0
Wednesday 11 Oct 2017 22:26
ایران ہمارا ہمسایہ ملک ہے، جس نے ہمیشہ ہر مشکل گھڑی میں ہمارا ساتھ دیا ہے

ملک میں قیام امن اور دنیا کے اعتماد کو بحال کرنے کیلئے جہادی گروہوں سے ملک کو پاک کرنا ہوگا، مفتی گلزار نعیمی

انڈیا کا افغانستان کیساتھ کوئی رشتہ نہیں، نہ ہی اسکا باڈر لگتا ہے، بھارت تو وہاں بیٹھ کر پاکستان کیلئے مسائل پیدا کر رہا ہے
ملک میں قیام امن اور دنیا کے اعتماد کو بحال کرنے کیلئے جہادی گروہوں سے ملک کو پاک کرنا ہوگا، مفتی گلزار نعیمی
شیخ الحدیث مفتی گلزار احمد نعیمی پنجاب کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بارہ سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا۔ وہ مفتی اعظم پاکستان مفتی حسن نعیمی اور ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید کے شاگر خاص ہیں۔ انہوں نے جامع نعیمیہ لاہور میں تعلیم کے دوران درس نظامی مکمل کیا، علاوہ ازیں مفتی صاحب نے پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز بھی کیا۔ مفتی گلزار احمد نعیمی نے شہید سرفراز احمد نعیمی کے حکم پر 2002ء میں اسلام آباد میں جامع نعیمیہ کی بنیاد رکھی۔ اب تک وہ ہزاروں طلباء کو قرآن و سنت کی تعلیم سے آراستہ کرچکے ہیں۔ مفتی صاحب اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے اپنے نظریات کیلئے کافی شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے متعدد ممالک کے علمی دورہ جات کئے، جن میں ایران اور اردن قابل ذکر ہیں۔ مفتی صاحب ملک کے معروف ٹی وی چینلز پر کئی ایک علمی مذاکروں میں شرکت کرچکے ہیں۔ انہوں نے جماعت اہل حرم بھی بنائی ہے۔ اسلام ٹائمز نے مفتی گلزار نعیمی سے ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: الیکشن ترمیمی بل سے متعلق حکومت نے موقف اپنایا ہے کہ یہ کلیریکل غلطی سے ایسا ہوا ہے، کیا آپ بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں۔؟
مفتی گلزار نعمی:
دیکھیں کہ ختم نبوت والا قانون آئین کا حصہ بن چکا، قادیانیوں اور مرزائیوں کو مین سٹریم میں سے نکال دیا گیا ہے، جس دن سے یہ قانون پاس ہوا، اس دن سے ہی یہ لوگ اندرونی اور بیرونی ذارئع کا بھرپور استعمال کر رہے ہیں اور جب بھی کوئی ایسی کوشش کی گئی تو اہل مذہب اور اہل کتاب نے اس معاملے کا بڑی سختی سے مقابلہ کیا ہے۔ الحمد اللہ ایسی کسی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا گیا۔ اس حکومت کے ساتھ بہت بڑی بدبختیاں لگی ہوئی ہیں، خاص طور پر پنجاب کے اندر دورد و سلام اور اذان پر پابندی اسی حکومت نے لگائی، نصاب تعلیم تک تبدیل کر دیا گیا، عزت و توقیر والی ہستیوں کو نصاب تعلیم سے نکال دیا گیا ہے۔ پیارے نبی حضرت محمدﷺ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ، جناب فاطمہ سلام اللہ، حضرت عائشہ اور اصحاب رسول جیسی ہستیوں کو نصاب تعلیم سے نکال کر انگریزوں کو ڈال دیا گیا ہے۔ قانون میں ترمیم لاکر حکومت نے اپنے آپ کو بےنقاب کر دیا ہے، اس بدبخت حکومت کے دور میں ایک ایسے شخص کو پھانسی دی گئی، جس پر گستاخ رسول کو قتل کرنے کا الزام تھا، غلط تھا یا درست یہ بحث الگ ہے۔ ختم نبوت کے معاملے پر یہ کلیریکل غلطی نہیں تھی، یہ جان بوجھ کر اور منصوبہ بندی کے تحت کرایا گیا ہے۔ اس کے پچھے حکومتی مجبوریاں تھیں، یہ امریکہ اور مغربی ممالک سے فنڈز لیتے ہیں، ان ممالک کو باور کراتے ہیں کہ ہم قادیانیوں کو ریلکس کر دیں گے۔ قائد اعظم یونیورسٹی کے ڈاکٹر ریاض الدین نے فزکس ریسرچ سینٹر کو دن رات محنت کرکے بنایا، اب اس کا نام تبدیل کرکے عبدالسلام سینٹر رکھ دیا گیا ہے، یہ سب کچھ اپنے مغربی آقاوں کی خاطر کیا گیا۔ یہ اللہ کا کرم ہے کہ اس نے اپنے نبی کی عصمت کو محفوظ رکھا ہوا ہے۔ بات صاف ہے کہ ان لوگوں نے ختم نبوت کے قانون میں تبدیلی کے لئے ایک پورا مسودہ تیار کیا ہوا تھا، جو پارلیمنٹ میں لایا گیا اور مجھے نہیں یقین کہ کسی جماعت کے بندے کو پتہ ہو۔ اگر پتہ تھا اور خاموشی اختیار کی تو یہ اس کی منافقت تھی۔ شیخ رشید کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے آواز اٹھائی۔

اسلام ٹائمز۔ نواز شریف نے کہا ہے کہ 24 گھنٹے میں کمیٹی بنائی جائے اور ذمہ داروں کا تعین کیا جائے، کیا لگتا ہے کہ اصل کردار سامنے آجائیں گے۔؟
مفتی گلزار نعمی:
میں سمجھتا ہوں کہ اس کمیٹی کی کوئی حیثیت نہیں، کبھی بھی کسی کو سزا نہیں ہوگی، نہ ہی اصل کردار سامنے آئیں گے، یہ سب کچھ خود کرانے والے ہیں، قابل افسوس ہیں وہ لوگ جو مذہبی لبادے میں آتے ہیں، اپنی شناخت مذہبی کراتے ہیں، لیکن وہ خاموش رہے، جتنا اسلام پر ان لوگوں نے ڈاکہ ڈالا ہے، شاید ہی کسی اور نے ڈالا ہو۔

اسلام ٹائمز: جو جماعتیں مذہب کے نام پر بنی ہوئی ہیں، انہوں نے بھی تو اس پر کوئی آواز نہیں اٹھائی، اسکی کیا وجہ ہے۔؟
مفتی گلزار نعمی:
دیکھیں جی، کوئی مذہبی جماعت نہیں ہے، ہہ سب مذہب کے نام پر ووٹ لیتے ہیں اور سیاست کرتے ہیں، ووٹ حاصل کرنے کے لئے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں، بس اپنی جماعتوں کے نام مذہبی رکھے ہوئے ہیں، باقی مذہب سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں، اس جمہوریت میں کہاں گنجایش ہے کہ سرمایہ دار، تاجر اور بڑے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے مذہبی لوگ ایک ہی چھتری تلے کام کرسکیں۔ یہ اُن لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں، جو صبح سے شام اور شام سے صبح تک اسلام کے خلاف کام کرتے ہیں، اس پارلیمنٹ میں مزاروں کے سجادہ نشین بیٹھے ہوئے ہیں، انہوں نے کب اسلام کی بات ہے۔؟

اسلام ٹائمز: رینجرز کے معاملے پر بہت شور ڈالا گیا ہے، کیا سمجھتے ہیں کہ پانامہ فیصلے کیوجہ سے اتنا سخت ایکشن ہے یا کہیں یہ پورا نظام تو نہیں لپیٹنا چاہتے۔؟
مفتی گلزار نعمی:
جب عدلت نے ایک آرڈر جاری کر دیا ہے کہ آئندہ عدالت کو سیاسی اکھاڑا نہ بنایا جائے تو یہ وزراء اور سیاسی رہنما عدالت کیوں جاتے ہیں۔؟ کیا یہ عدالت کو بھی سیاسی اکھاڑا بنانا چاہتے ہیں اور پریشر ڈالنا چاہتے ہیں، جتھوں کی شکل میں جانے کا مقصد ہی یہی ہے۔ غیر ضروری افراد کو عدالت نہیں جانا چاہیئے، رینجر نے جو بھی کیا درست کیا ہے، آج جتنے بھی مسئلے ہیں، ان لوگوں کی وجہ سے ہیں، پولیس اور رینجرز حفاظت کیلئے مامور تھی۔ لندن میں ان لوگوں کو کوئی پوچھتا تک نہیں، آئے روز سوشل میڈیا پر تصاویر سامنے آ رہی ہیں، لیکن یہاں یہ وی وی آئی پی پروٹوکول مانگتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ نے کہا کہ جب یہ عدالت میں جاتے ہیں تو جھتے کی شکل میں جاتے ہیں، جسکا مقصد عدالت کو پریشر میں لانا ہے، کیا آپ نہیں سمجھتے کہ یہی کام خود مذہبی بھی کرتے ہیں، جب بھی کہیں کوئی توہین رسالت کا کیس رجسٹرڈ ہوتا ہے تو مذہبیوں کی بڑی تعداد عدالت کا گھیراو کر لیتی ہے یا پھر پریشر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے، کیا یہ کام درست ہے۔؟
مفتی گلزار نعمی:
میں سمجھتا ہوں ایک جج کو اللہ اور رسول ﷺ کا ڈر ہونا چاہیے، جج کو نہ تو اہل مذہب کا اور نہ ہی اہل سیاست کا پریشر لینا چاہیے، میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ جب لوگ جج کی نفسیات کو دیکھ کو پریشر میں لا کر اپنے فیصلے کرائیں گے تو یہ ناانصافی ہوگی، معاملہ چاہیے سیاسی ہو یا مذہبی، جج کو کسی قسم کا پریشر نہیں لینا چاہیے، قانون اور آئین کے تحت فیصلے ہونے چاہیئیں تو یہ پریشر خود بخود ہٹ جائے گا۔ جج خود نہ بولے بلکہ اس کے فیصلے بولیں۔ جب ایسا ہوگا، یہ معاملہ بھی حل ہو جائے گا، پھر کوئی پریشر نہیں ڈالے گا۔

اسلام ٹائمز: حامد کرزائی نے کہا ہے کہ امریکہ داعش کو ہیلی کاپٹرز کے ذریعے افغانستان لا رہا ہے اور اسلحہ دے رہا ہے۔ بطور ہمسایہ ہمیں بھی خطرات لاحق ہونگے۔؟
مفتی گلزار نعمی:
میرے خیال میں افواج پاکستان بہت اقدامات کر رہی ہیں، آرمی چیف کا دورہ افغانستان کرنا اور ساتھ میں ڈی جی آئی ایس آئی کو بھی لیکر جانے کا مقصد یہی ہے کہ وہ افغانستان کو اعتماد میں لینا چاہتے ہیں، اسی طرح دورہ ایران کی بات کرنا مثبت بات ہے، ایران ہمارا ہمسایہ ملک ہے، جس نے ہمیشہ ہر مشکل گھڑی میں ہمارا ساتھ دیا ہے، ہماری خواہش رہی ہے کہ تعلقات اچھے ہوں اور وہ مغرب کے پریشر میں نہیں ہے، ایران ایک آزاد ملک ہے، اس وجہ سے اس کے ساتھ اچھے تعلقات ہونے چاہیے، اسٹیبلشمنٹ کا یہ اچھا اقدام ہے کہ ایران کے ساتھ ہمیں افغانستان کو بھی اعتماد میں لینا ہوگا، افغانستان کو بھی ہوش کے ناخن لینا ہوں گے، اس کو بھی امریکہ سے دوری اختیار کرنا ہوگی، اسی طرح بھارت سے بھی اسے اپنے آپ کو دور کرنا ہوگا۔ انڈیا کا افغانستان کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں، نہ ہی اس کا باڈر لگتا ہے، بھارت تو وہاں بیٹھ کر پاکستان کے لئے مسائل پیدا کر رہا ہے، اس بات کو افغان قیادت کو سمجھنا ہوگا۔ امریکہ بھارت کے ذریعہ ایران اور پاکستان کو ڈسٹرب رکھنا چاہتا ہے۔ داعش کو یہ لوگ خود لاتے ہیں، پھر یہ جنگ کا بہانہ بناتے ہیں۔ امریکی ابتک جتنے بھی اسلامی ممالک میں گئے ہیں، اسی طرح گئے ہیں، کہیں القاعدہ تو کہیں داعش کے نام پر ان ممالک میں گھسے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا جہاد کے فرنچائزز کو بند نہیں کر دینا چاہیئے، آرمی کے ہوتے ہوئے انکی کیا ضرورت ہے۔؟
مفتی گلزار نعمی:
یہ بہت بڑا سوال ہے، اس میں میرا نظریہ یہی ہے کہ پاکستان اس وقت جس صورت حال سے دوچار ہے، اس کیلئے ضروری ہے کہ اپنے گھر کو صاف کیا جائے۔ ہمارا کسی ملک کے ساتھ جہاد بنتا ہی نہیں، حافظ سعید ہو یا حقانی نیٹ ورک یا طالبان، گڈ بیڈ کی تمیز کئے بغیر ہی ان سب سے جان چھڑوائی جائے، اپنے صحن کو صاف کر دیں اور لوگوں کو بتائیں کہ آو دیکھو ہمارا ملک پاک صاف ہے، پاک فوج نے یورپی یونین کے نمائندوں کو شمالی وزیرستان کا وزٹ کرایا ہے اور کہا ہے کہ آو دیکھو یہاں کہیں کوئی طالبان نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 675697
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش