0
Saturday 9 Dec 2017 19:01

پاراچنار میں مومنین کے بلند حوصلے دیکھ کر دلی اطمینان حاصل ہوا، سید رضی العباس شمسی

پاراچنار میں مومنین کے بلند حوصلے دیکھ کر دلی اطمینان حاصل ہوا، سید رضی العباس شمسی
 سید رضی العباس شمسی 1952ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ 1967ء میں ایف ایس سی جبکہ 1971ء میں ایجوکیشن مکمل کی۔ چونکہ اسوقت آئی ایس او کی بنیاد ابھی نہیں پڑی تھی، لہذا اسکے باقاعدہ ممبر یا عہدیدار نہیں رہے، تاہم باہر سے نظارت کرتے رہے۔ باقی اکثر تنظیموں سے انکی وابستگی رہی۔ مظفر شمسی صاحب کے ساتھ مذہبی امور کی انجام دہی میں تعاون کرتے رہے، وہ بہت سارے تنظیمی پروگرامات اور سرگرمیوں میں انہیں اپنے ساتھ لے جاتے تھے، لہذا انہیں اپنا تنظیمی استاد اور محسن مانتے ہیں۔ 1977ء میں اعلٰی تعلیم کیلئے سویڈن چلے گئے۔ واپسی پر کراچی میں انکی پوسٹگ ہوئی۔ 1980ء میں آئی او میں وارد ہوئے۔ اور مارچ 2017ء کو آئی او کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ گذشتہ دنوں انتہائی نادار اور مفلس شہداء کے ورثاء میں امدادی چیکس کی تقسیم کی غرض سے پاراچنار آئے تھے، اسلام ٹائمز نے تنظیمی، علاقائی اور ملکی امور پر انکے ساتھ گفتگو کی ہے، جسے اپنے کرمفرماؤں کی نذر کرتے ہیں۔ادارہ

اسلام ٹائمز: پاراچنار میں آپکے آنے کا مقصد کیا تھا؟
سید رضی العباس شمسی:
پہلا مقصد تو یہ تھا کہ ہمارے پاس شہداء کے فنڈز تھے، وہی تقسیم کرنا تھے اور دوسری جو اہم بات ہے وہ یہ کہ تنظیم کے رکن نظارت علامہ سید عابد الحسینی کے ساتھ ملاقات بہت عرصے سے نہیں ہوپا رہی تھی۔ لٰہذا آئی او کے رکن نظارت سید عابد الحسینی کے ساتھ بالمشافہ ملاقات کے دوران انہیں تنظیمی کارگردکی اور تمام سرگرمیوں سے آگاہ کرنا بھی مطلوب تھا اور ساتھ ہی 14 دسمبر کو لاہور میں ہونے والے آئی او کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی دعوت بھی انہیں دی۔ اسکے علاوہ یہاں آئی او کے اراکین سے ملاقات ہوئی۔ ان کے ساتھ اس علاقے کے ساکنین کیلئے آئی او کیجانب سے کام کرنے کا پروگرام بھی بنایا ہے۔

اسلام ٹائمز: اپنے اس پروگرام کے تحت آپ نے شہداء کے لواحقین میں کل کتنی رقم تقسیم کی۔؟ 
سید رضی العباس شمسی:
ایگزیکٹ فگر کا پتہ تو متعلقہ شخص یعنی سید حسین افضل کو  ہوگا، تاہم تقریباً 13 لاکھ کی رقم ابھی تک تقسیم کی جاچکی ہے۔

اسلام ٹائمز: یہاں تو شہداء کی تعداد بہت زیادہ ہے، شہداء اور انکے لواحقین کی لسٹ بناتے وقت آپ نے کرائٹیریا کیا رکھا ہے۔؟
سید رضی العباس شمسی:
بیشک یہاں واقعات بہت زیادہ ہوئے ہیں اور شہداء و دیگر متاثرین کی تعداد بہت زیادہ ہے، تاہم ہم نے زیادہ ترجیح ان کو دی ہے، جنہیں حکومت اور دیگر اداروں کی جانب سے تعاون کم یا سرے سے ملا ہی نہیں، جبکہ دوسری ترجیح خاندان کی تعداد اور اخراجات تھی، یعنی کہ زیادہ امداد انکو دینا تھی جن پر لوڈ زیادہ ہو۔ یہ تمام کام ہمارے آئی او کے مقامی اراکین، سید حسین افضل اور سید حسین اکبر وغیرہ نے پہلے ہی انجام دیا تھا۔ چنانچہ اس محنت پر ہم ان کے نہایت شکر گزار ہیں۔ اسکے علاوہ اراکین کو فارم دیا گیا تھا، جسے لواحقین سے پر کرانا تھا۔

اسلام ٹائمز: اس فنڈ یا آپکے دیگر فنڈز اور اخراجات کا ذریعہ کیا ہے۔ یہ سب کچھ آپ کہاں سے حاصل کرتے ہیں۔؟ 
سید رضی العباس شمسی:
جب کوئی حادثہ ہوتا ہے یا قدرتی آفت آتی ہے، تو ہمارے تنظیمی برادران فوری طور پر اکٹھے ہوکر ان کی کمک کیلئے چندوں کی مہم چلاتے ہیں۔ اس دوران لوگ متاثرین کیلئے رقم دیتے ہیں۔ چنانچہ 2005ء میں زلزلہ زدگان جبکہ 2010ء میں سیلاب زدگان کیلئے ہم نے 17 لاکھ کا چندہ جمع کرکے مستحق افراد میں تقسیم کیا تھا۔

اسلام ٹائمز: آپکا یہ اور اسطرح کا تعاون صرف پاراچنار کیلئے ہوتا ہے؟ کیا ملک کے دیگر علاقوں کے متاثرین کیساتھ بھی آپ تعاون کرتے ہیں۔؟
سید رضی العباس شمسی:
ہاں بالکل، جیسا کہ ابھی عرض کیا کہ ملک کے دوسرے حصوں میں جو زلزلہ اور سیلاب کے متاثرین تھے یا کوئٹہ میں دہشت گردی سے متاثر لوگ تھے، ان کیلئے بھی اسی طرح چندہ جمع کیا تھا۔

اسلام ٹائمز: آپکے منشور میں صرف متاثرین کو فنڈ فراہم کرنا ہوتا ہے؟ یا مومنین کے دیگر مسائل کے حل کیلئے بھی کچھ کیا جاتا ہے۔؟
سید رضی العباس شمسی:
آئی او کا نصب العین ایک ایسے معاشرے کا قیام ہے، جو سیرت محمد و آل محمد اور قرآن کی تعلیمات پر گامزن ہو۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ظہور امام زمان کیلئے زمینہ سازی کی جائے اور ایسے معاشرے کے قیام کیلئے ہمارے ساتھ تین درجات ہیں۔ پہلے مرحلے پر فرد سازی ہے، پھر گروہ سازی اور اسکے بعد معاشرہ سازی ہے۔ پہلے دو مراحل کیلئے ہم پروگرامات کا انعقاد کرتے ہیں، یوں روحانی پروگرامات اور تربیتی پروگرامات ہوتے ہیں، جن میں لوگوں کو تربیت دی جاتی ہے اور پھر معاشرہ سازی سے پہلے اپنے معصومینؑ کے فرامین کے مطابق معاشرے میں سماجی کام کیا جاتا ہے، معاشرے میں غریب لوگ ہوتے ہیں، ضرورت مند ہوتے ہیں، اس لیول پہ متاثرین اور ضرورت مندوں کی ضروریات کو پورا کرنا ہوتا ہے، اسکے علاوہ ایجوکیشن اور صحت کے حوالے سے بھی پروگرامات کا انعقاد کیا جاتا ہے، نیز معاشرے میں مسلمانوں کے مابین اخوت کے قیام کیلئے بھی ہم کام کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا آئی او کے پیش نظر کوئی سیاسی مقاصد بھی ہوا کرتے ہیں۔؟
سید رضی العباس شمسی:
نہیں، ہمارے کوئی سیاسی مقاصد نہیں ہوتے۔ ہماری تنظیم کا یہ طریقہ ہے کہ ہر فرد آئی او کا رکن نہیں بن سکتا، بلکہ اسکے لئے ایک کرائیٹیریا مقرر ہے۔ یعنی ممبر بننے والا کم از کم میٹرک پاس ہو اور یہ کہ باروزگار ہو، چنانچہ جب ایک بندہ ان جاب (باروزگار) ہے تو وہ سیاست میں حصہ لینے کا زیادہ شوق نہیں رکھتا۔

اسلام ٹائمز: اکثر تنظیمیں دوسری بڑی اور سیاسی تنظیموں کے زیر نظر کام کرتی ہیں، کسی سیاسی یا مذہبی تنظیم سے کوئی وابستگی ہے۔؟
سید رضی العباس شمسی:
نہیں ہماری تنظیم کسی کی ذیلی تنظیم نہیں ہے، ہاں کچھ معاملات پر ایک خاص نظریئے یعنی ولایت فقیہ کے تحت دیگر تنظیموں کے ساتھ اکٹھے ہوکر کام کرنے میں شریک ہوتے ہیں، ان معاملات کو حل کرنے کیلئے، اسکے علاوہ سماجی میدان میں بھی اکثر دوسری تنظیموں کے ساتھ اکٹھے کام کرتے ہیں، تاہم کسی کے ساتھ یا کسی کے زیر اثر کام نہیں کرتے۔

اسلام ٹائمز: یہاں تشریف لاکر مقامی سطح پر کون کونسے مسائل کا احساس ہوا ہے۔؟
سید رضی العباس شمسی:
اس سے قبل 2014ء میں بھی بندہ پاراچنار آیا تھا، یہاں کے تنظیمی برادران سے ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ اس وقت باہمی سطح پر مسائل کافی زیادہ تھے، اس وقت کئی بزرگوں نے ہم سے اندرونی اختلافات، مشکلات اور مسائل کے حل میں تعاون طلب کرتے ہوئے خواہش ظاہر کی تھی کہ ملک کے دیگر علاقوں میں کام کرکے بااثر شخصیات کے ذریعے یہاں کا مسئلہ حل کرا دیں، لیکن اس وقت تو میں صرف فنڈ کی تقسیم میں مصروف رہا، تاہم کسی حد تک معلومات ہوئیں کہ اس وقت ان مسائل میں کافی حد تک کمی آئی ہے اور میں اسے علاقے کے مومنین کی کوششوں کا نتیجہ ہی سمجھتا ہوں، آئندہ بھی امید کرتا ہوں کہ مومنین کی کوششوں سے یہ مسائل اور بھی کم ہوتے جائیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ اندرونی مسائل یا اختلافات جو ہیں، وہ ایک ثالث ہی حل کرسکتا ہے، کیونکہ اختلاف اس وقت تک ختم نہیں ہوتا، جب تک طرفین مل بیٹھ کر مذاکرات نہ کریں۔ یہ مذاکرات اور اکٹھے بیٹھنا ایک ثالث کے بغیر ناممکن ہے اور یہ کہ اس کے لئے ایک قدآور شخصیت کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ بھی ایسی کہ جس پر سب متفق ہوں، سب کا اس پر اعتماد ہو تو پھر جاکر ایسا مسئلہ کہیں حل ہوتا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپکا کیا خیال ہے، کیا آپ ایسی شخصیت نہیں بن سکتے یا ایسی شخصیت باہر سے آپ لا نہیں سکتے۔؟
سید رضی العباس شمسی:
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہاں مقامی سطح پر آئی او کا کوئی خاص سٹیٹس نہیں ہے کہ سب اسے قبول کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایسی شخصیت کا انتخاب بھی یہاں کے لوگوں کو کرنا ہوگا کہ سب متفق ہوکر ایک شخصیت کا انتخاب کریں۔ البتہ ایسی شخصیت ہم لاسکتے ہیں، لیکن پھر بھی یہاں کے سب لوگوں کی رضامندی ضروری ہے۔ پاکستان میں ایسی شخصیات موجود ہیں، جن کو سب لوگ تسلیم کرتے ہیں اور انکی بات سنتے ہیں، انکے درمیان جو اختلافات ہیں، انہیں وہ ختم کروا سکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 688235
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش