0
Wednesday 27 Sep 2017 21:35
کربلا سعادت و شقاوت کے درمیان خطِ فاصل کھینچتا ہے

کربلا اسلام اور ملوکیت کے خدوخال کو طے کرکے منافقت کے چہرہ سے پردہ ہٹاتا ہے، مولانا غلام علی گلزار

عزائے حُسین (ع) سیرت رسول اکرم (ص) اور شیوہ ائمہ اہل بیت (ع) ہے
کربلا اسلام اور ملوکیت کے خدوخال کو طے کرکے منافقت کے چہرہ سے پردہ ہٹاتا ہے، مولانا غلام علی گلزار
مقبوضہ کشمیر کے مایہ ناز مفکر، سماجی کارکن اور قلمکار مولانا غلام علی گلزار فعلاً کشمیر طبیہ کالج سرینگر میں بحثیت پروفیسر مصروف ہیں، اسکے علاوہ مذکورہ ادارے سے شائع ہونیوالے جریدے علم و حکمت کے مُدیر بھی ہیں، ساتھ ہی ساتھ مجلس اتحاد ملت جو اسلامی انجمنوں و دانشوروں کا ایک فورم ہے، کے جوائنٹ سیکرٹری کے طور پر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں، غلام علی گلزار 1976ء تک انجمن تحفظ اسلام کے جنرل سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں، 1972ء سے 1976ء تک مسلم پرنسل لاء فورم کے سیکرٹری رہ چکے ہیں، اسکے علاوہ تنظیم المکاتب معاون کمیٹی کشمیر کے نگران سیکرٹری کے فرائض تقریباً 24 سال انجام دیئے، وہ تحریک مکاتب امامیہ اور تحریک نفاذ شریعت کے بانی بھی ہیں، مولانا غلام علی گلزار 90 سے زائد کتابوں کے مصنف بھی ہیں اور انکی چند ایک کتب ابھی زیر طبع بھی ہیں، اسلام ٹائمز نے مفکر اسلام مولانا غلام علی گلزار سے محرم الحرام کی مناسبت پر ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: موجودہ دور میں کربلا ہم سے کیا تقاضا کرتا ہے، کیا ہماری تمام موجودہ ضروریات کربلا کی پیروی کے نتیجے میں پوری ہوسکتی ہیں۔؟
مولانا غلام علی گلزار:
موجودہ تقاضوں کے تناظر میں کربلا انسانیت کا پیغام اور دین کا مقصد روشن کرتا ہے۔ انسان کے دل میں اُتر کر انسانی اقدار کو اُجاگر کرتا ہے، رموز صبر و شکر سے آشنا کرتا ہے، رشتوں اور رابطوں کی ذمہ داری کا احساس دلاتا ہے، مراحل عزّت و ذلّت کی نشاندہی کرتا ہے۔ کربلا عقائد اساسی کو درست کرتا ہے، توہم پرستی سے نجات دلاتا ہے، کربلا سعادت و شقاوت کے درمیان خطِ فاصل کھینچتا ہے۔ کربلا اسلام اور ملوکیت کے خدوخال کو طے کرکے منافقت کے چہرہ سے پردہ ہٹاتا ہے۔ ایمان کو غیرت و حمیّت کی لذّت سے ہمکنار کرتا ہے اور سلیقۂ عبودیت سکھاتا ہے۔ وقوع کربلا کے بعد، کربلا سمجھے بغیر اسلام کی صحیح عکاسی نہیں ہوسکتی ہے۔ پیغام کربلا سمجھے بغیر عزا بھی بے روح رہ جاتی ہے۔ ذکر حُسین کے ساتھ فکر حُسین لازم ہے۔ کتابِ کربلا کا نصاب ذمہ داریوں کا احساس ہے، اس کا قلم دردِ دل ہے اور اس کی روشنائی احکام دین پر عمل ہے اور ’’حُسینیت‘‘ الگ سے کوئی ’’ازم‘‘ نہیں ہے بلکہ فرمان رسول مقبول (ص) ’’حُسین مِنی وَ اَنا مِنَ الحُسین‘‘ اسلام کی پہچان کا ذریعہ ہے۔ کربلا کو سمجھے بغیر قرآن و سُنت کے مفاہیم کو سمجھنا مشکل ہے۔ کربلا منافقت کے چہرہ سے پردہ نوچ کر اسلام کی شناخت کا فہم عطا کرتا ہے۔ بدکردار واعظ کربلائی نہیں ہوسکتا۔ عمر بن سعد بھی مشہور سخن ران تھا، سحر بیانی میں ماہر تھا، اگر دینی فہم و فراست اور قرآن و سیرت کے پیغام سے کھلواڑ کیا جائے وہ کربلا سے کھلواڑ کے مترادف ہوگا۔ رسوم عزاداری متعارف و مروجہ ہیں، لیکن واضح رہے کہ عزائے حُسین (ع) رسم نہیں کہ جو بھی چاہیں کریں، یہ سیرت رسول اکرم (ص) اور شیوہ ائمہ اہل بیت (ع) ہے، اس لئے اگر روحِ عزا کو بھول کر رسموں میں ہی اٹکا جائے تو روحِ عزا سے بھٹکنے کا موجب ہوگا۔

اسلام ٹائمز: رسوم بد اور بعض ایسی چیزیں جو روایات یا سیرت سے ثابت نہیں ہیں، ایسی چیزوں کو عزاداری میں داخل کیا گیا ہے، اس پر آپکا نظریہ جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا غلام علی گلزار:
دیکھئے بہت سی ایسی چیزیں ہیں، جو ہم نے خود سے اس مقدس عزاداری میں داخل کی ہوئی ہے۔ دن کے وقت جلوس کے دوران یا مقبرہ پر شمعیں جلا کر روشنی کرنے کی نذر، سورج کو چراغ دکھانے کی حماقت نہیں تو کیا ہے۔ حرام و فحش نغموں کی دھنوں کی تال پر نوحوں کا پڑھنا حرام نہیں تو کیا ہے۔ اگرچہ اس جانب توجہ کی اصلاحی روش ابھر چکی ہے، لیکن بعض حلقوں میں بے خبری کا عالم ہے۔ رات گئے تک امام باڑوں یا مجلس گاہ سے باہر دور تک سُنائی دینے کے لئے لاوڈ سپیکر کی آواز کو جاری رکھنے کو حرام قرار دیا جاچکا ہے، حتٰی کہ اگر غیر مسلم یا دیگر مشارب و مسالک کو بھی اس سے اذیت ہو، کیونکہ دوسرے کا آرام یا کسی واجبی امر کی جانب توجہ کو چھین لینے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ خود ہم مرثیہ خوانی کے لئے شب خیزی پر راضی ہیں، مناسب ہے کہ وہ بھی شب قدر، شب برائت، شب عاشورا وغیرہ کے سوا مناسب حد میں ہو، تاکہ نماز فجر متاثر نہ ہو دیگر واجبی امور کا خیال رہے، تاہم اپنی رضا کو دوسرے کے سر تھوپ دینا انسانی شرافت اور اخلاقِ اسلامی سے تصادم ہے۔ اس لئے امام باڑہ و جلسہ گاہ کے اندر ہی مناسب و حسب ضرورت آواز پر رکھنا کافی ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا ایسا نہیں ہو رہا ہے کہ اصلاح کے نام پر بھی روح عزاداری سے لوگوں کو دور رکھا جا رہا ہے، کیا عشق حسینی (ع) عین دین نہیں ہے۔؟
مولانا غلام علی گلزار:
جو شخص عزاداری امام حسین (ع) کو ’’عشق و طریقت‘‘ کا عنوان دے کر ’’دین و شریعت‘‘ سے الگ کرکے پیش کرے، منافق ہے۔ دین اسلام عین عشق و معرفت ہے، حتٰی کہ دین عین ’’سیاست ‘‘ ہے، البتہ جب عشق لادین ہو یا سیاست دین سے جدا ہو تو یہی فرعونیت، یزیدیت و چنگیزیت ہو جاتی ہے۔ عزاداری امام حسین (ع) سنتِ پیغبمر اکرم (ص) ہے، مجلس عزاء بپا کرنا اہل بیت اطہار (ع) کی سیرت کا حصہ رہ چکی ہے۔ یہ عبادت ہے بشرطیکہ اصول کو مطمحِ نظر رکھا جائے۔

اسلام ٹائمز: ان مراسم میں کون سے چیزیں غلط یا منفی رائج ہوئی ہیں، جنکی اصلاح ہونی چاہئے۔؟
مولانا غلام علی گلزار:
دیکھئے مجھے یاد آرہا ہے کہ کئی برس پہلے ایک صاحب نے محرم کی ساتوں شب ’’علمدار کربلا (ع)‘‘ کی مناسبت سے مجلس عزاء کا اہتمام کیا، لوگوں کو کئی پکوان کا کھانا کھلایا۔ ساتویں محرم کی صبح (جس دن کربلا میں خیام امام کے لئے یزیدی فوج نے پانی بند کر دیا تھا) اس صاحبِ نیاز شخص نے ذبح کی گئی بھیڑوں کی انتڑی، اُجڑی، پیٹ میں رکے پڑے گوبر کو پاس کی ندی میں بہا دیا، جس سے لوگ پانی پیتے تھے، اس کا یہ کام واضح طور پر دوسرے انسانوں کے قدرتی حق پر ڈاکہ ڈالنے کے برابر اور تشدد ہے۔ امام حسین (ع) عدمِ تشدد کے لئے شہید ہوئے ہیں۔ ایسی ہی چیزوں کی اصلاح لازمی ہے۔ اور سنئیے بہت برس پہلے ایک جلوس عزاء کے دوران ایک غیر مسلم حاملہ عورت کو ٹیکسی میں زنانہ ہسپتال لیا جا رہا تھا اور وہ جلوس میں روکے جانے کے دوران درد زِہ کی شدت میں مر گئی۔ بعض تنگ نظر افراد نے فوراً راستہ بنانے کو ضروری نہ سمجھا کہ جلوس کی بے حرمتی ہوگی۔ چاہے وہ کسی مذہب و ملت سے تعلق رکھتی ہو، کیا حضرت زہرا (س) اس بیچاری عورت کی موت کے بارے میں سر محشر سوال نہ اٹھائیں گی۔ غرض ایمبولنس، مریضوں، امتحان میں شریک ہونے والے طلاب کے لئے سائیڈ دینے کا خاص اہتمام ہونا چاہئے۔ خواتین و بچوں کے لئے دور افتادہ علاقوں تک شام ہونے سے پہلے پہنچ جانے کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ ہمارے ذہن میں ہونا چاہیئے کہ کربلائیت ان تقاضوں کو نظرانداز نہیں کرسکتی۔

اسلام ٹائمز: عزاداری کیخلاف بیرونی دشمن کی سازشیں اور ان سازشوں کا توڑ کرنے کیلئے مجالس کا اہتمام کتنا اہم ثابت ہوسکتا ہے۔؟
مولانا غلام علی گلزار:
محرم کے دوران بعض توہم پرست حلقے کڑے اور دھاگے لاکر تقسیم کرتے ہیں، جن کا اسلام اور عزاء امام حُسین (ع) سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ ملوکیت نواز، دشمن ولایت اور عصبیت زدہ حلقے کی طرف سے عزائے امام حُسین (ع) کے خلاف جو دشمنانہ کارروائی کی جاتی ہے، اس سے تو عزاداری رک نہیں سکتی، البتہ اصلاحاتی عمل وقتی طور متاثر ہوسکتا ہے۔ مجالس عزاء اور مرثیے کے متعدد فائدے ہیں۔ یہ مرثیے انسانی تہذیب کے خدوخال کو ضمیر اور فطرت میں گھول کو اُجاگر کرتے ہیں۔ یہ مجالس علم دین کے حصول کے شوق، ادبی اصطلاحات کے ذوق، عربی و فارسی زبان سے شغف کے محرکات اجاگر کرتے ہیں۔ ان میں محبت، اخوت، شفقت اور رشتہ نوازی کا پیغام ہے، ان سے غیرت و حمیت بیدار ہوتی ہے، آلام و ابتلاء کے مقابلے کی ہمت بڑھ جاتی ہے۔ امت کے مشترکہ مفاد پر متحد ہونے کا محرک سامنے آتا ہے۔ ظالم سے نفرت اور مظلوم سے حمایت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ یہ مجالس درس توحید، درس قرآن، درس حدیث اور درس اخلاق کی موثر کلاس ثابت ہوتی ہیں۔ ان مجالس کے اثر سے قتل ناحق، لوٹ کھسوٹ، دل آزاری اور سینہ زوری کے محرکات کی افزائش کا حوصلہ ٹوٹتا ہے۔ مجالس میں تبرک بٹتا ہے اور اونچ نیچ کا فرق مٹ جاتا ہے۔ یہ مجالس تبلیغ دین، شناخت اہدافِ اسلام اور کردار سازی کا بہترین ذریعہ ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا لائحہ عمل اپنانا چاہئے تاکہ ان مجالس سے اسلام ناب اور امریکی اسلام میں واضح فرق سامنے آسکے۔ کربلا ان چیزوں کی پہچان میں کیسے کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔؟
مولانا غلام علی گلزار:
دیکھئے تقریباً گذشتہ ڈیڑھ برس سے مذاکرات، مجالس، میڈیا کی سطح پر، مختلف حلقوں کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر سوالات ابھرتے رہے کہ اگر داعش صحیح اسلام کو پیش نہیں کرتی ہے، اگر شدت پسند طالبان اسلام سے کھلواڑ کرتی ہے تو پھر صحیح اسلام کو پہچاننے کا معیار کیا ہے۔ اس کا جواب واضح ہے، حدیث رسول (ص) ’’حُسین منی و انا من الحُسین‘‘ کے مصداق جو ’’اسلام‘‘ کربلا کی چھنی سے نکلے گا وہی اسلام کی صحیح تصویر ہے۔ شیعہ مسلم کو عزاداری امام حُسین (ع) کے مختلف طریقوں کی بحث سے بلند ہو کر گروہ بندیوں سے اوپر اٹھ کر، مناظرانہ مجلس خوانی کی عادت سے کترا کر، واقعہ کربلا کے پس منظر میں خلافت و ملوکیت کے معرکہ کو واضح اور روشن کرنے کی طرف متوجہ ہوکر مقصد شہادت کو پیش کرنا چاہئے۔ بنو امیہ کے ظالم حکمرانوں کے درباری مفتیوں اور مُلاوں کی مدد سے غنڈہ گردی اور دہشت کے ماحول میں صاحبان حِس اصحاب اور اہل نظر تابعین کو ایک مدت تک دم بخود کر دیا تھا، ناجائز تسلط کے لئے فساد کو ’’جہاد‘‘ کا نام دیکر زمانہ جاہلیت کے بہیمانہ طریقوں کو پھر رائج کر دیا تھا، جو آج داعش کرتی ہے۔ امام حسین (ع) نے اپنے قیام و تبلیغ سے کئی برس تک اسی جمود کو توڑنے کی کوشش کی، یہاں تک کہ ’’کربلا‘‘ نے اصل خلافت اور نام نہاد خلافت کے درمیان حد فاصل کھینچ دی۔
خبر کا کوڈ : 672413
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش