QR CodeQR Code

دنیا میں کروڑوں شیعہ آباد ہیں، تاریخ گواہ ہے کہ ان پر اب تک کوئی دہشتگردی ثابت نہیں ہوئی، علامہ فدا مظاہری

24 Nov 2017 15:52

پیش امام مرکزی جامع مسجد پاراچنار علامہ فدا حسین مظاہری کا اسلام ٹائمز کیساتھ تفصیلی انٹرویو کے دوران کہنا تھا کہ پاراچنار کے حالات ملک کے دیگر علاقوں سے مختلف ہیں۔ عراق اور دیگر ان ممالک میں دیکھیں، جہاں حالات انتہائی خراب ہوں اور دہشتگردوں کا مقابلہ کرنا ہو تو عوام کو حکومت ہی اسلحہ دیتی ہے۔ پاراچنار کو دیکھیں، پاکستان کے دیگر علاقوں کی نسبت یہ علاقہ جغرافیائی لحاظ سے نہایت خطرناک علاقہ ہے۔ تین اطراف سے افغانستان سے گھیرا ہوا ہے۔ چنانچہ اسلحہ لینے کے بجائے یہاں عوام کو مزید اسلحہ دینا چاہیے۔


مرکزی جامع مسجد پاراچنار کے امام جمعہ والجماعت حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ فدا حسین مظاہری کا تعلق شمالی علاقے گلگت سے ہے۔ ابتدائی تعلیم مقامی مدارس میں حاصل کی، جبکہ مزید اعلٰی دینی تعلیم کے حصول کیلئے نجف اشرف تشریف لے گئے۔ کئی سال تک علم کی پیاس بجھانے کے بعد وہاں سے واپس آکر اپنے علاقے میں دینی خدمات انجام دینے لگے۔ 1991ء میں وقت کے پیش امام مرحوم علامہ شیخ علی مدد کی دعوت پر مدرسہ جعفریہ پاراچنار میں بحیثیت مدرس خدمات سرانجام دینے لگے۔ اس دوران مرحوم شیخ علی مدد کی غیر موجودگی میں پیش امام کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ اکتوبر 2008ء میں جامع مسجد کے سابق پیش امام علامہ محمد نواز عرفانی نے نماز عید الفطر کے دوران خود اپنے منصب سے سبکدوش ہونیکا اعلان کرتے ہوئے انہیں پیش امام مقرر کرنیکا اعلان کیا۔ یوں وہ دو ماہ تک یہاں مستقل امامت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ تاہم دو ماہ کے بعد آغا نواز عرفانی کی واپسی ہوئی، تو جناب عالی نے دوبارہ درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا، جبکہ آغا محمد نواز عرفانی کی شہادت کے بعد مارچ 2016ء میں آیۃ اللہ العظمٰی سید علی سیستانی نے انہیں جامع مسجد و امام بارگاہ پاراچنار کے امور کے لئے اپنا وکیل خاص مقرر کیا۔ تب سے جناب عالی جامع مسجد کی امامت اور آقائے سیستانی کے وکیل کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے انکے ساتھ علاقائی امور پر ایک جامع انٹرویو کیا ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: علاقائی سطح پر جو شیعہ سنی اختلافات ہیں، انکی روک تھام کے حوالے سے آپکا کیا ایجنڈا ہے۔؟
علامہ فدا حسین مظاہری:
ہر معاشرے اور علاقے میں اختلافات ضرور ہوتے ہیں، البتہ کرم ایجنسی میں دو قسم کے اختلافات پائے جاتے ہیں، پہلی قسم کے اختلاف جائیداد کے حوالے سے ہیں۔ مقامی سطح پر اہل تسنن کے ساتھ اہل تشیع کے اختلافات کی بنیادی وجہ بھی جائیداد اور ملکیتی اراضی ہی رہی ہے، جبکہ بعد میں انہی کو فرقہ ورایت کا رنگ دیا جاتا رہا ہے۔ اہل تسنن کے جانے کے بعد آج بھی جائیداد کے حوالے سے بیسیوں ایسے مسائل موجود ہیں، جن پر فریقین کے مابین اختلافات پائے جاتے ہیں، جو کہ حل طلب ہیں۔ اس حوالے سے ہم نے مقامی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرکے باہمی تعاون کے ساتھ اس کا حل نکالنے کی کوشش کی ہے۔ ہم نے حکام پر واضح کیا ہے کہ جس کی ملکیت ہو اور جس کا حق ہو، اسے ہی اپنا حق دیا جائے۔ نیز یہ کہ جب تک جائیداد کے اختلافات ختم نہ ہوں، اس وقت تک علاقے میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔

اسلام ٹائمز: حکومت کیجانب سے پاراچنار شہر کے ارد گرد خندق کی کھودائی، باڑ لگوانا اور ریڈ زون کا قیام، جسے بعض لوگ علاقے کی اقتصادی ناکہ بندی قرار دیتے ہیں، اس حوالے سے آپکا کیا موقف ہے۔؟
علامہ فدا حسین مظاہری:
پاراچنار میں ریڈ زون کے قیام نیز ارد گرد خندق اور باڑ لگانے سے یہاں کی معیشت ضرور تباہ ہوئی ہے اور مزید تباہ ہو رہی ہے۔ ہاں یہ عوام کے لئے نقصان دہ ضرور ہے، تاہم یہ بات بھی ٹھیک نہیں کہ حکومت نے عوام کو نقصان پہنچانے کی نیت سے یہ سب اقدامات اٹھائے ہیں بلکہ یہ سب کچھ ہماری حفاظت کیلئے ہیں۔ ہاں اس سے ہمارا نقصان بھی ہو رہا ہے اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، مگر پاراچنار کے حالات ایسے تھے کہ ایسے اقدامات اٹھانے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ دوسری جانب پاک فوج بھی ہمارے اپنے ہی جوان ہیں، چنانچہ وہ ہماری قوم کے خیر خواہ ہیں۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ کی طرح اس بار بھی ایک خودکش اور اسکی پوری وضع قطع کی اطلاع دی جاچکی ہے، اس حوالے سے آپکا خیال کیا ہے، کیا یہ حقیقت ہے؟ اگر ہے تو حکومت اسکی روک تھام میں ناکام کیوں ہے۔؟
علامہ فدا حسین مظاہری:
حکومتوں کیطرف سے ایسا ہوتا رہتا ہے، تاہم حقیقت کچھ بھی ہو، ہمیں اپنی طرف سے اختیاطی تدابیر کرنا چاہیے، جبکہ یہ بات کہ جب حکومت کو پتہ ہو تو اسے روک کیوں نہیں سکتی۔ دیکھیں! دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ امریکہ، برطانیہ وغیرہ میں بھی کارروائی سے پہلے وہاں کی حکومتیں اطلاع دیتی ہیں کہ اس طرح کے عملیات اور کارروائی کا خطرہ ہے، تاہم اسکی روک تھام کرنے میں وہ عموماً ناکام ہی رہتے ہیں۔ اسکے علاوہ لاہور میں جو دھماکہ ہوا، وہاں بھی دھماکہ سے پہلے اسکی اطلاع دی گئی تھی۔ اسکے باوجود خودکش دھماکہ ہوگیا۔ حکومت کا یہ اپنا ہی مسئلہ ہے کہ اطلاع ان کو کیسے پہنچتی ہے اور اسکی روک تھام کیوں نہیں کرسکتی۔

اسلام ٹائمز: پاراچنار کے متعدد علاقوں میں حکومت نے گھروں پر چھاپے مارے، گرفتاریاں کیں، اسلحہ قبضے میں لیا۔ اس حوالے سے آپکا کیا موقف ہے۔؟
علامہ فدا حسین مظاہری:
اس حوالے سے ساری طوری قوم تشویش میں مبتلا ہے۔ اس سے ہماری عزت و ناموس کو ٹھیس پہنچی ہے۔ دنیا بھر میں کروڑوں کے حساب سے شیعہ آباد ہیں، تاریخ گواہ ہے کہ ان پر اب تک کوئی دہشتگردی ثابت نہیں ہوئی ہے۔ شیعہ ایک پرامن قوم ہے۔ شیعہ قوم اپنے ملک کی وفادار قوم ہے، محب وطن ہیں۔ اپنے ملک اور سرزمین کا دفاع انکے مذہبی واجبات میں شامل ہے۔ دوسری طرف جو دہشتگرد ہیں، ان کو پوری دنیا جانتی ہے کہ وہ کون ہیں، کس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں، ان کا مذہب اور عقیدہ کیا ہے اور کس کے اشارے پر یہ لوگ کام کرتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے پاس جو اسلحہ موجود ہے، وہ ان افراد کے خلاف ہے، جو اس ملک کے دشمن ہیں، جنہوں نے اس ملک کی حاکمیت اور قانون کو چیلنج کیا ہے، پاک فوج کے دشمن ہیں۔ اسلام کے دشمن ہیں۔ چنانچہ ایسی صورت میں جبکہ ہمارا اسلحہ ملک دشمنوں کے خلاف اور اپنی دفاع کے لئے ہے، اسکے باوجود طوری قوم کے گھروں پر چھاپے مار کر اسلحہ اٹھانے کو ہم قطعاً تسلیم نہیں کرتے۔ اسکے خلاف ہم نے اقدامات بھی کئے ہیں، نیز اس مسئلے کو اعلٰی سطح پر مزید بھی اٹھائیں گے۔

اسلام ٹائمز: مگر حکومت کا موقف ہے کہ ملک کے اندر قانون سب کیلئے ہے۔ اسلحہ رکھنا ملک بھر میں غیر قانونی ہے، تو جس طرح دیگر علاقوں سے اسکا صفایا کیا جاچکا ہے اور کیا جا رہا ہے۔ بالکل اسی طرح یہاں بھی یہی ارادہ ہے۔ اس حوالے سے آپ اپنا موقف واضح کیجئے گا۔؟
علامہ فدا حسین مظاہری:
ہاں یہ مانتے ہیں کہ قانون سب کیلئے ہے، لیکن پاراچنار کے حالات ملک کے دیگر علاقوں سے سراسر مختلف ہیں۔ دیکھیں عراق اور دیگر ان ممالک میں دیکھیں، جہاں حالات انتہائی خراب ہوں اور دہشتگردوں کا مقابلہ کرنا ہو تو ایسی صورت میں عوام کو حکومت ہی اسلحہ دیتی ہے۔ پاراچنار کو دیکھیں، پاکستان کے دیگر علاقوں کی نسبت یہ علاقہ جغرافیائی لحاظ سے نہایت خطرناک علاقہ ہے۔ تین اطراف سے افغانستان سے گھیرا ہوا ہے، جہاں دہشتگرد کھلے عام پھرتے ہیں، تاریخ گواہ ہے کہ افغان سرحدوں نیز اندرونی دشمنوں نے بار بار طوری قبائل پر حملے کئے ہیں۔ چنانچہ اسلحہ لینے کے بجائے یہاں عوام کو مزید اسلحہ دینا چاہیے، کیونکہ دنیا جانتی ہے بلکہ حکومت پاکستان نے بھی تسلیم کیا ہے کہ اس علاقے کے ارد گرد ایسے دہشتگرد موجود ہیں، جو بے گناہ عوام، خصوصاً سرکاری اہلکاروں کو قتل کرنا باعث جنت سمجھتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ان سارے مسائل سے نمٹنے کیلئے باہمی اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہوتی ہے، اس حوالے سے آپ نے کیا اقدامات کئے ہیں۔؟
علامہ فدا حسین مظاہری:
اندرونی اور باہمی نفاق کی واحد وجہ جہالت اور دین سے دوری ہے۔ تاہم میں اسے جزوی سمجھتا ہوں، مشاہدے کی بات ہے، ایک گھر کے اندر بھائی کا اپنے بھائی کے ساتھ کئی باتوں پر اختلاف ہوتا ہے۔ ہاں ہماری بھرپور کوشش ہے کہ اسے دور کریں۔ اپنی تقریروں میں بھی ہم نے لوگوں کو اسکے نقصانات اور مضر اثرات سے مسلسل اگاہ کیا ہے۔ آئندہ بھی عوام کے شعور کو اجاگر کرنے کی کوشش کرکے اختلافات کے مکمل طور پر خاتمے کی کوشش کریں گے۔

اسلام ٹائمز: حکومت کیجانب سے بلائے جانیوالے عمائدین کے جرگوں میں زیادہ تر اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ شیعہ قبائل کی آبادکاری کی بجائے اہل تسنن کی آبادکاری کرائی جائے۔ اس حوالے سے اپنی پالیسی سے آگاہ فرمائیں۔؟
علامہ فدا حسین مظاہری:
حکومت کو اپنے موقف سے بار بار آگاہ کیا ہے کہ جو پہلے بے دخل ہوئے، ان کو پہلے آباد کرایا جائے، نیز وسائل کی تقسیم میں بھی انصاف کا مظاہرہ کیا جانا چاہئے۔ حکومت سے یہی امید ہے، اسکے علاوہ کوئی بھی کوشش ناکام ہوگی۔ دوسری طرح یہ بات سب پر عیاں ہے کہ ہمارے مجتہدین خصوصاً امام خمینیؒ نے اپنے بیانات اور فرمائشات میں بار بار واضح کیا ہے کہ ساتھ رہنے والے لوگ خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، انکے ساتھ رواداری اور عدل و انصاف کرنا چاہیے۔ ان کیطرف سے یہ تاکید کی گئی ہے کہ مسلمانوں کے تمام فرقوں کے درمیان وحدت کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ بالکل اپنے مذہبی پیشوایان کی طرح ہمارا بھی یہی موقف ہے۔

اسلام ٹائمز: اپنے اس موقف کو آپ نے کسی سٹیج یا خطبے میں کبھی واضح کیا ہے۔؟
علامہ فدا حسین مظاہری:
ہاں بالکل کیا ہے۔ ہماری انجمن حسینیہ نے کئی مرتبہ حکومت کے ساتھ مذاکرات میں تکراراً اس موقف کا اظہار کیا ہے کہ بے دخل ہونے والے تمام افراد کو میرٹ کی بنیاد پر آباد کرایا جائے۔ چنانچہ پہلے بے دخل شدہ افراد کو پہلے آباد کرایا جائے جبکہ بعد میں بے دخل شدہ قبائل کو بعد میں آباد کرایا جائے۔

اسلام ٹائمز: آپکے اس موقف سے عوام ناواقف ہیں، سرکاری سطح پر بے شک اٹھایا جا چکا ہوگا، تاہم عوام اس سے بے خبر ہیں تو کیا خیال ہے عوام کو آگاہ کرینگے کہ نہیں۔؟
علامہ فدا حسین مظاہری:
یہ مسئلہ اب تو جاری ہے، حل ہوا تو ٹھیک، وگرنہ عوام کو جمعہ میں خطبے کے ذریعے آگاہ کریں گے، نیز اس حوالے سے اقدام بھی کریں گے۔

اسلام ٹائمز: اندرونی اختلاف کی اصل وجہ انتخابات کو قرار دیا جا رہا ہے۔ اس بار آپ انتخابات میں ڈائریکٹ حصہ لیں گے کہ نہیں۔؟
علامہ فدا حسین مظاہری:
اس بار ہمارا موقف واضح ہے کہ الیکشن لڑنے والے سب کے سب ہمارے لئے برابر ہیں۔ سب ہمارے لئے بھائیوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سب کو ہماری حمایت حاصل ہوگی، نہ کہ ایک بندے کی حمایت کی جائے اور باقی کی مخالفت۔

اسلام ٹائمز: شہید نواز عرفانی کا جو قتل ہوا ہے، اس سے بھی اندرونی سطح پر قوم نفاق کا شکار ہوئی ہے، اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آج تک اصل مجرم تک رسائی ممکن نہ ہوسکی، آپ نے اس حوالے سے کیا اقدامات اٹھائے ہیں۔؟
علامہ فدا حسین مظاہری:
اس حوالے سے ہم نے کافی کام کیا ہے۔ چھ رکنی ایک کمیٹی بنائی تھی۔ جس میں ایم این اے صاحب بھی شامل تھے۔ کمیٹی کے ارکان اسلام آباد گئے، وہاں سے ایک تفتیشی ٹیم بھی آئی تھی، لیکن مسئلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔

اسلام ٹائمز: ایک مرکزی ادارے کی حیثت سے اتنے اہم کیس میں پیشرفت نہ ہونے کیصورت میں کیا اسے آپ اور دیگر ذمہ دار افراد کی کمزوری پر حمل نہ کیا جائے۔؟
علامہ فدا حسین مظاہری:
حقیقت میں ایسا ہی ہے، یہ ہماری اور ذمہ دار افراد کی کوتاہی اور کمزوری ہے، لیکن یہ کوتاہی اور کمزوری صرف ہماری ہی نہیں، بلکہ پوری قوم کی یہ ذمہ داری بنتی ہے، کیونکہ آغائے عرفانی ساری طوری قوم کا قائد تھا، چنانچہ اس مسئلے کو اٹھانا نہ فقط ہماری بلکہ پوری قوم کی ذمہ داری بنتی ہے، جبکہ ہم نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی، جو کہ ناکام رہی ہے۔


خبر کا کوڈ: 685382

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/685382/دنیا-میں-کروڑوں-شیعہ-آباد-ہیں-تاریخ-گواہ-ہے-کہ-ان-پر-اب-تک-کوئی-دہشتگردی-ثابت-نہیں-ہوئی-علامہ-فدا-مظاہری

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org