1
0
Friday 27 Oct 2017 15:42
حکومت نے امام کعبہ سے بھی معذرت کی ہے کہ ہم آپکی خواہش پہ اپنے پڑوسیوں سے نہیں لڑ سکتے

ریکس ٹلرسن کے دورے کا مقصد پاکستان کو سعودی عرب کے نئے وہابی سلفی بلاک میں شامل ہونے کیلئے پریشرائز کرنا تھا، حیدر جاوید سید

گذشتہ چالیس برسوں میں پاکستان کا چہرہ دیوبندی، وہابی ریاست کے طور پر متعارف کرانیکی پوری کوشش کی گئی ہے
ریکس ٹلرسن کے دورے کا مقصد پاکستان کو سعودی عرب کے نئے وہابی سلفی بلاک میں شامل ہونے کیلئے پریشرائز کرنا تھا، حیدر جاوید سید
حیدر جاوید سید پاکستان کی صحافت کا ایک معتبر نام ہے۔ گذشتہ پینتالیس سالوں سے میدان صحافت میں موجود ہیں۔ متعدد قومی اخبارات کیساتھ منسلک رہے اور صحافتی خدمات سرانجام دی ہیں۔ بنیادی طور اولیاء کی سرزمین ملتان سے تعلق رکھتے ہیں۔ حالات حاضرہ پہ گہری نگاہ رکھتے ہیں اور انکے تجزیات بہت مقبول ہیں۔ ایک سے زائد قومی روزناموں میں انکے کالمز شائع ہوتے ہیں۔ متعدد کتابوں کے مصنف ہیں اور اپنے موقف میں بالکل کلیئر ہیں۔ اقبال کالج کراچی اور سندھ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔ اسلام ٹائمز نے حالات حاضرہ بالخصوص امریکی وزیر خارجہ کے حالیہ دورہ پاکستان کے حوالے سے حیدر جاوید سید صاحب کیساتھ گفتگو کی ہے جو کہ انٹرویو کیصورت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: امریکی وزیر خارجہ کے حالیہ دورہ پاکستان کے بنیادی محرکات کیا تھے۔؟
حیدر جاوید سید:
امریکی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان کے پس منظر کو سمجھنا چاہیئے، پاکستان آنے سے پہلے وہ سعودی عرب گئے اور انہوں نے وہاں اجلاس میں شرکت کی۔ اس کے ساتھ انہوں نے سعودی رابطہ کونسل کے اجلاس میں شرکت کی، جس میں عراقی وزیراعظم حیدر العبادی بھی موجود تھے۔ گویا سعودی عرب میں انہوں نے ایک نیا بلاک بنانے کی کوشش کی۔ بظاہر تو یہ نظر آیا کہ نیا مسلم بلاک بن چکا ہے اور عراق بھی اس میں شامل ہوگیا ہے، مگر حیدر العبادی نے اگلے ہی دن اس کی تردید کر دی کہ نہیں ہم اس بلاک میں شامل نہیں ہو رہے۔ ریکس ٹلرسن سعودی عرب سے دوہا گئے، تو وہاں بھی ان کی وہی منطق تھی کہ ایران کے خلاف بلاک بننا چاہیے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ٹھیک ہے کہ وہ پاکستان کے افغانستان اور دیگر معاملات پر بات کرنے آئے تھے، مگر ان کے دورے کا ایک بڑا مقصد یہ بھی تھا کہ پاکستان اس نئے مسلم بلاک میں شامل ہو، جو کہ سعودی عرب کی قیادت میں امریکہ ایران کے خلاف تشکیل دینا چاہتا ہے۔ یعنی پاکستان اس وہابی بلاک میں شریک ہو، جو شیعہ مسلم بلاک کے خلاف بن رہا ہے۔ میں یہاں اس بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ ایران کی صورت میں جو بلاک موجود ہے، میں اسے شیعہ بلاک نہیں سمجھتا، کیونکہ عراق اور شام دونوں ایران کے ساتھ ہیں اور ان دونوں ممالک میں بڑی اکثریت سنی عوام کی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ وہابی مسلم بلاک انٹی شیعہ صوفی سنی بلاک بنے۔ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں اکثریت صوفی سنی ہیں اور دوسرے نمبر پر اہل تشیع ہیں۔ چنانچہ پاکستان کی حکومت ہو یا فوج ہو، دونوں میں سے کوئی بھی یہ رسک نہیں لے سکتا کہ وہ پاکستان کو کسی ایسے بلاک کا حصہ بنائیں، جو دنیا میں وہابی ازم کے فروغ کیلئے کوششیں کرے اور صوفی سنی و شیعہ یعنی مکتب
خلافت و امامت جو کہ بنیادی اسلام ہے، اس کو دیوار کے ساتھ لگائے، تو یہ وہ صورت حال ہے کہ پاکستان کی ملٹری و سول قیادت یہ سمجھتی تھی کہ امریکی وزیر خارجہ دراصل کونسی خواہشات لیکر وارد ہوئے ہیں، لہذا انہوں نے سرد رویہ اپنایا اور ٹلرسن کو جھنڈی دکھائی۔ بنیادی طور پر یہ رویہ امریکی قیادت میں سعودی وہابی بلاک کا حصہ بننے سے انکار پر مبنی تھا، تاہم لوگوں نے یہ سمجھا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات بہت خراب ہوگئے ہیں۔ میرے خیال میں آقا اور غلام میں تعلقات خراب نہیں ہوتے۔

اسلام ٹائمز: امریکہ کے حوالے سے کیا پاکستان کی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔؟
حیدر جاوید سید:
پاکستان کی خارجہ پالیسی میں کچھ عرصے سے تبدیلی آئی ہے۔ پہلے پاکستان مکمل طور پر امریکہ پہ انحصار کرتا تھا، لیکن اب پاکستان کی خارجہ پالیسی کا جو ماسٹر مائنڈ ہے، یعنی ملٹری اسٹیبلشمنٹ اس نے سوفیصد فیصلہ کر لیا ہے کہ سو فیصد امریکہ پہ انحصار نہیں کرنا۔ اس لئے پاکستان خطے کی جو نئی سیاست جو کہ عالمی سیاست ہے، پاکستان اس میں چین اور روس کی طرف جا رہا ہے۔ جس میں آنے والے وقت میں ایران بھی شامل ہوگا۔

اسلام ٹائمز: کیا امریکی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان ناکام رہا ہے۔؟
حیدر جاوید سید:
امریکی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان دو حوالے سے ناکام رہا ہے، ایک تو امریکہ پاکستان سے اپنی دعوت قبول نہیں کراسکا ہے، جو کہ وہابی مسلم بلاک میں شامل کرانے سے متعلق تھی اور دوسرا امریکہ کے اپنے جو مطالبات تھے، وہ بھی امریکہ پاکستان سے نہیں منوا سکا ہے۔ اس دورے کے دوران آرمی چیف نے امریکی وزیر خارجہ سے کہا ہے کہ آپ ہمیں تو کہہ رہے ہیں کہ آپ طالبان کے خلاف کارروائی کریں۔ ہمارے قومی مفاد میں ہے، اس لئے ہم ان کے خلاف پہلے سے کارروائی کر رہے ہیں۔ آپ کو اس حوالے سے ہمیں پریشرائز کرنے کی ضرورت نہیں، مگر ہمیں بھی اس سوال کا جواب آپ دیں کہ ایک طرف آپ خود طالبان سے مذاکرات کرنے جا رہے ہیں اور دوسری طرف انہی کے خلاف کارروائی کرنے جا رہے ہیں تو اس کی آپ کیسے وضاحت دیں گے۔

اسلام ٹائمز: بحیثیت قوم ہم امریکہ کے سامنے عاجزی کیوں اختیار کئے ہوئے ہیں۔؟
حیدر جاوید سید:
پاکستان کو بنے ہوئے ستر سال ہوگئے ہیں۔ ہماری کوئی پانچ، سات سو سالہ تاریخ نہیں ہے۔ بحیثیت قوم ہماری عمر ستر سال ہے۔ جس کی وجہ سے قومی مفادات کا تعین، قومی شعور سے متعلق بلوغت نہیں ہے۔ ابھی تو وطن عزیز ون نیشن نہیں بنا۔ مشرقی پاکستان کے بننے سے پہلے چھ قوموں کی فیڈریشن تھی، اس کے بعد یہ پانچ قوموں کی فیڈریشن ہے۔ قوموں کی فیڈریشن کو ایک قومیت کے جھنڈے تلے لانا یا ایک قومی مفاد پہ لانا
بہت مشکل کام ہے۔ دوسرا پاکستان سے ایک بڑی غلطی یہ ہوئی کہ قائد ملت لیاقت علی خان کو روس کی جانب سے دورے کی دعوت بھی ملی۔ دورے کا شیڈول بھی ترتیب دیا گیا، تاہم قائد ملت روس کے بجائے امریکہ چلے گئے۔ میں اس کا پس منظر یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان بننے سے قبل آزادی کی تحریک چلی، قربانیاں ہوئیں، سب کچھ درست ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت ایک سامراج کا سورج غروب ہو رہا تھا اور دوسرے سامراج کا طلوع ہو رہا تھا۔ دونوں کے درمیان معاہدات ہوئے، جن کی بنیاد پر غروب ہوتے سامراج کے زیر قبضہ علاقے مختلف حصوں میں تقسیم کئے گئے۔ مشرق وسطٰی کی تقسیم اسی وقت عمل میں آئی۔ افریقہ کی تقسیم اس وقت ہوئی، جب فرانس کا سورج ڈوب رہا تھا۔ نیا سامراج امریکی تھا۔ پہلے دن سے ہی امریکہ کی دو لے پالک ریاستیں تھیں۔ ایک اسرائیل اور دوسری سعودی عرب۔ ظاہر ہے کہ پاکستان بھی اسی تقسیم کے بعد وجود میں آیا تھا۔ چنانچہ پاکستان نے بھی امریکہ کا ہی انتخاب کیا۔ پاکستان نے سعودی عرب اور امریکہ سے تو تعلقات بنا لئے، مگر اسرائیل کے ساتھ اس لئے نہیں بن پائے کیونکہ برصغیر کے لوگوں کا جو اجتماعی ضمیر تھا، وہ فلسطینیوں کے ساتھ تھا اور آج بھی ان کے ساتھ کھڑا ہے، مگر امریکہ کی دوسری لے پالک ریاست سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا سعودی عرب کی خواہشات کا احترام ہماری مجبوری ہے۔؟
حیدر جاوید سید:
پاکستان میں آباد شیعہ ہوں یا سنی، وہابی ہوں یا دیوبندی ان تمام کے مقدس محور تو دو ہی ہیں۔ ایک خانہ کعبہ دوسرا روضہ رسول، یہ بھی ایک فطری بات ہے کہ جہاں مذہبی مراکز ہوں، وہاں رجحان فطری رجحان ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بھٹو کے دور تک سعودی عرب کافی ترقی کرچکا تھا۔ بھٹو نے خارجہ پالیسی بہتر کی اور خلیجی ممالک میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کو روزگار میسر آیا۔ آج بھی اعداد و شمار دیکھیں تو خلیج کی دیگر ریاستوں میں پاکستانیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ چنانچہ ایسا بھی نہیں کہ پاکستان پہ سعودی عرب نے کوئی بہت احسانات کئے ہیں۔ جنرل ضیاء کے دور میں افغانستان کے اندر امریکہ کے مفاد کی جنگ ہوئی تو سارا پیسہ سعودی عرب نے خرچ کیا۔ سعودی عرب نے اگر ایک ارب ڈالر امریکہ کو دیا تو پچاس کروڑ ڈالر اس نے پاکستان کی حکومت کو دیئے، تاکہ جہادی گروہوں پہ خرچ ہو۔ اسی دوران پاکستان کے کونے کونے میں ان کے دینی مدارس بنے۔ کمرشل بلڈنگیں خرید کر وہاں مساجد بنائی گئیں۔ یہ سارا کچھ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔ سعودی عرب ایک ایسا کمبل ہے کہ جسے پاکستان چھوڑنا بھی چاہے تو نہیں چھوڑ سکتا، کیونکہ وہاں سے معاشی ضروریات بھی پوری ہوتی ہیں اور وہاں مقدس مقامات بھی
ہیں۔

اسلام ٹائمز: ایران کیساتھ تعلقات کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، مگر پھر بھی وہ تعلقات دکھائی نہیں دیتے، جنکی ضرورت ہے۔؟
حیدر جاوید سید:
جہاں تک ایران کے ساتھ تعلقات کی بات ہے تو ذوالفقار علی بھٹو کے دور تک ہمارے ایران کے ساتھ تعلقات بہت اچھے تھے۔ جنرل ضیاء نے جب پاکستان کے اقتدار پہ قبضہ کیا تو پاکستان جو کہ اسلامی ریاست تھی، وہ وہابی، دیوبندی ریاست میں تبدیل کی گئی۔ دوسری جانب جب ایران میں انقلاب اسلامی آیا تو وہ بھی بڑے جذباتی ہوکر انقلاب کو لیکر ساری دنیا کی جانب چل پڑے۔ ہم خیال، مخلص لوگوں کی فکری مدد کی جاتی ہے، مالی مدد نہیں کی جاتی۔ کہیں پر اگر نلکا لگانے کیلئے پیسے دیئے گئے تو تاثر یہ قائم ہوا کہ ٹیوب ویل کیلئے دیئے گئے ہیں۔ ایران کی جانب سے اگر دس روپے کی فلاحی مدد ہوئی تو اس کے مقابلے میں سعودی عرب نے دس ہزار ریال خرچ کئے۔ ایرانیوں کو یہاں کا مزاج سمجھنا چاہیے، یہاں برصغیر کے لوگ ہندو مذہب چھوڑ کر مسلمان ہوئے تھے، برصغیر کے مسلمان جب مسلمان ہو رہے تھے تو ان سے یہ کہا گیا تھا کہ جب آپ اسلام قبول کریں گے تو آپ ولید بن جلید کے بھائی بن جائیں گے۔ اس وقت ان کے ذہن میں یہ نہیں تھا کہ اگر مسلمان ہوں گے تو آقای راشد کے بھائی بن جائیں گے۔ تو ان کو ولید بن جلید کا بھائی بنایا گیا تھا۔ آج بھی ان کے ذہنوں میں وہی تاثر قائم ہے کہ ہم اور عرب بھائی ہیں، حالانکہ عرب ہمیں بھائی تو کیا ملازم سمجھنے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ یہ وہ سارے مسائل ہیں کہ جنہیں ٹھنڈے دل سے سمجھنے کی ضرور ت ہے۔ میں یہی کہتا ہوں کہ پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو، سیاسی قیادت کو، مذہبی رہنماؤں کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ دوستی پڑوسی کی بہترین ہوتی ہے۔ فائدہ مند بھی ہوتی ہے اور پروان بھی چڑھتی ہے۔ ہم کوئی کرائے کے مکان میں نہیں رہتے کہ پڑوسی تبدیل کرنے کی گنجائش ہو۔ پاکستان ہمارا گھر ہے، اب یہ نہیں ہوسکتا کہ ہمیں ایران، افغانستان یا انڈیا کی شکل پسند نہیں ہے تو ہم کہیں اور شفٹ ہو جائیں۔ پڑوسی نہیں بدلے جاسکتے۔

اسلام ٹائمز: ڈالر اور ریال سے جو تکفیری فکر پروان چڑھی ہے، کیا ریاست نے اسکے سدباب کیلئے کوئی عملی اقدامات کئے ہیں۔؟
حیدر جاوید سید:
ریاست وہ اقدامات اٹھا ہی نہیں سکتی۔ بھٹو صاحب کے دور تک مذہبی اونٹ کا صرف منہ خیمے اندر تھا۔ اس کے بعد پورا اونٹ ریاست کے خیمے میں آکر بیٹھ چکا ہے۔ پچھلے چالیس برسوں سے پاکستان کا چہرہ دیوبندی کم وہابی ہے۔ خلیجی ممالک اس بگاڑ کے ذمہ دار ہیں، چنانچہ ریاست چاہے بھی سہی تو بھی اس کے سدباب کیلئے کوئی عملی اقدامات اٹھانے سے قاصر ہے۔ آپ کو یقین نہیں آتا تو امام کعبہ کا حالیہ دورہ
پاکستان ہی دیکھ لیں، جس میں وہ کابینہ کے اجلاس میں موجود ہیں۔

اسلام ٹائمز: امام کعبہ کے حالیہ دورے کا کوئی خاص مقصد تھا۔؟
حیدر جاوید سید:
ریکس ٹلرسن کو پاکستان نے جو انکار کیا۔ وہ انکار کا پیغام امریکہ نے سعودی عرب کو پہنچا دیا ہے۔ جس کے بعد امام کعبہ اسلام اور مذہب کے نام پہ وہی مطالبہ لیکر وارد ہوئے ہیں، مقصد وہی کہ پاکستان وہابی سلفی بلاک میں شامل ہو، جو دوسرے اسلامی ملکوں کے خلاف تشکیل کے مرحلے میں ہے۔ کتنا بڑا بلنڈر، دھوکہ ہے کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں امام کعبہ بیٹھا ہے۔ کیا پاکستان کا آئین اس بات کی اجازت دیتا ہے۔ آئین تو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کابینہ کے اجلاس میں آرمی چیف بیٹھے، حالانکہ پاکستان کا اہم ترین آدمی ہے اور خود پاکستانیوں کے مزاج کے مطابق بھی اہم ترین شخصیت آرمی چیف کی ہے۔ آئینی اعتبار سے وہ بھی وفاقی کابینہ کے اجلاس میں نہیں بیٹھ سکتا۔ ضرورت کے تحت صرف دفاعی کمیٹی کے اجلاس میں بیٹھ سکتا ہے، مگر امام کعبہ کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بٹھا دیا گیا ہے، خبر نہیں اس سے کیا پیغام دینا مقصود تھا۔ جس مقصد کیلئے امام کعبہ آئے تھے، انہیں بھی پاکستان نے صاف جواب دیا ہے۔ میری معلومات کے مطابق وزیر خارجہ نے وزیراعظم کی طرف سے یہ کہا ہے کہ جناب ہم اس اتحاد میں شامل ہونے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور ہم اپنے پڑوسیوں سے نہیں لڑ سکتے ہیں۔ جس کے بعد انہوں نے اپنی ناراضگی کا اظہار نواز شریف کی تعریف کرکے کیا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپکے خیال میں پاکستان میں جو ایک خاص مکتب فکر کو نشانہ بنایا گیا، کیا اس عمل کو بالواسطہ یا بلاواسطہ حکومتی حمایت حاصل تھی۔؟
حیدر جاوید سید:
بالکل شیعہ مکتب فکر کو بیدردی سے نشانہ بنایا گیا، اس دہشتگردی کو بالکل حکومتی حمایت و سرپرستی حاصل تھی۔ 2013ء کے انتخابات میں کالعدم لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ اور تحریک طالبان نواز لیگ کے انتخابی پارٹنر تھے۔ نواز لیگ نے انہیں پارٹی ٹکٹس جاری کئے تھے۔ نواز لیگ کے کئی امیدوار باقاعدہ فورتھ شیڈول میں تھے، یا اس کے قریب قریب تھے۔ پنجاب میں قومی و صوبائی اسمبلی کی ٹکٹیں انہیں جاری کی گئیں تھیں کہ جو ان تنظیموں کے ساتھ روابط میں مشخص تھے۔ ان میں زیادہ تر ہارے۔ جیسے ڈوگر فورتھ شیڈول میں تھا۔ عابد رضا فورتھ شیڈول میں تھا، دونوں افراد لشکر جھنگوی کے ماسٹر مائنڈ تھے۔ ریاست میں حکمران پارٹی ان کالعدم تنظیموں کی سرپرستی کرتی ہو تو پھر ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ریاست اس میں شامل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ضیاء دور میں ان کی فصل کھڑی کی گئی تھی۔ بہرحال ریاست کے ادارے کسی نہ کسی صورت میں اس عذاب کے ذمہ دار ضرور ہیں، جو پاکستانی
عوام اور اداروں دونوں پہ ٹوٹ پڑا۔ بات ہے کہ فلاں سے پیسے آرہے تھے، فلاں سے۔ تو سوال یہ ہے کہ ہم کیا بچے تھے۔؟ ریاست نے اپنے لئے یہ کانٹے خود بوئے، جنرل ضیاء کے دور میں بوئے گئے۔ وہ چاہتے تھے کہ پاکستانی سماج کو فتح کر لیں اور پاکستان بالکل دیوبندی اور وہابی بنے اور باقی کو فارغ کیا جائے۔

اسلام ٹائمز: سعودی عرب نے حال ہی میں اسلحہ خریداری کے بڑے بڑے معاہدے کئے ہیں، کیا یہ اسلحہ اسی نئے سلفی وہابی بلاک کیلئے خریدا جا رہا ہے، نیز یہ بلاک امریکہ، اسرائیل کیخلاف جاری مزاحمت کو توڑنے میں کتنا کامیاب ثابت ہوگا۔؟
حیدر جاوید سید:
مجھے تو یہ بلاک بنتا ہوا ہی نظر نہیں آتا، کیونکہ خلیجی ممالک کے پاس کتنی فوج ہے کسی سے لڑنے کیلئے، سعودی عرب کے پاس جو فوج ہے، اس کی حقیقت یمن جنگ میں سامنے آگئی ہے۔ یہ جنگ بنیادی طور پر سعودی عرب اور ایران کی ہے ہی نہیں۔ یہ جنگ ہے امریکہ اور ایران کی، جسے سعودی ایران مخاصمت کا چولا پہنایا گیا ہے۔ امریکہ نے ایران کے خلاف یہ جنگ پہلے عراق کے ذریعے لڑی، جس میں 7.5 ارب ڈالر اسلحہ کی ادائیگی سعودی عرب نے کی تھی۔ سعودی عرب کو عقل کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ خلیج کی پہلی جنگ سے ساڑھے چار ارب ڈالر یہ امریکہ کو دیتے آرہے ہیں۔ جس میں سے ڈیڑھ ارب ڈالر کویت دیتا ہے۔ اگر یہ ساڑھے چار ارب ڈالر سالانہ اسلامی دنیا میں خرچ کئے جاتے اور فلاحی کاموں میں تو آج سعودی عرب کا کیا مقام ہوتا۔ امریکیوں کو بھی یہ سوچنا چاہیئے کہ اگر یہ بحران بڑھا تو کیا دیگر ممالک اس میں فریق نہیں بنیں گے۔ آپ اسلحہ بیچنے والے ممالک کی چالاکی دیکھیں، اسلحہ استعمال کب ہوگا، ہوگا یا نہیں، کس کے خلاف ہوگا۔ اس کا کچھ پتہ نہیں، جو پیسہ مسلمانوں کی فلاح پہ خرچ کیا جاسکتا تھا۔ مسلمانوں کو چھوڑیں سعودی عرب کے عوام کی بھلائی کیلئے خرچ کیا جا سکتا تھا۔ اس کو ضائع کیا جا رہا ہے۔ ویسے بھی سعودی عرب نے مسلم امہ کا کوئی ٹھیکہ نہیں لیا ہوا۔ اسی پیسے سے تحقیق کے ادارے سعودی عرب میں بنائے جا سکتے تھے۔ تعلیم و سائنس پہ خرچ کیا جا سکتا تھا۔ تو سعودی عرب کے اسلحہ خریداری کے حوالے سے سیلزمین کامیاب ہوا ہے۔ اسلامی ملکوں کے سربراہان کیلئے یہ فکر کا مقام ہے کہ وہ اپنی استعداد سے بڑھ کر امریکہ و مغرب کے مفاد میں اپنے وسائل خرچ کر رہے ہیں۔ جہاں تک آل سعود کے مستقبل کا سوال ہے تو وہ وہی ہے جو کہ خلافت عثمانیہ کا ہوا تھا۔ اس کے آثار نظر آرہے ہیں۔ خاندان سعود آپس میں تقسیم کا شکار ہے، یہ تقسیم ایسی نہیں کہ اسے نظرانداز کیا جاسکے۔ آئندہ بیس سے تیس سال میں سعودی عرب میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 679537
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

رضامہدی
Pakistan
شاندار۔ آب زر سے لکھنے والا تجزیاتی انٹرویو۔
شاد و آباد رہیں، سیدی
ہماری پیشکش