1
0
Wednesday 20 Dec 2017 23:58
امید ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے الٹی میٹم کے نتیجے میں 31 دسمبر سے قبل ہی شہباز شریف اور رانا ثنااللہ مستعفی ہو جائینگے

آئندہ سال عام انتخابات کے بجائے 3 سال کیلئے نگران حکومت آتی نظر آرہی ہے، اطہر جاوید صدیقی

حکمرانوں کی خارجہ پالیسی کی حقیقت تو صرف یہ ہے کہ کس طرح نااہل نواز شریف کو بچایا جائے
آئندہ سال عام انتخابات کے بجائے 3 سال کیلئے نگران حکومت آتی نظر آرہی ہے، اطہر جاوید صدیقی
اطہر جاوید صدیقی پاکستان عوامی تحریک کے سینیئر رہنما اور سندھ کے آرگنائزر ہیں، انہوں نے زمانہ طالب علمی کے دوران 1989ء میں تحریک منہاج القرآن یوتھ ونگ کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کا آغاز کیا، وہ یوتھ ونگ سندھ کے سیکرٹری جنرل، تحریک منہاج القرآن کراچی کے ناظم، سندھ کے نائب ناظم کی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک کے قیام کے بعد انہوں نے اس میں بھی شمولیت اختیار کی، وہ کراچی کے سیکرٹری جنرل بھی رہ چکے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے اطہر جاوید صدیقی کیساتھ مختلف موضوعات کے حوالے سے انکے آفس میں ایک مختصر نشست کی۔ اس موقع پر ان کے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے منظر عام پر آنے والی جسٹس باقر نجفی رپورٹ سے مطمئن ہیں یا کمی بیشی محسوس کرتے ہیں۔؟
اطہر جاوید صدیقی:
سانحہ ماڈل ٹاؤن انکوائری رپورٹ کے حوالے سے خود جسٹس باقر نجفی نے خود کہا کہ مجھ کہیں سے روکا ہوا تھا کہ میں کھل کر اظہار نہیں کر سکا، میں ملوث افراد کے نام بھی لے سکتا تھا اور بہت سارے حقائق کھل کر بیان کر سکتا تھا کہ یہ یہ لوگ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ دار ہیں، لیکن انکی اس رپورٹ کے اندر دبے لفظوں میں اظہار کیا گیا کہ پریشر ہونے کی وجہ سے وہ ان حقائق کا کھل کر اظہار نہیں کر سکے۔ ہم اس بات پر مطمئن ہیں کہ جسٹس باقر نجفی نے انتہائی جرأت مندانہ کام کیا۔

اسلام ٹائمز: جسٹس باقر نجفی رپورٹ کے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس پر کیا اثرات مرتب ہوئے، اب کیس کس پوزیشن پر ہے۔؟
اطہر جاوید صدیقی:
جسٹس باقر نجفی صاحب کی رپورٹ ہمارے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کو سپورٹ کر رہی ہے، انکی اس رپورٹ نے ہمارے کیس کو مزید مضبوط کر دیا ہے، ہمارا کیس ہائیکورٹ میں چل رہا ہے، جس میں ہمارے 65 افراد نے گواہی دی ہے، ہمارے کیس کے مدعی جواد ہادی صاحب نے عدالت میں نو گھنٹے کھڑے ہوکر دلائل پر مبنی پوری رپورٹ پیش کی ہے۔ باوجود یہ کہ دباؤ کی وجہ سے جسٹس باقر نجفی صاحب ملوث ذمہ داران کے نام نہیںلے سکے، لیکن ان کی رپورٹ سے ہمیں بہت زیادہ سپورٹ مل رہی ہے کہ ہم اپنے کیس کو مزید آگے لے جاکر بڑھ سکیں۔

اسلام ٹائمز: اطلاعات ہیں کہ پاکستان عوامی تحریک سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے پاناما طرز کی جے آئی ٹی بنانے کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے جا رہی ہے، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
اطہر جاوید صدیقی:
ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے کہا ہے کہ جس طرح پاناما کیس میں جے آئی ٹی بنائی گئی تھی اسی طرز پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے بھی آزاد جے آئی ٹی بنا دی جائے، جس کے سامنے یہ ساری رپورٹ پیش کر دی جائے، وہ جے آئی ٹی ایک آزادانہ تحقیقات کرلے، اس کے بعد ساری چیزیں کلیئر ہو جائیں گی، یہ جے آئی ٹی سپریم کورٹ بنائے، سانحہ ماڈل ٹاؤن کو ساری دنیا نے براہ راست دیکھا، لیکن پھر بھی اس کے ثبوت مانگے جا رہے ہیں۔ بہرحال ہماری کوشش ہے اسی ہفتے سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی بنانے کیلئے درخواست دائر کر دیں، اور ہم چاہ رہے ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے جے آئی ٹی سپریم کورٹ کی سرپرستی میں جسٹس باقر نجفی کی سربراہی میں بنائی جائے، تاکہ جو حقائق دباؤ کی وجہ سے رپورٹ میں آنے سے رہ گئے ہیں، وہ بھی کھل کر سامنے آجائیں۔

اسلام ٹائمز۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے 31 دسمبر کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے کہا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے ذمہ دار شہباز شریف، رانا ثناءاللہ اور نامزد افسران استعفے دے کر خود کو قانون کے سامنے سرنڈر کر دیں، اگر مستعفی ہونے کا یہ مطالبہ پورا نہ ہوا تو پاکستان عوامی تحریک کا لائحہ عمل کیا ہوگا۔؟
اطہر جاوید صدیقی:
امید ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے الٹی میٹم کے نتیجے میں 31 دسمبر سے قبل ہی شہباز شریف اور رانا ثنا اللہ مستعفی ہو جائیں گے، ڈاکٹر صاحب کہہ چکے ہیں کہ اگر یہ مستعفی نہیں ہونگے تو وہ فیصلہ کن نتائج کیلئے تیار رہیں، 31 دسمبر کے بعد اگلے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا اور آخری واربے نتیجہ نہیں جائے گا،ہم احتجاجی تحریک چلائیں گے، ہم قانونی تقاضے بھی پورے کرینگے، لائحہ عمل کا تعلق چونکہ پالیسی میٹر ہے، لہٰذا اس حوالے سے حتمی اعلان قیادت بعد میں کریگی

اسلام ٹائمز: مختصر بتائیں کہ گزشتہ دنوں ڈاکٹر طاہر القادری اور آصف زرداری کے درمیان ہونے والی ملاقات کس ایجنڈے کے تحت ہوئی۔؟
اطہر جاوید صدیقی:
یہ ملاقات کا مقصد یہ تھا کہ ہم سب ایک نکاتی ایجنڈے پر جمع ہو جائیں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ دار شہباز شریف اور رانا ثنااللہ کو مستعفی کرنے پر مجبور کریں۔ اس ملاقات کا کوئی سیاسی یا انتخابی ایجنڈا نہیں تھا۔

اسلام ٹائمز: پاکستان عوامی تحریک کا مطالبہ ہے کہ عام انتخابات سے قبل احتساب اور انتخابی اصلاحات کا عمل مکمل کیا جائے، مگر آئندہ عام انتخابات کے انعقاد میں کچھ مہینے باقی ہیں، اس مطالبے پر عمل درآمد کیسے ممکن ہے۔؟
اطہر جاوید صدیقی:
احتساب اور انتخابی اصلاحات کیلئے آئندہ عام انتخابات سے قبل تین سال کیلئے نگران حکومت بنائی جائے، جو ایماندار، اہل، سچے، محب وطن افراد پر مشتمل ہو، جو احتساب اور انتخابی اصلاحات کیلئے عمل کرے، احتساب کے حوالے سے ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے بہت سادی سی بات کی ہے کہ کسی بھی شخص کے پاس منصب پر آنے سے پہلے کیا تھا اور منصب پر موجود رہتے ہوئے اور جانے کے بعد اس کے اثاثے کیا ہیں، یعنی اقتدار پر آنے سے پہلے اثاثے کیا تھے اور موجودہ اور جانے کے بعد اثاثے کیا ہیں، فیصلہ کرنا بہت آسان ہو جائے گا۔ حضرت علیؑ کا قول ہے کہ جب آپ نے خلافت سنبھالی تو آپ نے پورے عرب کے لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ دیکھ لو کہ علیؑ جس لباس میں آیا ہے اور جس سواری پر سوار ہو کر آیا ہے، جب جانے لگے اور اگر اس سے زیادہ ہو تو سمجھ جانا کہ تمہاری امانت میں خیانت کرکے جا رہا ہے۔ یہ ایک بہترین معیار ہے کہ اقتدار میں آنے سے پہلے کیا تھ اور اقتدار کے دوران اور جانے کے بعد کیا ہے۔ پھر آرٹیکل 62، 63 پر عمل درآمد کیا جائے کہ جس پر عملدرآمد ہوا تو میرا خیال ہے کہ موجودہ ایوان میں چند لوگوں کے علاوہ شاید ہی کوئی فرد بچے۔

اسلام ٹائمز: انتخابی اصلاحات کے مطالبے کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
اطہر جاوید صدیقی:
پاکستان میں ایک غریب آدمی الیکشن نہیں لڑ سکتا، مثال کے طور پر اگر آپ ووٹر لسٹ ہی خریدنے جائیں اور اس کی فوٹو کاپی کرا لیں، تو ایک قومی اسمبلی کی پانچ سے ساڑھے پانچ لاکھ روپے کی تو صرف لسٹ بنتی ہے، تو ایک غریب آدمی انتخابی ہم کیسے چلائے گا، یہ تو لاکھوں کروڑوں روپے کا خرچہ ہے، یہ تو صرف ایک مثال ہے۔ دوسرا یہ کہ ہمارے ملک میں نظریاتی سیاست ختم ہو گئی ہے، لہٰذا الیکشن متناسب نمائندگی کے تحت کرائے جائیں، متناسب نمائندگی میں کسی پارٹی کا امیدوار نہیں کھڑا ہوتا، بلکہ اس کا سربراہ آئے اور اپنا پارٹی منشور، اپنا مو¿قف قوم کے سامنے پیش کرے، عوام اسکے منشور کو ووٹ دے نہ کہ شخصیات کو۔ لیکن ہوتا یہ کہ لوگ شخصیات کو ووٹ دیتے، انہوں نے ہی اندر کرانا ہے، انہوں نے ہی چھڑانا ہے، لہٰذا اس وجہ سے لوگ ان شخصیات کے ساتھ ہوتے ہیں، مجبوریاں ہیں لوگوں کی، لیکن جب آپ منشور سامنے رکھیں گے، عوام اس کے حوالے سے ووٹ دینگے، اسی حاصل کردہ ووٹ کے حساب سے نشستیں تقسیم کر دی جائیں۔ پھر یہ کہ عدل نہیں ہے، نواز شریف پنجاب کی بنیاد پر ملک پر حکومت کر رہا ہے، وگرنہ سندھ، بلوچستان میں اس کی نشستیں نہیں ہیں، یعنی جو شخص پنجاب پر حاوی ہو جائے گا وہ پورے ملک پر سیاست کریگا، یہ تو عدل نہیں ہے، ایسا لگتا ہے کہ صرف لاہور سے اسلام آباد ہی پاکستان ہے، لہٰذا ملک میں موجود 35 ڈویژنز کو 35 صوبے بنا کر نشستیں تقسیم کر دیں۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں عام انتخابات سے قبل احتساب اور انتخابی اصلاحات اور تین سال پر مشتمل نگران حکومت جیسے مطالبات کو تسلیم کرینگی۔؟
اطہر جاوید صدیقی:
باری باری اقتدار پر مسلط ہونے والی سیاسی جماعتیں تو یہ کبھی بھی نہیں چاہیں گی۔ اس وقت سیاست نہیں ریاست بچاؤ ایجنڈے پر کام کی ضرورت ہے، اس حوالے سے ضروری ہے کہ سپریم کورٹ ایکشن لے، کیونکہ سپریم کورٹ اس حوالے سے ایکشن لے کر عملدرآمد کروا سکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: اس وقت ملک میں طویل مدتی ٹیکنوکریٹ حکومت بننے کی بازگشت پھیل رہی ہے، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
اطہر جاوید صدیقی:
ملک بھر کی عوام اس وقت تنگ آ چکے ہیں، لوگ اب ملک میں بہتری چاہتے ہیں، جس کیلئے بہترین آپشن یہی ہے کہ تین سال کیلئے ایک ایسی حکومت بنائی جائے کہ قوم کو بھی سکون میسر آجائے۔

اسلام ٹائمز: یعنی 2018ء میں عام انتخابات ہوتے نظر نہیں آرہے۔؟
اطہر جاوید صدیقی:
آئندہ سال عام انتخابات ہوتے نظر نہیں آ رہے ہیں، بلکہ دو تین سال کیلئے نگران حکومت آتی نظر آ رہی ہے، جو احتساب اور انتخابی اصلاحات کیلئے عملدرآمد کریگی، اس حکومت کی نگرانی سپریم کورٹ کرے۔

اسلام ٹائمز: مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت قرار دینے کے امریکی فیصلے کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
اطہر جاوید صدیقی:
بیت المقدس کے حوالے سے اعلان کرنے سے پہلے امریکا نے مسلمانوں کی کمزوری دیکھی ہے، امریکی اعلان مسلمانوں کیلئے ٹیسٹ کیس بھی ہے، امریکا نے تجربہ کیا ہے کہ مسلمان اس وقت کہاں کھڑے ہیں، امریکا کو خطرہ ہے کہ مسلم ممالک روس اور چین کی طرف جا رہے ہیں، ایران کی طرف جا رہے ہیں، ایک بلاک بن رہا ہے، بھارت کو بھی اس نئے بنتے ہوئے بلاک کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑینگے، امریکا کو پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے سے بھی خطرہ ہے، امریکا کو پاکستان کی ضرورت ہے، لہٰذا اس منظر نامے میں امریکا نے بیت المقدس کا ایشو اٹھا کر ایک طرح سے مسلم دنیا کو دھمکی بھی دی ہے کہ امریکا جو چاہے کر سکتا ہے، سعودی عرب، کویت و دیگر عرب ممالک کیساتھ سینکڑوں ارب ڈالرز کے اسلحہ بیچنے کے معاہدے کئے ہیں، ہم میں اتنی جرأت نہیں ہے کہ امریکا سے کہہ دیں کہ ہمیں اسلحہ نہیں چاہیئے، سنے میں تو یہ بھی آیا ہے کہ جب سعودی عرب میں اربوں ڈالرز کرپشن کے الزام میں جب شہزادوں و دیگر شخصیات کو پکڑا گیا ہے تو اسرائیلی جہاز بھی وہاں کھڑے تھے سعودی عرب کی حفاظت کیلئے۔ میں نے خبریں سنی ہیں کہ اسرائیلی وزیراعظم ٹی وی پر کہتا ہے کہ ہمارے پس پردہ عرب ممالک سے اچھے تعلقات ہیں، اس قسم کی بھی حیران کن خبریں بھی چل رہی ہیں، امریکا ایک طرف طالبان کو مارنے کا کہتا ہے تو دوسری طرف کہتا ہے کہ شام میں دہشتگرد گروہوں کی مدد کرو۔

اسلام ٹائمز: امریکی فیصلے پر پاکستانی حکمرانوں کے ردعمل کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
اطہر جاوید صدیقی:
جرأت مند مؤقف اختیار کرنے کیلئے، اقدامات اٹھانے کیلئے ایک جرؤت مند قیادت چاہیئے ہوتی ہے، اس وقت پاکستانی حکمرانوں کا تو حال یہ ہے کہ امریکا سے بات کرتے ہوئے بھی سو بار سوچتے ہیں، ہمارے حکمرانوں کا تو حال یہ ہے کہ اگر امریکا کا کوئی سیکریٹری یا وزیر کی سطح کا کوئی شخص انکا فون اٹھا لیتا ہے تو اس کی ہیڈ لائن چلواتے ہیں کہ ہمارا فون اٹھا لیا گیا ہے، یعنی ہمارے حکمرانوں کی اوقات کا یہ عالم ہے، ہمارے حکمرانوں کی خارجہ پالیسی کی حقیقت تو صرف یہ ہے کہ کس طرح نااہل نواز شریف کو بچایا جائے، اس کے علاوہ ان کی کوئی خارجہ پالیسی ہی نہیں ہے۔ ہمارے نااہل حکمرانوں نے صرف چند مذمتی جملے رٹ لئے ہیں، ہر موقع پر وہ مذمت مذمت مذمت کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 691417
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
zabrdast
ہماری پیشکش