QR CodeQR Code

سب سے پہلے ہمیں اپنے گھر کو صحیح کرنا چاہیئے، نیشنل ایکشن پلان پر اسکی روح کیمطابق عمل درآمد ہونا چاہیئے

ہماری خارجہ پالیسی ناکام نہیں بلکہ ہم اسکی کامیابیوں کو کیش نہیں کرا سکے، جسکے ذمہ دار سیاستدان اور فوج دونوں ہیں، ڈاکٹر نوشین وصی

ہمارے معاشرے کو اندرونی چیلنجز کا سامنا ہے اور جسطرح عالمی سیاست تبدیل ہو رہی ہے، اسے سمجھ کر ہمیں اپنی ترجیحات کا تعین کرنا چاہیئے

20 Oct 2017 23:58

جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی اسسٹنٹ پروفیسر اور ماہر بین الاقوامی امور کا "اسلام ٹائمز" کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ 24 اگست کو امریکی صدر ٹرمپ نے جو نئی افغان پالیسی کا اعلان کیا تھا، پاکستان نے دہشتگردی کیخلاف جاری جنگ میں بہت ساتھ دیا ہے، لیکن اسے ابھی بہت کچھ اور کرنا ہے، وہی ڈو مور (do more) کی بات، جو امریکہ شروع سے کرتا رہا ہے، چین اور پاکستان کے درمیان باہمی مفادات موجود ہیں ،لیکن اگر پاک چین تعلقات کا تاریخی طور پر تجزیہ کیں، تو دہشتگردی کے مسئلے پر چین کو ہمیشہ تشویش رہی ہے، آپ 90ء کی دہائی یا 2000ء کے اوائل میں چلے جائیں کہ جب شنگھائی تعاون تنظیم بنی تھی، اسوقت پاکستان تنظیم کا رکن بننا چاہتا تھا، لیکن چین نے حمایت نہیں کی تھی، تاجکستان میں بغاوت (insurgency)، اس سے پہلے اگر چلے جائیں 1990ء کی دہائی میں، تو اسوقت بھی چین کو یہ تشویش لاحق تھی کہ پاکستان کیطرف سے دراندازی (infiltration) ہوتی ہے، پاکستان انتہاء پسند قوتوں کو سپورٹ کرتا ہے، چینی صوبے سنکیانگ کے علاقے ایغور ویلی (uyghur valley) میں جو بغاوت ہوئی، اس میں بھی چین کو شدید تشویش لاحق تھی کہ اس میں بھی پاکستان ملوث ہے، پاک چین تعلقات میں یہ بڑا مسئلہ ہے، اگرچہ اسکو اتنی زیادہ اہمیت اس لئے نہیں ملتی کہ معاشی و اسٹراٹیجک باہمی مفادات پاکستان اور چین کے درمیان بہت زیادہ ہیں، لیکن چین کیطرف سے دہشتگردی کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ ہم پاک چین تعلقات میں موجود اس مسئلے کو حل کریں، بریکس اعلامیہ بھی اسی کا تسلسل ہے، شنگھائی تعاون کونسل میں ابتدائی طور پر چین، روس سمیت چار سینٹرل ایشیائی ممالک تھے، اور یہ بنی ہی دہشتگردی کے خاتمے کیلئے تھی، تو چین نے پاکستان کو واضح پیغامات دیئے ہیں کہ پاکستان میں کچھ ایسے دہشتگرد نیٹ ورکس موجود ہیں جنکو سپورٹ کیا جاتا ہے، پاکستان کو اسکا خاتمہ کرنا چاہیئے۔


ڈاکٹر نوشین وصی پاکستان کی معروف درسگاہ جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ انہوں نے 1997ء میں جامعہ کراچی سے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، اسکے بعد وہ معروف تحقیقاتی ادارے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز سے وابستہ ہوئیں، بعد ازاں 2004ء میں بحیثیت لیکچرار جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ہوئیں اور تاحال اسی شعبے میں تدریسی کی خدمات انجام دے رہی ہیں، اسی دوران 2014ء کے اوائل میں انہوں نے جامعہ کراچی سے ہی پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ وہ کراچی کی معروف درسگاہ انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (IBA) میں بھی تدریسی فرائض انجام دے رہی ہیں۔ ماہر بین الاقوامی امور کی حیثیت سے انکے تحقیقاتی مقالہ جات اکثر و بیشتر ملکی و غیر ملکی جرائد و رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں، وہ خارجہ پالیسی، ملکی و عالمی ایشوز سمیت انٹرنیشنل سکیورٹی پر گہری نگاہ رکھتی ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے ڈاکٹر نوشین وصی کیساتھ پاکستان کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجز، خارجہ پالیسی و دیگر موضوعات کے حوالے سے آئی بی اے میں مختصر نشست کی، اس موقع پر انکے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: پاکستان کو اسوقت کون کون سے اندرونی چیلنجز درپیش ہیں، خصوصاً سکیورٹی حوالے سے۔؟
ڈاکٹر نوشین وصی:
ہمارا بنیادی مسئلہ اداروں کا کامیاب نہ ہونا ہے، ادارہ سازی اس ملک میں بہت بڑا مسئلہ رہی ہے، اس کی وجہ آئین کا دیر سے بننا اور پھر آئین کا ختم کرنا اور پھر دوبارہ بننا اور پھر 1971ء کے بعد کے مسئلے مسائل ہیں، جو آئین ہے وہ ادارہ سازی میں مدد دیتا ہے اور اداروں کی تعمیر آپ کے ملک میں امن و امان قانون کی بالادستی کے قیام میں مدد دیتی ہے، کیونکہ ہمارے ہاں ادارہ سازی نہیں ہوئی ہے، لہٰذا ہمیں مسائل نظر آتے ہیں، جیسے صحیح گورننس نہیں ہے، امن و امان کی صورتحال بہتر نہیں ہے، ہمارے ادارے نتائج نہیں دے پا رہے، ان اداروں سے پروڈکشن اچھی نہیں ہے، چاہئے وہ صحت و تعلیم کا شعبہ ہو، پی آئی اے اور اسٹیل مل کا حال آپ کے سامنے ہے، زراعت و صنعت کا شعبہ آپ کے سامنے ہے، عدلیہ کے فیصلے کتنے تنازعہ کا شکار ہیں، میڈیا اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام نظر آتا ہے، پھر چونکہ ہمارے یہاں ادارہ سازی نہیں ہوئی ہے تو بیوروکریسی اور عدلیہ کا کردار بڑھا ہے، اس نے بھی بہت بڑا مسئلہ پیدا کیا، پھر پاکستان میں سول ملٹری تعلقات میں تضاد ہے، ٹکراؤ ہے، ان کا ایک پیج پر نہ ہونا ہے، ہمارے اقتصادی مسائل اتنے زیادہ بڑھ گئے ہیں کہ جو ہمارے ہر شعبے پر منفی اثر انداز ہو رہے ہیں، انحصاری تعلقات پر لیکر آرے ہیں، میں سمجھتی ہوں کہ یہ ہمارے اس وقت بڑے بڑے اندرونی مسائل ہیں، جو ہماری خارجہ پالیسی رہی ہے، اس کے نتیجے میں بھی کچھ ہمارے اندرونی مسائل پیدا ہوئے ہیں، مثال کے طور پر افغانستان میں جو ہماری involvement تھی، 1947ء سے ہی جو پاک افغان تنازعات تھے، جس کی پوری ایک تاریخ ہے، پشتونستان کے ایشو کے حوالے سے، اس مسئلے کو 1979ء میں اپنے عروج پر دیکھا اور پھر 2001ء میں امریکہ میں 9/11 کے واقعہ کے بعد دیکھا، ستر کی دہائی کے بعد ہمارے معاشرے میں فرقہ وارانہ تشدد بہت بڑھا اور اب دہشتگردی اور انتہاء پسندی کے مسائل کا ہمیں سامنا ہے، میں اسے معاشی مسائل سے لنک کرتی ہوں کہ ہم انحصاری تعلقات میں اس وجہ سے آئے، چونکہ ہمیں ظاہر ہے اپنا ملک چلانے کیلئے وسائل کی ضرورت تھی، جولائی کی کوارٹر رپورٹ کے مطابق ملکی تجارتی خسارہ 30 ارب ڈالرز سے زیادہ بڑھ چکا ہے، جبکہ کچھ رپورٹس میں یہ آپ کو 32 ارب ڈالرز ملتا ہے اور کچھ رپورٹس میں 35 ارب ڈالرز، یعنی ہمارا تجارتی خسارہ 30 سے 35 ارب ڈالرز ہے، پھر بات یہ بھی کی جا رہی ہے کہ پاکستان تنہائی کا شکار ہوتا جا رہا ہے، مجموعی طور پر عالمی سطح پر پاکستان کا اچھا امیج نہیں جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: ملک کو درپیش بیرونی چیلنجز کے حوالے سے کیا کہیں گی۔؟
ڈاکٹر نوشین وصی:
جہاں تک بات ہے بیرونی چیلنجز کی تو ہماری مشرقی سرحد پر بھی مسائل ہے، مغربی سرحد پر بھی مسائل ہیں اور اس وقت سب سے بڑا مسئلہ دہشتگردی کے خلاف جنگ ہے، ملکی بے پناہ مسائل میں مزید اضافہ کر رہی ہیں، اس سے کیسے نمٹا جائے اور جو نئی equation ابھر رہی ہیں بین الاقوامی سیاست میں، نئی alignment بن رہی ہیں، جیسے چین اور روس کی بے مثال انڈر اسٹینڈنگ ہے اور پھر اس وجہ سے بھارت اور امریکہ کا ایک دوسرے کے قریب آنا ہے، طالبان، دہشتگردی، افغانستان کے حوالے سے مسائل ہیں، جس میں نئے علاقائی بلاکس بن رہے ہیں، تو اس صورتحال میں پاکستان کیسے اپنے مفادات کا تحفظ کرسکتا ہے، ان چیلنجز کا ہمیں سامنا ہے۔

اسلام ٹائمز: ملک کو درپیش ان اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا حل کیا پیش کرینگی۔؟
ڈاکٹر نوشین وصی:
سب سے پہلے ہمیں اپنے گھر کو صحیح کرنا چاہیئے، اس حوالے سے ملک میں کام بھی ہو رہا ہے، دہشتگردی اور انتہاء پسندی کو ختم کرنے کیلئے ہماری سکیورٹی فورسز کی سطح پر بہت زیادہ فعالیت نظر آرہی ہے، آپریشن ضرب عضب ہوا ہے، ردالفساد ہو رہا ہے، کراچی میں آپریشن کیا جا رہا ہے، پنجاب میں کہا جا رہا ہے کہ آپریشن کیا جائے، سکیورٹی حوالے سے ملک میں کام ہوتا نظر آرہا ہے، بدقسمتی سے اقتصادی و معاشی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ہمیں فی الحال ٹھوس بنیادوں پر اقدامات اٹھتے ہوئے نظر نہیں آتے، پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو روشنی کی کرن کہا جا رہا ہے، لیکن جس طرح سی پیک کے حوالے سے علاقائی ریاستوں کی مداخلت ہے اور جو اس کے political dynamics ہیں بین الاقوامی سیاست کے حوالے سے، تو میں ابھی تھوڑی سی متذبذب skeptical ہوں، میں سی پیک منصوبے کو نیا بہترین موقع اور درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے معاون و مددگار سمجھتی ہوں، لیکن ہمیں اس حوالے سے ایک بہت ہی مضبوط اور موثر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، جس کیلئے ہمیں حکومت بہت کمزور نظر آتی ہے، حکومت کو مضبوط ہونا چاہیئے، ایسا نہ ہو کہ ہمارا وزیراعظم کہے کہ میں وزیراعظم نہیں ہوں، ملکی مؤثر حلقوں کو معلوم ہے کہ ملک کے معاشی مسائل کیا ہیں، ہمیں حل بھی معلوم ہے، لیکن طاقتور حلقوں کو یا طاقتور حلقوں کے کچھ عناصر کو اسٹیٹس کو (status quo) سوٹ کرتا ہے، تو اس وجہ سے ہمیں بریکنگ پوائنٹس نظر نہیں آتے، میں سمجھتی ہوں کہ سکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے جو کوششیں جاری ہیں، اتنی ہی شدت کے ساتھ ہمیں ملک کو درپیش معاشی چیلنجز سے مقابلہ کرنے کیلئے بھی کام کرنا چاہیئے، یہ ہمیں اسٹینڈنگ بنیاد دے گا، پھر ہمیں ٹھوس منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیئے، میں سمجھتی ہوں کہ نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد ہونا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: چین کے شہر شیامن میں 3 تا 5 سمتبر ہونیوالے برکس سربراہ اجلاس کے اعلامیہ میں مبینہ طور پر پاکستان میں موجود دہشتگرد گروپوں کو علاقائی سکیورٹی کیلئے خطرہ قرار دیتے ہوئے انکے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا، پاکستان نے اس اعلامیہ کو مسترد کر دیا، اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی پاکستان میں دہشتگردی کے محفوظ ٹھکانوں کی موجودگی کی بات کی، دوست ملک چین کی موجودگی میں اس اعلامیہ کے پاس ہو جانے کو کس نگاہ سے دیکھی ہیں۔؟
ڈاکٹر نوشین وصی:
24 اگست کو امریکی صدر ٹرمپ نے جو نئی افغان پالیسی کا اعلان کیا تھا، پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ میں بہت ساتھ دیا ہے، لیکن اسے ابھی بہت کچھ اور کرنا ہے، وہی ڈو مور (do more) کی بات، جو امریکہ شروع سے کرتا رہا ہے، چین اور پاکستان کے درمیان باہمی مفادات موجود ہیں، لیکن اگر پاک چین تعلقات کا تاریخی طور پر تجزیہ کیں، تو دہشتگردی کے مسئلے پر چین کو ہمیشہ تشویش رہی ہے، آپ 90ء کی دہائی یا 2000ء کے اوائل میں چلے جائیں کہ جب شنگھائی تعاون تنظیم بنی تھی، اس وقت پاکستان تنظیم کا رکن بننا چاہتا تھا، لیکن چین نے حمایت نہیں کی تھی، تاجکستان میں بغاوت (insurgency)، اس سے پہلے اگر چلے جائیں 1990ء کی دہائی میں، تو اس وقت بھی چین کو یہ تشویش لاحق تھی کہ پاکستان کی طرف سے دراندازی (infiltration) ہوتی ہے، پاکستان انتہاء پسند قوتوں کو سپورٹ کرتا ہے، چینی صوبے سنکیانگ کے علاقے ایغور ویلی (uyghur valley) میں جو بغاوت ہوئی، اس میں بھی چین کو شدید تشویش لاحق تھی کہ اس میں بھی پاکستان ملوث ہے، پاک چین تعلقات میں یہ بڑا مسئلہ ہے، اگرچہ اس کو اتنی زیادہ اہمیت اس لئے نہیں ملتی کہ معاشی و اسٹراٹیجک باہمی مفادات پاکستان اور چین کے درمیان بہت زیادہ ہیں، لیکن چین کی طرف سے دہشتگردی کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ ہم پاک چین تعلقات میں موجود اس مسئلے کو حل کریں، بریکس اعلامیہ بھی اسی کا تسلسل ہے، شنگھائی تعاون کونسل میں ابتدائی طور پر چین، روس سمیت چار سینٹرل ایشیائی ممالک تھے اور یہ بنی ہی دہشتگردی کے خاتمے کیلئے تھی، تو چین نے پاکستان کو واضح پیغامات دیئے ہیں کہ پاکستان میں کچھ ایسے دہشتگرد نیٹ ورکس موجود ہیں، جن کو سپورٹ کیا جاتا ہے، پاکستان کو اس کا خاتمہ کرنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ناکام سمجھتی ہیں۔؟
ڈاکٹر نوشین وصی:
ابھی میں نے برکس اعلامیہ کے حوالے سے گفتگو کی، چین کی موجودگی میں ایسے اعلامیہ کی منظوری کو پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کہا جا رہا ہے، لیکن میں اسے مجموعی طور پر پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی نہیں سمجھتی، چین نے اب دہشتگردی کے مسئلے کے حوالے سے یہ بات نہیں کی ہے، وہ پچھلی دو دہائیوں سے یہ بات کر رہا ہے، دہشتگردی کے خاتمے کے حوالے سے پاکستان میں بھی کمٹمنٹ نظر آرہی ہے، کیونکہ اب یہ دہشتگردی کا مسئلہ اتنا بے قابو ہوگیا ہے کہ ہمیں اب اس کے خاتمے کیلئے مؤثر اقدامات اٹھانے ہی ہیں۔

اسلام ٹائمز: وہ کیا وجوہات ہیں کہ جنکے سبب آپ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ناکام کیوں نہیں سمجھتیں۔؟
ڈاکٹر نوشین وصی:
ہم بہت سنتے ہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ناکام ہے، اس میں تسلسل نہیں ہے، کچھ اسکالرز تو یہ کہتے ہیں کہ خارجہ پالیسی ہی نہیں ہے، ہم ایڈہاک ازم پر چل رہے ہیں، صرف ممالک سے تعلقات ہیں، وہ پالیسی اور تعلقات میں فرق سمجھتے ہیں، وہ اس طرح سے کہ policy is a set of objectives and implimentation mechanisim یعنی پالیسی یہ ہے کہ آپ نے خارجہ پالیسی کے کچھ مقاصد طے کر لئے اور پھر ایک طریقہ کار بتا دیا کہ اس طرح ہم ان مقاصد کو حاصل کرینگے، جبکہ تعلقات (relations) یہ ہیں کہ آپ سے سامنے ایک مسئلہ یا ایشو کھڑا ہوتا ہے اور آپ اس کا جواب دیتے ہیں، تو ہم یہ کہتے ہیں کہ شاید ایڈہاک ازم پر چل رہا ہے، میں کیوں یہ سمجھتی ہوں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک ناکام پالیسی نہیں ہے، کیونکہ آپ مجموعی طور پر وہ ایشوز دیکھیں، جن سے پاکستان نمٹ رہا ہے، 1947ء میں بھارت کے ساتھ ہمارے مسائل تھے، افغانستان کے ساتھ مسائل بڑھ رہے تھے، شروع میں پاکستان کے معاملات میں افغانستان کی طرف سے بہت مداخلت ہوئی، شروع سے ہماری خارجہ پالیسی کے مقاصد کیا تھے، پہلا مقصد تھا سکیورٹی، جو پاکستان کو اندرونی و بیرونی خطرات تھے، پاکستان کیلئے بقاء کی جنگ ایک بہت بڑی جنگ تھی، وہ ہم نے کی، پاکستان نے اپنی بقاء یقینی بنائی، پھر ہمیں بھارت کے طاقت کا توازن برقرار رکھنا تھا، یہ بھی پاکستان نے کیا، شروع کے زمانے میں پاکستان کو کامیابیاں بھی بہت ملیں، جیسے پاکستان نے آزاد دنیا کیلئے، لوگوں کی self-determination کیلئے جو بات کی، اسے دنیا نے سراہا، آزادی کی جو تحریکیں ہیں، ان میں پاکستان نے جنرل اسمبلی میں جو کیسز پیش کئے ہیں، اس کی دنیا بہت زیادہ تعریف کرتی تھی، سراہتی تھی، بہرحال سکیورٹی بہت اہم مقصد تھا جو ہم نے حاصل کی، بھارت کے ساتھ طاقت کے توازن کو ہم نے برقرار رکھا، اس کی سماجی معاشرتی قیمت ہم نے ادا کی، افغانستان کے ساتھ معاملات کو ہم نے سنبھالا، عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کو استوار رکھا، 60ء کی دہائی کے اواخر میں، 70ء کی دہائی میں جب امریکہ کے چین کے ساتھ تعلقات خراب تھے، اس وقت تو پاکستان نے تعلقات کو کتنی کامیابی کے ساتھ بیلنس رکھا تھا، یہ ایک بہت بڑی مثال ہے کہ ہم نے پنگ پونگ سفارتکاری (ping pong diplomacy) کے تحت ہم نے چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات کیلئے ثالثی کا کردار ادا کیا تھا، تو یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی، لہٰذا اگر ہم اہم مقاصد دیکھیں تو ہمیں خارجہ پالیسی اتنی ناکام نظر نہیں آتی۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کی خارجہ پالیسی ناکام کیوں نظر آتی ہے۔؟
ڈاکٹر نوشین وصی:
ناکام کیوں لگتی ہے، خارجہ پالیسی ملکی اندرونی ترقی کیلئے ہوتی ہے، خارجہ پالیسی کا اظہار بیرونی ہے لیکن مقاصد اندرونی طورپر حاصل کئے جاتے ہیں، 60ء، 70ء کی دہائی تک تو پاکستان ایک ترقی پذیر ریاست تھی، لیکن اس کے بعد سے ہمارا معاشی بحران شروع ہوگیا، جو آج اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ جو ہم تعلقات بنانے کی بات کر رہے تھے، وہ اصل میں ہمیں انصار (dependency) دے رہی ہے، جبکہ ہمارے ساتھ 1947ء میں بھی بہت ساری مجبوریاں تھی۔ ہوا یہ کہ ہمارے ہاں معاشی بدانتظامی ہوئی، ہمارے ہاں ادارہ سازی یا اداروں کی ترقی نہیں ہوسکی، میں اس کا ذمہ دار فوج اور سیاستدانوں دونوں کو سمجھتی ہوں، صورتحال خراب کرنے میں سب ذمہ داری ہیں، کسی زمانے میں ہمیں فوج کی طرف سے زیادہ نظر آتی ہے، کسی زمانے میں ہمیں سیاسی قوتوں کی طرف سے زیادہ نظر آتی ہے اور اب یہ جو انتہاء پسندی ہمارے معاشرے میں پھیل رہی ہے، تو یہ سب اتنے بنیادی ایشوز ہیں کہ جس نے تاثر یہ قائم کر دیا ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی ناکام ہے، لیکن میں اسے مکمل ناکام نہیں سمجھتی۔ ہمیں اندرونی فائدہ نہیں پہنچ سکا، ہمارے ہاں اندرونی ترجیحات کا تعین نہیں کیا گیا تھا کہ ہمیں ان چیزوں کو کیسے ہنڈل کرنا ہے، یہ ہمارے پاس موجود نہیں تھا، مختصر یہ کہ ہم خارجہ پالیسی میں حاصل کردہ کامیابیوں کو کیش نہیں کرا سکے، اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں، سیاستدان اور فوج دونوں اس کے برابر کے ذمہ دار ہیں۔

اسلام ٹائمز: خارجہ پالیسی کے معاملے میں سول عسکری قیادت کے درمیان ٹکراؤ کی فضاء نظر آتی ہے، اسکا خاتمہ ممکن ہے۔؟
ڈاکٹر نوشین وصی:
میں یہ سمجھتی ہوں کہ قومی مصالحت (national reconciliation) کی پالیسیز کی پیروی کرنی چاہیئے، ہمیں اس وقت ہر جانب سے مخلص عناصر کی ضرورت ہے، ہمیں جس ملک سے بھی تعلقات رکھنے ہیں، وہ اس میں ہمیں فردی مفادات کے بجائے قومی مفاد کو مدنظر رکھنا چاہیئے، مجھے امریکہ سے اس وجہ سے تعلقات نہیں کہ میرے بچے وہاں پڑھتے ہیں، مجھے اس بنیاد پر تعلقات رکھنا ہے کہ ملک و قوم کو کیا فائدہ پہنچتا ہے، یہی حال سیاستدانوں کا ہے، ہمیں دوسرے حکمرانوں سے دوستیاں اس لئے نہیں کرنی کہ میری حکمرانی قائم رہے، بلکہ ہماری دوستیاں اس وجہ سے ہونی چاہیئے کہ اس سے ملک کو کیا فائدہ ہوگا، بدقسمتی سے ہمارے ہاں ذاتی مفادات ہمیشہ ملکی مفادات پر مقدم رہے ہیں، تو یہ مسئلہ نظر آتا ہے، اب مجھے کچھ مخلص عناصر اگر اعلٰی قیادت کو آپ چھوڑ دیں، تو وہ ہمیں ہر اداروں میں نظر آتے ہیں، چاہے وہ فوج ہو یا سیاسی قیادت، اگر انہیں موقع دیا جائے، تو بہت بہتری آسکتی ہے۔ اس وقت ہمارے معاشرے کو اندرونی چیلنجز کا سامنا ہے اور جس طرح بین الاقوامی سیاست یقیناً تبدیل ہو رہی ہے، اس کو سمجھ کر ہمیں اپنی ترجیحات کا تعین کرنا چاہیئے، اب اس ملک میں اسٹیک ہولڈرز سب ہیں، لہٰذا انتہائی مخلصی کے ساتھ ملکر ان کیلئے کام کرنا چاہیئے، صرف میرا نقطہ نظر بہتر ہے، یہ مجھے نہیں سوچنا چاہیئے، سیاست دان صحیح فیصلہ نہیں کرسکتے، اس لئے یہ ایریا ہمارا ہے، یہ نقطہ نظر غلط ہے، ہمیں قومی مصالحت پر مبنی حکومت کی ضرورت ہے۔


خبر کا کوڈ: 678022

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/678022/ہماری-خارجہ-پالیسی-ناکام-نہیں-بلکہ-ہم-اسکی-کامیابیوں-کو-کیش-کرا-سکے-جسکے-ذمہ-دار-سیاستدان-اور-فوج-دونوں-ہیں-ڈاکٹر-نوشین-وصی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org