0
Thursday 28 Sep 2017 20:11
ایم ڈبلیو ایم کی کوششں جاری ہے کہ تمام ملی تنظیموں کو لاپتہ شیعہ افراد کے مسئلے کے حل کیلئے مشترکہ جدوجہد کیلئے فعال کرے

ملت تشیع کا اپنے ملکی اداروں پر بھرپور اعتماد ہے، انشاءاللہ لاپتہ شیعہ افراد کا مسئلہ عنقریب حل ہوگا، علی حسین نقوی

اگر لاپتہ شیعہ افراد کا مسئلہ حل نہیں ہوا تو منبر حسینی سے علمائے کرام کے اعلان کے مطابق ہم بھی اپنی گرفتاریاں دینگے
ملت تشیع کا اپنے ملکی اداروں پر بھرپور اعتماد ہے، انشاءاللہ لاپتہ شیعہ افراد کا مسئلہ عنقریب حل ہوگا، علی حسین نقوی
سید علی حسین نقوی اسوقت مجلس وحدت مسلمین سندھ کے سیکریٹری سیاسیات کی ذمہ داری انجام دے رہے ہیں۔ زمانہ طالب علمی میں وہ پشاور یونیورسٹی میں پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم پر طلباء سیاست میں فعال تھے اور وہ پی ایس ایف پشاور یونیورسٹی یونٹ کے جنرل سیکرٹری اور یونٹ صدر بھی رہے ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین کے قیام اور اسکی فعالیت سے متاثر ہوکر انہوں نے ایک کارکن کی حیثیت سے ایم ڈبلیو ایم میں شمولیت اختیار کی۔ گذشتہ عام انتخابات میں وہ کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقہ NA250 میں ایم ڈبلیو ایم کے امیدوار تھے۔ اُسوقت انکی سیاسی فعالیت کو دیکھتے ہوئے انکو ایم ڈبلیو ایم کراچی کے سیکرٹری سیاسیات کے عہدے پر فائز کیا گیا تھا، جبکہ آج کل وہ سندھ کے سیکرٹری سیاسیات کی حیثیت سے ذمہ داری انجام دے رہے ہیں، اس کیساتھ ساتھ وہ ایم ڈبلیو ایم سندھ کے عزاداری سیل کے بھی انچارج ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے محرم الحرام میں بلدیاتی، انتظامی و سکیورٹی مسائل اور لاپتہ شیعہ افراد کے حوالے سے سید علی حسین نقوی کیساتھ انکے دفتر میں ایک مختصر نشست کی، اس حوالے سے ان سے کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: کراچی میں محرم الحرام کے آغاز سے قبل بلدیاتی و انتظامی مسائل کے حل نہ ہونیکے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
سید علی حسین نقوی:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔
محرم الحرام سے قبل کراچی میں مون سون بارشوں کا سلسلہ جاری رہا، لیکن بارشوں سے قبل نکاسی آب سمیت جو دیگر انتظامات کئے جانے تھے، وہ نہیں کئے گئے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بلدیاتی الیکشن کے بعد شہری حکومت کو وسائل مہیا کرنا سندھ حکومت کی ذمہ داری تھی، لیکن سندھ حکومت اور شہری حکومت کے درمیان ایک ٹکراؤ کی کیفیت رہی، جس کے نتیجے میں بارشوں کے موقع پر نکاسی آب کے ناقص نظام کی وجہ سے صورتحال انتہائی آفت زدہ ہوگئی، جو صوبائی و شہری اداروں کی انتظامی نااہلی ہے، دونوں برابر کے قصور وار ہیں، دونوں ہی مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوئے۔ محرم الحرام کے آغاز سے قبل جتنی بھی انتظامی اجلاس و میٹنگز ہوئیں، چاہے وہ ڈپٹی کمشنر یا کمشنر کراچی کی سطح کی ہوں، یا سی سی پی او کراچی کی سطح پر ہوں یا اس کے علاوہ بھی جو اجلاس و میٹنگز ہوئیں، ان میں کراچی کے تمام اضلاع کے بلدیاتی، انتظامی، سکیورٹی مسائل کی نشاندہی انتہائی تفصیل کے ساتھ کرائی گئی تھی، ان میں جلوس ہائے عزا کے روٹس اور امام بارگاہوں و مساجد کے اطراف میں درپیش مسائل بھی شامل تھے۔ ان انتظامی اجلاسوں میں صوبائی و شہری انتظامیہ کی جانب سے یہ یقین دلایا جاتا رہا کہ محرم الحرام سے قبل تمام مسائل کو حل کر لیا جائے گا، لیکن مسائل حل نہیں کئے جا سکے۔

اسلام ٹائمز: محرم الحرام کے آغاز کے بعد کراچی میں بلدیاتی و انتظامی مسائل کس حد تک حل ہوسکے ہیں۔؟
سید علی حسین نقوی:
آج سات محرم الحرام ہوگئی ہے، آج بھی کراچی کے ضلع ملیر، شرقی، جنوبی میں کام نہ ہونے کے برابر ہے، ضلع کورنگی میں بالکل ہی کام نہیں ہوا ہے، اس صورتحال کے ذمہ دار جہاں حکومتی و بلدیاتی ادارے ہیں، وہیں اس کی ذمہ داری ملت کے ان چند افراد پر بھی عائد ہوتی ہے، جو ہمیشہ سب اچھا ہے کی رپورٹ دیتے ہیں۔ ملیر میں جلوس کے روٹس پر ترقیاتی کام نہیں ہوئے، جس پر وہاں کے شہریوں نے شدید احتجاجی مظاہرہ بھی کیا، جس کے نتیجے میں نیشنل ہائی وے بند ہوئی، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سندھ حکومت اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے میں مکمل ناکام ہوچکی ہے۔ یہاں میں یہ بات بھی واضح کر دوں کہ کراچی کے ضلع وسطی میں بہت ہی احسن انداز میں کام ہو رہے ہیں، جسے ہم سراہتے ہیں، ضلع وسطی کے ڈپٹی کمشنر اور ان کی ٹیم بہت اچھی کوآرڈینیشن کے ساتھ کام کر رہی ہے، جس احسن انداز اور جاں فشانی کے ساتھ ضلع وسطی میں کام ہو رہے ہیں، اگر اسے مثال بنا لیں تو کراچی کے سارے بلدیاتی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: بلدیاتی مسائل حل کرنے میں صوبائی و شہری حکومت کی ناکامی کیوجہ کیا سمجھتے ہیں۔؟
سید علی حسین نقوی:
دراصل ایک سیاسی جماعت جس کی کراچی شہر پر اجارہ داری رہی، بدقسمتی سے مختلف بلدیاتی یونین کونسلز میں، ضلعی کونسلز میں، کے ایم سی میں، ضلعی میونسپل کمیٹیز میں وہ حاوی ہیں، ان کی ہر صورت کوشش یہ ہے کہ کسی طرح سے بھی یہ بلدیاتی و انتظامی مسائل اس سطح پر حل نہ ہونے پائیں کہ جس کا کریڈٹ سندھ حکومت اور دیگر انتظامی مشینری کو جائے، اس سیاسی جماعت کی سازش اور سندھ حکومت اور شہری حکومت کی رسہ کشی ہی ان مسائل کا باعث بنی ہوئی ہے، یہ مسائل باآسانی حل ہوسکتے ہیں، لیکن سیاست کا شکار ہونے کے باعث حل نہیں ہو پا رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: سکیورٹی انتظامات کی صورتحال کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
سید علی حسین نقوی:
کراچی میں سکیورٹی انتظامات احسن ہیں، پولیس اور رینجرز دونوں احسن انداز میں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہو رہے ہیں، گذشتہ دنوں ہمیں رینجرز حکام کی جانب سے فون آیا کہ انچولی سوسائٹی کی سکیورٹی انتظامات بہتر نہیں ہیں، ہم رات کو ایک بجے انچولی سوسائٹی پہنچے تو ہمیں یہ دیکھ کر انتہائی خوشی ہوئی کہ وہاں رینجرز کے افسران ہم سے پہلے خود پہنچے ہوئے تھے، انہوں نے نشاندہی کی کہ یہاں یہاں سکیورٹی انتظامات نامناسب ہیں، اگلے دن رینجرز کے کمانڈنگ آفیسر خود آئے، انہوں نے انچولی سوسائٹی کی محلہ کمیٹی کو مشورے بھی دیئے اور سکیورٹی انتظامات کو بہتر بنانے میں مدد بھی فراہم کی، لٰہذا کراچی میں سکیورٹی کے حوالے سے ہم مطمئن ہیں کہ رینجرز اور پولیس اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں احسن طور پر انجام دے رہے ہیں، یہاں میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ جہاں سکیورٹی کے حوالے سے قانون نافذ کرنے والے ذمہ دار ہیں، وہیں ہمیں بھی ہوشیار اور مستعد رہنے کی ضرورت ہے، زیادہ سے زیادہ تعداد میں ہمارے رضاکاروں کو ذمہ داریاں سنبھالنی چاہیئے، ان اداروں کے ساتھ بھرپور تعاون کرتے ہوئے ملک دشمن عناصر کے ناپاک ارادوں کو ناکام بنانے کیلئے اپنا کردار مزید بہتر انداز میں ادا کریں۔

اسلام ٹائمز: لاپتہ شیعہ افراد کے حوالے سے ملت تشیع کا مؤقف کیا ہے۔؟
سید علی حسین نقوی:
ہماری ملت تشیع کا ایک اور واضح مؤقف ہے کہ ہم سے زیادہ کوئی بھی پاکستان میں محب وطن نہیں ہے، ہم سے زیادہ کسی نے مملکت خداداد پاکستان کیلئے قربانیاں نہیں دی ہیں، قیام و استحکام پاکستان میں ہمارا لہو شامل ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم کسی بھی صورت وطن عزیز پاکستان کو داخلی و خارجی سازشوں کا شکار نہیں ہونے دینا چاہتے، ملت تشیع کا مطالبہ ہے کہ اگر لاپتہ شیعہ افراد نے خدانخواستہ کوئی قانون شکنی کی ہے، تو پاکستان کے آئین و قانون کے مطابق انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے، اگر یہ مجرم ہیں تو ان کے جرم کا پتہ چلنا چاہیئے، پھر انہیں سزا دینا عدلیہ کا کام ہے، اداروں کا کام ملزم کو پکڑ کر عدالتوں میں پہچانا ہے اور عدالت میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کے اوپر صرف الزام تھا یا وہ مجرم تھے، ہمارا موقف تو آئین و قانون کی بالادستی چاہتا ہے، جس کا تقاضہ ہے کہ ان افراد کو ایک لمحہ کی تاخیر کئے بغیر عدالتوں میں پیش کیا جائے، یہ ملزم ہیں یا مجرم، اس کا فیصلہ عدلیہ کو کرنے دینا چاہیئے، نہ کہ لاپتہ شیعہ افراد کے بنیادی انسانی حقوق کو سلب کیا جائے، اس سے ہمارے اداروں کے اوپر انگلیاں اٹھیں گی، ہم اپنے اداروں سے محبت کرتے ہیں، یہ ادارے ہمارے ہیں، ہم نہیں چاہتے کہ ان کی کارکردگی پر کوئی سوال اٹھے، ہم نہیں چاہتے کہ لوگوں کا اعتماد اداروں پر سے اٹھ جائے، ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ادارے ملک کی اندرونی و بیرونی سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ داری پر توجہ دیں۔ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ کسی لاپتہ شیعہ جوان کی بہن اپنے بھائی کو ایدھی اور چھیپا کے سردخانوں میں تلاش کر رہی ہے، یہ ایک المیہ ہے، لاپتہ شیعہ افراد کی والدین، بہنیں، اہلیہ، بچوں کو پتہ ہی نہیں ہے کہ ان کے پیارے کس حال میں ہیں، زندہ ہیں یا مر گئے ہیں یا مار دیئے گئے ہیں، خدارا ان خانوادوں کے کرب و دکھ کا احساس کیا جائے، کم از کم ان کے خانوادوں کو یہ تو بتایا جائے کہ ان کے پیاروں کو کس جرم میں کس حال میں کہاں رکھا ہوا ہے، ہم تو ایک بنیادی انسانی حقوق کا سوال لیکر اٹھے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: لاپتہ شیعہ افراد کا معاملہ ملت تشیع کا اجتماعی معاملہ ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ اس اجتماعی معاملے میں شیعہ تنظیموں، اداروں اور شخصیات کی مشترکہ کوششیں ہوتی نظر نہیں آ رہی ہیں۔؟
سید علی حسین نقوی:
مجلس وحدت مسلمین کی اعلٰی قیادت سے لیکر ادنٰی کارکن تک تمام افراد لاپتہ شیعہ افراد کے معاملے میں ہم آواز ہوکر مکمل ہم آہنگی کے ساتھ جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کئی جگہ پر ہماری کئی ملی تنظیمیں بیٹھ کر یہ کہتی ہیں کہ ہمارا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے اور ہم تو صرف عزاداری کیلئے کام کرتے ہیں، میں ان ملی تنظیموں سے یہ سوال کرتا ہوں کہ آپ سیاست کہتے کسے ہیں، کیا اس ملت کے بنیادی مسائل حل کرنا، آواز بلند کرنا، اسے آپ سیاست کہتے ہیں، میں ان تمام ملی تنظیموں سے کہتا ہوں کہ علوی سیاست کو اپنا وطیرہ بنایئے اور ملت تشیع کے مسائل کو حل کرنے کیلئے اپنی آواز بلند کریں، انتظامی اجلاسوں میں بیٹھ کر ایم ڈبلیو ایم کیلئے مسائل کھڑے کرنے کے بجائے مشترکہ جدوجہد کے ذریعے ملت کو مسائل سے چھٹکارہ دلائیں، اس وقت انتہائی ضرورت ہے کہ ملت تشیع ایک مؤقف کے تحت، ایک بینر کے تحت ہم آواز ہوکر کھڑی ہو، تاکہ لاپتہ شیعہ افراد سمیت ملت کے تمام مسائل حل کئے جا سکیں، میں واضح الفاظ میں کہنا چاہتا ہوں کہ آج ملت تشیع جن برے حالات کا سامنا کر رہی ہے، اس میں نام نہاد لیڈران کا بہت بڑا ہاتھ ہے، جنکی مجرمانہ خاموشی، ذاتی مفادات نے ملت کو ان برے حالات سے دوچار کر دیا ہے کہ آج ہمیں اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل کیلئے احتجاجی مظاہرے کرنے پڑتے ہیں، پھر کہیں جاکر مشکل سے وہ مسائل حل ہوتے ہیں، میں اس کا اصل ذمہ دار ان اکابرین کو قرار دیتا ہوں، جو پچھلے تیس سال تک خاموش رہے اور اپنے ذاتی مفادات کیلئے ملت تشیع کو اس آگ میں جھونک دیا۔

اسلام ٹائمز: لاپتہ شیعہ افراد کے معاملے میں ملی تنظیموں کی مشترکہ کوششوں کیلئے ایم ڈبلیو ایم کیا اقدامات اٹھا رہی ہے۔؟
سید علی حسین نقوی:
ہم شروع سے جہاں اتحاد بین المسلمین کیلئے کوشاں ہیں، وہیں ہم اتحاد بین المومنین کیلئے بھی کوشاں ہیں، چاہے ہمارا تعاون شیعہ علماء کونسل کے ساتھ ہو، چاہے آل پاکستان شیعہ ایکشن کمیٹی کے ساتھ ہو، علامہ عباس کمیلی کی جعفریہ الائنس کے ساتھ ہو، ہم تمام ملی مسائل میں ان تمام ملی تنظیموں کو ساتھ لیکر چلتے ہیں اور ملی مسائل کے حل کیلئے آواز بلند کرتے ہیں، بدقسمتی سے لاپتہ شیعہ افراد کے حوالے سے اس وقت یا تو مجلس وحدت مسلمین نے آواز بلند کی ہے یا شیعہ علماء کونسل سے تعلق رکھنے والے علامہ شہنشاہ نقوی صاحب نے، ایم ڈبلیو ایم کی مرکزی قیادت سے لیکر کارکن تک سب لاپتہ شیعہ افراد کیلئے میدان میں حاضر ہیں، شیعہ علماء کونسل کی جانب سے صرف ایک آواز علامہ شہنشاہ نقوی صاحب کی صورت میں بلند ہوئی ہے، ہماری بھرپور کوششیں جاری ہیں کہ ملت کی دیگر تمام تنظیموں، اداروں، شخصیات کو بھی لاپتہ شیعہ افراد کے معاملے کے حل کیلئے مشترکہ جدوجہد کیلئے فعال کریں، ان شاء اللہ ملت کو اچھی خبر ملے گی۔

اسلام ٹائمز: لاپتہ شیعہ افراد کے مسئلے کے حل کیلئے کتنی امید نظر آتی ہے۔؟
سید علی حسین نقوی:
لاپتہ شیعہ افراد کی بازیابی کیلئے ہم اپنی بھرپور کوششیں کر رہے ہیں، مختلف سطح پر ہم نے اپنا مؤقف پہنچایا ہے، ہمیں قوی امید ہے، ہم مایوس نہیں ہیں، ہم ناامید نہیں ہیں، ملت تشیع کا اپنے ملکی اداروں پر بھرپور اعتماد ہے، ہمیں قوی امید ہے کہ ہماری آواز سنی جائے گی اور ادارے ہمارے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائیں گے، ہمارے ملکی ادارے ہمارے مطالبے پر مثبت ردعمل دیں گے، ہمارے اداروں نے ہمیں کبھی مایوس نہیں کیا ہے، پہلے بھی اداروں ہمیں مثبت ردعمل دیا ہے، ان شاء اللہ لاپتہ شیعہ افراد کا معاملہ عنقریب حل ہوگا، جس طرح علمائے کرام نے منبروں سے آواز حق بلند کی ہے، انتہائی خوش آئند ہے۔

اسلام ٹائمز: مسئلہ حل نہ ہونے کیصورت میں کیا لائحہ عمل ہوسکتا ہے۔؟
سید علی حسین نقوی:
ہمارے لئے بہت مشکل ہو رہا ہے کہ جب ہماری مظلوم مائیں، بہنیں، بیٹیاں، بزرگ ہمارے گھروں میں آتے ہیں، مجالس میں آتے ہیں، ہم سے مخاطب ہوتے ہیں، ہم سے یہ پوچھتے ہیں کہ ہمارا جرم بتاؤ، تو ہمارے پاس جواب نہیں ہوتا، جب ہمارے پاس جواب نہیں ہے، جبکہ ہم اس ملک کے آئین اور قانون کے پابند محب وطن شہری ہیں، آئین و قانون کی پاسداری چاہتے ہیں، تو آپ ہمیں بتائیں کہ ہم اپنی ملت کو کیا کہیں کہ آپ جائیں اور سڑکوں شاہراؤں پر جلاؤ، گھیراؤ اور احتجاج کریں، نہیں، ہمارے پاس فقط ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ ہم یہ کہیں کہ آپ اگر کچھ نہیں کرسکتے، تو ادارے کم از کم یہ تو کرسکتے ہیں کہ ہمیں بھی گرفتار کر لیں، کیونکہ نہ تو ہم اپنے لاپتہ شیعہ افراد کو ان کے حال پر چھوڑ سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے مظلوم خانوادوں کو تنہا چھوڑ سکتے ہیں، ہم ہر صورت ان کے ساتھ کھڑے ہیں، ان کا دکھ درد ہمارا دکھ درد ہے، مجھے قوی امید ہے کہ ہمیں اپنی گرفتاریاں دینے کی نوبت ہی نہیں آئے گی اور ہمارے بے جرم و بے گناہ لاپتہ شیعہ افراد بازیاب ہو جائیں گے، لیکن اگر یہ مسئلہ حل نہیں ہوا تو جیسا کہ منبر حسینی سے علمائے کرام نے یہ اعلان کیا ہے کہ ہمیں بھی گرفتار کر لیا جائے، تو ہم بھی اپنی گرفتاریاں دیں گے۔
خبر کا کوڈ : 672775
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش