرہون منت رہنا پڑے گا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ کچھ پاکستانی دانشور اللہ سے زیادہ امریکہ سے ڈرتے ہیں اور قوم کو ڈراتے رہتے ہیں۔ اصل میں حالات اتنے گھمبیر نہیں۔

اسلام ٹائمز: ماضی کے لادین، کیمونسٹ روس سے پراعتماد عسکری و حکومتی تعلقات قائم ہو پائیں گے۔؟
عبداللہ خان:
ملکوں کے تعلقات میں مفادات بنیادی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ کبھی مستقل نہیں رہتے۔ روس اور پاکستان ایک دوسرے کے کافی قریب آچکے ہیں اور عالمی منظر نامے پر وہ سپر پاور کامیاب ٹھہرتی ہے، جس کے ساتھ پاکستان کھڑا ہو۔ روس کو پاکستان کی اہمیت اور طاقت دونوں کا اندازا ہوگیا ہے۔ اس لئے وہ بھی پاکستان کے قریب آرہا ہے۔ اس خطے میں بھارت رفتہ رفتہ تنہا ہو رہا ہے۔ خطے کی کوئی بڑی طاقت بھارت کے ساتھ اس طرح نہیں کھڑی، جس طرح پاکستان کے ساتھ کھڑی ہیں۔ ٹرمپ کی پاکستان مخالف تقریر کا پاکستان سے پہلے چین اور روس نے جواب دیا، جو اس بات کا مظہر ہے کہ پاکستان چین اور روس کے لئے کیا اہمیت اختیار کرچکا ہے۔

اسلام ٹائمز: نواز شریف کی نااہلی کو جمہوریت پہ حملہ قرار دیا جا رہا ہے، کیا واقعی نواز شریف کی نااہلی سے جمہوریت کو نقصان پہنچا۔؟
عبداللہ خان:
وقت آگیا ہے کہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں مسلم لیگ کو شریف خاندان سے آزاد کرایا جائے، فوج نے شریف خاندان کا پودا لگایا تھا، اب اسی کی ذمہ داری ہے کہ قوم کی اس سے جان چھڑائے، ورنہ یہ خاندان پاکستانی نوجوانوں کو اپنی ہی مسلح افواج کے خلاف صف آراء کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اس خاندان کے نزدیک جمہوریت یا قانون کے صرف وہی حصے قابل اعتماد ہیں، جو اس خاندان کو اقتدار میں رکھیں۔ نیز ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ فوجی نرسری میں مزید کوئی پودا لگانے سے گریز کیا جائے اور جمہوریت کو پنپنے دیا جائے، کوئی بھی نیا سیٹ اپ ہو، اس میں لوکل گورنمنٹ کا نظام مضبوط اور شفاف بنانے کی ضرورت ہے، نیز طلباء یونین سے پابندی بھی ختم کی جائے، یہ دونوں جگہیں نئی قیادت کی نرسریاں ہیں، دور رس نتائج کے لئے ان پر فوکس کیا جائے۔

اسلام ٹائمز: چین پاکستان کا دوست ہے، مگر برکس اعلامیہ کو پاکستان نے مسترد کیا، کیا چین بھی بھارتی بولی بولنے لگا ہے۔؟
عبداللہ خان:
جو افراد برکس اعلامیہ کو پاکستان کے خلاف بھارت کی سفارتی فتح قرار دے رہے ہیں، ان کی خدمت میں عرض ہے کہ اس اعلامیہ میں پاکستان کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں تھا۔ اس میں لشکر طیبہ، جیش محمد اور حقانی نیٹ ورک کے ساتھ ساتھ ان تنظیموں کا ذکر تھا جو پاکستان کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ لشکر طیبہ، جیش اور حقانی نیٹ ورک کو پاکستان سرکاری سطح پر کالعدم قرار دے چکا ہے۔ ان تنظیموں کے نام کا اعلامیہ میں آنا پاکستان کے خلاف کیسے ہوگیا.؟ بھارتی میڈیا نے اسے اپنے انداز میں پیش کیا اور ہمارے پڑھے لکھے میڈیا نے بھیڑ چال اختیار کی اور ہمارے وزیر دفاع نے دفتر خارجہ سے پہلے بول کر اپنی لا علمی کا مظاہرہ کیا۔ دفتر خارجہ کا بیان پاکستان کی پوزیشن کا صحیح عکاس ہے۔ برکس ڈیکلریشن پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف موقف کے عین مطابق ہے۔ اگر آپ اسے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی قرار دینے پہ ہی کمربستہ ہیں تو اس کیلئے کوئی اور بہانہ تراشنا پڑے گا، برکس اعلامیہ میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: دنیا کے دیگر ممالک میں بھی چین راہداری استعمال بھی کر رہا ہے اور بنا بھی رہا ہے، مگر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں ہر معاملہ سی پیک کیخلاف سازش سے تعبیر کر لیا جاتا ہے۔؟
عبداللہ خان:
سی پیک سے دنیا کی بڑی طاقتیں خوش نہیں، وہ اسے تجارتی راہداری سے زیادہ ایک دفاعی راہداری سمجھتی ہیں۔ جنوبی چین کے سمندر جزائر ملاکا کی طرف سے چین کی ناکہ بندی کے لئے جو کوششیں امریکہ اور اس کے اتحادی کر رہے تھے، سی پیک ان کا جواب ہے، اس لئے یہ طاقتیں سی پیک کے خلاف سرگرم عمل ہیں، تاہم ان کی اب تک کی کوششیں کوئی خاص نتائج برآمد نہیں کرسکیں۔ کچھ نہ کچھ قیمت تو پاکستان اور چین کو بہرحال ادا کرنا پڑے گی، یہ کوئی پھولوں کی سیج نہیں ہوگی، تاہم اسے کوئی روک نہیں سکتا اور یہ مکمل ہو کر رہے گا۔ ان شاء اللہ
خبر کا کوڈ : 671860
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش