0
Monday 25 Dec 2017 03:58
اسوقت پوری دنیا پر سعودی حکمرانوں کی حقیقت بڑی واضح ہوچکی ہے

اسرائیل سعودی عرب کے ذریعے مسئلہ فلسطین کو حل کرنیکا خواہشمند ہے، محمود عباس پر سعودی دبائو ڈھکا چھپا نہیں، یافث نوید ہاشمی

سعودی عرب اور اُسکے اتحادی یمن کے ایک انچ رقبہ پر بھی قبضہ حاصل نہیں کرسکے
اسرائیل سعودی عرب کے ذریعے مسئلہ فلسطین کو حل کرنیکا خواہشمند ہے، محمود عباس پر سعودی دبائو ڈھکا چھپا نہیں، یافث نوید ہاشمی
محمد یافث نوید ہاشمی 1983ء میں ساہیوال میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم ملتان میں حاصل کی۔ قائداعظم یونیورسٹی سے کامرس میں ایم اے کیا۔ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی سے ایل ایل بی آنرز کیا اور بہائوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے ایل ایل ایم کیا۔ آج کل وکالت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ بار میں پریکٹس کرتے ہیں۔ قائد اعظم یونیورسٹی میں دوران تعلیم وہ 2002ء میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان میں شامل ہوئے اور یونیورسٹی میں مختلف ذمہ داریوں پر رہے اور بعد ازاں مرکز میں ڈپٹی جنرل سیکرٹری اور جنرل سیکرٹری رہے۔ 2006ء سے 2007ء تک امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر رہے۔ صدارت کے بعد سے اب تک آئی ایس او کی مرکزی نظارت کے رکن ہونے کیساتھ ساتھ مجلس وحدت مسلمین کی تاسیس کے حوالے سے جو بنیادی کمیٹی آئی ایس او، آئی او اور مجلس وحدت مسلمین پر مشتمل بنائی گئی تھی، اسکے کوارڈینیٹر کے طور پر کام کیا۔ انہوں نے اپنے صدارتی دور میں مختلف ممالک میں انٹرنیشل کانفرنسز میں آئی ایس او پاکستان کی نمائندگی کی۔ یافث نوید ہاشمی اسلامی تحریکوں اور اسلامی ممالک کے حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے گذشتہ روز ان سے حالیہ عالمی صورتحال پر ایک انٹرویو کیا، جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: اقوام متحدہ کے حالیہ اجلاس میں امریکی شکست، ترکی کیجانب سے بیت المقدس کو فلسطین کا دارالحکومت قرار دینا اور حماس کیجانب سے جاری انتقاضہ کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
یافث نوید ہاشمی:
اس وقت دنیا بھر میں حالات ایک نئی کروٹ لے رہے ہیں، اس سے کچھ عرصہ پہلے جب عالمی طاقتوں نے عراق اور شام میں داعش کو سپورٹ کیا، اسی طرح گذشتہ تین چار سالوں میں امریکہ، اسرائیل اور ان کے حواریوں کو سخت ہزیمت اُٹھانی پڑی، اب داعش کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے، اب ایک نئی چیز فلسطین کے حوالے سے شروع کی گئی ہے، آغاز میں تو اسرائیل نے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت بنانے کا اعلان کیا، نئی یہودی بستیوں کی تعمیر شروع کی، جس کے بعد امریکہ نے اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کا متنازع بیان دیا، یہ ایک تسلسل ہے جو امریکی اور استعماری طاقتوں کی ناکامیوں کی تاریخ ہے، یہ ان ناکامیوں سے بوکھلاہٹ کا شکار ہیں اور روز بروز سخت نقصان اُٹھا رہے ہیں، ابھی آپ دیکھیں کہ اقوام متحدہ میں صرف مسلمانوں نے نہیں بلکہ چند ایک مسلم ممالک تو اسرائیل کو کور دینے کی پوزیشن میں تھے، لیکن اس کے باوجود دنیا کے تقریباً اکثر ممالک نے اسرائیل کے خلاف ووٹ دیا ہے، بشمول چائنہ، روس، برطانیہ، کینڈا، فرانس سب نے حمایت کی، اسی طرح اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں تمام اراکین کی آراء ایک طرف تھی اور امریکہ ہٹ دھرمی پر اٹکا ہوا تھا، لیکن چونکہ اُسے ویٹو پاور حاصل تھی، جس کا وہ فائدہ اُٹھا گیا، سلامتی کونسل میں امریکی تنہائی اس کی شکست کے مترادف ہے، یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ اب اس دنیا کا مستقبل امریکہ کے ہاتھ میں نہیں رہا بلکہ طاقت کا توازن تبدیل ہو رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: اسوقت پوری دنیا میں امریکہ و اسرائیل کیخلاف احتجاج ہو رہے ہیں، لیکن کچھ ایسے عرب اور مسلمان ممالک بھی موجود ہیں، جہاں پر امریکہ اور اسرائیل کیخلاف خاموشی ہے، دوسری جانب اس نازک صورتحال پر فلسطینی اتھارٹی کے صدر کے دورہ سعودی عرب کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
یافث نوید ہاشمی:
عالمی سیاست کا ایک واضح اُصول ہے کہ اپنے کیمپ کو مضبوط کرنے کے لئے مختلف چینلز استعمال کئے جاتے ہیں، ہم نے دیکھا کہ ترکی امریکہ اور اسرائیل کے معاملے میں اُس طرح ان کے ساتھ نہیں کھڑا، اسی طرح فلسطین کے معاملے میں قطر بھی امریکہ و اسرائیل کے ساتھ نہیں کھڑا، جس کے بعد امریکہ و اسرائیل اس وقت کچھ عرب ممالک کو اپنے ساتھ کھڑا کرنے کی کوشش کریں گے، مسئلہ فلسطین کو جو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے، وہ یہ ہے کہ اسرائیل چاہتا تھا کہ مسئلہ فلسطین کو صرف عربوں کا مسئلہ بنا دیا جائے، لیکن امام خمینی کی بصیرت اور قیادت نے اس مسئلہ کو عربوں سے نکال کر اُمت مسلمہ کا مسئلہ بنا دیا، جس کی سب سے بڑی دلیل جمعۃ الوداع کے موقع پر یوم القدس کا منانا ہے، آج یوم القدس دنیا کے بہت زیادہ ممالک میں منایا جاتا ہے، اب ایک بار پھر ہمیں اس طرح کی آواز سنائی دے رہی ہے، جب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا ہے کہ مسئلہ فلسطین کو عربوں کو اسرائیل کے ساتھ بیٹھ کر حل کر لینا چاہیے، اس کا کوئی راہ حل نکالنا چاہیے، یہ دراصل وہی اسرائیل کی زبان تھی جو محمد بن سلمان بول رہے تھے، اس کے بعد بحرینی حکومت کی جانب سے سرکاری وفد کا اسرائیل کا دورہ کرنا، اسی سلسلے کی کڑی ہے، اس وقت اسرائیل اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے لئے بیک ڈور چینلز اور دیگر مختلف چینلز استعمال کر رہا ہے، اسی طرح یہ بات بھی عیاں ہے کہ اس نازک موڑ پر فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کا دورہ سعودی عرب، یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں کہ سعودی عرب کا محمود عباس پر کتنا دبائو ہے، محمود عباس اور حماس کے درمیان جب مخاصمت رہی تو اُس وقت سعودی عرب نے محمود عباس کی حمایت کی تھی، اس وقت اسرائیل سعودی عرب کے ذریعے مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کا خواہشمند ہے۔

اسلام ٹائمز: مسئلہ فلسطین پر عرب ممالک کی خاموشی پر الجزائر، فلسطین اور انڈونیشیا میں سعودی حکمرانوں کی تصاویر جلائی گئیں، نعرے لگائے اور مذمت کی گئی، مسلمان ممالک اسرائیل کی بجائے سعودی عرب پر غصہ کیوں اُتار رہے ہیں۔؟
یافث نوید ہاشمی:
بدقسمتی کے ساتھ دنیا میں مسلمان ممالک کو اس طرح کے حکمران ملے ہیں، جنہوں نے کبھی عالم اسلام اور مسلمانوں کے اہم ایشوز پر سخت گیر موقف اختیار نہیں کیا، اس حوالے سے مصر، بحرین اور سعودی عرب کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، اس سے پہلے تیونس، لیبیا اور یمن کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، لیکن ایک حقیقت ہے اور سماجیات کا قانون ہے کہ جب ایک آزاد انسان گھٹن محسوس کرتا ہے تو وہ کسی نہ کسی انداز اُسے ظاہر کرتا ہے، اسی طرح اگر فلسطین، انڈونیشیا اور الجزائر میں ان سعودی حکمرانوں کے خلاف احتجاج ہوئے ہیں تو وہاں کی عوام نے دیکھا کہ بجائے مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہونے کے وہ اسرائیل کی حمایت اور تعلقات بنا رہا ہے، جس کے باعث وہان کی عوام نے اپنے غصے اور جذبات کا اظہار کیا ہے، اس وقت پوری دنیا پر سعودی حکمرانوں کی حقیقت بڑی واضح ہوچکی ہے، ایسے تمام حکمران جو مسئلہ فلسطین کے لئے آواز بلند نہیں کر رہے، وہ بے نقاب ہوچکے ہیں۔

اسلام ٹائمز: یمن پر جاری سعودی اور اُسکے اتحادیوں کی جارحیت کو ایک ہزار دن ختم ہونے پر جب یمنی عوام نے ایک میزائل یمامہ محل پر پھینکا ہے تو امریکہ کیجانب سے سعودی عرب کی حمایت میں بیان آیا ہے اور سعودی عرب کی سالمیت کو اپنی سالمیت قرار دیا ہے، اس حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
یافث نوید ہاشمی:
یمن کا مسئلہ خود سعودی عرب کے لئے پہلے نمبر پر، امریکہ کے لئے دوسرے نمبر پر، اسرائیل اور اُن کے اتحادیوں کے لئے ایک اہم مسئلہ ہے، عراق اور شام میں داعش کی شکست کے بعد یمن جو کہ سعودی عرب کے بارڈر پر ہے، سعودی عرب کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، آپ کو یاد ہوگا جب یمن پر جارحیت شروع کی تو اُس وقت محمد بن سلمان وزیر دفاع تھے، اُن کا یہ کہنا تھا کہ ہم چند دنوں کے اندر یمن کو فتح کرلیں گے اور یمن پر دوبارہ عبد ربہ منصور ہادی کی حکومت قائم کر دیں گے، لیکن آج تین سال ہونے کو ہیں، یمنی عوام کی استقامت اور حوصلے اُسی طرح بلند ہیں، سعودی عرب اور اُس کے اتحادی یمن کے ایک انچ رقبہ پر بھی قبضہ حاصل نہیں کرسکے، حتٰی کہ یمن کا المسیرہ ٹی وی چینل بھی بند نہیں کرا سکے، بہت زیادہ بمباری کی گئی، شادیوں کو نشانہ بنایا گیا، ہسپتالوں کو نشانہ بنایا گیا، سکولوں، بازاروں، مساجد کو نشانہ بنایا گیا، لیکن اس کے باوجود بھی یہ بُری طرح ناکام ہوئے ہیں، دوسری بات یہ یمن کی عوامی تحریک انصاراللہ کی جانب سے جو حملے ہوئے ہیں، سعودی عرب آج تک اُن کا کوئی توڑ نہیں نکال سکا، اس سے پہلے سعودی عرب نے اپنے اتحادیوں کے سامنے رکھا ہوا تھا کہ انصاراللہ کے پاس کوئی میزائل ٹیکنالوجی نہیں ہے، لیکن اب ہم دیکھتے ہیں کہ انصاراللہ کے پاس میزائل ٹیکنالوجی موجود ہے، سعودی عرب کے میڈیا نے بھی ابھی تک یہ دعویٰ نہیں کیا کہ یمن کی جانب سے کوئی میزائل نہیں داغا گیا، بلکہ سعودی میڈیا نے کہا ہے کہ ہماری فورسز نے انصاراللہ کے میزائل کو نشانہ بنا کر ہوا میں ہی ناکام بنا دیا ہے، یہ سب چیزیں سعودی عرب کو بتا رہی ہیں کہ یمن پر قبضہ کرنا، انصاراللہ کو زیر کرنا اتنا آسان نہیں ہے، اسی لئے اب امریکہ چاہتا ہے کہ اس جنگ کے اندر مشرق وسطٰی کے دیگر ممالک کو شامل کرے۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ دنوں انصاراللہ کے میزائل حملے کے بعد امریکہ کی توپوں کے رُخ ایک بار پھر ایران کیجانب ہیں، اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلے نے کہا ہے کہ انصاراللہ کیجانب سے سعودی عرب پر داغے گئے میزائل ایرانی ساخت کے ہیں، جبکہ انصاراللہ کے ترجمان نے اسکی تردید کرتے ہوئے اس بیان میں مسئلہ فلسطین سے نظریں ہٹانے کی سازش قرار دیا ہے۔؟
یافث نوید ہاشمی:
ہم اُردو زبان میں ایک محاورہ استعمال کرتے ہیں "مدعی سست گواہ چست" میزائل والے معاملے میں امریکہ کی یہی کیفیت نظر آرہی ہے، خود سعودی عرب جو اس معاملے میں ایک فریق ہے، وہ اس میزائل معاملے پر کوئی بات نہیں کر رہا، لیکن اس کے مقابلے میں امریکہ نے ایک اچھا خاصہ شور مچایا ہوا ہے، اس کی ایک وجہ یہی ہے کہ لوگوں کی توجہ مسئلہ فلسطین سے ہٹا کر مشرق وسطٰی میں ایک نئی جنگ کا آغاز کیا جائے، ظاہراََ جب اس طرح پروپیگنڈے کئے جائیں گے کہ انصاراللہ کی جانب سے مکہ و مدینہ کو خطرہ ہے تو عام آدمی ان کی باتوں میں آجاتا ہے، اس وقت مسلمانوں کے سب سے بڑے مسئلے سے توجہ ہٹانے کی سازش ہے۔

اسلام ٹائمز: انصاراللہ کیجانب سے یمامہ محل پر میزائل حملے کے بعد پاکستانی وزارت خارجہ نے مذمت کرتے ہوئے سعودی عرب کی حمایت کا اعلان کیا ہے، اسوقت پاکستان کی خارجہ پالیسی کیا ہے۔؟
یافث نوید ہاشمی:
پاکستان کی خارجہ پالیسی، حکمران جماعت اور شریف فیملی کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات اور دبائو کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، ان سارے معاملات میں پاکستانی خارجہ پالیسی پر سعودی دبائو ایک فطری عمل ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اس دبائو کو توڑ دے، پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک آزاد ملک کی حیثیت سے ایک آزاد پالیسی ہونی چاہیے، جس میں ہر ملک کے دفاع اور سالمیت کا اُسی طرح سے خیال رکھنا چاہیے، ایک بات بڑی واضح ہے کہ یمن کے معاملے پر جارحیت سعودی عرب کی جانب سے ہوئی ہے نہ کہ یمن اور انصاراللہ کی جانب سے، یمن پر جتنی جارحیت سعودی عرب نے کی ہے، اس کی تمام انسانی حقوق کے اداروں نے مذمت کی ہے، اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے برائے خوراک کی کئی رپورٹس موجود ہیں، جن میں یہ لکھا گیا ہے کہ یہاں لوگوں کو ضروریات سے محروم رکھا گیا ہے، یہاں اشیائے خوردنوش کی کمی ہے، اس ساری صورتحال میں پاکستان کو ایک آزادنہ موقف اختیار کرنا چاہیے، پاکستان کا موقف ہونا چاہیے کہ یمن کے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہیے، پاکستان کی پارلیمنٹ نے یمن میں اپنی فوج بھیجنے کے حوالے سے جو موقف اختیار کیا، وہ جراتمندانہ تھا، پاکستان کی پارلیمنٹ نے یہ قانون منظور کیا کہ پاکستان کو کسی کی جنگ کا فریق بننے کی کوئی ضرورت نہیں۔
خبر کا کوڈ : 692279
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش