0
Tuesday 17 Oct 2017 12:07
دشمنوں سے نبرد آزما ہونے کا وقت آگیا ہے

تکفیری گروہوں سے کافی حد تک اسلام کی شبیہ متاثر بھی ہوئی ہے، مولانا سید مجاہد آغا

ضروری ہے کہ ہم آپسی انتشار کو چھوڑ کر دشمن کی پہچان کرلیں
تکفیری گروہوں سے کافی حد تک اسلام کی شبیہ متاثر بھی ہوئی ہے، مولانا سید مجاہد آغا
مولانا سید مجاہد حسین آغا کا تعلق بھارتی ریاست حیدر آباد دکن سے ہے، ایران سے واپسی کے بعد روایت سے ہٹ کر انہوں نے فلاحی، سماجی و عوامی خدمت کے لئے پچھلے اٹھارہ سالوں سے حیدر آباد میں ایک منفرد کردار ادا کیا اور 2003ء میں آپ نے جعفریہ ہسپتال کی بنیاد رکھی، اسکے علاوہ چند ایک برس قبل انہوں نے Olive Hospital کی بنیاد رکھی، جہاں ہر قسم کی سرجریز انجام پاتی ہیں جو ایک کارپوریٹ ادارہ ہے، انہوں نے کبھی بھی دین کو ذریعہ معاش نہیں بنایا، ہمیشہ یہ چاہا کہ قوم کی رشد و ترقی ہو، مولانا سید مجاہد آغا قوم کی تعلیم و تربیت کے لئے ایک علمی مرکز کا قیام بھی عمل میں لائے، غرضیکہ حیدر آباد میں اہل ایمان کی خدمت میں وہ فعال ترین رول ادا کر رہے ہیں، ایک ایسا سرمایہ قوم کی خاطر انہوں نے وقف کر رکھا ہے کہ جس کی مثال بھارت کی تاریخ میں نہیں ملتی، اسلام ٹائمز کے نمائندے نے مولانا سید مجاہد سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: مسلمانوں کے حوالے سے صیہونی میڈیا کے منفی پروپیگنڈے کے بارے میں جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا سید مجاہد آغا:
صہیونی میڈیا یا عالمی میڈیا کی جانب سے تمام ممالک میں یہ شیعہ سنی تضاد، گروہی اختلافات کو ہوا دینا، اسلئے ہے کیونکہ وہ مسلمانوں کو کبھی بھی ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں دیکھنا چاہتے، ان کو معلوم ہے کہ اگر مسلمان متحد ہوجاتے ہیں تو دنیا پر صہیونی اجارہ داری ختم ہوجائے گی، اور انکی توسیع پسندانہ عزائم خاک میں مل جائیں گے، اسلئے دشمن مسلمانوں کو آپس میں مختلف بہانوں سے لڑوا رہا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ عالم اسلام میں تمام حق پر مبنی تحاریک انقلاب اسلامی ایران کی ہی کامیابی ہے، اگر دنیائے انسانیت نے انقلاب اسلامی ایران میں اچھائیاں دیکھیں اور اپنی مملکتوں میں ان اچھائیوں کو نافذ کرنا باعث نجات، باعث ترقی و پیش رفت سمجھا تو اس سوچ کو تعصب کی نگاہوں سے دیکھنا قابل افسوس ہے۔

اسلام ٹائمز: تمام اسلام دشمن طاقتیں اتحاد اسلامی کو ہی کیوں نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ وحدت اسلامی کا کیا مقام و منزلت ہے اور مسلمانوں کے اس حوالے سے کیا اقدام کرنے چاہئے۔؟
مولانا سید مجاہد آغا:
اسلام کا غلبہ تمام دنیا میں ہونا باقی ہے، اس لئے شیعہ و سنی تضاد و منافرت پھیلانا خود دشمنوں کی شرمندگی کا باعث بنے گا۔ ایک دن ضرور ثابت ہوگا کی شیعہ و سنی تضاد غیر اسلامی اور غیر شعوری ہے، ہمیں دیکھنا ہوگا کہ پوری دنیا کے ممالک اپنے مسائل کو کیا لڑ جھگڑ کے حل کر رہے ہیں یا مل بیٹھ کر، کیوں صرف مسلم ممالک میں ہی خون ریزی جاری ہے، کیوں مسلمانوں کا خون اتنا ارزاں کر رکھا ہے، ہمارا دشمن نہ شیعہ کا دوست ہے نہ سنی کا، دشمن کے نشانے پر تمام امت مسلمہ ہے، ہمیں متحد ہوکر دشمن کی سازشوں کا توڑ کرنا ہوگا، خود کو دشمن کے حربوں سے محفوظ رکھنا ہوگا اور یہ تصور اپنے اذہان میں رکھنا ہی ہوگا کہ ہم نہ شیعہ ہیں نہ سنی ہیں بلکہ مسلمان ہیں، جن کا کام اسلام کو پوری دنیا میں متعارف کرانا ہے، اسلام کا غلبہ پوری دنیا میں ہوگا، تبھی انسانیت پرسکون اور امن و امان کی زندگی بسر کرسکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: آج اگر مسلمانوں کو سب سے زیادہ متحد ہونے کی ضرورت ہے کیوں اسلام کے نام پر ہی دہشتگرد تنظیمیں آئے دن وجود میں لائی جا رہی ہیں، جو اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے درپے ہیں۔؟
مولانا سید مجاہد آغا:
دنیا کی تاریخ میں کوئی بھی دور آپ کو ایسا نہیں ملے گا جب حق اور باطل کے درمیان معرکہ نہ رہا ہو، جب اچھی فکر کے مدمقابل بری و منفی فکر نہ رہی ہو، برائی اور برے لوگوں کی تعداد تب زیادہ ہوجاتی ہے جب اچھے لوگ یا خانہ نشین یا خاموش ہوجائیں، جب لوگ اچھائی کی طرف مائل نہ ہوجائیں، سماج میں اچھے لوگوں کی کمی ہرگز نہیں ہے لیکن وہ خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں اور برائی کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے، برے لوگوں کے خلاف لب کشائی نہیں کرتے، ہمارے مسلم سماج کی مثال ایک جسم جیسی ہے، اگر ہمارے جسم میں قوت مدافعت کم یا ختم ہوجائے تو معمولی سے معمولی بیماری ہماری جان لے سکتی ہے اور اگر ہم اپنے جسم کی قوت مدافعت بڑھاتے ہیں تو جراثیم کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں، ہمارا جسم اسے کنٹرول کرسکتا ہے، یہ قوت تب حاصل ہوگی جب ہم اسلام کو دین شناس افراد سے لیں، ہمیں اسلام کو اس کی اصل صورت میں دیکھنا ہوگا اور جب ہم ایسا کرتے ہیں تو وہ دین انسانیت ساز دین ہوگا، نہ کہ انسانیت سوز، آج ہمارے انتشار کا فائدہ طاغوتی و شیطانی طاقتیں اٹھا رہی ہیں، ہمیں اس دلدل سے نکلنے کے لئے رسول اللہ (ص) کی سنت کی پیروی کرنی ہوگی، آپ (ص) کی تعلمیات کو سمجھنا ہوگا، اگر ہمارے علماء و دانشور حضرات قوم کو متحد کرنے کی جانب سعی کرتے ہیں تو اسلام اور اس کے ماننے والوں کو دنیا بھر میں عزت اور احترام کی نظر سے دیکھا جائے گا، آج کے دور میں علماء کرام کی سب سے زیادہ ذمہ داری ہے کہ وہ اسلامی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے لوگوں کو وہ راستہ دکھائیں جس پر چل کر انسانیت کامران و کامیاب ہوجائے۔

اسلام ٹائمز: اسلام کے نام پر تکفیری دہشتگردوں کے سامنے آںے کے حوالے سے آپ کی تشویش جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا سید مجاہد آغا:
القاعدہ، طالبان، داعش اور دیگر دہشت گرد گروہ امریکہ کی بنائی ہوئی جماعتیں ہیں، القاعدہ بنائی تاکہ مسلمانوں کو آگے کرکے روسی فوج کو افغانستان سے نکال سکے، داعش کو اسلام بدنام کرنے کے لئے بنایا گیا، تاکہ دنیا اسلام کی جانب راغب نہ ہوسکے، ان تمام گروہوں کا واحد مقصد اسلام اور مسلمانوں کو بدںام و تباہ کرنا ہے۔ ایسے تکفیری گروہوں سے کافی حد تک اسلام کی شبیہ متاثر بھی ہوئی ہے۔ ایسے حالات میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم کسی بھی حالت میں ان عناصر کے بہکاوے میں نہ آجائیں اور دشمن شناس ہوجائیں، ہر حال میں اسلام کے خلاف کی جانے والی سازشوں کا نشانہ نہ بنیں، دشمنوں سے نبرد آزما ہونے کا وقت آگیا ہے، دشمن کو کسی بھی حالت میں موقعہ نہیں دینا ہوگا کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کی بیخ کنی کریں اور یہ ذمہ داری کسی ایک فرد یا کسی ایک تنظیم کی نہیں ہے بلکہ پوری ملت مسلمہ کی ہے۔

اسلام ٹائمز: صیہونی عناصر کی اسلامی ممالک میں فعالیت یا موجودگی کے بارے میں آپ کا تجزیہ جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا سید مجاہد آغا:
صہیونی عناصر پوری دنیا میں فعال ہیں، کوئی بھی ملک اسلامی ہو یا غیر اسلامی ان کی فعالیت سے محفوظ نہیں، خود بھارت ان کے چنگل میں پھنستا جا رہا ہے، ہمیں اس حربہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے، مسلمانان جہان کے مسائل میں یہودیوں کی بالادستی اور ان کی بے جا مداخلت سے عالم اسلام لاپرواہ ہے، صرف اسلامی جمہوریہ ایران ہی ان شعبوں پر متوجہ ہے اور اسی لئے اسرائیل ایران سے خوفزدہ ہے، جو پڑوسی مسلم ممالک اس نکتہ کو سمجھے بغیر اپنی پالیسی اخذ کرتے ہیں ان کو اس پر نظرثانی کرنی چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: مسلمانوں میں دن بدن انتشار اور آپسی تضاد بڑھتا جا رہا ہے، کن الفاظ میں آپ اس کی مذمت کرنا چاہیں گے۔؟
مولانا سید مجاہد آغا:
عالمی سطح پر دشمن ہمارا تعاقب کر رہا ہے، تمام مسلمان دشمن کے نشانے پر ہیں، تضاد و انتشار کے کبھی بھی مثبت نتائج سامنے نہیں آسکتے ہیں، کبھی اس کے اثرات سے کسی کو فائدہ حاصل ہونے والا نہیں ہے، ایک دوسرے کے قتل اور تکفیر کے فتوے کے یہی مضر اثرات ہیں جو رونما ہو رہے ہیں، یہ دشمن اور دیگر مذاہب و مسلک سے وابستہ نہیں ہوتے ہیں بلکہ ہمارے سامنے بظاہر مسلمان ہی ہیں، جو اس خونین کھیل میں پیش پیش ہے، یہاں سے بھی مسلمان وہاں سے بھی مسلمان، مار بھی مسلمان رہے ہیں اور مر بھی مسلمان رہے ہیں، ان قاتلوں کا نشانہ امریکہ و برطانیہ نہیں ہیں بلکہ مسلمان ہی ہیں۔ اب ہم کس کو قصوروار مانے اور کس کو تنقید کا نشانہ بنائیں، دشمن ہی یہ سب ہم سے کروا رہا ہے لیکن دور بیٹھ کر، اس لئے ضروری ہے کہ ہم آپسی انتشار کو چھوڑ کر دشمن کی پہچان کرلیں۔ دشمن کی پہچاننا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 676972
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش