0
Thursday 26 Oct 2017 17:51
پیپلز پارٹی میں مفاہمت کے نام پہ مک مکا کا کھیل کھیلا جاتا رہا

پاکستان کے 70 سالہ مسائل کی سب سے بڑی وجہ اس ملک میں میرٹ کا قتل عام ہے، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان

اب مسلم لیگ (ن) میں مائنس شریف فیملی اور مائنس نواز شریف کی سیاست ہونی ہے
پاکستان کے 70 سالہ مسائل کی سب سے بڑی وجہ اس ملک میں میرٹ کا قتل عام ہے، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان
محترمہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان 11 جنوری 1970ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئیں، انہوں نے ایم بی بی ایس لاہور سے کیا، انہوں نے پہلی بار 2002ء میں مسلم لیگ (ق) کی ٹکٹ سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی، 2008ء میں پیپلز پارٹی کو جوائن کیا اور دوسری بار بھی قومی اسمبلی میں اپنی جگہ بنائی، پیپلز پارٹی کے دور میں وہ وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات رہیں اور 30 مئی 2017ء کو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے ملاقات کے دوران پی ٹی آئی میں شمولیت کا اختیار کی۔ فردوس عاشق اعوان اپنے شہر بالخصوص اپنے حلقے میں بڑا سیاسی قد کاٹھ رکھتی ہیں، انکا شمار منجھے ہوئے سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔ اپنے علاقے کے لوگوں سے انہیں دلی لگاو اور محبت ہے، اسی لئے انکے مسائل کو حل کرنے میں خصوصی دلچسپی لیتی ہیں، اسلام ٹائمز نے ان سے مختلف سیاسی مسائل پہ خصوصی گفتگو کی، جو قارئین کیلئے پیشِ خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: آپکا شمار پیپلز پارٹی کے نامور رہنماوں میں رہا ہے، اسے چھوڑنے کی وجوہات کیا ہیں۔؟
ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان:
دیکھیں اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ میں سیاست میں ایک سوشل ورکر کی حیثیت سے آئی ہوں، میرا مقصد اپنے لوگوں کے کام کرنا اور ان کے حقوق کیلئے جنگ لڑنا ہے، پی ٹی آئی کو جوائن کرنے سے پہلے میں نے جو الیکشن ہارا، اس کی تمام تر وجہ پیپلز پارٹی کی قیادت تھی، ان کی حکومت کے ساتھ مک مکا والی پالیسی تھی، پیپلز پارٹی نے حکومت کا محاسبہ کرنے کی بجائے ان کے لئے سہولتکار کا کردار ادا کیا تو عام لوگوں میں یہ پیغام گیا کہ پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو شہید کے نظریئے سے ہٹ چکی ہے اور چند مخصوص نظریات رکھنے والے پارٹی کے افراد نے بھٹو ازم کے نظریئے کو اپنے مفادات کا قیدی بنا دیا ہے، جب عوام میں اس تاثر کو تقویت پہنچی تو الٹیمیٹلی لوگ متنفر ہوگئے۔ جو شخص پیپلز پارٹی کیلئے، بھٹو خاندان کیلئے ایک تڑپ محسوس کرتا تھا، وہ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد لاوارث ہوگیا، جب محترمہ کی شہادت کے بعد پارٹی یتیم ہوئی تو اس یتیمی کے ماحول میں جو قیادت پارٹی کی تھی، اس نے ورکر کو سہارا دینے کی بجائے جماعت میں ذوالفقار علی بھٹو کے نظریئے کو پروموٹ کرنے کی بجائے اپنے ذاتی کاروبار اور مفادات کو پروموٹ کیا، اپنے ذاتی مفادات کو پارٹی عہدیداروں نے اولین ترجیح دیدی۔

اپنے آپ کو اور اپنی سیاست کو سندھ تک محدود کر دیا، سندھ میں چونکہ ان کے پاس اقتدار تھا اور ان کو وہ فرق محسوس نہ ہوا کہ جن لوگوں نے حکومت وقت کے سامنے اپوزیشن کاٹی وہ پنجاب میں ہیں یا خیبر پختونخوا میں یا بلوچستان میں ہیں، موجودہ حکومت ان کو کس طرح انتقام پسندی کا نشانہ بنا رہی ہے اور جب (ن) لیگ ان لوگوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں کر رہی تھی، جنہوں نے ان کے مقابلے میں الیکشن میں حصہ لیا تھا تو ہم جب یہ زیادتیاں اپنی قیادت کے پاس لے کر جاتے تھے تو قیادت کے سر پہ جوں تک نہیں رینگتی تھی، وہ ان کا ازالہ کرنیکی بجائے جمہوریت کے نام پہ (ن) لیگ کے سیاسی تابوت کو کندھا دینے میں مصروف تھے۔ مفاہمت کے نام پہ جو مک مکا کا کھیل کھیلا جا رہا تھا، اس سے ہمارا نچلی سطح پہ بیٹھا ورکر مایوس ہوا اور اس کی اکثریت نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ پارٹی کو نہ چھوڑتے تو ہم لوگ کیا کرتے؟ ہم نے ایسا کیوں کیا؟ کیا ہم سندھ کیجانب ہجرت کرتے؟ ایسا ہم کر نہیں سکتے تھے، کیونکہ ہمارے ڈومیسائل پنجاب کے تھے، یا ہم سیاست چھوڑتے، یا پھر پارٹی چھوڑتے، اگر سیاست چھوڑتے تو ہم اپنے اپنے حلقوں میں سیاسی موت مر جاتے، لیکن ہمیں اپنے آپ کو سیاست میں زندہ رکھنا تھا اپنے لوگوں کیلئے، اس لئے ہم نے سیاست چھوڑنے کی بجائے پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔

اسلام ٹائمز: بہت سی سیاسی پارٹیوں کی موجودگی میں آپ نے تحریک انصاف کا انتخاب کیوں کیا؟ پی ٹی آئی کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) بڑی پارٹی ہے۔؟
ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان:
اس کی وجہ یہ تھی کہ میں ایک پروفیشنل میڈیکل ڈاکٹر ہوں، میں سیاست میں Status Qou کا خاتمہ کرنے آئی تھی، نہ تو روزگار کیلئے آئی تھی، نہ ہی کاروبار کیلئے آئی، میں ایک سوشل ورکر ہوں اور سوشل ورکر کی حیثیت سے اپنے لوگوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے جدوجہد کرنے آئی تھی اور اپنی مٹی کا قرضہ واپس کرنے آئی تھی، میں نے دس سال اس پارلیمنٹ میں گزارے اور بڑے قریب سے سیاسی داؤ پیچ دیکھے اور کھیلے بھی، میں اس نتیجے پہ پہنچی ہوں کہ پاکستان کے ستر سال سے جو مسائل ہیں، ان کی سب سے بڑی وجہ اس ملک میں میریٹ کا قتل عام ہے، یہاں پہ جمہوریت کے نام پہ خاندانی بادشاہت چلتی رہی اور ایسا نظام ترتیب دے دیا گیا، جس میں پڑے لکھے لوگ، وہ جو اس ملک کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں، ان کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ مجھے چونکہ بینظیر بھٹو شہید پیپلز پارٹی کے اس فورم پر لے کر آئیں تھیں، ان کے بعد میں خود لاوارث تھی، ہمیں سیاسی وارث چاہیئے تھا اور میرے نظریات جو تھے، میری سوچ جو تھی وہ Status quo کے اینٹی تھی، میں دس سال پارلیمنٹ میں رہتے ہوئے اس سسٹم کا حصہ نہیں بنی، میں نے ہمیشہ اس سسٹم کو چیلنج کیا اور میں اس کا ویکٹم بن گئی کہ میں پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ کر اپنے لوگوں کیلئے تمام تر خدمات سرانجام دے کر بھی الیکشن ہار گئی، پیپلز پارٹی کی نفرت کا میں شکار ہوئی ہوں، لہٰذا میرے لئے ضروری تھا کہ پاکستان کیلئے جدوجہد کروں، پاکستان کا جو اس وقت گلا سڑا نظام ہے، اس کو بدلنے کیلئے اپنا کردار ادا کروں، میں اکیلی کچھ نہیں کرسکتی تھی، مجھے اسی ٹیم میں جانا تھا، جہاں یہ سٹرگل اور ایفرٹس ہو رہی تھیں، اس وقت پاکستان کی پوری پولیٹیکل لینڈ سکیپ ہے، اس میں ایک ہی ایسی جماعت ہے کہ جو اس Status Quo کو چیلنج کر رہی ہے اور اس کو بدلنے کیلئے کوشش کر رہی ہے، چونکہ میں اکیلی اس سسٹم کو ایک انچ بھی نہیں بدل سکتی اور نہ ہی ابھی تک بدل سکی ہوں تو مجھے اسی ٹیم کا حصہ بننا تھا، جو اس کو بدلنے کیلئے کوششیں کر رہی ہے اور وہ صرف اور صرف عمران کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف ہے۔

اسلام ٹائمز: عائشہ گلالئی کہتی ہیں کہ پی ٹی آئی میں خواتین کی عزت نہیں ہے، آپکا اس بارے میں کیا نظریہ ہے۔؟
ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان:
دیکھیں میں یہ سمجھتی ہوں کہ کوئی بھی خاتون ہو، چاہے وہ عائشہ ہو، میں ہوں، کوئی بھی ہو، ہر شخص کو یہ سوچنا ہے، پہلے تو یہ پتہ ہونا چاہیئے کہ وہ کون ہے، کس کی بیٹی ہے؟ کس کی بہن ہے؟ اس کے اوپر اس کی فیملی کی توقعات کیا ہیں، قوم کی توقعات کیا ہیں اور پھر یہ بھی پتہ ہونا چاہیئے کہ اس کے پاس غلطی کی گنجائش نہیں ہے، میں نہیں مان سکتی ہوں کہ عمران خان ایک غیر اخلاقی میسج کرسکتے ہیں، اگر فرض کریں کہ خان صاحب نے کئے بھی ہیں تو اتنے سال عائشہ نے چھپایا کیوں؟ اب عائشہ صرف اور صرف سیاسی پوائنٹ سکورنگ کر رہی ہیں، میں نہیں سمجھتی کہ خان صاحب ایسے ویسے لیڈر ہیں، نہ تو خان صاحب اتنے فارغ ہیں اور نہ ہی ان کے پاس کوئی کمی ہے، عائشہ نے جھوٹے الزام لگا کر خان صاحب کا قد چھوٹا کرنے کی کوشش کی ہے، دراصل یہ سارا (ن) لیگ کا اسکرپٹ ہے، جس پر عائشہ گلالئی اپنا کام انجام دے رہی ہیں، (ن) لیگ کہ پاس عمران خان کے خلاف نہ تو کوئی کرپشن کا ثبوت ہے، نہ ہی کوئی اور ایسا کام جس سے وہ ان کا قد چھوٹا کرسکیں، اس لئے وہ ایسے گھٹیا الزام لگا کر ان کو بدنام کرنا چاہ رہے ہیں، تاکہ قوم کی خواتین، بچے، بچیاں ان سے دور ہو جائیں، یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے، جو مسلم لیگ (ن) نے تیار کی اور عائشہ گلالئی اس سازش کا کردار ہیں۔

اسلام ٹائمز: پچھلے دنوں پی ٹی آئی سیالکوٹ کے صدر عثمان ڈار کیساتھ آپکا تنازعہ منظر عام پر آیا، جس میں انہوں نے کہا کہ آپ نے پارٹی عہدیداروں پر من گھڑت الزام لگائے، آپ اس بارے میں کیا کہنا چاہیں گی۔؟
ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان:
دیکھیں جی، پہلی بات یہ ہے کہ عثمان ڈار صاحب پی ٹی آئی سیالکوٹ کے سابقہ صدر ہیں، تنظیمیں پچھلے 8، 9 مہینے سے ڈیزالوو ہوچکی ہیں، تاہم اب نہ کوئی پارٹی صدر ہے، نہ ہی کوئی جنرل سیکرٹری ہے۔ ہر حلقے کے اندر ہر شخص اپنی سیاست کر رہا ہے، عثمان ڈار میرے بھائیوں کی طرح ہیں، ہمارے بیچ میں کوئی خاص اختلاف نہیں ہے، سیالکوٹ میں 5 ایم این اے کے حلقے ہیں، 11 ایم پی اے کے حلقے ہیں، 16 لوگ ہیں، جو بیلٹ کے سٹیک ہولڈر ہیں، جنہوں نے الیکشن لڑنا ہے تو ون مین شو سے سیالکوٹ کا بیڑا نہیں چلایا جا سکتا، جب آپ کے چیلنجز زیادہ ہونگے، (ن) لیگ ضلع سیالکوٹ میں ہمیشہ کلین سویپ کرتی رہی ہے، اس وقت بھی ساری سیٹیں ان کے پاس ہیں تو ہمیں اپنی ترجیحات سیٹ کرنی ہے، اگر ہم نے (ن) لیگ کو ہرانا ہے تو ہمیں مل بیٹھ کے دیکھنا ہے کہ ہمارے سامنے کے چیلنجز کیا ہیں، ہمیں اپنے اپنے حلقے میں کام کرنا ہے نہ کہ ایک دوسرے کے حلقے میں شق بندی کرکے (ن) لیگ کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرنی ہے۔ انہوں نے چونکہ میرے حلقے میں مجھے بنا بتائے پریس کانفرنس کی تو اس پہ میں نے اعتراض کیا، تو پارٹی قیادت نے فیصلہ کیا کہ ہر کوئی اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کریگا، اگر کوئی تجاوز کرتا ہے تو وہ پارٹی رولز کی وائیلیشن کریگا، اپنے اپنے حلقے میں سب نے کھیلنا ہے، اگر کہیں ایک دوسرے کو سپورٹ کرنا ہے تو وہاں ضرور ایک دوسرے کو سپورٹ کرنا چاہیئے، نہ کہ کسی کی سازش کا حصہ بننا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: حال ہی میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے گرفتاری وارنٹ جاری ہوئے تھے اور ان پر دیگر الزام بھی لگائے جا رہے ہیں، موجودہ صورتحال کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کیا عمران خان 2018ء کے الیکشن میں وفاق میں اپنی حکومت بنا سکیں گے۔؟
ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان:
دیکھیں جی عمران خان اور طاہر القادری صاحب کے خلاف جو ایپلیکشن دی گئی کہ انہوں نے پی ٹی وی کے دفتر پر حملہ کروایا اور توڑ پھوڑ کی۔ آپ مجھے بتائیں کہ پاکستان میں، دنیا میں جہاں کہیں بھی مظاہرے ہوتے ہیں اور جب کوئی مظاہرین قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں، جذباتی کارکنان لیڈر شپ کے کس طرح قابو میں ہوتے ہیں، آپ سب کو اچھی طرح پتہ ہے کہ صرف پی ٹی آئی کی قیادت کو نقصان پہچانے کیلئے حکومت نے خود اپنے غنڈے بھیج کر کارروائی کرائی، پرامن مظاہریں کے بھیس میں شرپسند گھسائے، جنہوں نے یہ کارروائی کی۔ آپ بتائیں کہ توڑ پھوڑ پر دہشتگردی کے پرچے اور دہشتگردی کی عدالت ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان صاحب کی گرفتاری کے وارنٹ کیسے جاری کرسکتی ہے؟ یہ ایک گھناؤنا مذاق ہے، جو گورنمنٹ نے کیا اور کر رہی ہے، اگر ایسا ہی ہے تو سانحہ ماڈل ٹاؤن میں سرِعام گولیاں مارنے والے قاتل، حکومتوں میں بیٹھے ملزم بھی خود ہیں اور مدعی بھی خود ہی ہیں، تو عدالتیں ان کے حوالے سے دہشتگردی کے پرچے اور گرفتاری کے وارنٹ کیوں جاری نہیں کر رہیں۔ آج بھی اس سانحہ کے مدعی اور وارثان انصاف کیلئے دھکے کھاتے پھر رہے ہیں، تو یہ ساری سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہے، پاکستان کی عوام کی ہر حکومتی اقدام پہ نظریں ہیں اور اس وقت 2018ء کا الیکشن اس حوالے سے بھی بڑا اہم ہے کہ اس میں عوام کی ایک ہی امید ہے اور اس امید کا نام عمران خان ہے۔ مجھے یقین ہے کہ عوام ان کو دو تہائی اکثریت سے قومی پارلیمنٹ میں لائے گی، تاکہ پاکستان کو قائداعظم کے خوابوں کی تعبیر کے مطابق تبدیل کیا جا سکے اور الٹیمیٹلی جو اس کے اندر ریفارمز کی ضرورت ہے، پاکستان تحریک انصاف عمران خان صاحب کی قیادت میں ان ریفارمز کے جھنڈے کو آگے لے کر چلے۔

اسلام ٹائمز: پانامہ لیکس کا فیصلہ آنیکے بعد یوں لگ رہا تھا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد کلثوم نواز کے مقابلے میں بھاری اکثریت سے الیکشن جیتیں گی، لیکن صورتحال اس کے برعکس رہی، انکی شکست کی وجوہات کیا ہیں۔؟
ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان:
این اے 120 کا الیکشن تین حکومتیں لڑ رہی تھیں، فیڈرل گورنمنٹ، صوبائی گورنمنٹ پھر وہاں کی لوکل گورنمنٹ، یہ تین حکومتیں ہر وارڈ میں نوکریاں بانٹ رہی تھیں، وہاں لوگوں کو مالی رشوت دے رہی تھیں۔ ان کو دیگر لالچ دے رہی تھیں، حکومتی وسائل سے لوگوں کو یرغمال بنا رہی تھیں، اس سب کے باوجود پینتیس سال سے (ن) لیگ کا جو آبائی قلعہ تھا، پی ٹی آئی نے اس میں شگاف ڈالا، انہوں نے پچھلے الیکشن کی نسبت تیس ہزار سے کم ووٹ لئے، اب ان کا یہ مورچہ محفوظ مورچہ نہیں رہا۔ پانامہ کے بعد 2018ء کا الیکشن دیکھیں گے کہ یہ ہر حلقے میں جس انداز سے بھی دھاندلی کریں یا مینیج کریں یا میچ فکسنگ کریں، عوام ان کے خلاف فیصلہ دے گی، ان کے اوپر جو فرد جرم عائد ہوا ہے، اس میں ان کو بتا دیا گیا ہے کہ ان کو کیوں نکالا گیا ہے۔ جب ان کے غیر قانونی اثاثے ضبط ہونگے تو مجھے کیوں نکالا کا جواب خود بخود عوام تک پہنچ جائے گا۔ الٹیمیٹلی اب مسلم لیگ (ن) میں مائنس شریف فیملی اور مائنس نواز شریف کی سیاست ہونی ہے۔ میں مسلم لیگ (ن) سے متحدہ مسلم لیگ بنتی دیکھ رہی ہوں۔

اسلام ٹائمز: آئندہ الیکشن میں پی ٹی آئی کو سیالکوٹ میں کس پوزیشن پر دیکھ رہی ہیں۔؟
ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان:
ان شاء اللہ جی کانٹے دار مقابلہ ہوگا اور سیالکوٹ کے ہر حلقے میں پاکستان تحریک انصاف جیتے گی، کیونکہ سیالکوٹ میں ہماری بے تحاشا سپورٹ موجود ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم اس سپورٹ کو ووٹ میں کیسے تبدیل کرتے ہیں۔ ان شاء اللہ ہم نے بہترین پلاننگ کے ساتھ سیالکوٹ کو اپنے نام کرنا ہے اور خواجہ آصف کو اس بار جوتے پڑیں گے، جتنی کرپشن اس نے یہاں کی ہے کہ اس کا کوئی حساب نہیں، خواجہ آصف کے سیاہ کارناموں کی فہرست بہت لمبی ہے، الیکشن کمیشن نے اسے آگے بڑھنے ہی نہیں دینا، ان شاء اللہ پہلے ہی فلٹر میں میں وہ ناک آؤٹ ہو جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 679127
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش