0
Friday 22 Dec 2017 10:47
خطے میں امریکی پالیسیاں دہشتگردی کو فروغ دے رہی ہیں

دولت کے پجاری اور امریکہ کے حواری ملک کو موجودہ بحران سے نہیں نکال سکتے، سینیٹر سراج الحق

نواز شریف کا عدلیہ مخالف تحریک کا نعرہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے
دولت کے پجاری اور امریکہ کے حواری ملک کو موجودہ بحران سے نہیں نکال سکتے، سینیٹر سراج الحق
5 اپریل 1962ء کو خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ، تحصیل شبقدر کے گاﺅں میرزو میں پیدا ہونیوالے سراج الحق کا آبائی تعلق دیر سے ہے۔ انکے والد محترم دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل اور مدرسے کے مہتمم تھے۔ سراج الحق آٹھویں جماعت میں ہی اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن بن گئے، میٹرک میں انہیں اسلامی جمعیت طلبہ ضلع دیر کا ناظم مقرر کر دیا گیا۔ گریجویشن میں تنظیمی ذمہ داریوں کیوجہ سے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج مردان، گورنمنٹ مردان ڈگری کالج، گورنمنٹ کالج پشاور اور ڈگری کالج تیمرگرہ سمیت مختلف کالجز میں زیر تعلیم رہے، 1983ء میں ڈگری کالج تیمر گرہ میں یونین کے صدر منتخب ہوئے۔ پشاور یونیورسٹی سے بی ایڈ کی ڈگری حاصل کی، پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم ایڈ کا امتحان پاس کیا۔ جمعیت میں 1989ء سے 1991ء تک ناظم مالاکنڈ ڈویژن، ناظم صوبہ خیبر پختونخوا اور ناظم اعلٰی خدمات انجام دیں۔ جمعیت سے فراغت کے بعد ایک سال تک اپنے علاقے میں جماعت اسلامی میں کام کیا، سکول میں بطورِ پرنسپل فرائض انجام دیئے۔ ساتھ ہی ایک سال کے اندر ہی جماعت اسلامی کے باقاعدہ رکن بن گئے۔ 2002ء کے الیکشن میں PK 95 سے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ بعد ازاں خیبر پختونخوا میں بطورِ قیم صوبہ (سیکرٹری جنرل) ذمہ داری رہی۔ 2003ء میں جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے امیر بنے۔ 2006ء میں جب عید کے چوتھے دن ڈمہ ڈولہ پر ڈرون حملے ہوئے تو انہوں نے استعفٰی دیدیا۔ اپریل 2009ء میں جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی نائب امیر مقرر ہوئے۔ مارچ 2014ء میں جماعت اسلامی کے ارکان نے آپ کو 5 سال کیلئے امیر جماعت منتخب کیا ہے۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے سراج الحق اکتوبر 2002ء کے انتخابات میں دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل نے خیبر پختونخوا میں کامیابی حاصل کی تو انہوں نے صوبائی حکومت میں بطورِ سینیئر وزیر اور وزیر خزانہ خدمات انجام دیں۔ جماعت اسلامی کے 6 دیگر وزراء کیساتھ بہترین ٹیم لیڈر کے طور پر سامنے آئے۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی مخلوط میں سینیئر وزیر اور وزیر خزانہ رہے۔ انہوں نے سول سیکرٹریٹ میں خود خطبہ جمعہ اور نمازوں کی امامت کروا کر ایک اور مثال بھی قائم کی۔ سینیٹ آف پاکستان کے ممبر سے اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: عدلیہ سیاستدانوں کا احتساب کر رہی ہے اور آرمی چیف سینیٹ میں آئے ہیں، اب عوام جمہوریت کے ثمرات سے فائدہ اٹھا سکیں گے یا پارلیمنٹ کو اب بھی کوئی خطرہ ہوسکتا ہے۔؟
سینیٹر سراج الحق:
جمہوریت کی گاڑی چلتی رہنی چاہیے، آرمی چیف کا اسمبلی میں آنا ایک اچھی اور مثبت روایت ہے، ملک میں اس وقت ایک خاندان کی حکومت ہے، جو جمہوریت کا راگ الاپتا ہے، لیکن اپنے علاوہ کسی اور کو اقتدار میں نہیں دیکھ سکتا۔ حکومت جانے کے بعد ان کو جمہوریت یاد آتی ہے۔ ہم ملک میں افراد کی بجائے آئین و قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں۔ ہم ملک میں بے لاگ احتساب کا نظام چاہتے ہیں، پوری قوم کی نظریں اب بھی سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں، قوم چاہتی ہے کہ پانامہ کے دیگر کرداروں اور بنکوں کو لوٹنے والوں کے خلاف جو کمیشن بنا ہے، ان لٹیروں کا بے لاگ احتساب کرے، انہیں سزائیں دی جائیں اور قومی دولت لوٹنے والوں کے پاسپورٹ اور جائیدادیں ضبط کرکے انہیں اڈیالہ جیل میں بند کیا جائے۔ ورنہ جمہوریت، جمہوری نظام اور ملک کی ترقی اور روشن مستقبل کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ پاکستان کے سنہرے دن اب بھی دور ہیں، یہ تب ممکن ہے جب لٹیرے حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں، کسی کو نہ چھوڑا جائے، اداروں کی تباہی کے اصل مجرم کرپٹ حکمران ہیں۔ موجودہ اقدامات اچھے ہیں، لیکن جس حد تک تباہی ہوچکی ہے، یہ کافی نہیں ہیں۔ ملکی استحکام کے لئے اداروں کے درمیان باہمی اعتماد اور ورکنگ ریلیشن شپ انتہائی ضروری ہے، اگر ریاستی ادارے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر نہ چلیں تو انتشار اور افراتفری پھیلے گی، جس سے قومی وحدت اور یکجہتی کو شدید نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ اداروں کے درمیان ٹکراؤ کا نتیجہ انتہائی خطرناک ہوسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: عدلیہ بحالی تحریک کا کریڈٹ لینے کیساتھ نواز شریف نے عدالت کے ترازو کو تحریک انصاف کا ترازو بھی قرار دیا ہے، آپکے خیال میں نواز شریف کیطرف سے اگر ایک بار پھر تحریک چلائی جاتی ہے تو اسکے کیا اثرات ہونگے۔؟
سینیٹر سراج الحق:
یہ ایک مذاق ہے، ملک کی بدقسمتی ہے کہ ہر ایک اور بالخصوص سیاستدان اپنی مرضی کرتے ہیں، انکی سیاست اپنے مفادات کیلئے ہوتی ہے، اسی طرح وہ چاہتے ہیں کہ سیاہ کریں یا سفید کوئی ان پر اعتراض کرنے والا نہ ہو۔ اسی طرح یہ احتساب کے سرے سے قائل ہی نہیں ہیں، انہیں ایسی عدالت قابلِ قبول نہیں، جہاں انکی کرپشن اور بدعنوانی کو روکا جائے۔ یہ جو کچھ کر رہے ہیں، یہ ملک کیلئے نقصان دہ ہے، اداروں کا ٹکراؤ جمہوریت کیلئے بھی خطرہ ہے، عدالتوں سے لڑائی میں کسی کا فائدہ نہیں، اداروں کے ساتھ لڑنے سے مزید حادثات اور سانحات ہوسکتے ہیں۔ کرپشن کے خاتمہ اور کرپٹ مافیا کے احتساب کے لئے عدلیہ کا آزادانہ اور فعال کردار ضروری ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کا بیانیہ حوصلہ افزاء ہے۔ آزاد عدلیہ کی حفاظت کے لئے جماعت اسلامی کلیدی کردار ادا کرے گی۔ فیصلے صاف، شفاف اور غیر جانبدارانہ ہوں، آزاد عدلیہ کے فیصلوں کو تسلیم کرنے کا کلچر پیدا کیا جائے۔ پی ٹی آئی کے سابق سیکرٹری جنرل نے سپریم کورٹ کا فیصلہ تسلیم کرکے اچھی روایت پیدا کی ہے۔ فیصلے کے خلاف قانون کے مطابق اپیل کا تو ہر ایک کو حق ہوتا ہے۔ عدلیہ کی تضحیک اور توہین کرنے والے اپنے رویئے پر نظرثانی کرنے کو تیار نہیں، جو لوگ عدل و انصاف کے اداروں کو اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھانا چاہتے ہیں، ان سے کسی خیر کی کوئی توقع نہیں کی جاسکتی۔ عدالت عظمٰی کو کرپٹ اور بد دیانت ٹولے کے رویئے سے بد دل ہونے کی بجائے احتساب کے عمل کو جاری رکھنا چاہیے، پوری قوم عدالت کی پشت پر کھڑی ہے۔ عدالت کسی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے قومی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والوں کا سخت ترین احتساب کرے۔ عدالت بیرونی بنکوں میں پڑی قومی دولت واپس لانے کے لیے مناسب اقدامات کرے، تاکہ بیرونی قرضوں، غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور بدامنی جیسے مسائل سے نکلا جاسکے۔

نواز شریف کی نااہلی سے مسئلہ حل نہیں ہوا۔ جب تک زرداری، مشرف اور نواز دور کے بڑے بڑے ڈاکوئوں کو نہیں پکڑا جاتا، مسائل حل نہیں ہوں گے۔ سابقہ اور موجودہ وزیروں مشیروں کے ساتھ ساتھ کرپٹ بیوروکریسی، جرنیلوں اور ججوں کو پکڑا جائے اور سب کا بلاامتیاز احتساب کیا جائے۔ نواز شریف نے کیا انصاف کی تحریک چلانی ہے، غربت مہنگائی، بے روزگاری اور جہالت نواز شریف کے تحفے ہیں، نواز شریف کے کارخانوں میں اضافہ ہوتا رہا اور عوام تعلیم، صحت اور روزگار جیسی سہولتوں سے محروم رہے، سیاسی برہمن خدا بننے کی کوشش میں ہیں۔ نواز شریف کو اللہ نے عاشق رسول ۖ ممتاز قادری کو پھانسی دینے کے جرم میں پکڑا ہے۔ نواز شریف پر فرد جرم عائد ہونے کے بعد حکومت کا فرض ہے کہ وہ ایک ملزم کی بجائے عدالتوں کے ساتھ کھڑی ہو۔ وفاقی وزراء کا ایک ملزم خاندان کے ساتھ عدالتوں میں جانا اور ملزموں کی صفائیاں پیش کرنا، عدالتوں کی توہین ہے۔ حکمران ٹولہ احتساب کرنے والوں کا احتساب کرنے کے اعلان کرکے دراصل اداروں کو ڈرا دھمکا اور شور مچا کر عدالتوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ نواز شریف خاندان عدالتوں کو جھکانے کی بجائے خود قانون کے سامنے سرنڈر ہو جائے۔ موجودہ کٹھ پتلی حکومت ایک شریف حکمران خاندان کی کرپشن کو بچانے اور انکو نوازنے میں لگی ہوئی ہے، نواز شریف ملک کی اعلٰی ترین عدالت کے خلاف مسلسل زہر اگل رہے ہیں، جماعت اسلامی عدلیہ کے ساتھ کھڑی ہے، نواز شریف نے اپنی چوری کو بچانے کی خاطر عدلیہ مخالف تحریک کا جو نعرہ لگایا ہے، اپنے پائوں پر کلہاڑا مارا ہے۔ ریاستی اداروں سے تصادم کا راستہ سب کے لئے نقصان کا باعث ہوگا، کرپشن اور غلط بیانیوں کو تحفظ دینے کے لئے عدلیہ اور فوج کے خلاف مہم جوئی درست راستہ نہیں۔ آئین، جمہوریت اور انتخابی عمل کی حفاظت جمہوری رویئے اور امانت و دیانت والے کردار کے ساتھ کی جاسکتی ہے، شریف خاندان عدالتی محاذ پر دلیل اور ثبوت سے بے گناہی ثابت کرنے میں ناکام ہو رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: موجودہ معاشی اور سیاسی بحرانوں سے ملک و قوم کو نجات کیسے مل سکتی ہے۔؟
سینیٹر سراج الحق:
اس دگرگوں صورتحال کا سبب تو کرپٹ قیادت ہے، تمام مسائل کا حل نفاذ شریعت میں ہے۔ نظام مصطفٰی ٰؐ کے نفاذ پر تمام دینی و سیاسی جماعتوں کو متحد ہو جانا چاہیے۔ ہماری کوشش ہے کہ آئندہ انتخابات میں کلین اور صاف دامن لوگ ملک و قوم کو موجودہ بحرانوں سے نکالنے میں ہمارا ساتھ دیں۔ پاکستان کو جن بیرونی اور اندرونی خطرات نے گھیر رکھا ہے، ان سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ کرپٹ اور بد دیانت ٹولے سے نجات حاصل کی جائے اور دیانتدار اور مخلص قیادت کا انتخاب کیا جائے، ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی بالادستی قائم کئے بغیر حالات نہیں بدل سکتے، سیاست اور جمہوریت کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھنے والے سیاسی معاشی دہشگرد آئین کی بالادستی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، بددیانت سیاسی پنڈتوں اور اسٹیٹس کو کی غلام قوتوں سے آزادی حاصل کرنا ہوگی۔ قوم کو بتایا جائے کہ اندونی اور بیرونی بینکوں اور آئی ایم ایف سے کتنا قرض لیا اور کہاں کہاں خرچ کیا۔ ڈرگ مافیا، شوگر مافیا، لینڈ مافیا اور بڑے بڑے سمگلروں نے سیاسی پارٹیوں میں پناہ لے رکھی ہے، لیکن نام نہاد سیاسی جماعتیں اپنی بادشاہت قائم رکھنے کیلئے مجرموں کے ہاتھوں یرغمال ہیں۔ ہم قوم سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ لیٹرے مفاد پرست حکمرانوں کے چنگل سے نکلیں، جن کی وجہ سے قوم اور ملک آگے جانے کی بجائے پیچھے جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: اگر الیکشن وقت پر ہو جاتے ہیں تو امید کی جا سکتی ہے کہ اگلا دور حکومت عوام کیلئے خوشحالی کی نوید لائیگا۔؟
سینیٹر سراج الحق:
الیکشن بھی ہوں اور اہل و دیانت دار لوگوں کی حکومت بھی بنے تو یہ یقینی ہوسکتا ہے کہ لوگوں کو مسائل سے چھٹکارا ملے اور پاکستان ایک باوقار ملک بن جائے۔ اسوقت ملک میں ظالم اور مظلوم دو پارٹیاں ہیں، ظالم متحد اور منظم ہیں اور مظلوم منتشر ہیں، جب تک مظلوم اپنے حقوق کے لئے ان ظالموں کے خلاف متحد ہوکر منظم جدوجہد نہیں کریں گے، ان لٹیروں سے جان نہیں چھوٹے گی۔ سیاست کے نام پہ موجود مافیاز نے دولت کی ہوس میں عوام سے ان کی خوشیاں چھین لی ہیں، لیکن اب ان کی میڈ ان لندن اور نیویارک سیاست نہیں چلے گی، برسراقتدار پارٹیوں کا دورہ اب ختم ہوچکا ہے، عوام اسٹیٹس کو کی پیدوار ان پارٹیوں کے اقتدار پر قابض رہنے کے ہتھکنڈوں کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں ایک الیکشن بھی ایسا نہیں ہوا، جس میں عوام کو اپنی آزاد مرضی سے اپنے نمائندوں کے انتخاب کا حق دیا گیا ہو۔ موجودہ نظام صرف وڈیروں، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے لئے تخلیق کیا گیا ہے۔ موجودہ سسٹم میں مرد اور عورت دونوں مظلوم ہیں۔ لوگ ووٹ ڈالتے ہیں مگر ان کے مینڈیٹ کو چوری کر لیا جاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات کے ذمہ دار صرف پاکستانی سیاستدان ہیں، دشمن کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے صرف نظر کیا جا سکتا ہے۔؟
سینیٹر سراج الحق:
یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت سے دوستی اور امریکہ کی غلامی کا دم بھرنے والوں نے ہی ملک و قوم کے مستقبل کو تاریکیوں کے حوالے کر دیا ہے، قومی سلامتی اور ملکی سرحدوں کے دفاع کے لئے ضروری ہے کہ نظریہ پاکستان پر یقین رکھنے والی مخلص قیادت بر سر اقتدار آئے، جو امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکے اور بھارت کو اسی کی زبان میں جواب دے سکے۔ امریکی خوف سے تھر تھر کانپنے اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی ڈکٹیشن پر چلنے والے ہی قوم کے دکھوں اور پریشانیوں کے ذمہ دار ہیں۔ دولت کے پجاری اور امریکہ کے حواری ملک کو موجودہ بحران سے نہیں نکال سکتے۔ لیکن ملک پر جو لوگ مسلط ہیں، انکا ایک ماضی ہے، یہ انگریز کے غلام ہیں، اقتدار پر مسلط کرپٹ مافیا کے بڑوں نے انگریز سے وفاداری اور قوم سے غداری کے عوض جاگیریں حاصل کیں، آج ان کی اولاد ملک پر مسلط ہے، جن کا قومی دولت لوٹ کر اپنی جیبیں بھرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں۔ عالمی دہشتگردوں کا سرپرست امریکہ اسلامی تہذیب و تمدن کو تباہ کرکے اپنی تہذیب مسلط کرنا چاہتا ہے، امریکہ نے ہر جگہ اپنے گھوڑے پال رکھے ہیں، جب ایک گھوڑا ناکام ہوتا ہے تو وہ دوسرے کو لے آتا ہے، جو امریکی پالیسیوں کو آگے بڑھاتا ہے۔ سب سے بڑی کمزوری یہی ہے، جسکی وجہ غیر ملکی طاقتوں کو اپنے منصوبے بنانے کی جرات ہوتی ہے۔ پاکستان کیخلاف امریکہ بھارت اور اسرائیل کے ٹرائیکا کی سازشوں کو متحد ہو کر ہی ناکام بنایا جاسکتا ہے۔ ملکی صورتحال اور علاقائی حالات کا تقاضا ہے کہ ہم سیاسی اختلافات سے نکل کر ملک کو درپیش چیلنجز سے نپٹنے کے لئے متحد ہو جائیں اور ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر فیصلے کریں، افراد اور خاندانوں کی سیاست کی بجائے آئین و قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی بالادستی قائم کرنا ہوگی، عدلیہ کے ساتھ دست و گریبان ہونے کی دھمکیاں دینے والوں کو اپنے رویے کو بدلنا ہوگا۔ ہمارا مقابلہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کے آلہ کار حکمرانوں اور ان عالمی دہشتگردوں کے ساتھ ہے، جنہوں نے افغانستان اور عراق میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم برسائے اور اب انہوں نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کا اعلان کر دیا ہے۔

اسلام ٹائمز: صدر ٹرمپ کیطرف سے بیت المقدس کے متعلق اعلان کے بعد یو این او میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے، پاکستان کو امریکی دھمکیوں کا مقابلہ کیسے کرنا چاہیے۔؟
سینیٹر سراج الحق:
امریکہ کسی کا دوست نہیں۔ امریکہ افغانستان میں مسائل میں گھرا ہوا ہے، پاکستان کی کوئی مجبوری نہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان آزاد و خود مختار ملک کی حیثیت سے اپنی آزادانہ خارجہ پالیسی کا اعلان کرے اور امریکی ڈو مور اور احکامات کو مسترد کر دے۔ خطے میں امریکی پالیسیاں دہشتگردی کو فروغ دے رہی ہیں۔ افغانستان میں بھارتی اثر و رسوخ اور بھارتی بالادستی کی امریکی کوششوں نے خطے کے امن کو تباہ کر دیا ہے، دہشتگردی کے خاتمہ اور قیام امن کے لئے افغانستان اور پاکستان کو متحد ہونا پڑے گا۔ دونوں برادر اسلامی ممالک معصوم لوگوں کے قتل عام کو روکنے کے لئے مشترکہ لائحہ عمل بنائیں۔ امریکہ کو واضح پیغام جانا چاہیے کہ اب ڈو مور کا وقت گزر گیا، پاکستان اب مزید ڈو مور نہیں کرے گا۔ امریکی پالیسیاں بھارتی مفاد میں ہیں۔ پاکستان میں دہشتگردی میں بیرونی قوتیں ملوث ہیں۔ بھارت افغانستان کو سہولت کار بنا کر پاکستان میں دہشتگردی کروا رہا ہے، ہمارے ملک نے کسی کے خلاف اعلان جنگ نہیں کیا۔
خبر کا کوڈ : 691673
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش